لاکھوں بھارتی لڑکیاں کہاں گم ہوجاتی ہیں

دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت میں گزشتہ 30 برسوں میں ایک کروڑ 20 لاکھ لڑکیاں قتل کردی گئیں


تزئین حسن November 26, 2017
انڈیا میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے، رائٹرز کی ایک رپورٹ

لاہور: بھارتی ریاست ہریانہ کا ضلع مہندر گڑھ شیر شاہ سوری کی جائے پیدائش کے طور پر معروف ہے۔

گھوڑوں کے ایک عام افغان تاجر کے بیٹے شیر شاہ سوری نے ہندوستان پر پانچ سال حکومت کی اور اس قلیل عرصہ میں کلکتہ سے پشاور تک جرنیلی سڑک تعمیر کروا کر تاریخ میں اپنا نام امر کرا گیا۔ حالیہ برسوں میں مہندرگڑھ کی ایک بارپھرخوب چرچاہورہی ہے، تاہم اب اس چرچاکا سبب شیرشاہ نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ جوراسی، ضلع مہندرگڑھ کی تحصیل نارونال کا ایک گائوں ہے۔ مہندرگڑھ اس وقت خطے میں تعلیم کا گڑھ ہے۔ یہاں تک کہ جورآسی گائوں میں بھی شرح تعلیم 80 فیصد ہے مگر علاقے کی وجہ شہرت اس کی بلند شرح تعلیم بھی نہیں بلکہ آبادی میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی قلیل تعداد ہے۔

'ہفنگٹن پوسٹ انڈیا' کے مضمون 'Mahendragarh of Girls Missing The' کے مطابق سن 2014 میں گائوں میں6 لڑکیاں اور 28 لڑکے پیدا ہوئے۔مضمون کے مطابق نارونال کے گورنمنٹ گرلز اسکول کے پرنسپل پون بھردواج کا کہنا ہے کہ پیدائش سے قبل بچے کی جنس معلوم کرنا گائوں میں عام ہے۔خصوصاً اگر پہلا بچہ لڑکی ہے تو ماں باپ الٹراساونڈ کے ذریعے جنس معلوم کر کے ابارشن کروا لیتے ہیں۔ پورے گائوں میں شاید ہی کوئی خاندان ایسا ہو جہاں دو لڑکیاں ہوں۔ مضمون کے مطابق گائوں کی2000 کی آبادی میں1000نابالغ لڑکے اور 286 لڑکیاں ہیں۔ 'جوراسی' لڑکیوں کی کم شرح پیدائش کے حوالے سے ہریانہ میں پہلے نمبر پر آتا ہے مگر باقی بھارت کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔

عالمی خبر رساں ادارے' رائٹرز' کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔1961ء کی مردم شماری میں ہر ایک ہزار لڑکوں کے مقابلے میں 972 لڑکیاں تھیں جبکہ 2011ء کی مردم شماری (تازہ ترین یہی ہے) میں ہر ایک ہزار لڑکوں کے مقابلے میں 919 لڑکیاں تھیں۔

سن2011ء کی ایک تحقیق کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پچھلی تین دہائیوں میں بھارت میں 12ملین یعنی ایک کروڑ بیس لاکھ لڑکیاں مائوں کے پیٹ ہی میں قتل کر دی گئیں۔ واضح رہے کہ دیگرمتعدد تحقیقات کے مطابق لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد میں کمی قدرتی نہیں ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ہر جگہ لڑکیوں کے زندہ رہنے کی شرح لڑکوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ سبب یہ ہے کہ میڈیکل سائنس کے مطابق ان کا مدافعتی نظام لڑکوںکی نسبت بہترہوتا ہے۔ بھارت میں لڑکیوں کی تعداد میں کمی کے دو اہم اسباب بتائے جاتے ہیں۔ اولاً ماں کے پیٹ میں بچیوں کا قتل جسے سلیکٹو ابارشن بھی کہا جاتا ہے، ثانیاً بیٹی پیدا ہونے کے بعد شیر خوارگی میں اس کا قتل۔ ماں کے پیٹ میں بچوں کی جنس معلوم کرنے کا رحجان انڈیا میں بہت عام ہے حتیٰ کہ بڑے شہروں اور تعلیم یافتہ طبقات میں بھی الٹرا سائونڈ کلینکس کے لئے یہ نہایت نفع بخش کاروبار ہے حالانکہ قا نوناً اس پر پابندی عائدہے۔اقوام متحدہ کے اعداد شمار کے مطابق دنیا بھر میں200 ملین لڑکیاں ماں کے پیٹ میں یا ایک سال کی عمر سے پہلے ہی قتل کردی جاتی ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق بھارت اس وقت ماں کے پیٹ میں بچیوں کے قتل عام کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہے، دوسرا نمبر چین کا ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اور معروف ماہر معاشیات امرتا سین جن کا تعلق بھی بھارت سے ہے، اسے Missing Women Syndrome کا نام دیتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان بچوں کو مارنے والے کوئی اور نہیں خود ان کے اپنے ماں باپ ہوتے ہیں۔ ان بچیوں کا قصور اس کے سوا کچھ نہیںکہ یہ لڑکی کے طور پر پیدا ہوئیں۔ بڑے بھارتی اخبار'ٹائمز آف انڈیا' کی ایک رپورٹ کے مطابق سن2000 میں انڈیا میں ہر ایک سو لڑکیوں کی اموات کے مقابلے میں لڑکوں کی56 اموات ہوئیں جبکہ ترقی پذیر دنیا میں اسی سال ہرایک سو لڑکیوں کے مقابلے میں111 لڑکے فوت ہوئے۔ اس معاملے میں تیزی سے معاشی ترقی کرتا بھا رت، پاکستان، مصر سری لنکا حتیٰ کہ جنگ زدہ عراق سے بھی پیچھے ہے۔

اقوام متحدہ کے ڈیپارٹمنٹ آف اکنامکس اور سوشل افیئرز کے 150 ملکوں میں 40برس تک ہونے والی ریسرچ کے مطابق پوری دنیا میں انڈیا اور چین دو ہی ممالک ہیں جہاں لڑکیوں کی شرح اموات لڑکوں سے زیادہ ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ہر ایک سو لڑکیوں کے مقابلے میں ترقی پذیر تیسری دنیا میں 122 لڑکے، جبکہ چین میں76 لڑکے اور بھارت میں 97 لڑکے شیر خوارگی ہی میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ پاکستان میں 112 لڑکے اور سری لنکا 125 لڑکے ایک سو لڑکیوں کے مقابلے میں شیر خوارگی میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اسی طرح لڑکیوں کی اموات کے لحاظ سے چین پہلے اور بھارت دوسرے نمبر پر ہے، پاکستان حتیٰ کہ سری لنکا کی لڑکیاں بھی ان کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہیں۔

بھارت میں لڑکیوں کا قتل نیا نہیں بلکہ 'برٹش آرکائیوز' کے مطابق 1789ء میں بھارت کے شمال مغربی صوبہ اتر پردیش کے ایک مجسٹریٹ نے اپنے ایک خط میں اس بات کا ذکر کیا کہ کئی صدیوں سے مین پوری ریاست کے راجائوں کے خاندان میں کوئی بیٹی سن بلوغت کو نہیں پہنچی مگر 1845ء میں اس ریاست میں انگریز ڈسٹرکٹ کلیکٹر کی مداخلت سے ایک بیٹی کے زندہ پرورش پانے کا ثبوت ملتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ بیٹی کو مارنے کی رسم محض غربت یا بدحالی کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ اس کے دوسرے محرکات بھی ہیں۔

لڑکیوں کو مارنے کی یہ رسم کوئی جدید معاشرتی خرابی بھی نہیں۔ تحقیقات کے مطابق اس قبیح رسم کی تاریخ انسانی تاریخ جتنی ہی پرانی ہے، لیری اے ملنر لیلا ولیم سن کے ایک مضمون INFANTICIDE HISTORY OF BRIEF A کے مطابق لڑکیوں کے شیر خوارگی میں قتل کے آثار تاریخ کے ہر معاشرے میں، ہر براعظم پر، اور مہذب اور غیر مہذب ہر قوم میں ملتے ہیں۔ یاد رہے کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت عرب کے کچھ قبیلوں میں بھی لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کا رواج تھا جس پر قران اور حدیث میں براہ راست گرفت کی گئی ہے۔ اگرچہ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں میں لڑکیوں کو قتل کرنے کا رواج نہیں مگر لڑکی کی پیدائش کو ماں باپ کے لئے تحقیر کی نظر سے دیکھنے اور انھیں بوجھ سمجھنے کا رواج ہندوستانی معاشرے کے زیر اثر عام ہے۔

جنوبی ایشیا جس میں پاکستان بھی شامل ہے، میں یہ ایک اجتماعی مائنڈ سیٹ ہے کہ لڑکے کو اسٹیٹس سمبل سمجھا جاتا ہے، اس کی پیدائش خاندان کی عزت میں اضافے کا باعث سمجھی جاتی ہے۔ لڑکوں کی تعداد جتنی زیادہ ہو، ان کے والدین کی تکریم اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کی شادی کے موقع پر دلہن والوں سے جہیز کے نام پر مختلف بہانوں سے قیمتی تحفے بھی ملنے کی امید ہوتی ہے جو ایک طرح سے لڑکی کے کمتر وجود کے ہرجانے یا تاوان کے طور پر اسکے ماں باپ کے لئے ضروری ہوتاہے۔ دراصل جہیز کی یہ رسم والدین کے ہاتھوں لڑکیوں کے قتل کے اس مکروہ جرم کی سب سے بڑی تحریک ہے۔

بچیوں کو بچہ دانی میں یا ایک سال کی عمر سے قبل مارنے کے عموماً دو محرکات بیان کیے جاتے ہیں۔ اولاً زراعت سے منسلک خاندانوں میں معاشی طور پر بیٹوں کی اہمیت اور غربت کی وجہ سے لڑکیوں کا بوجھ ، ثانیاً لڑکی کی شادی پر دیا جانے والا جہیز، تاہم یہ مسئلہ اتنا سادہ نہیں۔ خصوصاً جب یہ قبیح رسم خوش حال گھرانوں میں بھی عام ہو یہاں تک کے راجوں مہا راجوں میں بھی اس کے ثبوت ملتے ہوں۔ خوش حال گھرانوں میں ایسا اس لئے بھی کیا جاتا ہے کہ قانون کے مطابق بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ دینا ہوتا ہے، یوںجائیداد تقسیم ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ ہمارے ہاں اس مسئلے کا حل جاگیردار گھرانوں میں قرآن سے شادی کی صورت میں نکالا جاتا ہے۔

تحقیق کے مطابق عموماً لڑکیوں کے قتل کے اس مکروہ جرم کا ارتکاب باپ کی نسبت مائیں زیادہ کرتی ہیں۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بچے کی جنس کے حوالے سے باپ کے مقابلے میں ماں زیادہ دبائوکا شکار ہوتی ہے۔ معاشرے میں بچی کی پیدائش پر ماں ہی کو عموماً طعنے دیے جاتے ہیں اور اسے ہی گھر میں نحوست کو لانے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک ماں ہی کومعلوم ہوتا ہے کہ ایسے معاشرے میں بچی کی زندگی میں آگے جا کر کیا مشکلات آسکتی ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا بچیوں کے لئے دنیا میں جان لیوا حد تک خطرناک جگہ ہے۔ اقوام متحدہ کے 'ڈیپارٹمنٹ آف اکنامکس اور سوشل افیئرز' کے مطابق ایک سے پانچ سال کی بچییوں کی شرح اموات لڑکوں کے مقابلے میں75 فیصد زیادہ ہوتی ہیں۔ بچوں کے حقوق کی ایک تنظیم کا کہنا ہے کے بھارت میں ہر سال ایک کروڑ بیس لاکھ لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں جن میں سے 10لاکھ لڑکیاں ایک سال کی عمر سے پہلے مر جاتی ہیں۔

چین میں 'ایک بچہ پالیسی' کی صورت میں حکومت خود اس جرم میں شریک ہے، بھارت کے قانون میں اس قبیح جرم کے خلاف دفعات موجود ہیں مگر ان پرعمل نہ ہونے کے برابر ہے، پورے بھارت میں اس جرم میں شاید ہی کسی کو سزا ہوئی ہو۔ امید افزاء بات یہ ہے کہ بھارت کی کئی تنظیمیں اس مسئلے کے حوالے سے عوام میں بیداری پیدا کررہی ہیں اور متعدد ڈاکومنٹریز اس مسئلے کو اجاگر کرنے کے لئے منظر عام پرآ چکی ہیں۔ اس مکروہ جرم کے ختم کرنے کے لئے جہیز کی رسم کا خاتمہ اور اس سے بڑھ کر رویوں میں تبدیلی بہت ضروری ہے۔ سماجی مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انٹلیکچوئل کمیونٹی کے ساتھ ساتھ بالی ووڈ کا کوئی خان بھی اس مسئلے کو اجاگر کرنے کے لئے فلم بنائے کہ بالی ووڈ نہ صرف بھارت بلکہ مسلم ممالک سمیت ساری دنیا میں واضح اثر رسوخ رکھتا ہے۔

اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کے بچی کی پیدائش کو حقارت کی نظر سے دیکھنا، بیٹی اور بیٹے کے درمیان تفریق اور جہیزکی لعنت پاکستانی معاشرے میں بھی دین اسلام کی واضح تعلیمات کے باوجود موجود ہے۔ ہمارے ہاں ہر ایک ہزار مردوں کے مقابلے میں 972 عورتیں ہیں۔ جنس کا یہ تناسب بھارت کے مقابلے میں بہتر سہی لیکن باقی دنیا کے مقابلے میں ہم اب بھی بہت پیچھے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں