عیدِ میلاد ﷺ کا اصل پیغام متّحد و منظّم اُمّت
ہم نے تو اپنے مسلک اور مکتب ہی کو اپنی پہچان بنا لیا ہے۔
بدقسمتی سے اب ہم نام کے مسلمان رہ گئے ہیں، بل کہ نام کے بھی کہاں۔
ہم نے تو اپنے مسلک اور مکتب ہی کو اپنی پہچان بنا لیا ہے۔ اس پر دل غم سے بوجھل ہے۔ آج امت مسلمہ مشکل حالات سے گزر رہی ہے۔ بدنصیبی کہ ہمیں اس نقصان کا احساس بھی نہیں ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہم دنیا بھر میں بہ حیثیت قوم و امّت اپنی وقعت کھو چکے ہیں اور کسی جگہ بھی ہماری کوئی شنوائی اور پرسان حال نہیں ہے۔
ہمارے مسلم ممالک بھی آپس میں خانہ جنگی میں مصروف ہیں۔ مسلمان یا مومن تو وہ ہوتے ہیں، جو آپس میں نرم ہوں۔ اتحاد، ایمان اور تنظیم ان کا طرۂ امتیاز ہوتا ہے۔ ہم اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے گلے کاٹ رہے ہیں اور اللہ اور اس کے آخری نبیؐ کے پیغام کو بھول گئے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم نے بہ طور مومن و مسلم اپنی پہچان ختم کر لی ہے اور فرقوں کو اپنی پہچان بنا لیا ہے۔
افسوس کہ مسلم امہ اب متحد نہیں رہی۔ اللہ کا فرمان ہے، مفہوم : '' اور جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ اور ایمان والوں کو دوست بنائے گا تو اللہ کی جماعت ہی غالب ہونے والی ہے۔''
اس کا اصل سبب یہ ہے کہ ہم نے اسوۂ رسول ﷺ سے منہ موڑ لیا ہے۔ اس بے قیمتی اور بے وقعتی کو دور کرنے کے لیے ہمیں آپؐ کے اسوۂ مبارکہ کو اپنے لیے مشعل راہ بنانا ہوگا۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ رسول (ﷺ) کی زندگی میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ بے شک رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے، اس کے لیے جو اللہ اور پچھلے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرے۔
آج امت میں انتشار کی بڑی وجہ صرف اپنے ہی مسلک کے حق ہونے شدید اصرار ہے۔ ہم اپنے بھائیوں کی تذلیل کرتے اور اس بات کو بھول گئے ہیں کہ اسلام تو غیروں کی دل آزاری کی اجازت بھی نہیں دیتا۔ ہم اللہ کے اس فرمان کو ہم بھول گئے کہ
'' اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عن قریب اللہ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے، وہ مومنوں پر نرم (اور) کافروں پر سخت ہوں گے۔''
ربیع الاول کے اس مبارک ماہ میں آپؐ کے پیغام رسالت کو سمجھنا اور سیرت طیبہ کو اپنانا ہی میلاد النبی اور آپؐ سے اصل محبت ہے۔ آج ہمارے مسائل کا حل اور سب سے بڑی سچائی اور حالات کا تقاضا یہی ہے کہ ہم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جائیں اور رسول رحمتؐ کی تعلیمات پر عمل کریں اور ان کو عوام تک پہنچائیں۔
آپؐ سے حقیقی محبت کا تقاضا ہے کہ آپ ﷺ کی سیرت طیّبہ کو زندگی کا راہ بر بنایا اور سیرت کو اپنایا جائے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط بنانا چاہیے اور پوری زندگی کو سیرت اور اسوۂ حسنہ کی روشنی میں گزارنے کا عہد اور جذبہ پیدا کرنا چاہیے۔
آج امت کے ہر فرد کو شدید ضرورت ہے کہ وہ سیرت رسول ﷺ کا مطالعہ اس نقطۂ نظر سے کرے کہ موجودہ حالات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہمارے لیے کیا درس فراہم کرتی ہے۔
اللہ کا ارشاد ہے اگر تم مومن ہو تو کامیاب ہو جاؤ گے۔ ہمیں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینا چاہیے اور تفرقے میں نہیں پڑنا چاہیے۔ یہ تفرقہ بازی ہی ہماری ناکامی اور زوال کا سبب ہے ۔
قرآن کا حکم ہے: '' دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔''
ہم نے تو اپنے مسلک اور مکتب ہی کو اپنی پہچان بنا لیا ہے۔ اس پر دل غم سے بوجھل ہے۔ آج امت مسلمہ مشکل حالات سے گزر رہی ہے۔ بدنصیبی کہ ہمیں اس نقصان کا احساس بھی نہیں ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہم دنیا بھر میں بہ حیثیت قوم و امّت اپنی وقعت کھو چکے ہیں اور کسی جگہ بھی ہماری کوئی شنوائی اور پرسان حال نہیں ہے۔
ہمارے مسلم ممالک بھی آپس میں خانہ جنگی میں مصروف ہیں۔ مسلمان یا مومن تو وہ ہوتے ہیں، جو آپس میں نرم ہوں۔ اتحاد، ایمان اور تنظیم ان کا طرۂ امتیاز ہوتا ہے۔ ہم اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے گلے کاٹ رہے ہیں اور اللہ اور اس کے آخری نبیؐ کے پیغام کو بھول گئے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم نے بہ طور مومن و مسلم اپنی پہچان ختم کر لی ہے اور فرقوں کو اپنی پہچان بنا لیا ہے۔
افسوس کہ مسلم امہ اب متحد نہیں رہی۔ اللہ کا فرمان ہے، مفہوم : '' اور جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ اور ایمان والوں کو دوست بنائے گا تو اللہ کی جماعت ہی غالب ہونے والی ہے۔''
اس کا اصل سبب یہ ہے کہ ہم نے اسوۂ رسول ﷺ سے منہ موڑ لیا ہے۔ اس بے قیمتی اور بے وقعتی کو دور کرنے کے لیے ہمیں آپؐ کے اسوۂ مبارکہ کو اپنے لیے مشعل راہ بنانا ہوگا۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ رسول (ﷺ) کی زندگی میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ بے شک رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے، اس کے لیے جو اللہ اور پچھلے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرے۔
آج امت میں انتشار کی بڑی وجہ صرف اپنے ہی مسلک کے حق ہونے شدید اصرار ہے۔ ہم اپنے بھائیوں کی تذلیل کرتے اور اس بات کو بھول گئے ہیں کہ اسلام تو غیروں کی دل آزاری کی اجازت بھی نہیں دیتا۔ ہم اللہ کے اس فرمان کو ہم بھول گئے کہ
'' اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عن قریب اللہ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے، وہ مومنوں پر نرم (اور) کافروں پر سخت ہوں گے۔''
ربیع الاول کے اس مبارک ماہ میں آپؐ کے پیغام رسالت کو سمجھنا اور سیرت طیبہ کو اپنانا ہی میلاد النبی اور آپؐ سے اصل محبت ہے۔ آج ہمارے مسائل کا حل اور سب سے بڑی سچائی اور حالات کا تقاضا یہی ہے کہ ہم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جائیں اور رسول رحمتؐ کی تعلیمات پر عمل کریں اور ان کو عوام تک پہنچائیں۔
آپؐ سے حقیقی محبت کا تقاضا ہے کہ آپ ﷺ کی سیرت طیّبہ کو زندگی کا راہ بر بنایا اور سیرت کو اپنایا جائے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط بنانا چاہیے اور پوری زندگی کو سیرت اور اسوۂ حسنہ کی روشنی میں گزارنے کا عہد اور جذبہ پیدا کرنا چاہیے۔
آج امت کے ہر فرد کو شدید ضرورت ہے کہ وہ سیرت رسول ﷺ کا مطالعہ اس نقطۂ نظر سے کرے کہ موجودہ حالات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہمارے لیے کیا درس فراہم کرتی ہے۔
اللہ کا ارشاد ہے اگر تم مومن ہو تو کامیاب ہو جاؤ گے۔ ہمیں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینا چاہیے اور تفرقے میں نہیں پڑنا چاہیے۔ یہ تفرقہ بازی ہی ہماری ناکامی اور زوال کا سبب ہے ۔
قرآن کا حکم ہے: '' دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔''