پارلیمنٹ کا فیصلہ
آج دنیا میں پارلیمنٹ اور پارلیمانی سیاست کسی سیاسی تنہائی میں نہیں دیکھی جاتی۔
RIYADH:
دنیا میں پارلیمانی جمہوریت بنیادی طور پر اپنی ساکھ اور صلاحیت کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے ۔یہ ساکھ کی اہم کنجی اصولی معیارات اور سنجیدہ طرز فکر پر مبنی سیاست اور اس سے جڑے ہوئے فیصلوں کے ساتھ پرکھی جاتی ہے ۔لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری سیاست اور جمہوریت سے وابستہ فریقین جمہوری طرز فکر کی سیاست پر بڑی فوقیت دیتے ہیں، لیکن عملی طور پر ان کی سیاست میں جمہوریت اور پارلیمانی روایات سمیت پارلیمنٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
ہمارے جیسے ملکوں میں سیاسی فریقین پارلیمنٹ کو جمہوری سیاست میں اپنے مخصوص اور فرد واحد پر مبنی مفاد کو سامنے رکھ کر بطور ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔پارلیمانی اور جمہوری سیاست کا فہم اور ادراک رکھنے والے اس بات کی گواہی دیں گے کہ ہم ابھی مجموعی طور پر پارلیمانی اور جمہوری سیاست سے بہت دور کھڑے ہیں ۔
آج دنیا میں پارلیمنٹ اور پارلیمانی سیاست کسی سیاسی تنہائی میں نہیں دیکھی جاتی۔ دنیا میں پارلیمانی اور جمہوری سیاست کو جانچنے والے اہم ادارے مختلف ملکوں کے نظام کو جانچ کر اس کی درجہ بندی کرتے ہیں ۔یہ بجا کہ پاکستان میں جمہوری اور پارلیمانی سیاست کا عمل تواتر سے نہیں چل سکا ، بار بار کی غیر جمہوری مداخلتوں نے اس نظام کو کمزور کیا ۔لیکن جو وقت جمہوری اور سیاسی قوتوں کو ملا اس سے جمہوری اور پارلیمانی طرز سیاست کو کوئی مضبوط بنیاد فراہم نہیں کی جاسکی۔
پارلیمنٹ کے سامنے جہاں سیاسی مفادات اہم ہوتے ہیں وہیں اس کی اہم ترجیحات میں ریاستی اور قومی مفادات کو ہر سطح پر فوقیت دی جاتی ہے ، وگرنہ دوسری صورت میں پارلیمنٹ اپنی بے توقیری کا سبب بنتی ہے ۔یہ بات بجا ہے کہ سیاست یا پارلیمنٹ کے فیصلوں میں عددی تعداد کو سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے ۔لیکن عددی تعداد میں برتری کے باوجود فیصلوں کی سیاسی اور اخلاقی ساکھ کو بنیاد بنا کر سیاسی اصول وضع کیے جاتے ہیں ، تاکہ بہتر سیاسی تشخص قائم ہو۔
حال ہی میں پارلیمنٹ میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد ان کو پارٹی کی قیادت سے روکنے کا پیپلز پارٹی کی طرف سے پیش کردہ بل کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا ہے ۔اس بل کی حمایت میں 98جب کہ مخالفت میں 163ووٹ پڑے ۔ اس عددی برتری کے بعد نواز شریف کی بطور پارٹی صدر کے فیصلے کی توثیق کی گئی۔
یقینی طور پر نواز شریف کی سیاست کے تناظر میں یہ اہم کامیابی ہے کیونکہ جو لوگ ان کو پارٹی صدارت سے بھی علیحدہ کرنے کے خواہش مند ہیں ان کو سیاسی پسپائی اختیارکرنا پڑی ۔کیونکہ حکمران جماعت مسلم لیگ )ن ( کو پارلیمنٹ میں عددی برتری حاصل ہے ۔ یہ منظر ظاہر کرتا ہے کہ تمام تر سیاسی ، انتظامی اور قانونی مشکلات کے باوجود نواز شریف کی پارٹی پر گرفت موجود ہے ، اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
لیکن اس عددی برتری کے باوجود یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پارلیمنٹ کی ساکھ پر سیاسی اور اخلاقی تناظر میں کئی سوالات اٹھتے ہیں ۔ اگرچہ ہماری سیاست میں اخلاقیات پر مبنی اصول کہاں ہیں جو ماتم کیا جائے ۔لیکن جو کچھ ہوا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ پوری قانون سازی کا محور فرد واحد کی بالادستی اور اس کے ذاتی سیاسی مفاد سے جڑا ہوا تھا۔
