تاریکی کی انتہا… روشنی

وہ یکم مئی کا جلسہ تھا مزدوروں کی بہت بڑی تعداد گل احمد چورنگی پر موجود تھی


سیدہ شہلا رضا November 25, 2017

وہ یکم مئی کا جلسہ تھا مزدوروں کی بہت بڑی تعداد گل احمد چورنگی پر موجود تھی۔ جمعہ سمیت وہاں موجود ہر شخص مہمان خصوصی کی تقریر کا انتظار کر رہا تھا۔ مہمان خصوصی اس جلسے کے لیے بطور خاص ملتان سے تشریف لائے تھے اور ایئرپورٹ سے سیدھے جلسے میں پہنچے تھے۔ مہمان خصوصی کی تقریر سے پہلے مائیک پر آنے والا ہر شخص مہمان خصوصی کے اس اقدام کو مہمان خصوصی کی مزدور دوستی قرار دے رہا تھا، لیکن وہ شخص جو میرے دائیں جانب تشریف فرما تھے ہر بار اس پر آہستہ آواز میں کوئی منفی تبصرہ ضرور کردیتے تھے کچھ دیر تک تو میں برداشت کرتی رہی لیکن میں نے سوال کر ہی دیا۔

''آپ کو کیا شکایت ہے؟ ہر بار آپ کچھ نہ کچھ تبصرہ کردیتے ہیں اور وہ بھی (Negative)۔ وہ صاحب پہلے تو مسکرائے پھر کہا ''کیا ملتان میں مزدور ختم ہوگئے ہیں یا ان کے مسائل حل ہوچکے ہیں؟'' جواب میں انھیں گھورنے کے علاوہ میرے پاس اورکوئی راستہ نہیں تھا کیونکہ مہمان خصوصی کا میرے ذہن پر بہت اچھا امیج تھا، ''بات یہ ہے بی بی کہ ملتان کے مزدور اور کسان ان کی اصلیت سے واقف ہیں'' میری خاموشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے گویا اپنی بات مکمل کردی تھی۔

میں جواب میں کہنا چاہ رہی تھی لیکن اسی وقت مہمان خصوصی مائیک پر تشریف لائے اور مجھ سمیت جلسے میں موجود ہر شخص نے کھڑے ہوکر استقبال کیا۔ ابتدائی کلمات کے ساتھ ہی میں ان کی تقریرکو بغور سننے لگی وہ کہہ رہے تھے ''اگر یہاں ہزاروں مزدور جمع ہیں اور پیپلز لیبر بیورو نے جلسے کا انعقاد کیا ہے تو کوئی انہونی بات نہیں۔ کیونکہ پیپلز پارٹی ہے ہی مزدوروں کی جماعت۔ یوم مئی کو سرکاری طور پر منانے کا آغاز ہی شہید بھٹو نے کیا تھا۔''میں ان کی آواز میں کھو سی گئی تھی لیکن ہر بار میرے دائیں جانب بیٹھے ہوئے شخص کے تبصرے میری محویت میں خلل ڈال رہے تھے۔

میں نے ان تبصروں پر الجھنے سے بہتر سمجھا کہ خاموش رہوں۔ لیکن جب مہمان خصوصی نے فرمایا کہ '' پیپلز پارٹی میں وڈیرے، پیر اور سرمایہ دار آتے جاتے رہتے ہیں، لیکن پیپلز پارٹی قائم ہے تو ان مزدوروں اور کسانوں کی وجہ سے ہے کہ یہ کل بھی اسی جھنڈے تلے جمع تھے اور آج بھی ہر مشکل کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہر قربانی دے رہے ہیں کل شاید پھر کوئی وقت آئے تو یہ بے ڈالی کے پرندے اپنا گھونسلا کہیں اور منتقل کرلیں، لیکن مزدوروں اور کسانوں سنو! میری بات کہ اسی طرح ثابت قدمی سے جمے رہنا کہ تمہارے لیے اگر کوئی جماعت کام کرسکتی ہے تو وہ پیپلز پارٹی ہے اور کوئی جماعت تمہاری جماعت نہیں ہوسکتی۔'' میں خاموشی سے دائیں جانب بیٹھے شخص کے ناگوار تبصرے سن رہی تھی لیکن اس بار ان کے کیے گئے تبصرے پر خود کو کچھ کہنے سے نہیں روک سکی۔

''پیر صاحب یہ سب کچھ اپنے بارے میں کہہ رہے ہیں۔'' کچھ کہنے سے قبل میں نے اس شخص کی جانب دیکھا تو اس کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ تھی۔

''آپ ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں؟'' میں خود کو کچھ کہنے سے روک نہیں سکی تھی۔

''شایدکچھ بھی نہیں'' اس شخص نے جواب میں کہا لیکن اس کے چہرے پر موجود طنزیہ مسکراہٹ اور گہری ہوگئی تھی۔ ''وقت خود ثابت کردے گا'' پھر اس نے کہا اور ساتھ ہی اپنا چہرہ دوسری جانب کرلیا۔

