فلسطین استبداد و استقلال کی صدی

فلسطین میں پہلے سے آباد غیریہودی باشندوں کے کسی سیاسی حق کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں ہے۔

فلسطین کی گذشتہ سو برس کی تاریخ دراصل استبداد و استقلال کا عجیب و غریب نقشہ پیش کرتی ہے۔ فوٹو : فائل

گزشتہ سے پیوستہ

اعلانِ بال فور میں ایک اور بات کہی گئی تھی،''ایسا کوئی اقدام نہیں کیا جائے گا جس کے نتیجے میں فلسطین کے غیریہودی باشندوں کے سماجی اور مذہبی حقوق متأثر ہوں۔'' یہ محض ایک بیان نہیں ہے، بہت قابلِ غور نکتہ ہے۔ پہلی بات تو یہ دیکھیے کہ اس بیان میں فلسطین میں پہلے سے آباد غیریہودی باشندوں کے کسی سیاسی حق کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں ہے۔

گویا وہ ایسا کوئی حق رکھتے ہی نہیں تھے۔ اس لیے کہ سیاسی حق تو اُن گروہوں، قوموں اور تہذیبوں کو حاصل ہوتا ہے جو اقتداری قوت رکھتی اور اپنی بقا کا سامان کرسکتی ہوں۔ فلسطینی باشندوں کے سیاسی حق کی اس نفی کے ذریعے دراصل اُن کی حیثیت کا تعین کیا گیا تھا۔ اب رہی یہ بات کہ اُن کے سماجی و مذہبی حقوق کی پامالی نہ ہوگی، یہ سراسر جھوٹ یعنی ڈپلومیٹک منافقت پر مبنی بیان تھا۔

آپ تاریخ کے اوراق پر ایک سرسری نگاہ ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ ہر سیاسی مقتدرہ اپنے غاصبانہ اقدامات کو بے ضرر بتانے اور خود کو انسان دوست اور بنیادی حقوق کا علم بردار دکھانے کے لیے ہمیشہ ایسے ہی بیانات جاری کرتی آئی ہے اور ایسا ہر بیانیہ سر بہ سر دھوکا دہی اور منافقت پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ حقیقت بہت دیر تک چھپی ہوئی بھی نہیں رہتی۔ اس کا پردہ جلد ہی چاک ہوجاتا ہے۔ تاہم اُس وقت تک غاصب قوت اپنے قدم جمالیاتی ہے اور پھر وہ اپنے ایسے بیانات کے بارے میں کوئی بات کرنا تک گوارا نہیں کرتی۔ آپ دیکھ لیجیے، آج برطانیہ، بلکہ پورے یورپ اور امریکا میں فلسطینیوں کے سیاسی، سماجی اور تہذیبی تو کیا صرف بنیادی انسانی حقوق کی بات بھی کون کرتا ہے۔ کوئی نہیں، کوئی بھی نہیں۔

اقتدار کی طاقت اپنا جواز خود ہوتی ہے۔ وہ کسی اخلاقی ضابطے اور سیاسی معاہدے کو اپنے مفاد کے خلاف تسلیم کرتی ہے اور نہ ہی اپنی عمل داری کی راہ میں حائل ہونے دیتی ہے۔ اقتدار صرف وہ دیکھتا ہے جو وہ دیکھنا چاہتا ہے، وہ سنتا ہے جو سننا چاہتا ہے اور وہ کہتا ہے جو صرف اور صرف اس کے مفاد میں ہوتا ہے۔ ماقبل تاریخ کے حقائق بھی یہی روداد سناتے ہیں اور تمدن و تہذیب کے سفر میں بھی صورتِ حال یہی نظر آتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے ایسے سارے اہداف براہِ راست جنگ سے حاصل کیے جاتے تھے، آج کچھ کام کیموفلاج کرکے کیے جاتے ہیں۔ اُن کے لیے معاہدوں اور ڈپلومیسی کی آڑ لی جاتی ہے۔ یہ الگ بات کہ یہ آڑ بھی صرف ایک سیاسی بیانیہ ہوتی ہے جو کوئی بھی جواز پیش کیے بغیر کسی بھی وقت باطل یا پھر تبدیل ہوسکتا ہے۔

سوال کیا جاسکتا ہے کہ اُس دور میں جب فلسطین کا سیاسی، سماجی اور تہذیبی نقشہ ان حالات کی زد پر تھا تو دوسری مسلمان حکومتیں اس اقدام کو کس نگاہ سے دیکھتی تھیں؟ خود اہلِ فلسطین کا ردِعمل کیا تھا؟ کیا ان سام راجی ہتھکنڈوں کو اس عہد کا مسلم شعور سمجھنے سے قاصر تھا؟ اگر نہیں تو پھر اُس کی طرف مدافعت کی صورتِ حال کیوں پیدا نہ ہوئی؟

یہ بہ ظاہر سادہ اور چھوٹے چھوٹے سوالات ہیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان کے جوابات کے حصول کے لیے ہمیں اپنی تہذیبی، ملی اور مذہبی تاریخ کے کم سے کم صدی بھر کے اوراق ضرور الٹ پلٹ کر دیکھنا ہوں گے، مگر یہ اُس کا محل نہیں ہے۔ البتہ ہم یہ کرسکتے ہیں کہ اس تناظر کے نمایاں نشانات پر نگاہ ڈالتے ہوئے آگے چلیں تاکہ اجمالاً ہی سہی، حقیقتِ حال کا کچھ نقشہ تو ہمارے سامنے آسکے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے بغیر ہم فلسطین اور اس کی سیاسی و تہذیبی زندگی کے گرد اِس وقت نظر آنے والے ان جالوں کو صاف نہیں کرسکتے جو وقت کی مکڑی نے نہایت خاموشی سے بن دیے ہیں۔ یہ جالے سب استعمار زدہ قوموں کی مشترک تقدیر ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ ان جالوں کے عقب میں ہر استعمار زدہ اپنی تہذیب کے ماضی کو تابندہ و رخشندہ دیکھتا اور اُس سے ایک رومانی رشتہ قائم کرتا ہے، لیکن اب اس کا کیا کیجیے کہ عناصر کی یہ دنیا کسی بھی رومان (خواہ وہ انفرادی ہو یا قومی و تہذیبی) کی چکا چوند کو تادیر قائم نہیں رہنے دیتی۔ حالات کی درست تفہیم کا ایک ہی راستہ ہوتا ہے، یہ کہ انھیں زمینی حقائق سے جوڑ کر دیکھا جائے۔

واقعہ یہ ہے کہ بال فور اعلان 1917ء میں ہوا تھا، لیکن اُس سے بہت پہلے فلسطین میں اوّلین یہودی نو آباد کار بستی 1878ء میں حیفہ میں قائم ہوچکی تھیں۔ اس کے بعد لگ بھگ چھتیس برس کے عرصے میں (1914ء تک) یہاں کم و بیش تیس بستیاں قائم ہوئیں۔ یہ بستیاں جن علاقوں میں تعمیر ہوئیں وہ رہائش پذیر عربوں سے خریدے گئے تھے۔

ان حقائق کو دیکھتے ہوئے بال فور اعلان کے مرحلے سے کہیں پہلے، یعنی بیس برس قبل ہی فلسطین کے اہلِ نظر نے اندازہ کرنا شروع کردیا تھا کہ فلسطین میں یہودیوں کی آمد میں اضافہ آگے کیا حالات پیدا کرے گا۔ یہی وجہ تھی کہ فلسطین کے مفتیِ اعظم نے 1897ء میں اس مسئلے پر ایک کمیشن طلب کیا تھا، لیکن یہ اقدام غیر مؤثر رہا اور دس برس گزر گئے۔ 1908ء میں حیفہ میں باقاعدہ ایک جریدے ''الکارمل'' کی بنیاد اس خیال سے رکھی گئی کہ وہ یہودی آباد کاری کے مسئلے کو اُجاگر کرے اور اہلِ فلسطین کے حق میں آواز اٹھائے۔ نتائج پھر بھی حاصل نہیں ہوئے۔ بال فور اعلان کے سوا سال بعد پہلی فلسطینی کانگریس نے (جنوری 1919ء یروشلم میں) اس اعلان کو مسترد کرتے ہوئے آزادی کا مطالبہ کیا تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوتا اور یہ سب آوازیں اور ردِعمل کی صورتیں صدا بہ صحرا ثابت ہوتی چلی جاتی ہیں۔

اس لیے کہ مسلمان ایک بار پھر ٹکڑوں میں بٹ چکے تھے۔ 1908ء سے 1914ء کے دوران میں سلطنتِ عثمانیہ کے عرب علاقوں سے تعلقات اس حد تک بگڑ چکے تھے کہ استنبول، فلسطین اور عرب علاقوں میں قوم پرستی کی تحریکیں اور خوداختیاری کے مطالبات تیزی سے زور پکڑ رہے تھے۔ 1914ء میں پہلی جنگِ عظیم کے وقت ترکی میں عثمانی حکومت تھی جو برطانیہ کے خلاف اور جرمنی کی اتحادی تھی۔ دوسری طرف شریفِ مکہ کی طرف سے برطانوی حمایت کے ساتھ ترکی کے خلاف علمِ بغاوت بلند ہوتا ہے۔ تقسیم کا عمل یہاں بھی نہیں رُکتا۔ مسلمان مزید الگ الگ ریاستوں میں بٹتے اور خواہشِ اقتدار کی نذر ہوتے چلے جاتے ہیں۔


اِدھر اشتعال بڑھتا ہے اور استحصال کے ردِعمل میں شدت پسندی نمایاں ہوتی ہے۔ برطانیہ سے فلسطینی راہ نماؤں کے مذاکرات کی ناکامی کے بعد 1935ء میں شیخ عزالدین القاسم کی قیادت میں کمانڈو دستے تشکیل پاتے ہیں۔ اس کے بعد 1958ء میں یاسر عرفات فلسطین کی آزادی کے لیے گوریلا تنظیم ''الفتح'' بناتے ہیں۔ 1964ء میں پی ایل او (تنظیمِ آزادیِ فلسطین) کو فلسطین کا سیاسی نمائندہ قرار دیا جاتا ہے۔ جنوری 1965ء میں یہ تنظیم اسرائیل کے خلاف گوریلا کارروائی کا آغاز کرتی ہے۔ 1969ء میں یاسر عرفات پی ایل او کے سربراہ بن جاتے ہیں۔ ردِعمل، پسپائی، مزاحمت، اور دباؤ کی ملی جلی صورتِ حال چلتی رہتی ہے۔

نصف صدی سے زائد عرصے کے اس عمل میں عالمی استحصالی قوتیں بخوبی اندازہ لگا لیتی ہیں کہ فلسطین کو جیسا لقمۂ تر سمجھا گیا تھا، وہ اندازہ درست نہیں تھا۔ مزاحمت کاروں نے اپنے مسلسل ردِعمل سے یہ ثابت کردیا تھا کہ وہ نسل در نسل مزاحمت اور پیکار کے لیے تیار ہیں۔ استعمار کار اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرتے ہیں۔ مسائل کو افہام و تفہیم اور مذاکرات کی میز پر حل کرنے کا مرحلہ آتا ہے۔ اِدھر یاسر عرفات اور ان کے ساتھی بھی یہ جان چکے ہیں کہ مزاحمت سے وہ اپنے ہونے کا احساس تو دلاتے رہیں گے، لیکن اُن کے لیے بھی لڑ کر یہ جنگ جیت لینا آسان نہیں ہے۔ اس لیے کہ سارے استعمار کار اپنے بنیادی مقصد پر متفق ہیں جب کہ دوسری طرف مسلمانوں کی قوت منقسم ہے۔ چناںچہ جب انھیں 1974ء میں اقوامِ متحدہ میں خطاب کا موقع ملتا ہے تو وہ ہاتھ میں مجاہد کی بندوق کے ساتھ شاخِ زیتون لانے کا ذکر بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں، ''مجھے امید ہے کہ آپ میرے ہاتھ سے شاخِ زیتون گرنے نہیں دیں گے۔''

زمانے کی قسم! ہمیشہ یہی ہوا ہے کہ زور آوروں نے مخالف کو ذرا بھی پسپا یا کم زور ہوتے دیکھا ہے تو خیرسگالی کے کسی جذبے کی قدر کی، نہ کسی معاہدے کے تقدس کا لحاظ کیا اور نہ ہی کسی ضابطۂ اخلاق کو درخورِ اعتنا جانا۔ یاسر عرفات کی اقوامِ متحدہ میں تقریر کو یہ دوسرا سال تھا، یعنی 1976ء جب فلسطینی پناہ گزینوں کی بستی پر حملہ ہوا اور ان کا قتلِ عام کیا گیا۔ اس کے بعد مصر اور اسرائیل کے مابین کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہے اور دوسری طرف اسرائیل کی لبنان پر چڑھائی ہے۔ یاسر عرفات اور پی ایل او کے دوسرے سپاہی بیروت سے نکل کر تیونس جاپہنچتے ہیں، اور یہاں صابر اور شتیلا کے کیمپوں میں نہتے فلسطینیوں کا قتلِ عام ہوتا ہے۔ اس کے بعد خلیج کی جنگ جس میں نقصان صرف مسلمان دنیا کا ہوا۔

آگے چل کر اسرائیل کے وزیرِاعظم رابن اور یاسر عرفات کے پھر مذاکرات اور معاہدے کی صورت پیدا ہوتی ہے تناؤ میں وقتی طور پر کمی نظر آنے لگتی ہے اور خود مختاری کے سوال کو بظاہر بھی قابلِ اعتنا گردانا جاتا ہے، لیکن یہ صورتِ حال زیادہ عرصے برقرار نہیں رہتی۔ بعدازاں اس اکیس ویں صدی میں نئی نسل کے لوگ بھی دیکھ چکے ہیں کہ ایریل شیرون سے لے کر حالیہ برسوں تک فلسطین کی صورتِ حال اور اُس کے باشندوں کی تقدیر کیا نقشہ پیش کرتی ہے۔ نہتے لوگوں کے استحصال اور اُن کے ساتھ غیرانسانی سلوک کا نقشہ۔ عالمی ادارے، انسانیت کے دعوے، وفود، مذاکرات، مصالحت، مفاہمت- کہنے کو تو سب کا ایک کام اور ایک عمل ہے، لیکن یہ عمل اہلِ فلسطین کی قسمت بنا دی گئی تاریکی اور بہیمیت پر اثر انداز ہوتا ہرگز نظر نہیں آتا۔

ایڈورڈ سعید کہتے ہیں، اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جو اپنے اصلی باشندوں کا ملک نہیں ہے، بلکہ یہ تمام یہودیوں کا ملک ہے جنھیں ایسے حقوق حاصل ہیں جو غیریہودیوں کو حاصل نہیں ہیں۔ یہاں مراجعت کا ایک قانون ہے جو ساری دنیا میں کہیں بھی رہنے والے یہودی کے لیے اس بات کو ممکن بناتا ہے کہ وہ نقل مکانی کرکے اسرائیل آجائے اور یہاں کا شہری بن جائے۔

اس کے برعکس یہاں کے پیدائشی فلسطینی کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ اسرائیل کی 93 فی صد زمین کو یہودی زمین قرار دیا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی غیریہودی کو یہ زمین پٹے پر لینے، بیچنے یا خریدنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایڈورڈ سعید فلسطینیوں کی ایک ذہنی اور جذباتی اذیت یہ بتاتے ہیں کہ انھیں مجبور کردیا گیا ہے کہ وہ اپنے وطن کو ایک ایسی ریاست میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھیں جس کا واضح مقصد یہودیوں کی خدمت ہے۔ اسرائیل کی جن عدالتوں نے عورتوں کے حقوق، ہم جنس پسندی اور معذورین کے بارے میں اپنے فیصلوں سے کشادہ ذہنی اور روشن خیالی کا ثبوت دیا ہے، انھی عدالتوں نے عرب شہریوں کے مساویانہ حقوق کے سارے مقدمے خارج کردیے ہیں۔ ان باتوں سے بہ آسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ فلسطین میں رہنے والے غیریہودی اور خصوصاً مسلمان کس صورتِ حال سے دوچار ہیں۔

معروف امریکی ماہرِلسانیات اور دانش ور نوم چومسکی نے انتفاضہ کے بارے میں اپنے مشاہدات ایک تفصیلی مضمون میں بیان کیے ہیں۔ یہ مضمون ''زی میگزین'' میں شائع ہوا تھا۔ چومسکی اپنے معروضی رویے اور راست گوئی کی وجہ سے امریکی پالیسیوں کے نکتہ چیں کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ اس مضمون میں انھوں نے امریکا اسرائیل اتحاد اور اس کے تحت فلسطین میں کیے گئے اقدامات پر دو ٹوک انداز میں تنقید کی ہے۔ وہ مناظر جو خود اپنے دورے کے موقع پر اُن کے سامنے آئے، انھیں غیرمعمولی اور افسوس ناک ہی نہیں، بلکہ چومسکی نے اکثر مقامات پر غیرانسانی تک کہا ہے۔ اس تحریر کے اختتام پر چومسکی نے صاف لفظوں میں کہا ہے، ''سرکاری نظریہ یہی ہے کہ امریکا اور اسرائیلی لیبر پارٹی امن کے متلاشی ہیں جس کی راہ میں ہر جانب کے انتہا پسند رکاوٹ ہیں۔ یہ حقیقت کہ یہ جھوٹ اب تک بلاخوفِ تردید زندہ ہے، اس بات کی گواہ ہے کہ فلسطینی انتفاضہ سے ہمارے سامنے جو امن کا موقع آیا ہے، اُس سے فائدہ اٹھانے میں ہم کتنے ناکام رہے ہیں۔''

یورپ میں ایک طویل عرصے تک اخبارات، رسائل اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے یہ غلط فہمی پھیلائی اور برقرار رکھی گئی کہ اسرائیل ایک چھوٹا اور بے ضرر سا ملک ہے جو فساد کرنے والوں اور دہشت پسندوں میں گھرا ہوا ہے۔ تاہم بیس ویں صدی کی نویں دہائی کے آتے آتے یورپ کی آنکھیں اصل حقائق دیکھنے اور ذہن اُن کا واضح تجزیہ اپنے طور پر کرنے لگا تھا۔ بعض حکومتوں میں اسرائیل کے لیے اگر اب بھی ہم دردانہ جذبات پائے جاتے ہیں تو اصل میں اس کا سبب یہودی لابی کے اثرات ہیں۔ البتہ یورپ کے عوام اب کسی دھوکے میں نہیں ہیں۔ امریکی عوام کچھ اپنے مزاج اور کچھ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے پروپیگنڈے کی وجہ سے اسرائیل اور اس کے فاشسٹ یہودیوں کے لیے اب بھی ہم دردی رکھتے ہیں۔

البتہ یہ بھی سچ ہے کہ اکیس ویں صدی میں سوشل میڈیا کے فروغ نے دنیا کو تصویر کا دوسرا اور حقیقی رُخ دیکھنے کے جو مواقع فراہم کیے ہیں، وہ اب ایسے افسانوی بیان کو باآسانی رد کرنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ ان کے ذریعے عالمی ذرائع ابلاغ اور بین الاقوامی رائے عامہ کی تبدیلی کا جیسا تیز عمل دیکھنے میں آتا ہے، اُس نے دنیا کی ساری فاشسٹ قوتوں کو جلد اور پورا ننگا ہونے کے خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ اب امریکا میں بھی یہ کام کلنٹن کے صدارتی دور کی طرح آسان نہیں رہا کہ آج بھی ہلیری کلنٹن سفید جھوٹ کی بنیاد پر اسرائیل نواز مظاہروں میں دعائیں مانگتی نظر آئیں اور کانگریس کے اراکین یہ مطالبہ کرتے پھریں کہ فلسطین کے مسائل کا الزام سراسر فلسطین کے مسلمان باشندوں پر تھوپا جائے اور دیکھنے سمجھنے سے انکار کردیا جائے کہ یہ بچے اور نوجوان جو صرف پتھر اچھال کر اپنے جذبات اور غصے کا اظہار کرتے ہیں، اُن لوگوں سے زیادہ حالات کے بگڑنے کے ذمے دار ہیں جو اسلحے سے لیس ہیں اور عام انسانی آبادیوں میں بکتربند گاڑیوں اور ٹینکوں پر بیٹھ کر داخل ہوتے ہیں۔

فلسطین کی گذشتہ سو برس کی تاریخ دراصل استبداد و استقلال کا عجیب و غریب نقشہ پیش کرتی ہے۔ اس میں ایک طرف آپ کو طاقت، مال، اسلحے اور سیاسی بازی گری کا کھیل دکھائی دیتا ہے اور دوسری طرف بربریت کے بدترین نمونوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی تہذیبی، مذہبی اور قومی شناخت کا زندہ اور قابلِ رشک جذبہ اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ کشمیر کی طرح فلسطین بھی بیداری اور مقاومت کی تابندہ مثال ہے۔ یہ سچ ہے کہ آج بھی فلسطین کے حالات سیاسی، سماجی اور تہذیبی کسی بھی سطح پر اچھے نہیں ہیں اور مستقبل قریب میں بہتری کے کچھ ایسے نمایاں آثار بھی نظر نہیں آتے۔ تاہم یاد رکھنا چاہیے کہ مشیتِ الٰہی اپنے فیصلے اچانک بھی سامنے لاتی ہے۔ تب عناصر کی اس دنیا کے سارے اسباب کا اثر آن کی آن میں بدل جاتا ہے۔ تاریخ کہتی ہے، مشیت کے ایسے اچانک فیصلے عام طور سے فلسطین جیسی جدوجہد کا مقدر بنتے ہیں۔
Load Next Story