حقوقِ انسانی کی پاسداری

اس قضیے کے پیش نظر ہر انسان کا یہ عقلی و طبعی حق بنتا ہے کہ دوسرا اس کی مدد، اس کے حقوق اور اپنے فرائض کا لحاظ رکھے۔

انسان اس دنیا میں تنہا نہیں رہ سکتا۔ وہ دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے پر مجبور ہے۔ فوٹو؛ فائل

لاہور:
ایک وقت تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، معمولی باتوں پر ایک دوسرے کا خون بہایا کرتے تھے، اپنی بچیوں کو زندہ درگور کیا کرتے تھے، ظلم و ستم کا عالم تھا، کسی کے حقوق تسلیم نہیں کیے جاتے تھے۔

اسی عالم میں اللہ تعالیٰ نے اس امت پر عظیم احسان کیا اور اپنے محبوب کبریا ﷺ کو اس دنیا میں مبعوث فرمایا۔ آپؐ نے اس ظلم و ستم میں پلنے والوں کی ایسی آبیاری کی کہ دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔ لوگ وہی تھے مگر اسلام کے بعد ایک دوسرے پر فدا اور ایک دوسرے کے حقوق کے پاس دار اور محافظ بن گئے۔

انسان اس دنیا میں تنہا نہیں رہ سکتا۔ وہ دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے پر مجبور ہے، اپنی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل اور آفات و مصائب کے ازالے میں دوسرے انسانوں کے تعاون کا محتاج ہے۔ اس قضیے کے پیش نظر ہر انسان کا یہ عقلی و طبعی حق بنتا ہے کہ دوسرا اس کی مدد، اس کے حقوق اور اپنے فرائض کا لحاظ رکھے۔

انسان کے بنیادی اور فطری حقوق کے تحت جن امور کو شامل کیا جاتا ہے ان میں حقوق اِنسانی کا جامع ترین تصور، انسانی مساوات کا حق، عزت و آبرو اور انسانی جان و مال اور جائیداد کی حفاظت، مذہبی آزادی، آزادی ضمیر کا حق، ضروریات زندگی کا انتظام، انسانی حقوق میں فرد و معاشرے کی رعایت، بچوں کے حقوق، اسی طرح انسانوں کے معاشی و ثقافتی اور تعلیمی حقوق نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔

محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مربوط نظام، انسانی حقوق کا پیش کیا وہ زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے۔ ان میں احترام انسانیت، بشری نفسیات و رجحانات اور انسان کے معاشرتی، تعلیمی، شہری، ملکی، ملی، ثقافتی، تمدنی اور معاشی تقاضوں اور ضروریات کا مکمل لحاظ کیا گیا ہے اور حقوق کی ادائی کو اسلام نے اتنی اہمیت دی ہے کہ اگر کسی شخص نے دنیا میں کسی کا حق ادا نہیں کیا تو آخرت میں اس کو ادا کرنا پڑے گا ورنہ سزا بھگتنی پڑے گی۔ حتیٰ کہ جانوروں کے آپس کے ظلم و ستم کا انتقام بھی لیا جائے گا۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا، مفہوم : ''حق والوں کو ان کے حقوق تمہیں ضرور بالضرور قیامت کے روز ادا کرنے پڑیں گے، حتیٰ کہ بے سنگھے بکرے کو سینگھ والی بکری سے بدلہ دیا جائے گا۔''

یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک مخصوص طبقے کے پاس مال و دولت کے منجمد رہنے سے کم زور طبقے بے روزگاری کا شکار ہوجاتے ہیں، اور انسانی معاشرے کی ایک کثیر تعداد خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ اسلامی قوانین نے زکوٰۃ کو فرض قرار دے کر سالانہ آمدنی کا ڈھائی فی صد حصہ غریبوں کے لیے مخصوص کیا کہ دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر نہ رہ جائے۔ صدقہ و خیرات کی اہمیت اجاگر کرکے غرباء و مساکین کا بھرپور خیال رکھا۔ ارشاد ربانی ہے، مفہوم : '' اور ان کے اموال میں غرباء و مساکین کا حق ہے۔''

اسلام میں انسانیت کی میزبانی: اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بناکر دنیا کی تمام مخلوق میں سب سے زیادہ اعزاز بخشا۔ اس کے احترام و اکرام کی تعلیم دی، اس کو خوب صورت سانچے میں ڈھال کر اسے دنیا کی نعمتوں سے مالا مال کیا۔

ارشاد ربانی ہے، مفہوم : '' ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی ہے اور خشکی و تری میں ان کو سواری دی، اور پاکیزہ چیزوں سے روزی دی اور ہم نے ان کو بہت سی مخلوقات پر فوقیت دی۔'' دوسری جگہ ارشاد ہے، مفہوم : '' ہم نے انسان کو اچھی شکل و صورت میں پیدا کیا ہے۔'' تیسری جگہ فرمایا، مفہوم: '' اللہ نے تمہارے نفع کے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کی ہیں۔'' چوتھی جگہ یوں فرمایا: ''میں نے سب جنّات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔'' اسی طرح اسلام نے انسانی حرمت و شرافت کی اتنی پاس داری کی کہ انسان کا احترام پس مرگ تک باقی رکھا۔ آپؐ کے زمانے میں ایک جنازہ گزر رہا تھا۔ اللہ کے رسول ﷺ کھڑے ہوگئے۔ صحابہؓ نے کہا: اللہ کے رسولؐ! یہ تو یہودی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: کیا وہ انسان نہیں؟


