ایشیا کا سورج آب وتاب پر
صارفین کی کثرت اور خوشحال ہوتے طبقے نے دنیا کے سب سے بڑے براعظم کو سبھی عالمی طاقتوں کی نگاہوں کا محور بنا دیا…
14 نومبر کو اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، جنرل زبیر محمود حیات نے اہل پاکستان اور دنیا والوں پر منکشف کیا کہ بھارت نے ''سی پیک'' (چین پاکستان اقتصادی راہداری) کو ناکام بنانے کے لیے اپنی خفیہ ایجنسی، را کو یہ ٹاسک سونپا ہے کہ وہ خصوصاً بلوچستان و سندھ میں دہشت گردی کی کارروائیاں انجام دے۔ اس سلسلے میں را کو پچاس کروڑ ڈالر (اکیاون ارب روپے) دیئے گئے ہیں۔
اس انکشاف کے اگلے ہی دن بلوچستان میں را کی فنڈنگ سے سرگرم عمل دہشت گرد و قوم پسند تنظیم، بی ایل ایف کے دہشت گردوں نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے پندرہ افراد قتل کردیئے۔ نیز ایک ایس پی کو بھی شہید کیا گیا۔ یوں بھارت نے اہل پاکستان کو پیغام دیا کہ وہ بلوچستان میں جب چاہے وسیع پیمانے پر قتل و غارت کراسکتا ہے۔بھارت بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سندھ میں انتشار و بدامنی چاہتا ہے تاکہ سی پیک منصوبوں پر کم از کم عملدرآمد کی رفتار سُست جائے۔ زیادہ وسیع تناظر میں یہ چال بھارتی حکمران طبقے کی اس خواہش سے وابستہ ہے کہ پاکستان کو خوشحال و ترقی یافتہ مملکت بننے سے روکا جائے تاکہ وہ جنوبی ایشیا میں بھارت کی ہمسری نہ کرسکے۔
افسوس ہمارے سیاست داں تو کرسی اور اپنے مفادات کی خاطر ایک دوسرے سے نبرد آزما اور معمولی امور میں الجھے ہوئے ہیں۔علاقائی اور عالمی سطح پر جو سیاسی و معاشی تبدیلیاں ظہور پذیر ہو رہی ہیں، ان سے وہ کم ہی واقفیت رکھتے ہیں۔ یہ تبدیلیاں عیاں کرتی ہیں کہ اگر پاکستانی حکمران طبقے نے تدبر و حکمت سے اپنے کارڈ کھیلے، تو جنم لیتی صورت حال سے فائدہ اٹھا کر مستقبل میں پاکستان ایک خوشحال، مضبوط اور ترقی یافتہ مملکت بن سکتا ہے۔ شرط اول یہ ہے کہ پاکستانی حکمران طبقہ اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کو پس پشت ڈال کر قومی مفادات کو ترجیح دے۔ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر جنم لیتے اس انقلاب کی داستان دلچسپ،سبق آموز اور چشم کشا ہے۔
٭٭
نوریل روبینی امریکا کا ممتاز ترک نژاد دانشور ہے۔ اس کا قول ہے ''میں سمجھتا ہوں، جغرافیائی سیاست کے مسائل بہت اہمیت اختیار کرچکے۔ وجہ یہ کہ اب معیشت سے لے کر معاشرت تک کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ جغرافیائی سیاست سے بھی آگاہ ہوں۔'' عالمی سطح پر صورتحال دیکھتے ہوئے نوریل روبینی کا قول برحق لگتا ہے۔علم جغرافیائی سیاسیات (Geopolitics) میں بعض خصوصیات مدنظر رکھتے ہوئے خارجہ امور یعنی بین الاقوامی سیاست اور تعلقات کو سمجھا جاتا ہے۔ ان خصوصیات میں کسی علاقے کا جغرافیہ، آب و ہوا، قدرتی وسائل، انسانی آبادی اور آب و ہوا شامل ہیں۔
آج کل ماہرین تمام سپر پاورز مثلاً امریکا، چین، روس وغیرہ کے لیڈروں کو علم جغرافیائی سیاسیات کے بنیادی اسباق پڑھا رہے ہیں تاکہ وہ عالمی سطح پہ درست چالیں چل کر خود کو معاشی طور پر طاقت ور بناسکیں۔ ظاہر ہے، معاشی اور عسکری طور پر طاقتور ملک ہی سپرپاور بن کر دنیا میں اپنا سّکہ جماسکتا ہے۔امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کو خصوصاً علم جغرافیائی سیاسیات کی الف بے معلوم نہ تھی، مگر اب حقائق ان کے سامنے آرہے ہیں۔ موصوف یہ نعرہ مار کر صدارتی الیکشن جیتے تھے کہ وہ قومی معیشت و تجارت بحال کرکے ''امریکا کو دوبارہ عظیم'' بنائیں گے۔ اس حکمت عملی کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ دیگر ممالک بالخصوص چین کے ساتھ اپنے تجارتی خسارے کو کم سے کم کیا جائے۔
چین امریکا کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی ہے۔ 2016ء میں چین نے امریکا کو 478.9 ارب ڈالر کا مال فروخت کیا تھا۔ جبکہ امریکی چین کو صرف 169.3 ارب ڈالر کا سامان بیچ سکے۔ گویا اس تجارت میں امریکا کو 309.6 ارب ڈالر کی کثیر رقم کا خسارہ ہوا۔ صدر ٹرمپ اسی خسارے کو کم سے کم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ چین سے اشیا کم خریدی جائیں اور امریکی عوام ملکی ساختہ مال ہی خریدیں۔ تاہم صدر ٹرمپ کی یہ حکمت عملی فی الحال کامیاب نہیں ہوسکی۔
امریکی ماہرین جغرافیائی سیاست صدر ٹرمپ کو سمجھا بتا رہے ہیں کہ چین اور دیگر ایشیائی ممالک سے تعلقات خراب نہ کیجیے بلکہ ان میں بہتری لائی جائے۔ وجہ یہ کہ ایشیا ہی میں دنیا کا سب سے بڑا متوسط طبقہ جنم لے رہا ہے... وہ پھلتا پھولتا متوسط طبقہ جو مستقبل میں کھربوں ڈالر کا سامان خریدنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
پھلتا پھولتا متوسط طبقہ
دنیا میں آبادی کے لحاظ سے بیشتر بڑے ممالک مثلاً چین، بھارت، انڈونیشیا، پاکستان، بنگلہ دیش، جاپان، مصر، ویت نام، ایران، ترکی، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا وغیرہ ایشیا میں واقع ہیں۔ بروکنگس انسٹی ٹیوشن(The Brookings Institution) امریکا کا مشہور تحقیقی ادارہ ہے۔ ادارے کے ماہرین مختلف معاشی و معاشرتی موضوعات پر تحقیقی رپورٹیں مرتب کرتے ہیں۔ انہوں نے دس ماہ قبل دنیا کے متوسط طبقے پر بھی ایک چشم کشا رپورٹ مرتب کی تھی۔یاد رہے، ورکنگ کلاس (مزدور طبقے) اور اپر کلاس (امرا) کے درمیان کی آبادی مڈل کلاس یا متوسط طبقہ کہلاتی ہے۔ متوسط طبقے کے لوگ عموماً تعلیم یافتہ ہوتے اور ورکنگ کلاس کی نسبت پیسا زیادہ خرچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک ملک میں متوسط طبقے کی زیادہ تعداد ہونا صحت مند معیشت کی علامت ہے۔
بروکنگس انسٹی ٹیوشن کی تازہ ترین تحقیقی رپورٹ کے مطابق 1985ء میں دنیا میں ایک ارب لوگ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ صنعتی دور شروع ہونے کے ڈیڑھ سو سال بعد یہ منزل حاصل ہوئی تھی۔ پھر مڈل کلاس کے دو ارب ہونے میں اکیس سال لگے اور 2006ء میں یہ واقعہ رونما ہوا۔ یہ عرصہ کم ہونے کی بڑی وجہ چین میں محیرالعقول معاشی ترقی کا جنم لینا تھا۔
اس کے بعد اگلے نوبرس میں دنیا بھر کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد تین ارب ہوگئی۔ یہ امر 2015ء میں انجام پایا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلے سات سال (2022ء تک) میں مزید ایک ارب اور پانچ سال (2027ء تک) میں مزید ایک ارب لوگ عالمی متوسط طبقے کا حصہ بن جائیں گے۔ گویا 2022ء میں انسانی تاریخ میں پہلی بار دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی مڈل کلاس سے تعلق رکھے گی اور اکثریت پالے گی۔خاص بات یہ کہ 2015ء تا 2027ء عالمی متوسط طبقے کا حصہ بننے والے دو ارب انسانوں کی ''90 فیصد'' تعداد ایشیائی ممالک میں آباد ہوگی۔ ان لوگوں کی اکثریت کا تعلق چین، بھارت، پاکستان اور دیگر ایشیائی ممالک سے ہوگا۔
آج بھی چین میں متوسط طبقے سے وابستہ شہریوں کی تعداد ''چالیس کروڑ'' تک پہنچ چکی ہے۔ اس طبقے کی آمدن بڑھ رہی ہے اور لوگوں کے پاس پیسا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے، پچھلے دنوں چین کے مشہور انٹرنیٹ تجارتی ادارے، علی بابا (Alibaba.com) نے مختلف اشیا پر سیل لگائی، تو چینی عوام نے ''صرف ایک دن'' میں ''25.4 ارب ڈالر ''کا سامان خرید کر خریدو فروخت کی بین الاقوامی تاریخ میں نیا ریکارڈ قائم کردیا۔ اس عدد کی وسعت کا اندازہ یوں لگائیے کہ پاکستان کا حالیہ سالانہ بجٹ تقریباً 55 ارب ڈالر کا تھا۔
چین کے علاوہ بھارت، انڈونیشیا، پاکستان، ترکی، ایران وغیرہ میں بھی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور یہ تمام حقائق مغربی و امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی نظر میں ہیں۔ وہ جان چکی ہیں کہ ایشیا میں دنیا کی سب سے بڑی منڈی جنم لے رہی ہے اور وہیں ان کا سب سے زیادہ سامان فروخت ہوگا۔ گویا ایشیائی ممالک کی جغرافیائی سیاسیات کی بڑھتی اہمیت نے اسے معاشی طور پر بھی اہم بنادیا۔ یہی وجہ ہے،دنیا کی ایک اور بڑی طاقت، روس اب بڑی سرگرمی سے براعظم ایشیا میں پر پھیلا رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک کاروباری شخصیت ہیں اور علم جغرافیائی سیاسیات سے تقریباً نابلد! ان کے مقابلے میں سابق صدر، بارک اوباما زیادہ تجربے کار اور جہاں دیدہ تھے۔ یہی وجہ ہے، انہوں نے اپنے آخری دور میں ''ایشیا محور'' (asia pivot) کی امریکی پالیسی متعارف کرائی تھی۔ اوباما کو محسوس ہوگیا تھا کہ رفتہ رفتہ ایشا عالمی سیاست اور معیشت کا مرکز بن رہا ہے۔ بدقسمتی سے اوباما کی ایشیا محور پالیسی کو چین مخالف سمجھ لیا گیا۔ مگر اب امریکی ملٹی نیشنل کمپنیاں ایشیا کے عروج کو اپنے لیے مفید اور فائدے مند سمجھنے لگی ہیں۔
وجہ یہ کہ تمام مشہور امریکی کمپنیوں کا کاروبار ایشیائی ممالک میں پھل پھول رہا ہے۔ چناں چہ وہ وہاں اپنے نئے دفاتر اور آؤٹ لٹ کھول رہی ہیں۔ ایشیا کا بڑھتا متوسط طبقہ ان کی ترقی کا بھی انجن بن چکا۔ لہٰذا یہ کمپنیاں ٹرمپ حکومت پر زور دے رہی ہیں کہ وہ ایسے اقدامات ہرگز نہ کریں جن کے باعث خصوصاً ایشیائی متوسط طبقہ امریکا سے برگشتہ ہوجائے۔ طاقتور امریکی کمپنیوں کے دباؤ پر ہی ڈونلڈ ٹرمپ جیسے ضدی اور ہٹیلے لیڈر بھی ایشیائی ممالک کے معاملے میں رویّہ نرم رکھنے پر مجبور ہوگئے۔اس کی ایک مثال پاکستان کے معاملے ہی میں سامنے آئی۔
کچھ عرصہ قبل افغان پالیسی جاری کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے پاکستان پر سخت تنقید کی تھی۔ تب لگتا تھا کہ دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی نچلے درجے پر پہنچ سکتے ہیں۔ بعدازاں امریکی ملٹی نیشنل کمپنیاں حرکت میں آگئیں۔ انہوں نے ٹرمپ حکومت کو باور کرایا کہ پاکستان ''ایمرجنگ مارکیٹوں'' میں شامل ایشیا کی ایک بڑی منڈی ہے۔ نیز یہ کہ وہاں تقریباً ایک کروڑ آبادی والا متوسط طبقہ جنم لے رہا ہے۔ لہٰذا امریکا کو اتنی بڑی منڈی سے ہاتھ دھونا مہنگا پڑے گا۔ دیگر عوامل کے علاوہ امریکی کمپنیوں کے دباؤ کی وجہ سے بھی ٹرمپ حکومت کو بسلسلہ پاکستان اپنا رویہ تبدیل کرنا پڑا۔ چناں چہ حال ہی میں امریکی کانگریس نے کولیشن سپورٹ فنڈ کے سلسلے میں پاکستان کو 700 ملین ڈالر دینے کی منظوری دے دی ۔ یہ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ امریکی کمپنیاں بڑی پاکستانی منڈی کو کھونا نہیں چاہتیں۔
امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی نگاہوں کا مرکز اگرچہ چین اور بھارت کا متوسط طبقہ ہے۔ برگر، چکن بروسٹ ، پنیر اور دیگر غذائیں بنانے والی مشہور امریکی کمپنیاں ہزاروں کی تعداد میں دونوں ممالک میں اپنے آؤٹ لٹ کھول رہی ہیں۔ عنقریب ان کمپنیوں کی آدھی سے زیادہ آمدن صرف چین اور بھارت سے حاصل ہوگی۔ایپل امریکا کی ان دیوہیکل کمپیوٹرکمپنیوں میں نمایاں ہے جو نئی ملازمتوں کو جنم اور معیشت کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ اس سال ایپل کو ''گریٹر چین'' سے ''45 ارب ڈالر'' کی آمدن ہوئی ہے۔ (گریٹر چین سے مراد چین، ہانگ کانگ، سنگاپور اور تائیوان ہے)۔ ایپل کے سی ای او، ٹم کک کا کہنا ہے:
''ہم ایشیا میں ازحد دلچسپی لے رہے ہیں۔ وجہ یہی کہ وہاں متوسط طبقہ خوب ترقی کررہا ہے۔'' گریٹر چین میں ایپل مصنوعات کی زبردست فروخت کے باعث ہی کمپنی کی آمدن میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
دلچسپ بات یہ کہ امریکی صدر ٹرمپ کی تان ابھی تک ''پہلے امریکا'' پر اٹکی ہوئی ہے۔ انہوں نے ویت نام میں منعقدہ حالیہ پیسفک رم سمٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا ''اب کوئی بھی امریکا سے فائدہ نہیں اٹھاسکتا۔ میں ہر قیمت پر پہلے امریکا کو رکھوں گا۔'' قوم پرست ٹرمپ کا یہ فلسفہ صنعتی و تجارتی (کارپوریٹ) امریکا سے براہ راست متصادم ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خود بھی کاروباری ہونے کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ امریکی جرنیلوں میں گھر چکے۔اور امریکی فوج اور حکومت امریکا میں شامل ''عقاب''امور خارجہ پہ کارپوریٹ امریکا سے مختلف سوچ اور پالیسی رکھتے ہیں۔
درحقیقت صدر ٹرمپ کے دورمیں امریکی فوج نے وائٹ ہاؤس پر قبضہ کر لیا ہے۔اب تمام اہم عہدوں پر سابق جرنیل براجمان ہیں۔امریکی جنرلوں کی سوچ یہ ہے کہ چین یورشیا (ایشیا و یورپ) میں اپنے دیوہیکل منصوبے،ون بیلٹ ون روڈ کے ذریعے اور بحرالکاہل کے علاقے میں مصنوعی جزائر کا جال بچھا کر سپر پاور بننا چاہتا ہے۔چناں چہ وہ چین کے عروج کو امریکی مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے اور مقامی اتحادیوں کی مدد سے ون بیلٹ ون روڈ کو ناکام بنانے کی خفیہ و عیاں کوششوں میں محو ہو چکے۔
کارپوریٹ امریکا مگرامریکی جنرلوں کے عزائم میں رکاوٹ بنا ہوا ہے اور اسی لیے وہ کھل کر نہیں کھیل سکتے۔وجہ یہی کہ امریکی کارپوریٹ بھی کوئی کمزور حریف نہیں !اس کو دنیا میں سب سے زیادہ بڑا، امیر ترین، عالمی سطح پر پھیلا، تخلیقی اور نہایت سرگرم نجی شعبہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کی شاخیں کرہ ارض کے کونے کونے تک پھیلی ہوئی ہیں۔ کولا مشروب بنانے والی امریکی کمپنیوں صرف دو ممالک... شمالی کوریا اور کیوبا میں کاروبار نہیں کرتیں۔ اسی طرح اگر فیس بک مملکت میں تبدیل ہو جائے، تو وہ بہ لحاظ آبادی دنیا کی سب سے بڑی مملکت ہوگی۔ بعض امریکی کمپنیوں مثلاً ایپل اور وال مارٹ کا سالانہ ٹرن اوور تو کئی ممالک کے جی ڈی پی سے زیادہ ہے۔ان امریکی کمپنیاں نے دیوہیکل صورت اس لیے بھی اختیار کی کہ ایشیائی ممالک میں ان کا کاروبار خوب پنپ رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں کارپوریٹ امریکا یہ کیونکر دعویٰ کرسکتا ہے کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہورہا؟
صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے حواری اکثر یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ تجارت اور کاروبار کا عالمی نظام نامنصفانہ ہے۔ اس کی وجہ سے امریکا میں معاشی بحران جنم لے چکا ۔وہ یہ فراموش کر بیٹھے کہ دنیا بھر میں جنگیں چھیڑنے کی وجہ سے امریکی میعشت قرضوں میں جکڑی گئی ۔وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ امریکا میں ''دو کروڑ ملازمتوں'' کا انحصار براہ راست برآمدات اور غیر ملکی سرمایہ کاری پر ہے۔ صدر ٹرمپ نے خاص طور پہ چین کو نشانے پر لے رکھا ہے۔ مگر پچھلے سال اسی چین نے امریکا میں 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور نیا ریکارڈ قائم کردیا۔ اس چینی سرمایہ کاری کے باعث امریکا میں معاشی سرگرمی اور نئی ملازمتوں نے جنم لیا۔
ٹرمپ حکومت کی بھر پور کوشش ہے کہ امریکا میں چینیوں کو بدنام کیا جائے۔ٹرمپ کا پٹھو امریکی میڈیا مسلسل چین کے خلاف جھوٹی سچی خبریں چھاپ رہا ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ ہر رات کو لاکھوں امریکی یہ دعا مانگ کر محو خواب ہوتے ہیں کہ خدارا ،چینی معیشت پھلتی پھولتی رہے۔ وجہ یہی کہ آج چین توانائی، دھاتیں، فلمیں، بیشتر اشیائے صرف حتیٰ کہ بیئر تک سب سے زیادہ استعمال کرنے والا ملک بن چکا۔آج چین کی معیشت ذرا سی بھی کمزور ہو، تو اس کے منفی اثرات ارجنٹائن سے لے کر انگولا تک دکھائی دیتے ہیں اور ظاہر ہے، امریکی معیشت بھی اس سے متاثر ہوتی ہے۔ حقیقتاً اب چین عالمی معیشت چلانے والا انجن بن چکا۔ اگر یہ انجن خراب ہوا، تو پوری دنیا معاشی زوال کا نشانہ بن سکتی ہے۔
عالمی معیشت کے ڈھانچے کو سہارا دینے میں اب براعظم ایشیا کا کردار بھی اہم بنتا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر سب سے بڑی پانچ سو امریکی کمپنیوں کے انڈکس (The Standard & Poor's 500) ہی کو دیکھیے۔ اس کے مطابق ان کمپنیوں کا تیار کردہ بیشتر سامان ایشیائی ممالک میں فروخت ہوتا ہے۔مزید براں ایشیا ہی دنیا میں سب سے بڑا درآمدی خطہ بن چکا۔ دنیا میں 36 فیصد درآمدات ایشیائی ممالک میں جاتی ہیں جبکہ امریکا اور یورپ،دونوں کا مجموعی حصہ 31 فیصد ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے، 2020ء میں صرف جنوب مشرقی ایشیا میں امریکا سے زیادہ سمارٹ فون مستعمل ہوں گے۔ انٹرنیٹ جنوبی ایشیا میں بھی تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔ بھارت میں ہر سیکنڈ تین نئے بھارتی دنیائے انٹرنیٹ میں داخل ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بھی نیٹ تیزی سے پھیل رہا ہے اور ہمارا وطن دنیا کی نمایاں ابھرتی مارکیٹ بن چکا۔
جغرافیائی سیاست اور پاکستان
وطن عزیز بہ لحاظ آبادی دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ ہمارے دیس میں نوجوانوں کی اکثریت ہے۔ نیز دنیا کی دسویں بڑی افرادی قوت (تقریباً تریسٹھ لاکھ لوگ) بھی یہیں بستے ہیں۔ اس بنا پر پاکستان بھی عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز بن چکا۔جغرافیائی سیاست نے سب سے پہلے پاکستان اور چین کو قریب تر کیا۔ پاکستان بجلی و گیس کی کمی کا شکار تھا۔ ادھر چین کے پاس کھربوں ڈالر کا زرمبادلہ محفوظ تھا اور وہ اپنے سرمائے کو مفید منصوبوں میں لگانا چاہتا تھا۔ چناں چہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا ذیلی منصوبہ،سی پیک منصوبہ عمل میں آیا جس کے تحت پاکستان میں توانائی کے کئی پروجیکٹ جاری و ساری ہیں۔ اس طرح چین کا ایک مقصد اپنے علاقائی اتحادی کو مضبوط و خوشحال بنانا بھی ہے۔
درج بالا تحریر ہو چکا کہ امریکی فوج چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔اس نے سعی کی تھی کہ پاکستان چینی منصوبے کا حصہ نہ بنے مگر پاکستانی حکومت نے امریکی جرنیلوں کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔اسی انکار کے باعث ہی امریکی حکمران طبقہ پاکستانی حکومت سے ناراض ہو گیا۔امریکی فوج پھر درپردہ بھارت اور اپنی پٹھو افغان حکومت کو شہہ دینے لگی کہ وہ اپنے ایجنٹوں اور پاکستان میں موجود غداروں کی مدد سے سی پیک منصوبے کے خلاف کارروائیاں کرنے لگیں۔چناں چہ بلوچستان میں جنم لیتے دہشت گردی کے واقعات اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے ہی امریکی فوج نے افغانستان سے اپنی واپسی کا پروگرام بھی ملتوی کر دیا اور بدستور ڈالروں کے عاشق اور انتہائی کرپٹ افغان حکمران طبقے کے بل پہ افغان عوام کے سروں پر سوار ہے۔
روس کی آمد
امریکی خفیہ سرپرستی میں جاری بھارتی و افغان دہشت گردی کے باوجود سی پیک منصوبے پہ کام جاری ہے۔اس کی وجہ سے اب ایک اور سپرپاور، روس بھی پاکستان سے اظہار قربت کرنے لگی ہے۔ روس کا بڑا حصہ ایشیا میں شامل ہے۔ نیز سیاسی، معاشرتی اور مذہبی طور پر روس کے مغرب سے تعلقات اکثر کشیدہ رہے ہیں۔ حالیہ دور میں کشیدگی نے 2014ء میں جنم لیا جب روس نے کریمیا جزیرہ نما پر قبضہ کرلیا۔ نتیجتاً یورپی ممالک اور امریکا نے روس پر تجارتی و مالی پابندیاں عائد کردیں۔یورپی منڈیوں سے محروم ہونے کے بعد روسی حکومت نے ایشیائی منڈیوں پر نگاہیں جما دیں۔ چناں چہ روس ایشیائی ممالک سے تجارتی و کاروباری تعلقات بڑھانے لگا۔ روس مغرب کو دکھا دینا چاہتا ہے کہ وہ اس کو الگ تھلگ نہیں رکھ سکتا اور یہ کہ روس اپنے قومی مفادات کے سلسلے میں کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا۔
روس قدرتی وسائل کی دنیا میں سب سے زیادہ ذخائر رکھتا ہے۔ وہ قدرتی گیس پیدا کرنے والا پہلا بڑا اور تیل کی پیداوار میں دوسرا بڑا ملک ہے۔ دنیا میں تیسرا سب سے زیادہ کوئلہ روس سے نکلتا ہے۔ لوہے کی کانیں بھی یہیں زیادہ واقع ہیں۔ دیگر اہم معدنیات مثلاً تانبے، نکل، ٹن، سیسہ، المونیم، کرومیم، سونا، چاندی وغیرہ کے بھی روس میں کثیر ذخائر ہیں۔ چناں چہ روسی حکومت انہی قدرتی وسائل اور جدید اسلحے کی فروخت سے آمدن پاتی ہے۔
مغرب سے اختلاف روس اور چین کو قریب لے آیا۔ چین کو تیل و گیس کی ضرورت ہے۔ لہٰذادونوں ممالک پچھلے پانچ برس میں تیل کی دو پائپ لائنیں تعمیر کر چکے ۔ ان کے ذریعے لاکھوں بیرل روسی تیل روزانہ چین پہنچ رہا ہے۔ درحقیقت چین اب روسی تیل کا سب سے بڑا خریدار بن چکا۔چین سے قربت کی بنا پر ہی روس اور پاکستان بھی نزدیک آ گئے۔ پاکستان کو بھی تیل و گیس درکار ہے تاکہ کاربار حیات چل سکے۔ خصوصاً پاکستان بجلی کی قلت کا شکار ہے ۔چنانچہ روس نے پاکستانی حکومت کو ایل این جی فروخت کرنے کی پیش کش کر دی تاکہ وہ بجلی گھر چلا سکے۔
روس نے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ پیش کش بھی کی کہ وہ کراچی سے ایل این جی گیس لاہور تک لانے کی خاطر پائپ لائن تعمیر کرنے میں پاکستان کی مدد کرے گا۔ اسی منصوبے کو تیل و گیس کی مشہور روسی کمپنی' گازپروم انجام دے گی۔ اس منصوبے پر دونوں ممالک کے مابین گفت وشنید جاری ہے۔ گازپروم پاکستان میں تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش میں پاکستانی سرکاری اداروں کی مدد کرنے کو بھی تیار ہے۔
روسی حکومت کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کے مخالف بھارت کے ساتھ دیرینہ تعلقات رکھتی ہے۔ دونوں ممالک نے مختلف شعبوں میں مل جل کر منصوبے شروع کر رکھے ہیں۔ لہٰذا روس پاکستان سے تعلق بڑھا کر بھارتی حکمران طبقے کو ناراض نہیں کر نا چاہتا۔ اسی لیے روسی حکومت پس پردہ رہ کر ہی پاکستان سے روابطہ رکھتی ہے۔تاہم ایسے اشارے ملے ہیں کہ امریکا سے بھارتی حکمران طبقے کی بڑھتی قربت روس کو کھٹک رہی ہے۔ اسی واسطے روسی حکومت نے بعض ایسے اقدامات کیے ہیں جو بھارت کے مفاد میں نہیں جاتے۔ مثلاً پچھلے ماہ ایران اور روس نے توانائی کا ایک اہم معاہدہ کیا ہے۔
اس معاہدے کے مطابق گازپروم ایران سے بھارت قدرتی گیس پہنچانے کے لیے ایک 1200 کلو میٹر طویل پائپ لائن تعمیر کرے گی۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ پائپ لائن پاکستان سے گزر کر بھارت پہنچے گی۔بھارت ایسی ایرانی گیس نہیں چاہتا جو بذریعہ پائپ لائن پاکستان سے گزر کر آئے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بھارت میں گیس کی طلب مسلسل بڑھ رہی ہے۔اگر بھارت مشرق وسطی سے گیس منگوائے تو اسے خاصی مہنگی پڑتی ہے۔ جبکہ ایرانی گیس سستی ہے۔ اب اس پائپ لائن منصوبے میں روس کی شمولیت سے ممکن ہے کہ مستقبل میں بھارت اسے تعمیر کرنے پر راضی ہو جا ئے۔ توانائی کی مسلسل بڑھتی طلب بھارتی حکمران طبقے کو پاکستان سے مفاہمت کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔
روسی حکومت کو اس امر پر بھی تشویش ہے کہ بھارت امریکی ماہرین عسکریات کو روس ساختہ جنگی طیارے اور آبدوزیں دکھانے لگا ہے۔ یوںامریکی ماہرین روسی ہتھیاروں کا معائنہ کر کے ان کی خامیوں اور خوبیوں سے آگاہ ہو رہے ہیں۔ اندرون خانہ روس نے بھارتی حکومت کو انتباہ کیا ہے کہ وہ امریکیوں کو روسی ساختہ اسلحے تک رسائی نہ دے۔
جغرافیائی سیاست کے سبب ایشیا اور مشرق وسطی میں تیزی سے جنم لیتی تبدیلیاں متقاضی ہیں کہ پاکستانی حکمران طبقہ ہوش وتدبر سے ان پہ نظر رکھے اور قومی مفادات مدنظر رکھتے ہوئے عملی قدم اٹھائے۔اس خطے میں مسلم دشمن قوتیں خصوصاً اسرائیل بھی بہت سرگرم ہو چکا جو عالم اسلام کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے تاکہ اپنی بقا یقینی بنا سکے۔ایسی صورت حال میں تمام اسلامی ممالک کو تفرقے میں پڑنے کے بجائے اتحاد ویکجہتی اختیار کرنا ہو گی ورنہ افسوس، عالم اسلام مذید کمزور وناتواں ہوتا جائے گا۔
روس کی ایشیائی ممالک پر نظریں
مغرب سے تعلقات میں کشیدگی اور ایشیا کی بڑھتی آبادی کے سبب روس پہلے کی نسبت اس براعظم میں زیادہ دلچسپی لینے لگاہے۔ ایشیائی ممالک سے قربت بڑھا کر روس ماضی کے مانند سپر پاور بھی بننا چاہتا ہے تاکہ مشرقی یورپ میں امریکا کے بڑھتے اثر ورسوخ کی روک تھام کر سکے۔ امریکا نے اپنی کرنسی' ڈالر کی مدد سے بھی عالمی معاشی نظام پر قبضہ کر رکھا ہے۔ چین اور روس مل کر ڈالر کی اہمیت بھی کم کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے' روس ایشیائی ممالک سے کاروبار کرتے ہوئے اپنی کرنسی' روبل استعمال کرنے لگا ہے۔ گویا خصوصاً تیل و گیس کے معاہدوں میں ڈالر کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔روس اور چین کے مرکزی (سنٹرل ) بینک تیزی سے سونا بھی خرید رہے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ لین دین کا ایسا بین الاقوامی ماحولیاتی نظام تخلیق کیا جائے جس میں ڈالر کی ضرورت نہ رہے۔ تاہم فی الحال یہ منزل خاصی دور ہے کیونکہ چین سمیت تمام اہم ممالک عالمی سطح پر کاروبار تجارت کرتے ہوئے ڈالر کو بطور کرنسی استعمال کرتے ہیں۔
امریکا اور نیٹو کا مقابلہ کرنے کی خاطر روس نے اپنا میزائل شکن جدید ترین نظام ایس 500 پرومیٹری بھی تیار کر لیا ہے۔ یہ سابقہ نظام ایس 400 سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ مزیربرآں روس اے 235 نوڈول میزائل شکن نظام بھی تیار کر رہا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ امریکا یا نیٹو سے آنے والے ایٹمی میزائل ہوا یا فضا ہی میں تباہ کیے جاسکیں۔
روس کے صدر ولادمیر پیوٹن براعظم ایشیا میں متحارب قوتوں کے ساتھ بڑی ہوشیاری سے پیش آ رہے ہیں۔ مثلاً حالیہ ماہ اکتوبر میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے روس کا دورہ کیا تھا۔ یہ ایک تاریخی موقع تھا کیونکہ سعودی عرب روایتی طور پر امریکی کیمپ میں شامل رہا ہے۔قابل ذکر بات یہ کہ دورے کے موقع پر روسی صدر نے اعلان کیا کہ روسی صدر عرب کو میزائل شکن نظام ایس 400 فروخت کرے گا۔ اس اعلان نے ایرانی لیڈروں کو بے چین کر دیا کیونکہ روس نے ایران کو کمتر میزائل شکن نظام ایس 300 فروخت کیا ہے۔ تاہم ایرانیوں کو مطمئن کرنے کی خاطر روسی حکومت نے ایران میں وسیع سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کر دیا۔ یوں روس نے مشرق وسطیٰ کی دونوں بڑی قوتوں کے درمیان توازن برقرار رکھا اور ان سے تعلقات بھی قائم کر لیے۔
چین با مقابلہ رشیا
چین کا عظیم الشان ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ چار براعظموں ...ایشیا، یورپ، افریقہ اور آسٹریلیا تک پھیلا ہوا ہے۔ دنیا کے ساٹھ سے زائد ممالک اس منصوبے میں شامل ہو چکے ۔ جب بھی یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا، عالمی سطح پر چین کے اثر ورسوخ میں زبردست اضافہ ہو جائے گا۔اسی منصوبے کے باعث وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ میں بھی چین کا اثر ورسوخ بڑھے گا۔ اس صورت حال کو روس تشویش کی نظروں سے دیکھتا ہے۔ اگرچہ روس کو بھی ون بیلٹ ون روڈ منصوبے سے بہت فائدہ پہنچے گا مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس کی تکمیل کے بعد وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ میں وہ چین کے بعد دوسرے درجے کی طاقت بن سکتا ہے۔یاد رہے، ماضی میں چین اور روس متحارب قوتیں رہی ہیں۔ اٹھارہویںصدی میں روسیوں نے چینی منچوریا کا آدھا علاقہ بزور ہتھیا لیا تھا۔ تب سے دونوں ممالک کے مابین تناؤ چلا آ رہا ہے۔ 1969ء میں تو تناؤ اتنا بڑھ گیا کہ سوویت یونین اور چین اپنی تقریباً ساری افواج منچوریا کی سرحدوں پر لے آئے تھے۔ اسی واقعہ کے بعد امریکی صدر رچرڈ نکسن نے بذریعہ پاکستان چینی حکومت سے رابطے بڑھائے تاکہ سوویت یونین کو دنیا میں تنہا کیا جاسکے۔
اب امریکا کوشش کر رہا ہے کہ روس اور چین کے مابین پرانی دشمنی کو تازہ کر دیا جائے۔ اس سلسلے میں بعید نہیں کہ امریکی چین یا روس میں کوئی جعلی حملہ کرا دیں تاکہ دونوں ممالک کے مابین شکوک وشبہات پیدا ہو جائیں لہٰذا چینی اور روسی حکومت کو امریکی کیمپ سے خبردار وہوشیار رہنا ہو گا۔ امریکا کی یہ بھی سعی ہے کہ چین اور روس میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے معمولی سے ناروا سلوک والے واقعے کو مغربی میڈیا بڑھا چڑھا کر بیان کرے۔ مدعا یہ ہے کہ مسلم ایشیائی ممالک میں چین اور روس کے خلاف نفرت بڑھائی جاسکے۔
اس انکشاف کے اگلے ہی دن بلوچستان میں را کی فنڈنگ سے سرگرم عمل دہشت گرد و قوم پسند تنظیم، بی ایل ایف کے دہشت گردوں نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے پندرہ افراد قتل کردیئے۔ نیز ایک ایس پی کو بھی شہید کیا گیا۔ یوں بھارت نے اہل پاکستان کو پیغام دیا کہ وہ بلوچستان میں جب چاہے وسیع پیمانے پر قتل و غارت کراسکتا ہے۔بھارت بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سندھ میں انتشار و بدامنی چاہتا ہے تاکہ سی پیک منصوبوں پر کم از کم عملدرآمد کی رفتار سُست جائے۔ زیادہ وسیع تناظر میں یہ چال بھارتی حکمران طبقے کی اس خواہش سے وابستہ ہے کہ پاکستان کو خوشحال و ترقی یافتہ مملکت بننے سے روکا جائے تاکہ وہ جنوبی ایشیا میں بھارت کی ہمسری نہ کرسکے۔
افسوس ہمارے سیاست داں تو کرسی اور اپنے مفادات کی خاطر ایک دوسرے سے نبرد آزما اور معمولی امور میں الجھے ہوئے ہیں۔علاقائی اور عالمی سطح پر جو سیاسی و معاشی تبدیلیاں ظہور پذیر ہو رہی ہیں، ان سے وہ کم ہی واقفیت رکھتے ہیں۔ یہ تبدیلیاں عیاں کرتی ہیں کہ اگر پاکستانی حکمران طبقے نے تدبر و حکمت سے اپنے کارڈ کھیلے، تو جنم لیتی صورت حال سے فائدہ اٹھا کر مستقبل میں پاکستان ایک خوشحال، مضبوط اور ترقی یافتہ مملکت بن سکتا ہے۔ شرط اول یہ ہے کہ پاکستانی حکمران طبقہ اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کو پس پشت ڈال کر قومی مفادات کو ترجیح دے۔ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر جنم لیتے اس انقلاب کی داستان دلچسپ،سبق آموز اور چشم کشا ہے۔
٭٭
نوریل روبینی امریکا کا ممتاز ترک نژاد دانشور ہے۔ اس کا قول ہے ''میں سمجھتا ہوں، جغرافیائی سیاست کے مسائل بہت اہمیت اختیار کرچکے۔ وجہ یہ کہ اب معیشت سے لے کر معاشرت تک کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ جغرافیائی سیاست سے بھی آگاہ ہوں۔'' عالمی سطح پر صورتحال دیکھتے ہوئے نوریل روبینی کا قول برحق لگتا ہے۔علم جغرافیائی سیاسیات (Geopolitics) میں بعض خصوصیات مدنظر رکھتے ہوئے خارجہ امور یعنی بین الاقوامی سیاست اور تعلقات کو سمجھا جاتا ہے۔ ان خصوصیات میں کسی علاقے کا جغرافیہ، آب و ہوا، قدرتی وسائل، انسانی آبادی اور آب و ہوا شامل ہیں۔
آج کل ماہرین تمام سپر پاورز مثلاً امریکا، چین، روس وغیرہ کے لیڈروں کو علم جغرافیائی سیاسیات کے بنیادی اسباق پڑھا رہے ہیں تاکہ وہ عالمی سطح پہ درست چالیں چل کر خود کو معاشی طور پر طاقت ور بناسکیں۔ ظاہر ہے، معاشی اور عسکری طور پر طاقتور ملک ہی سپرپاور بن کر دنیا میں اپنا سّکہ جماسکتا ہے۔امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کو خصوصاً علم جغرافیائی سیاسیات کی الف بے معلوم نہ تھی، مگر اب حقائق ان کے سامنے آرہے ہیں۔ موصوف یہ نعرہ مار کر صدارتی الیکشن جیتے تھے کہ وہ قومی معیشت و تجارت بحال کرکے ''امریکا کو دوبارہ عظیم'' بنائیں گے۔ اس حکمت عملی کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ دیگر ممالک بالخصوص چین کے ساتھ اپنے تجارتی خسارے کو کم سے کم کیا جائے۔
چین امریکا کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی ہے۔ 2016ء میں چین نے امریکا کو 478.9 ارب ڈالر کا مال فروخت کیا تھا۔ جبکہ امریکی چین کو صرف 169.3 ارب ڈالر کا سامان بیچ سکے۔ گویا اس تجارت میں امریکا کو 309.6 ارب ڈالر کی کثیر رقم کا خسارہ ہوا۔ صدر ٹرمپ اسی خسارے کو کم سے کم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ چین سے اشیا کم خریدی جائیں اور امریکی عوام ملکی ساختہ مال ہی خریدیں۔ تاہم صدر ٹرمپ کی یہ حکمت عملی فی الحال کامیاب نہیں ہوسکی۔
امریکی ماہرین جغرافیائی سیاست صدر ٹرمپ کو سمجھا بتا رہے ہیں کہ چین اور دیگر ایشیائی ممالک سے تعلقات خراب نہ کیجیے بلکہ ان میں بہتری لائی جائے۔ وجہ یہ کہ ایشیا ہی میں دنیا کا سب سے بڑا متوسط طبقہ جنم لے رہا ہے... وہ پھلتا پھولتا متوسط طبقہ جو مستقبل میں کھربوں ڈالر کا سامان خریدنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
پھلتا پھولتا متوسط طبقہ
دنیا میں آبادی کے لحاظ سے بیشتر بڑے ممالک مثلاً چین، بھارت، انڈونیشیا، پاکستان، بنگلہ دیش، جاپان، مصر، ویت نام، ایران، ترکی، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا وغیرہ ایشیا میں واقع ہیں۔ بروکنگس انسٹی ٹیوشن(The Brookings Institution) امریکا کا مشہور تحقیقی ادارہ ہے۔ ادارے کے ماہرین مختلف معاشی و معاشرتی موضوعات پر تحقیقی رپورٹیں مرتب کرتے ہیں۔ انہوں نے دس ماہ قبل دنیا کے متوسط طبقے پر بھی ایک چشم کشا رپورٹ مرتب کی تھی۔یاد رہے، ورکنگ کلاس (مزدور طبقے) اور اپر کلاس (امرا) کے درمیان کی آبادی مڈل کلاس یا متوسط طبقہ کہلاتی ہے۔ متوسط طبقے کے لوگ عموماً تعلیم یافتہ ہوتے اور ورکنگ کلاس کی نسبت پیسا زیادہ خرچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک ملک میں متوسط طبقے کی زیادہ تعداد ہونا صحت مند معیشت کی علامت ہے۔
بروکنگس انسٹی ٹیوشن کی تازہ ترین تحقیقی رپورٹ کے مطابق 1985ء میں دنیا میں ایک ارب لوگ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ صنعتی دور شروع ہونے کے ڈیڑھ سو سال بعد یہ منزل حاصل ہوئی تھی۔ پھر مڈل کلاس کے دو ارب ہونے میں اکیس سال لگے اور 2006ء میں یہ واقعہ رونما ہوا۔ یہ عرصہ کم ہونے کی بڑی وجہ چین میں محیرالعقول معاشی ترقی کا جنم لینا تھا۔
اس کے بعد اگلے نوبرس میں دنیا بھر کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد تین ارب ہوگئی۔ یہ امر 2015ء میں انجام پایا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلے سات سال (2022ء تک) میں مزید ایک ارب اور پانچ سال (2027ء تک) میں مزید ایک ارب لوگ عالمی متوسط طبقے کا حصہ بن جائیں گے۔ گویا 2022ء میں انسانی تاریخ میں پہلی بار دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی مڈل کلاس سے تعلق رکھے گی اور اکثریت پالے گی۔خاص بات یہ کہ 2015ء تا 2027ء عالمی متوسط طبقے کا حصہ بننے والے دو ارب انسانوں کی ''90 فیصد'' تعداد ایشیائی ممالک میں آباد ہوگی۔ ان لوگوں کی اکثریت کا تعلق چین، بھارت، پاکستان اور دیگر ایشیائی ممالک سے ہوگا۔
آج بھی چین میں متوسط طبقے سے وابستہ شہریوں کی تعداد ''چالیس کروڑ'' تک پہنچ چکی ہے۔ اس طبقے کی آمدن بڑھ رہی ہے اور لوگوں کے پاس پیسا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے، پچھلے دنوں چین کے مشہور انٹرنیٹ تجارتی ادارے، علی بابا (Alibaba.com) نے مختلف اشیا پر سیل لگائی، تو چینی عوام نے ''صرف ایک دن'' میں ''25.4 ارب ڈالر ''کا سامان خرید کر خریدو فروخت کی بین الاقوامی تاریخ میں نیا ریکارڈ قائم کردیا۔ اس عدد کی وسعت کا اندازہ یوں لگائیے کہ پاکستان کا حالیہ سالانہ بجٹ تقریباً 55 ارب ڈالر کا تھا۔
چین کے علاوہ بھارت، انڈونیشیا، پاکستان، ترکی، ایران وغیرہ میں بھی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور یہ تمام حقائق مغربی و امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی نظر میں ہیں۔ وہ جان چکی ہیں کہ ایشیا میں دنیا کی سب سے بڑی منڈی جنم لے رہی ہے اور وہیں ان کا سب سے زیادہ سامان فروخت ہوگا۔ گویا ایشیائی ممالک کی جغرافیائی سیاسیات کی بڑھتی اہمیت نے اسے معاشی طور پر بھی اہم بنادیا۔ یہی وجہ ہے،دنیا کی ایک اور بڑی طاقت، روس اب بڑی سرگرمی سے براعظم ایشیا میں پر پھیلا رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک کاروباری شخصیت ہیں اور علم جغرافیائی سیاسیات سے تقریباً نابلد! ان کے مقابلے میں سابق صدر، بارک اوباما زیادہ تجربے کار اور جہاں دیدہ تھے۔ یہی وجہ ہے، انہوں نے اپنے آخری دور میں ''ایشیا محور'' (asia pivot) کی امریکی پالیسی متعارف کرائی تھی۔ اوباما کو محسوس ہوگیا تھا کہ رفتہ رفتہ ایشا عالمی سیاست اور معیشت کا مرکز بن رہا ہے۔ بدقسمتی سے اوباما کی ایشیا محور پالیسی کو چین مخالف سمجھ لیا گیا۔ مگر اب امریکی ملٹی نیشنل کمپنیاں ایشیا کے عروج کو اپنے لیے مفید اور فائدے مند سمجھنے لگی ہیں۔
وجہ یہ کہ تمام مشہور امریکی کمپنیوں کا کاروبار ایشیائی ممالک میں پھل پھول رہا ہے۔ چناں چہ وہ وہاں اپنے نئے دفاتر اور آؤٹ لٹ کھول رہی ہیں۔ ایشیا کا بڑھتا متوسط طبقہ ان کی ترقی کا بھی انجن بن چکا۔ لہٰذا یہ کمپنیاں ٹرمپ حکومت پر زور دے رہی ہیں کہ وہ ایسے اقدامات ہرگز نہ کریں جن کے باعث خصوصاً ایشیائی متوسط طبقہ امریکا سے برگشتہ ہوجائے۔ طاقتور امریکی کمپنیوں کے دباؤ پر ہی ڈونلڈ ٹرمپ جیسے ضدی اور ہٹیلے لیڈر بھی ایشیائی ممالک کے معاملے میں رویّہ نرم رکھنے پر مجبور ہوگئے۔اس کی ایک مثال پاکستان کے معاملے ہی میں سامنے آئی۔
کچھ عرصہ قبل افغان پالیسی جاری کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے پاکستان پر سخت تنقید کی تھی۔ تب لگتا تھا کہ دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی نچلے درجے پر پہنچ سکتے ہیں۔ بعدازاں امریکی ملٹی نیشنل کمپنیاں حرکت میں آگئیں۔ انہوں نے ٹرمپ حکومت کو باور کرایا کہ پاکستان ''ایمرجنگ مارکیٹوں'' میں شامل ایشیا کی ایک بڑی منڈی ہے۔ نیز یہ کہ وہاں تقریباً ایک کروڑ آبادی والا متوسط طبقہ جنم لے رہا ہے۔ لہٰذا امریکا کو اتنی بڑی منڈی سے ہاتھ دھونا مہنگا پڑے گا۔ دیگر عوامل کے علاوہ امریکی کمپنیوں کے دباؤ کی وجہ سے بھی ٹرمپ حکومت کو بسلسلہ پاکستان اپنا رویہ تبدیل کرنا پڑا۔ چناں چہ حال ہی میں امریکی کانگریس نے کولیشن سپورٹ فنڈ کے سلسلے میں پاکستان کو 700 ملین ڈالر دینے کی منظوری دے دی ۔ یہ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ امریکی کمپنیاں بڑی پاکستانی منڈی کو کھونا نہیں چاہتیں۔
امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی نگاہوں کا مرکز اگرچہ چین اور بھارت کا متوسط طبقہ ہے۔ برگر، چکن بروسٹ ، پنیر اور دیگر غذائیں بنانے والی مشہور امریکی کمپنیاں ہزاروں کی تعداد میں دونوں ممالک میں اپنے آؤٹ لٹ کھول رہی ہیں۔ عنقریب ان کمپنیوں کی آدھی سے زیادہ آمدن صرف چین اور بھارت سے حاصل ہوگی۔ایپل امریکا کی ان دیوہیکل کمپیوٹرکمپنیوں میں نمایاں ہے جو نئی ملازمتوں کو جنم اور معیشت کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ اس سال ایپل کو ''گریٹر چین'' سے ''45 ارب ڈالر'' کی آمدن ہوئی ہے۔ (گریٹر چین سے مراد چین، ہانگ کانگ، سنگاپور اور تائیوان ہے)۔ ایپل کے سی ای او، ٹم کک کا کہنا ہے:
''ہم ایشیا میں ازحد دلچسپی لے رہے ہیں۔ وجہ یہی کہ وہاں متوسط طبقہ خوب ترقی کررہا ہے۔'' گریٹر چین میں ایپل مصنوعات کی زبردست فروخت کے باعث ہی کمپنی کی آمدن میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
دلچسپ بات یہ کہ امریکی صدر ٹرمپ کی تان ابھی تک ''پہلے امریکا'' پر اٹکی ہوئی ہے۔ انہوں نے ویت نام میں منعقدہ حالیہ پیسفک رم سمٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا ''اب کوئی بھی امریکا سے فائدہ نہیں اٹھاسکتا۔ میں ہر قیمت پر پہلے امریکا کو رکھوں گا۔'' قوم پرست ٹرمپ کا یہ فلسفہ صنعتی و تجارتی (کارپوریٹ) امریکا سے براہ راست متصادم ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خود بھی کاروباری ہونے کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ امریکی جرنیلوں میں گھر چکے۔اور امریکی فوج اور حکومت امریکا میں شامل ''عقاب''امور خارجہ پہ کارپوریٹ امریکا سے مختلف سوچ اور پالیسی رکھتے ہیں۔
درحقیقت صدر ٹرمپ کے دورمیں امریکی فوج نے وائٹ ہاؤس پر قبضہ کر لیا ہے۔اب تمام اہم عہدوں پر سابق جرنیل براجمان ہیں۔امریکی جنرلوں کی سوچ یہ ہے کہ چین یورشیا (ایشیا و یورپ) میں اپنے دیوہیکل منصوبے،ون بیلٹ ون روڈ کے ذریعے اور بحرالکاہل کے علاقے میں مصنوعی جزائر کا جال بچھا کر سپر پاور بننا چاہتا ہے۔چناں چہ وہ چین کے عروج کو امریکی مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے اور مقامی اتحادیوں کی مدد سے ون بیلٹ ون روڈ کو ناکام بنانے کی خفیہ و عیاں کوششوں میں محو ہو چکے۔
کارپوریٹ امریکا مگرامریکی جنرلوں کے عزائم میں رکاوٹ بنا ہوا ہے اور اسی لیے وہ کھل کر نہیں کھیل سکتے۔وجہ یہی کہ امریکی کارپوریٹ بھی کوئی کمزور حریف نہیں !اس کو دنیا میں سب سے زیادہ بڑا، امیر ترین، عالمی سطح پر پھیلا، تخلیقی اور نہایت سرگرم نجی شعبہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کی شاخیں کرہ ارض کے کونے کونے تک پھیلی ہوئی ہیں۔ کولا مشروب بنانے والی امریکی کمپنیوں صرف دو ممالک... شمالی کوریا اور کیوبا میں کاروبار نہیں کرتیں۔ اسی طرح اگر فیس بک مملکت میں تبدیل ہو جائے، تو وہ بہ لحاظ آبادی دنیا کی سب سے بڑی مملکت ہوگی۔ بعض امریکی کمپنیوں مثلاً ایپل اور وال مارٹ کا سالانہ ٹرن اوور تو کئی ممالک کے جی ڈی پی سے زیادہ ہے۔ان امریکی کمپنیاں نے دیوہیکل صورت اس لیے بھی اختیار کی کہ ایشیائی ممالک میں ان کا کاروبار خوب پنپ رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں کارپوریٹ امریکا یہ کیونکر دعویٰ کرسکتا ہے کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہورہا؟
صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے حواری اکثر یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ تجارت اور کاروبار کا عالمی نظام نامنصفانہ ہے۔ اس کی وجہ سے امریکا میں معاشی بحران جنم لے چکا ۔وہ یہ فراموش کر بیٹھے کہ دنیا بھر میں جنگیں چھیڑنے کی وجہ سے امریکی میعشت قرضوں میں جکڑی گئی ۔وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ امریکا میں ''دو کروڑ ملازمتوں'' کا انحصار براہ راست برآمدات اور غیر ملکی سرمایہ کاری پر ہے۔ صدر ٹرمپ نے خاص طور پہ چین کو نشانے پر لے رکھا ہے۔ مگر پچھلے سال اسی چین نے امریکا میں 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور نیا ریکارڈ قائم کردیا۔ اس چینی سرمایہ کاری کے باعث امریکا میں معاشی سرگرمی اور نئی ملازمتوں نے جنم لیا۔
ٹرمپ حکومت کی بھر پور کوشش ہے کہ امریکا میں چینیوں کو بدنام کیا جائے۔ٹرمپ کا پٹھو امریکی میڈیا مسلسل چین کے خلاف جھوٹی سچی خبریں چھاپ رہا ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ ہر رات کو لاکھوں امریکی یہ دعا مانگ کر محو خواب ہوتے ہیں کہ خدارا ،چینی معیشت پھلتی پھولتی رہے۔ وجہ یہی کہ آج چین توانائی، دھاتیں، فلمیں، بیشتر اشیائے صرف حتیٰ کہ بیئر تک سب سے زیادہ استعمال کرنے والا ملک بن چکا۔آج چین کی معیشت ذرا سی بھی کمزور ہو، تو اس کے منفی اثرات ارجنٹائن سے لے کر انگولا تک دکھائی دیتے ہیں اور ظاہر ہے، امریکی معیشت بھی اس سے متاثر ہوتی ہے۔ حقیقتاً اب چین عالمی معیشت چلانے والا انجن بن چکا۔ اگر یہ انجن خراب ہوا، تو پوری دنیا معاشی زوال کا نشانہ بن سکتی ہے۔
عالمی معیشت کے ڈھانچے کو سہارا دینے میں اب براعظم ایشیا کا کردار بھی اہم بنتا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر سب سے بڑی پانچ سو امریکی کمپنیوں کے انڈکس (The Standard & Poor's 500) ہی کو دیکھیے۔ اس کے مطابق ان کمپنیوں کا تیار کردہ بیشتر سامان ایشیائی ممالک میں فروخت ہوتا ہے۔مزید براں ایشیا ہی دنیا میں سب سے بڑا درآمدی خطہ بن چکا۔ دنیا میں 36 فیصد درآمدات ایشیائی ممالک میں جاتی ہیں جبکہ امریکا اور یورپ،دونوں کا مجموعی حصہ 31 فیصد ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے، 2020ء میں صرف جنوب مشرقی ایشیا میں امریکا سے زیادہ سمارٹ فون مستعمل ہوں گے۔ انٹرنیٹ جنوبی ایشیا میں بھی تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔ بھارت میں ہر سیکنڈ تین نئے بھارتی دنیائے انٹرنیٹ میں داخل ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بھی نیٹ تیزی سے پھیل رہا ہے اور ہمارا وطن دنیا کی نمایاں ابھرتی مارکیٹ بن چکا۔
جغرافیائی سیاست اور پاکستان
وطن عزیز بہ لحاظ آبادی دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ ہمارے دیس میں نوجوانوں کی اکثریت ہے۔ نیز دنیا کی دسویں بڑی افرادی قوت (تقریباً تریسٹھ لاکھ لوگ) بھی یہیں بستے ہیں۔ اس بنا پر پاکستان بھی عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز بن چکا۔جغرافیائی سیاست نے سب سے پہلے پاکستان اور چین کو قریب تر کیا۔ پاکستان بجلی و گیس کی کمی کا شکار تھا۔ ادھر چین کے پاس کھربوں ڈالر کا زرمبادلہ محفوظ تھا اور وہ اپنے سرمائے کو مفید منصوبوں میں لگانا چاہتا تھا۔ چناں چہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا ذیلی منصوبہ،سی پیک منصوبہ عمل میں آیا جس کے تحت پاکستان میں توانائی کے کئی پروجیکٹ جاری و ساری ہیں۔ اس طرح چین کا ایک مقصد اپنے علاقائی اتحادی کو مضبوط و خوشحال بنانا بھی ہے۔
درج بالا تحریر ہو چکا کہ امریکی فوج چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔اس نے سعی کی تھی کہ پاکستان چینی منصوبے کا حصہ نہ بنے مگر پاکستانی حکومت نے امریکی جرنیلوں کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔اسی انکار کے باعث ہی امریکی حکمران طبقہ پاکستانی حکومت سے ناراض ہو گیا۔امریکی فوج پھر درپردہ بھارت اور اپنی پٹھو افغان حکومت کو شہہ دینے لگی کہ وہ اپنے ایجنٹوں اور پاکستان میں موجود غداروں کی مدد سے سی پیک منصوبے کے خلاف کارروائیاں کرنے لگیں۔چناں چہ بلوچستان میں جنم لیتے دہشت گردی کے واقعات اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے ہی امریکی فوج نے افغانستان سے اپنی واپسی کا پروگرام بھی ملتوی کر دیا اور بدستور ڈالروں کے عاشق اور انتہائی کرپٹ افغان حکمران طبقے کے بل پہ افغان عوام کے سروں پر سوار ہے۔
روس کی آمد
امریکی خفیہ سرپرستی میں جاری بھارتی و افغان دہشت گردی کے باوجود سی پیک منصوبے پہ کام جاری ہے۔اس کی وجہ سے اب ایک اور سپرپاور، روس بھی پاکستان سے اظہار قربت کرنے لگی ہے۔ روس کا بڑا حصہ ایشیا میں شامل ہے۔ نیز سیاسی، معاشرتی اور مذہبی طور پر روس کے مغرب سے تعلقات اکثر کشیدہ رہے ہیں۔ حالیہ دور میں کشیدگی نے 2014ء میں جنم لیا جب روس نے کریمیا جزیرہ نما پر قبضہ کرلیا۔ نتیجتاً یورپی ممالک اور امریکا نے روس پر تجارتی و مالی پابندیاں عائد کردیں۔یورپی منڈیوں سے محروم ہونے کے بعد روسی حکومت نے ایشیائی منڈیوں پر نگاہیں جما دیں۔ چناں چہ روس ایشیائی ممالک سے تجارتی و کاروباری تعلقات بڑھانے لگا۔ روس مغرب کو دکھا دینا چاہتا ہے کہ وہ اس کو الگ تھلگ نہیں رکھ سکتا اور یہ کہ روس اپنے قومی مفادات کے سلسلے میں کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا۔
روس قدرتی وسائل کی دنیا میں سب سے زیادہ ذخائر رکھتا ہے۔ وہ قدرتی گیس پیدا کرنے والا پہلا بڑا اور تیل کی پیداوار میں دوسرا بڑا ملک ہے۔ دنیا میں تیسرا سب سے زیادہ کوئلہ روس سے نکلتا ہے۔ لوہے کی کانیں بھی یہیں زیادہ واقع ہیں۔ دیگر اہم معدنیات مثلاً تانبے، نکل، ٹن، سیسہ، المونیم، کرومیم، سونا، چاندی وغیرہ کے بھی روس میں کثیر ذخائر ہیں۔ چناں چہ روسی حکومت انہی قدرتی وسائل اور جدید اسلحے کی فروخت سے آمدن پاتی ہے۔
مغرب سے اختلاف روس اور چین کو قریب لے آیا۔ چین کو تیل و گیس کی ضرورت ہے۔ لہٰذادونوں ممالک پچھلے پانچ برس میں تیل کی دو پائپ لائنیں تعمیر کر چکے ۔ ان کے ذریعے لاکھوں بیرل روسی تیل روزانہ چین پہنچ رہا ہے۔ درحقیقت چین اب روسی تیل کا سب سے بڑا خریدار بن چکا۔چین سے قربت کی بنا پر ہی روس اور پاکستان بھی نزدیک آ گئے۔ پاکستان کو بھی تیل و گیس درکار ہے تاکہ کاربار حیات چل سکے۔ خصوصاً پاکستان بجلی کی قلت کا شکار ہے ۔چنانچہ روس نے پاکستانی حکومت کو ایل این جی فروخت کرنے کی پیش کش کر دی تاکہ وہ بجلی گھر چلا سکے۔
روس نے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ پیش کش بھی کی کہ وہ کراچی سے ایل این جی گیس لاہور تک لانے کی خاطر پائپ لائن تعمیر کرنے میں پاکستان کی مدد کرے گا۔ اسی منصوبے کو تیل و گیس کی مشہور روسی کمپنی' گازپروم انجام دے گی۔ اس منصوبے پر دونوں ممالک کے مابین گفت وشنید جاری ہے۔ گازپروم پاکستان میں تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش میں پاکستانی سرکاری اداروں کی مدد کرنے کو بھی تیار ہے۔
روسی حکومت کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کے مخالف بھارت کے ساتھ دیرینہ تعلقات رکھتی ہے۔ دونوں ممالک نے مختلف شعبوں میں مل جل کر منصوبے شروع کر رکھے ہیں۔ لہٰذا روس پاکستان سے تعلق بڑھا کر بھارتی حکمران طبقے کو ناراض نہیں کر نا چاہتا۔ اسی لیے روسی حکومت پس پردہ رہ کر ہی پاکستان سے روابطہ رکھتی ہے۔تاہم ایسے اشارے ملے ہیں کہ امریکا سے بھارتی حکمران طبقے کی بڑھتی قربت روس کو کھٹک رہی ہے۔ اسی واسطے روسی حکومت نے بعض ایسے اقدامات کیے ہیں جو بھارت کے مفاد میں نہیں جاتے۔ مثلاً پچھلے ماہ ایران اور روس نے توانائی کا ایک اہم معاہدہ کیا ہے۔
اس معاہدے کے مطابق گازپروم ایران سے بھارت قدرتی گیس پہنچانے کے لیے ایک 1200 کلو میٹر طویل پائپ لائن تعمیر کرے گی۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ پائپ لائن پاکستان سے گزر کر بھارت پہنچے گی۔بھارت ایسی ایرانی گیس نہیں چاہتا جو بذریعہ پائپ لائن پاکستان سے گزر کر آئے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بھارت میں گیس کی طلب مسلسل بڑھ رہی ہے۔اگر بھارت مشرق وسطی سے گیس منگوائے تو اسے خاصی مہنگی پڑتی ہے۔ جبکہ ایرانی گیس سستی ہے۔ اب اس پائپ لائن منصوبے میں روس کی شمولیت سے ممکن ہے کہ مستقبل میں بھارت اسے تعمیر کرنے پر راضی ہو جا ئے۔ توانائی کی مسلسل بڑھتی طلب بھارتی حکمران طبقے کو پاکستان سے مفاہمت کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔
روسی حکومت کو اس امر پر بھی تشویش ہے کہ بھارت امریکی ماہرین عسکریات کو روس ساختہ جنگی طیارے اور آبدوزیں دکھانے لگا ہے۔ یوںامریکی ماہرین روسی ہتھیاروں کا معائنہ کر کے ان کی خامیوں اور خوبیوں سے آگاہ ہو رہے ہیں۔ اندرون خانہ روس نے بھارتی حکومت کو انتباہ کیا ہے کہ وہ امریکیوں کو روسی ساختہ اسلحے تک رسائی نہ دے۔
جغرافیائی سیاست کے سبب ایشیا اور مشرق وسطی میں تیزی سے جنم لیتی تبدیلیاں متقاضی ہیں کہ پاکستانی حکمران طبقہ ہوش وتدبر سے ان پہ نظر رکھے اور قومی مفادات مدنظر رکھتے ہوئے عملی قدم اٹھائے۔اس خطے میں مسلم دشمن قوتیں خصوصاً اسرائیل بھی بہت سرگرم ہو چکا جو عالم اسلام کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے تاکہ اپنی بقا یقینی بنا سکے۔ایسی صورت حال میں تمام اسلامی ممالک کو تفرقے میں پڑنے کے بجائے اتحاد ویکجہتی اختیار کرنا ہو گی ورنہ افسوس، عالم اسلام مذید کمزور وناتواں ہوتا جائے گا۔
روس کی ایشیائی ممالک پر نظریں
مغرب سے تعلقات میں کشیدگی اور ایشیا کی بڑھتی آبادی کے سبب روس پہلے کی نسبت اس براعظم میں زیادہ دلچسپی لینے لگاہے۔ ایشیائی ممالک سے قربت بڑھا کر روس ماضی کے مانند سپر پاور بھی بننا چاہتا ہے تاکہ مشرقی یورپ میں امریکا کے بڑھتے اثر ورسوخ کی روک تھام کر سکے۔ امریکا نے اپنی کرنسی' ڈالر کی مدد سے بھی عالمی معاشی نظام پر قبضہ کر رکھا ہے۔ چین اور روس مل کر ڈالر کی اہمیت بھی کم کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے' روس ایشیائی ممالک سے کاروبار کرتے ہوئے اپنی کرنسی' روبل استعمال کرنے لگا ہے۔ گویا خصوصاً تیل و گیس کے معاہدوں میں ڈالر کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔روس اور چین کے مرکزی (سنٹرل ) بینک تیزی سے سونا بھی خرید رہے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ لین دین کا ایسا بین الاقوامی ماحولیاتی نظام تخلیق کیا جائے جس میں ڈالر کی ضرورت نہ رہے۔ تاہم فی الحال یہ منزل خاصی دور ہے کیونکہ چین سمیت تمام اہم ممالک عالمی سطح پر کاروبار تجارت کرتے ہوئے ڈالر کو بطور کرنسی استعمال کرتے ہیں۔
امریکا اور نیٹو کا مقابلہ کرنے کی خاطر روس نے اپنا میزائل شکن جدید ترین نظام ایس 500 پرومیٹری بھی تیار کر لیا ہے۔ یہ سابقہ نظام ایس 400 سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ مزیربرآں روس اے 235 نوڈول میزائل شکن نظام بھی تیار کر رہا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ امریکا یا نیٹو سے آنے والے ایٹمی میزائل ہوا یا فضا ہی میں تباہ کیے جاسکیں۔
روس کے صدر ولادمیر پیوٹن براعظم ایشیا میں متحارب قوتوں کے ساتھ بڑی ہوشیاری سے پیش آ رہے ہیں۔ مثلاً حالیہ ماہ اکتوبر میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے روس کا دورہ کیا تھا۔ یہ ایک تاریخی موقع تھا کیونکہ سعودی عرب روایتی طور پر امریکی کیمپ میں شامل رہا ہے۔قابل ذکر بات یہ کہ دورے کے موقع پر روسی صدر نے اعلان کیا کہ روسی صدر عرب کو میزائل شکن نظام ایس 400 فروخت کرے گا۔ اس اعلان نے ایرانی لیڈروں کو بے چین کر دیا کیونکہ روس نے ایران کو کمتر میزائل شکن نظام ایس 300 فروخت کیا ہے۔ تاہم ایرانیوں کو مطمئن کرنے کی خاطر روسی حکومت نے ایران میں وسیع سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کر دیا۔ یوں روس نے مشرق وسطیٰ کی دونوں بڑی قوتوں کے درمیان توازن برقرار رکھا اور ان سے تعلقات بھی قائم کر لیے۔
چین با مقابلہ رشیا
چین کا عظیم الشان ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ چار براعظموں ...ایشیا، یورپ، افریقہ اور آسٹریلیا تک پھیلا ہوا ہے۔ دنیا کے ساٹھ سے زائد ممالک اس منصوبے میں شامل ہو چکے ۔ جب بھی یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا، عالمی سطح پر چین کے اثر ورسوخ میں زبردست اضافہ ہو جائے گا۔اسی منصوبے کے باعث وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ میں بھی چین کا اثر ورسوخ بڑھے گا۔ اس صورت حال کو روس تشویش کی نظروں سے دیکھتا ہے۔ اگرچہ روس کو بھی ون بیلٹ ون روڈ منصوبے سے بہت فائدہ پہنچے گا مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس کی تکمیل کے بعد وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ میں وہ چین کے بعد دوسرے درجے کی طاقت بن سکتا ہے۔یاد رہے، ماضی میں چین اور روس متحارب قوتیں رہی ہیں۔ اٹھارہویںصدی میں روسیوں نے چینی منچوریا کا آدھا علاقہ بزور ہتھیا لیا تھا۔ تب سے دونوں ممالک کے مابین تناؤ چلا آ رہا ہے۔ 1969ء میں تو تناؤ اتنا بڑھ گیا کہ سوویت یونین اور چین اپنی تقریباً ساری افواج منچوریا کی سرحدوں پر لے آئے تھے۔ اسی واقعہ کے بعد امریکی صدر رچرڈ نکسن نے بذریعہ پاکستان چینی حکومت سے رابطے بڑھائے تاکہ سوویت یونین کو دنیا میں تنہا کیا جاسکے۔
اب امریکا کوشش کر رہا ہے کہ روس اور چین کے مابین پرانی دشمنی کو تازہ کر دیا جائے۔ اس سلسلے میں بعید نہیں کہ امریکی چین یا روس میں کوئی جعلی حملہ کرا دیں تاکہ دونوں ممالک کے مابین شکوک وشبہات پیدا ہو جائیں لہٰذا چینی اور روسی حکومت کو امریکی کیمپ سے خبردار وہوشیار رہنا ہو گا۔ امریکا کی یہ بھی سعی ہے کہ چین اور روس میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے معمولی سے ناروا سلوک والے واقعے کو مغربی میڈیا بڑھا چڑھا کر بیان کرے۔ مدعا یہ ہے کہ مسلم ایشیائی ممالک میں چین اور روس کے خلاف نفرت بڑھائی جاسکے۔