مسلم ممالک میں دہشت گردی کا عفریت

اس حملے کو مصر میں جاری حالیہ کشیدگی کے بعد ہونے والا بدترین حملہ قرار دیا جا رہا ہے


Editorial November 26, 2017
اس حملے کو مصر میں جاری حالیہ کشیدگی کے بعد ہونے والا بدترین حملہ قرار دیا جا رہا ہے ۔ فوٹو : فائل

مصرکے شمالی صوبے سینائی میں نماز جمعہ کے دوران دہشت گردوں نے مسجد میں خود کش دھماکا کیا اور بعد میں فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ڈھائی سو کے لگ بھگ نمازی شہید اور ڈیڑھ سو زخمی ہوگئے۔ مسلم ممالک تو روایتی مذمتی بیانات دیتے ہی ہیں البتہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس دہشت گردی کی مذمت کی ہے۔

اس بدترین دہشت گردی میں مبینہ طور پر ملوث داعش نامی تنظیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ''ایں ہمہ آوردہ تست'' یعنی یہ سب کیا دھرا آپ ہی کا جناب ہے۔ یہاں اشارہ امریکا کی طرف ہے۔ مشرق وسطیٰ میں تباہی پھیلانے کا آغاز امریکا کے سابق صدر جارج بش جونیئر نے نائن الیون کے بہانے افغانستان پر اندھا دھند بمباری سے کیا اور پھر جنگ کا خرچہ نکالنے کے لیے تیل کی دولت سے مالا مال عراق پر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا جھوٹا الزام لگا کر حملہ کر دیا اور سب سے پہلے عراقی تیل کے ذخائر پر قبضہ کیا گو بعد ازاں برملا تسلیم کیا کہ وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بارے میں ان کی انٹیلیجنس اطلاعات غلط تھیں۔ چہ خوب کہ لاکھوں عراقیوں کی ہلاکت کا کوئی مواخذہ ہی نہیں۔

اس کے بعد صدر اوباما نے بھی اسی پالیسی کو جاری رکھا اور لیبیا پر قبضہ کیا گیا جو افریقہ کا سب سے خوشحال ملک بلکہ فلاحی مملکت تھی جہاں دنیا بھر کے باشندے روزگار کی تلاش میں پہنچتے تھے اور جس پر کوئی غیر ملکی قرضہ نہ تھا۔ مگر امریکا نے اسے برباد کر کے رکھ دیا، قذافی کو قتل کرایا گیا، جہاں تک یمن اور شام وغیرہ کا تعلق ہے تو ان کو بھی ہمہ یاراں دوزخ کی ذیل میں شامل کر لیا گیا۔ مصر ابھی تک خانہ بربادوں کی اس فہرست سے باہر تھا جہاں وسیع پیمانے پر دہشت گردی کے ذریعے کارروائی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔

یہ ہولناک واقعہ سینائی کے دارالحکومت العریش سے40 کلومیٹر دور قصبے بیرالعَبدکی الروضہ مسجد میں پیش آیا۔ حکام کے مطابق چار آف روڈ گاڑیوں میں آنے والے مسلح افراد نے مسجد میں جمعہ کے خطبے کے دوران دھماکا اور نمازیوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں دو سو کے لگ بھگ افراد موقع پر شہید ہو گئے جبکہ بہت سے نمازی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اسپتالوں میں چل بسے۔ شہید ہونے والوں میں عورتیں، بچے اور فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے دہشتگردی کا نشانہ بننے والے علاقے میں ہنگامی حالت نافذ کر دی ہے اور ملک بھر میں 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔

اس حملے کو مصر میں جاری حالیہ کشیدگی کے بعد ہونے والا بدترین حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔ میڈیا کے مطابق حملہ بظاہر دہشتگرد تنظیم داعش سے منسلک مقامی شدت پسند تنظیم نے کیا۔ واضح رہے کہ شمالی سینائی خطے میں مبینہ اسلامی عسکریت پسند کئی برسوں سے متحرک ہیں لیکن ان کا نشانہ زیادہ تر سیکیورٹی فورسز ہوتی ہیں۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ انھوں نے مسجد میں نمازیوں کو نشانہ بنایا ہے۔ حملے کا نشانہ بننے والی مسجد صوفی ازم کے پیروکاروں میں مقبول ہے جنھیں شدت پسندوں کی جانب سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

2013ء کے بعد سے مصر میں حکومت اور باغیوں کے ساتھ لڑائی میں بھی شدت آئی ہے۔ تب سے سیکڑوں پولیس اہلکار، فوجی اور عام شہری حملوں میں مارے جا چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر حملے سینائی صوبے کے اس گروہ کی جانب سے ہی کیے گئے جو دولت اسلامیہ سے منسلک ہے۔ حملوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے فوجی کارروائیوں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ فوج کے آئے دن بیانات سامنے آتے رہتے ہیں کہ اس نے سینا کے مختلف حصوں میں عسکریت پسندوں پر فتح حاصل کر لی ہے لیکن فوج اور شدت پسندوں کے درمیان جاری لڑائی ختم ہوتی نظر نہیں آ رہی۔

مشرق وسطیٰ اور اس کے اردگرد حالات انتہائی تشویشناک ہیں، شام، یمن، عراق اور لیبیا تباہ ہو چکے ہیں۔ مصر میں حالات قدرے بہتر ہیں لیکن اب وہاں سے بھی تباہی کے اشارے مل رہے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک اور شمالی افریقہ کے مسلم ممالک خانہ جنگی اور بدامنی کا شکار ہیں۔ مصر، سوڈان، لیبیا وغیرہ کی حالت خراب ہے۔ موریطانیہ، تنزانیہ، مالی وغیرہ غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ دیگر مسلم ممالک جن میں افغانستان شامل ہے، اس کی حالت سب کے سامنے ہے۔

مصر میں جو کچھ ہوا ہے، یہ اسلامی ممالک کی المناک صورت حال کی ایک مثال ہے۔ مسلم ممالک کی قیادت کو انقلابی اور غیر روایتی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ مسلم ممالک میں ایسے گروہ جو ریاست کی رٹ کو چیلنج کر کے بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام کا سبب بن رہے ہیں، ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ مصر میں مسجد میں جو دھماکا ہوا ہے اور اس میں جو شہادتیں ہوئی ہیں، یہ صرف مصر کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ تمام مسلم ممالک کو اس کی سنگینی پر غور کر کے متفقہ پالیسی تیار کرنی چاہیے اور دہشت گرد گروہوں کے خاتمہ کے لیے متحد ہونا چاہیے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں