تعلقات

نفسیات، مزاج، عادات، شخصیت میں فرق ہونے کے باوجود بھی لوگ ایک دوسرے کے قریب آجاتے ہیں۔

علم نفسیات کے سیکھنے اور سِکھانے کے تمام دروازے اِس بات پر بند کردیے جاتے ہیں کہ عام زندگی میں اِس سے کیا حاصل۔ فوٹو : فائل

ثانیہ کی کوئی کہانی نہیں ہے۔ کروڑوں لوگوں کی طرح ثانیہ کی زندگی بھی کہانی سے خالی ہے۔ سانولی رنگت، خوب صورت تیکھے نقش دبلی پتلی ثانیہ کو ایک آفس میں کام کرتے لگ بھگ سال ہونے کو آرہا ہے۔ ابھی چند ماہ پہلے اُس نے B.A. کا امتحان بھی دیا ہے۔ دِل سے کام کرنے والی، محنتی ثانیہ اپنے گھر کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے گھر سے باہر نکلی ہے۔ اُس جیسی لاکھوں لڑکیاں معاشی تنگ دستی کم کرنے کے گھر کے کام اور گھر کا آرام ترک کرکے نوکری کرنے پر مجبور ہے۔

بظاہر ثانیہ کی کوئی کہانی نہیں ہے۔ لیکن کروڑوں لوگوں کی طرح ثانیہ بھی اپنی ایک کہانی کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے۔ جِن لوگوں کی کوئی کہانی نہیں ہوتی وہ بھی اپنے اندر اپنی اپنی کہانی جی رہے ہوتے ہیں۔ نازنین بھی ثانیہ کے ساتھ اُسی آفس میں نوکری کرتی ہے۔ اُس کی طبیعت، مزاج، نفسیات، شخصیت، عادات ثانیہ سے بالکل مختلف ہیں۔ لمبی، ذرا سی چوڑی، سفید رنگ اور بناؤ سنگھار کی دلدادہ۔ روز دس بارہ بار آئینے کے سامنے منٹ دو منٹ ضرور کھڑے ہونا اور نوک پلک سنوارنا۔ بظاہر نازنین کی بھی کوئی کہانی نہیں ہے۔

وہ بھی بحالت مجبوری ثانیہ کی طرح نوکری کرنے نکلی ہے۔ دونوں لڑکیوں کی یہ پہلی نوکری ہے۔ دونوں سیدھی سادھی، بھولی بھالی اور معصوم ہیں۔ لیکن باقی اور حوالوں سے دونوں کی شخصیت جداگانہ سے۔ نازنین، ثانیہ سے عُمر میں بھی کم ہے اور تعلیم میں بھی اور نوکری میں بھی۔ لیکن اُس کے رنگ روپ اور نازوانداز کچھ ایسے ہیں کہ بقول خود اُس کے، اُس کو پسندکرنے والے ہزار ہیں اور چلتے پھرتے اور آفس سے گھر آتے جاتے اُسے ہر عُمر کے مرد کی نظریں اور جُملے برداشت کرنے پڑتے ہیں، جب کہ ثانیہ کا کہنا ہے کہ اُسے آفس جاتے ہوئے اتنے دن ہوگئے، اُس کے ساتھ کبھی ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ لیکن یہ دوسری بات ہے کہ نازنین کے ساتھ کام کرتے، اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے، باتیں کرتے آہستہ آہستہ ثانیہ کے اندر بھی آئینہ دیکھنے اور موبائیل پر Facebook پیج کو update کرنے کی عادت پیدا ہوگئی ہے۔ ثانیہ کی آواز کا Volume قدرتی طور پرذرا زیادہ ہے۔ وہ آفس کے دیگر اسٹاف سے جب بھی باتیں کرتی ہے تو اُس کی آواز دور تک سُنی جاسکتی ہے۔ اُس کے لہجے میں بھی کرختگی ہے، جب کہ نازنین کے لب و لہجے میں نزاکت ہے۔ اِس کے باوجود دونوں لڑکیوں میں لڑنے، اُلجھنے اور رونے کی خوبیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ نازنین پڑھائی سے دور بھاگتی ہے۔ ثانیہ کو آگے پڑھنے کا شوق ہے۔ اِس فرق کے باوجود دونوں میں اچھی دوستی ہے۔

نفسیات، مزاج، عادات، شخصیت میں فرق ہونے کے باوجود بھی لوگ ایک دوسرے کے قریب آجاتے ہیں۔ اور اُن میں بڑی گہری اور لمبی دوستیاں استوار ہوجاتی ہیں۔ الگ الگ ثقافت، تہذیب اور معاشرے اور ماحول میں رہنے والے لوگ بھی اکثر ایک دوسرے کے گہرے دوست بن جاتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ذہنی و جذباتی ہم آہنگی نہ ہونے پر بھی دوستی کا رشتہ بن جاتا ہے۔

درحقیقت کِسی بھی تعلق، رشتے یا Bond کے بننے میں قدرت، وقت، ضرورت اور مصلحت کا اہم کردار ہوتا ہے۔ حالات و واقعات ، مخصوص وقت میں مخصوص لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لے آتے ہیں۔ ضرورتیں، مجبوریاں یا مصلحتیں کبھی تو تعلق کے ناتوں کو مضبوط کردیتی ہیں اور کبھی وقت گزرنے کے ساتھ بڑے بڑے قریبی تعلق بھاپ بن کر اُڑ جاتے ہیں۔

کچھ ساتھ، کچھ تعلق، کچھ دوستیاں کِسی خاص وجہ سے ہوتی ہیں اور کچھ کی بظاہر کوئی وجہ نہ نظر آپاتی ہے، نہ سمجھ میں آپاتی ہے۔ ہم خیال و ہم مزاج لوگوں کے درمیان تعلق قائم ہونا تو سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن جب انتہائی مختلف مزاج اور نفسیات کے حامل افراد ایک دوسرے کے ساتھ گھنٹوں گزارتے دکھائی دیتے ہیں تو عِلم نفسیات کے کئی اُصول اور قاعدے اِس گتھی کو سُلجھانے کے لیے High Alert ہوجاتے ہیں۔ اور اُس وقت تو چند ایک کے Fuse ہی اُڑ جاتے ہیں جب شمال جنوب اور مشرق مغرب کی انتہائی دو رُخی سوچ کے مالک، عُمر بھر کے لیے ازدواجی بندھن میں بندھتے ہوئے اور پھر تمام عُمر ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہوئے دِکھائی دیتے ہیں۔

کچھ لوگ ایسے اچھوتے تعلق کو نصیب کے زُمرے میں ڈالتے ہیں۔ اور کچھ لوگ مقناطیس کے Oppsosite Poles کے ایک دوسرے کی جانب کھنچنے کی کشش کو وجہ قرار دیتے ہیں۔ اور کچھ لوگ اِس طرح کے Bond کی وجہ Spritual Connection سمجھتے ہیں۔

اِنسان اور انسانی روّیوں اور عادتوں اور تعلقات اور اِنسان کی نفسیات اور شخصیت کے ایسے ہی عجیب ومنفرد و متضاد اور ناقابل فہم زاویوں اور حوالوں کی تشریح کے لیے ماہرین نفسیات، مابعدالنفسیات یا پیراسائیکالوجی Para Psychology کے مضمون اور اصطلاح کی مدد لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اِنسان اور اُس کی شخصیت کے حوالے سے ہر وہ بات یا کلیہ جو مرّوجہ عِلم نفسیات کے کِسی اصول، قاعدے، تحقیق یا Research نہ ہوئی ہو یا نہیں ہوسکتی ہو یا فی زمانہ ممکن نہ ہو یا اُس کے Parameters اور Predictors متعیّن نہ ہو پارہے ہوں، اُسے پیراسائیکالوجی کے Domain میں ڈال دیا جاتا ہے۔


Dream Interpretation سے لے کر پامسٹری Palmistry تک، علم الاعداد Numerology سے لے کر Astrology اسٹرولوجی تک کے علوم ہوں یا پھر Metaphysical اور روحانی Spritual حوالے ہوں۔ یہ تمام علوم ہماری مدد کرتے ہیں انسانی نفسیات و شخصیت کے اُن پیچیدہ، گنجلک اور متضاد حوالوں اور زاویوں کو سمجھنے میں جو عمومی نفسیات ہمیں نہیں بتا پاتی۔

ہماری معاشرت و ثقافت میں عام طور پر روحانی علوم اور روحانیت کو تو مذہب کی Category میں ڈال دیا جاتا ہے اور دیگر ما بعد النفسیاتی علوم کو یہ کہہ کر رد کردیا جاتا ہے کہ اِن علوم کا عمل اور استعمال غیرمذہبی ہے اور ہمارے مذہب میں اِن کی ممانعت ہے۔

اور علم نفسیات کے سیکھنے اور سِکھانے کے تمام دروازے اِس بات پر بند کردیے جاتے ہیں کہ عام زندگی میں اِس سے کیا حاصل۔ یہ تو پاگلوں کے علاج یا پاگل پن کی وجوہات جاننے کا علم ہے۔

درحقیقت اور کئی Misconceptions کی طرح ہم لوگوں نے نفسیات کے ایک جُز ابنارمل سائیکالوجی Abnormal Psychology کو پھیلا اور پُھلا کر اتنا بڑا کررکھا ہے کہ علم نفسیات اور مابعدالنفسیات کے جاننے اور اُن کو اپنی زندگی میں عملی طور پر لاگو کرنے سے وہ تمام ہزاروں فائدے ہم سے دور ہوگئے ہیں جو روزمرّہ کے معاملات اور آپس کے تعلقات کو بہت عُمدہ بناسکتے ہیں۔

مثال کے طور پر اگر کِسی کے ایک ہاتھ میں دِل اور دماغ کی ایک ہی لکیر ہے تو اُس کے ساتھ کِسی بھی قِسم کا ذاتی یا کاروباری تعلق ذرا احتیاط کے ساتھ رکھنا چاہیے۔ لیکن اگر اُس کے دونوں ہاتھوں میں ہی دِل اور دماغ کی ایک ہی لکیر ہو تو احتیاط کا دامن سو گُنا بڑھادینا چاہیے۔ کیوں؟ وجہ جاننے کے لیے آپ بھی پامسٹری کی بنیادی کتابوں کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ اِس طرح اگر ہمارے نام اور ہماری تاریخ پیدائش کا، علم الاعداد کے تحت، نمبر ایک ہی بنتا ہے تو اُس کے اثرات ہماری شخصیت اور ہمارے معاملات پر ایک الگ طرح سے پڑیں گے۔ اِس علم کی مدد سے اگر ہم اپنے بچوں کے نام رکھتے ہیں اُن کی تاریخ پیدائش کو مدّنظر رکھ کر، تو لامحالہ اُن کو اپنی زندگیوں میں زیادہ آسانیاں ملنے کا امکان ہوتا ہے۔ اِسی طرح اگر ہم اپنی شخصیت اور مزاج کے مطابق مخصوص رنگوں کا استعمال کرتے ہیں تو ہماری روحانی کشش میں اضافہ ممکن ہے۔

اور اَسی طرح اگر ہم علم نفسیات کے بنیادی اصول جان کر اپنے اور دوسرے لوگوں کے مختلف روّیوں اور عادتوں کا مشاہدہ کریں گے تو ہمیں ایسا لگے گا کہ بہت سے بھیدوں پر سے پردہ اٹھتا جارہا ہے۔ اور ہمیں اپنے غصّے اور سامنے والے کی محبت کی اصل وجہ کی سمجھ آنے لگی ہے۔

کِسی بھی شے کا استعمال اُسے اچھا یا بُرا بناتا ہے۔ اللہ نے کوئی عِلم ایسا نہیں پیدا کیا جو انسان کے لیے فائدہ مند نہ ہو۔ ایٹم کا استعمال Atomic Bomb کی شکل میں ہوگا تو نقصان ہی نقصان ہے۔ چاقو چھری سے پھل سبزی کاٹی جائے تو ایک بات ہے اور کِسی کی گردن کاٹ لی جائے تو صریحاً دوسری بات۔ یہ ہم پر ہے کہ ہم اپنے سیکھے ہوئے عِلم کو لوگوں کے لیے کتنا منفعت بخش بناسکتے ہیں۔ عِلم نفسیات اور اِس سے جُڑے ہوئے تمام نفسیاتی اور مابعدالنفسیاتی علوم، بنیادی طور پر اِنسان کی بہبود اور بھلائی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان سے شناسائی ہمیں اپنے تعلقات بہتر بنانے اور اپنے معاملات سنوارنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

پھر ہمیں ثانیہ اور نازنین جیسے ہزاروں لاکھوں کِرداروں کی نفسیات اور شخصیت جلد سمجھ میں آنے لگتی ہے اور ہم اپنی زندگی میں اپنی پسند کے لوگوں کے ساتھ اپنی خواہش کے مطابق حسب ضرورت تعلقات استوار کرسکتے ہیں اور اپنے ساتھ دوسروں کے لیے بھی آسانی پیدا کرنے کے مواقع فراہم کرسکتے ہیں۔
Load Next Story