بیٹوں کی موت سے زندگی کا مقصد ختم ہو گیامحمد منظور
رضوان اور فرحان ملتان میں سپرد خاک، رضوان جامعہ کراچی کا طالبعلم تھا.
سانحہ کراچی میں ایک ہی خاندان کے دو چراغ بجھ گئے،جاں بحق ہونے والے محمد رضوان اور محمد فرحان کو ملتان کے آبائی گاؤں میں آہوں اور سسکیوں میں سپرد خاک کردیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق گزشتہ اتوار کو ابوالحسن اصفہانی روڈ پر عباس ٹاؤن کے قریب واقع اپارٹمنٹس اقرا سٹی اور رابعہ فلاور کے درمیانی سڑک پر بم دھماکے میں عباس ٹاؤن مکان نمبر B-192کے رہائشی20 سالہ محمد رضوان اور ان کے 6 سالہ چھوٹے بھائی محمد فرحان ولد منظور حسین بھی دھماکے کی زد میں آکر جاں بحق ہوگئے تھے جن کی میت دھماکے کے اگلے روز ہی آبائی علاقے نصرت کالونی شیر سنگھ والا ڈاک خانہ ملٹری فارم تحصیل ملتان کے آبائی قبرستان میں آہوں اور سسکیوں میں سپرد خاک کردیا گیا۔
مقتولین کے والد محمد منظور حسین نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ہفتے کی صبح ہی اپنے دونوں بیٹوں کی تدفین کرکے کراچی پہنچے ہیں انھوں نے بتایا کہ دھماکے میں جاں بحق ہونے والا ان کا بڑا بیٹا محمد رضوان جامعہ کراچی سے تعلیم حاصل کر رہا تھا جبکہ چھوٹا بیٹا عباس ٹاؤن میں واقع علی پبلک اسکول کی کلاس کے جی 2 کا طالبعلم تھا انھوں نے بتایا کہ ان کی 4 بیٹیاں اور 3 بیٹے تھے دھماکے میں اب کا سب سے بڑا بیٹا اور سب سے چھوٹا بیٹا جاں بحق ہوا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ دھماکے سے کچھ دیر قبل ان کا چھوٹا بیٹا محمد فرحان جوس دلانے کی ضد کر رہا تھا تو انھوں نے اپنے بڑے بیٹے محمد رضوان کو کہا کہ مارکیٹ سے فرحان کو جوس دلادے اور چائے بنانے کے لیے دودھ بھی ساتھ خرید لائے اور جیسے ہی محمد رضوان موٹر سائیکل پر فرحان کو بٹھا کر اقرا سٹی اور رابعہ فلاور کے قریب پہنچا تو دھماکا ہو گیا جس کے نتیجے میں دونوں بھائی موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے،محمد رضوان اور محمد فرحان میں گہری دوستی تھی اور فرحان اپنے بھائی محمد رضوان کے بغیر کہیں نہیں جا یا کرتا تھا ،دونوں بیٹے کے جانے کے بعد ان کی زندگی کا مقصد ہی ختم ہو گیا ہے۔
میں رنگ کا کام کر کے گھر کا خرچ چلایا کرتا تھا انھوں نے بتایا کہ وہ غیر تعلیم یافتہ ہیں لیکن وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتے تھے اسی وجہ سے انھوں نے اپنے بڑے بیٹے رضوان کو کوئی کام کرنے نہیں دیا انھوں نے بتایا کہ ان کی خواہش تھی کہ ان کی اولاد تعلیم حاصل کرکے ان کا نام روشن کرے، محمد منظور حسین نے کہا کہ پولیس ریکارڈ میں ان کے بڑے بیٹے محمد رضوان کی موٹر سائیکل کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے اور جب وہ سچل تھانے گئے تو پولیس ان کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی، انھوں نے بتایا کہ ان سے کسی بھی حکومتی عہدیدار نے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے ۔