میں سخت بات چاہتی تھی لیکن مہمان خصوصی کی تقریر جاری تھی اس لیے خاموش رہی۔ مہمان خصوصی کی تقریر ختم ہوتے ہی جلسہ ختم ہوگیا اور میرا رخ فوراً اس شخص کی جانب ہوگیا اور میں نے کسی قدر سخت لہجے میں اس شخص سے سوال کیا جو کچھ دیر پہلے میرے دائیں ہاتھ کی کرسی پر بیٹھا تبصرے کر رہا تھا۔ ''آپ نے کہا کہ وقت خود ثابت کردے گا تو آپ وضاحت کریں گے کہ وقت کیا ثابت کردے گا؟'' میں نے کہا اور وہ کچھ خاموشی سے مجھے دیکھتا رہا اور پھر کچھ کہے بغیر مسکراتا رہا اور میں منتظر رہی کہ وہ کچھ کہے۔

''آپ کی ناراضگی اپنی جگہ لیکن میری عرض یہ ہے کہ میرا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے جہاں سے آپ کے مہمان خصوصی کا تعلق ہے۔ '' وہ یہ کہہ کر کچھ دیر کے لیے رکا لیکن یہ میرے سوال کا جواب نہیں تھا۔ اس لیے اس کی جانب دیکھتی رہی۔ ''میں ان صاحب کو ہی نہیں بلکہ ان کے پورے خاندان سے واقف ہوں۔'' اس کا لہجہ سخت تو ہو رہا تھا۔ ''اگر صرف سیاسی کردار کی بات کروں تو یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مفاد کے لیے اشارہ ملتے ہی پارٹی تبدیل کرلیتے ہیں۔'' اس نے کہا پھر قبل اس کے کہ میں کچھ کہتی وہ خود ہی سے بولنے لگا۔

1970 کے انتخابات میں یہ خاندان پیپلز پارٹی کا مخالف تھا پھر انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں چلنے کا فیصلہ کیا اور بھٹو نے انھیں پنجاب کی گورنری سے نوازا۔ 1977 میں جب حکومت کا تختہ الٹا گیا یہ پنجاب کے گورنر تھے، لیکن پھر ان کی پینگیں ضیا الحق سے بڑھیں اور اب کی بار ضیا نے انھیں پنجاب کا گورنر بنایا۔ 1979 میں جب بھٹوکو پھانسی دی گئی وہ تب ضیا کے گورنر تھے۔'' وہ کہتے کہتے رکا تو میں نے کچھ کہنا چاہا لیکن اس نے ہاتھ اٹھا کر مجھے کچھ کہنے سے روک دیا۔

''یہ صاحب جو پیپلز پارٹی اور بھٹو شہید کے نظریے کی باتیں کر رہے تھے یہ اسی طرح کی تقاریر پہلے مجلس شوریٰ میں ضیا الحق کے لیے 1985 کی اسمبلی میں جونیجو کے لیے اور پھر جب جونیجو لیگ ٹوٹی تو انھوں نے اس ڈال پر گھونسلا بنالیا جہاں کے لیے انگلی سے اشارہ کیا تھا وہاں ان کی اتنی پذیرائی ہوئی کہ ان کا شمار وہاں اہم ترین شخصیات میں ہونے لگا۔

وزارت خزانہ کی اہم ذمے داری ان کے پاس تھی۔ وہاں بہت خوش تھے لیکن پھر بڑے بھائی سے انڈر اسٹینڈنگ، چھوٹے بھائی کو پسند نہیں آئی اور بادل نخواستہ انھیں رخصت ہونا پڑا ۔ آج یہ آپ کے ساتھ ہیں یہاں آپ جیسے لوگ ان کی پذیرائی کر رہے ہیں، لیکن جب انھیں اشارہ ہوگا یہ کہیں اور ہوں گے۔''

یہ کئی برس پرانا واقعہ ہے، لیکن جب بھی اس جلسے کے مہمان خصوصی اپنے نئے پلیٹ فارم کے پیپلز پارٹی کی اس قیادت پر الزامات لگاتے ہیں تو وہ صاحب جو اس روز میرے دائیں ہاتھ کی کرسی پر بیٹھے تھے۔ اس وقت بھی کئی بار جب وہ اپنی نئی جماعت سے اسٹیج سے یہ الزام لگا رہے تھے کہ سابق صدر نے ملک کے اہم ترین ایٹمی راز بڑی طاقتوں کو دے دیے۔

ری پبلکن پارٹی بناتے ہوئے جب لوٹا فیکٹری کا قیام عمل میں آیا تھا۔ وہ آج ایک صنعت کا درجہ حاصل کرچکی ہے اسی صنعت کی ترقی میں ایک مختصر وقفہ پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد آیا تھا یا پھر 1988 کے انتخابات میں یہ صنعت سکڑتی ہوئی محسوس ہوئی تھی لیکن پھر اس صنعت کے پس پردہ سرپرستوں نے ایک نئے انداز سے اسے آگے بڑھایا۔ زبان، زمین، فرقہ اور برادری کے سسٹم کو عروج دیتے ہوئے وہ حکمت عملی اپنائی کہ انتخابات میں حصہ لینا کروڑ پتیوں تک محدود ہوکر رہ گیا۔ اس عمل کو مزید پروان چڑھانے کے لیے اب تو میڈیا کو بھی شامل کرلیا گیا ہے، لیکن اب بھی بہت سے لوگ ہیں جو اس پر یقین رکھتے ہیں کہ تاریکی جب اپنی انتہا کو پہنچتی ہے تو وہیں سے روشنی کے پیدا ہونے کا عمل شروع ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