اسی طرح نبوت و شریعت کی دولت بھی صرف انسان ہی کو عطا کی گئی ہے۔ اسی طرح اسلام نے علوم و عقل جیسے گراں قدر انعام سے نوازا۔ ارشاد ربانی ہے، مفہوم : '' اللہ کی تمام پیدا کردہ چیزوں میں عقل، اللہ کے نزدیک سب سے باعزت ہے۔''

انسانی اخوت و مساوات: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رنگ، نسل، قومیت و وطنیت اور طبقاتی تقسیم کے سارے امتیازات کا یک سر خاتمہ کرکے ایک عالم گیر مساوات کا آفاقی تصور پیش کیا، اور یہ اعلان کردیا کہ سب انسان آدم کی اولاد ہیں، لہٰذا سب کا درجہ مساوی ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تاریخی خطبے میں جن بنیادی انسانی حقوق سے وصیت و ہدایت فرمائی ان میں انسانی وحدت و مساوات کا مسئلہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ ارشاد نبویؐ ہے : '' اے لوگو! یقینا تمہارا پروردگار ایک ہے، تمہارے باپ بھی ایک ہیں، تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے، یقینا تم میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی اور پاک باز ہو، کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری نہیں مگر تقویٰ کی بنا پر، اور فتح مکہ کے موقع پر ایک اہم خطبے میں اسی طرح کا حکم ارشاد فرمایا۔ اسی طرح ارشاد ربانی ہے، مفہوم : '' لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا، پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت (پیدا کرکے روئے زمین پر) پھیلا دیے۔ دوسری جگہ ارشاد ہے : '' لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قوم اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو، اور خدا کے نزدیک تم میں سے قابل اکرام اور عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو۔''

انسانی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت: یہ انسانی حقوق میں سب سے پہلا اور بنیادی حق ہے اس لیے کہ جان سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ اس کے اردگرد زندگی کی سرگرمیاں گھومتی ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل انسانی جان کی کوئی قیمت نہ تھی، سب سے پہلے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان وحشی درندوں کو انسانی جان کا احترام سکھایا، اور ایک جان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ قرآن پاک میں بھی اس کی تائید کی گئی۔ ارشاد باری ہے، مفہوم : '' جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے، یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے، اس نے گویا تمام لوگوں کا قتل کیا، اور جو اس کی زندگی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا۔'' ارشاد نبویؐ ہے : '' رحم کرنے والوں پر اللہ رحم کرتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کرے گا۔''

'' اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو انسانوں پر رحم نہ کرے۔''

ارشاد ربانی مفہوم : '' اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ۔'' واضح رہے کہ انسانی زندگی کی بقا کے لیے مال بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ جس طرح حق زندگی اور تحفظ مال، انسان کے بنیادی حقوق ہیں، اسی طرح عزت و آبرو کا تحفظ بھی انسان کا بنیادی حق ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم : '' اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ، ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے، ممکن ہے کہ وہ اس سے اچھی ہوں اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ، اور ایک دوسرے کو برے نام سے مت پکارو۔''

عورتوں، بچوں، غلاموں، یتیموں اور حاجت مندوں کے حقوق: اعلان نبوت سے قبل عورتوں کی حالت بڑی ناگفتہ بہ تھی۔ معاشرے میں اس کی حیثیت سامان لذت سے کچھ زیادہ نہ تھی۔ وہ ہر لحاظ سے بے بس تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سسکتی، بلکتی عورت کی فریاد رسی کی اور اس کے حقیقی مقام کو متعین فرمایا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر ان کے حقوق کو بھی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا۔ اسی طرح قبل از اسلام اسقاط حمل اور دختر کشی کی رسم عروج پر تھی، اسلام نے سختی سے اس گھناؤنے فعل سے منع کیا۔ ارشاد ربانی ہے، مفہوم : '' اپنی اولاد کو فقر و فاقے کے خوف سے نہ قتل کرو، ان کو اور تم کو روزی ہم ہی دیتے ہیں۔ یقینا یہ بڑا گناہ ہے۔'' زمانہ جاہلیت میں غلاموں اور غریبوں کے حقوق بھی پامال کیے جاتے، انہیں حقارت و ذلت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، اسلام نے انہیں بھی حقوق دیے اور ان کی سطح زندگی بلند کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ ایسے اصول و قوانین طے کیے جن سے لوگ زیادہ سے زیادہ غلامی کے طوق سے نکل سکیں۔ اسی لیے بہت سے گناہوں اور حکم عدولی کا کفارہ غلاموں کی آزادی رکھی، اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم فرمایا۔

آئیے عہد کرتے ہیں کہ ہم انسانی حقوق کی پوری پاس داری کریں گے۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

 

 
Load Next Story