یہ بات بجا کے سیاسی جماعت کے لیے اس کا اپنا سیاسی مفاد زیادہ اہم ہوتا ہے ،لیکن اس کے باوجود دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ اس مفاد میں پارلیمنٹ اپنی حیثیت منواتی ہے یا اس پر سوالات اٹھتے ہیں ۔اس لیے اس فیصلہ کے خلاف جو آوازیں اٹھ رہی ہیں ان کو یکسر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔لیکن یہ واقعی دنیا کی سیاسی تاریخ کا اہم واقعہ ہے کہ کسی فرد کو ملک کی سب سے بڑی عدالت کی جانب سے نااہل قرار دیا جاتا ہے ، جب کہ وہ اور اس کی جماعت اسے صدر کے لیے اہل سمجھتی ہے ۔
اس عدی برتری سے نواز شریف کی صدارت تو بچ گئی ،لیکن کوئی اچھی پارلیمانی روایت قائم نہیں ہوسکی ۔یقینی طور پر اس بل کے مسترد ہونے کے بعد یہ لڑائی ختم نہیں ہوئی بلکہ اس میں کئی اور پہلو سامنے آگئے ہیں ۔پہلا مسئلہ تو قانونی ہے ۔ اگرچہ پارلیمنٹ سپریم ہے مگر سپریم کورٹ کے پاس یہ اختیارکہ وہ کسی بھی منظور شدہ قانون پر اس کی حمایت اورمخالفت کی تشریح یا فیصلہ کرسکتی ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ اس فیصلہ کے فوری بعد سپریم کورٹ کی جانب سے رجسٹرار کی مسترد کردہ درخواست کو سماعت کے لیے قبول کرنا ظاہر کرتا ہے کہ اس مسئلہ پر قانونی جنگ ابھی باقی ہے ۔اس درخواست میں بنیادی نقطہ یہ ہی اٹھایا گیا ہے کہ ایک نااہل فرد پارٹی صدر نہیں بن سکتا۔اگر فیصلہ قانونی محاذ پر نواز شریف کے خلاف آتا ہے تو پھر حکومت عدلیہ کو ٹارگٹ کرے گی ، جو بلاوجہ ٹکراؤ پیدا کرے گا ۔
بدقسمتی سے ہماری سیاسی روایت یہ بن گئی ہے کہ سیاسی فریقین جب خود سے اپنے معاملات حل کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو متبادل کے طور پر اعلی عدلیہ کی طرف دیکھتے ہیں ۔پہلے ہی یہ بحث پاکستان میں موجود ہے کہ سیاسی قیادتوں کی طرف سے ہر مسئلہ کو عدلیہ میں لے جانے سے سیاسی نظام مستحکم نہیں بلکہ کمزور ہوا ہے۔
بات بڑی سادہ سی ہے کہ جب عددی برتری کو بنیاد بنا کر سیاسی جماعتیں ، قیادتیں یا پارلیمنٹ کوئی بھی فیصلہ کرتی ہے جس میں مشاورت نہ ہو تو لوگوں کے پاس متبادل راستہ عدالتیں ہی رہ جاتی ہیں ۔کیونکہ قانونی فیصلوں کی تشریح کا حق عدلیہ کے پاس ہی ہوتا ہے ۔حزب اختلاف کی جماعتوں کے پاس ایک آپشن عدلیہ ہے تو دوسری آپشن پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کو بلانا بھی ہوسکتا ہے جہاں اس مسئلہ کو دوبارہ سے پیش کیا جائے ۔
ممکن ہے کہ حکمران جماعت کے لیے حالیہ فیصلہ اور عددی برتری جمہوریت کی فتح ہو، لیکن پارلیمنٹ میں ہونے والے بیشتر فیصلوں کی پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر رائے مخالفت ہوسکتی ہے ۔ اگر یہ دلیل مان لی جائے کہ پارلیمنٹ کا ہر فیصلہ مقدس ہے تو پھرماضی میں بھی پارلیمنٹ کے ہونے والے تمام وہ برے فیصلے بھی قبول کرنے ہونگے جو سیاسی اور فوجی حکمران نے عددی برتری کی بنیاد پر اپنی آمرانہ سوچ اور سیاست کو طاقت فراہم کرنے کے لیے کیے۔لیکن یہ عجیب بات ہے کہ پارلیمنٹ کے بعض فیصلے جو ہماری حمایت میں ہے وہ ٹھیک اور جو ہماری مخالفت میں ہیں وہ غلط ہوتے ہیں۔
ممکن ہے کہ نواز شریف کی بطور صدر یہ فیصلہ کسی کے لیے جمہوری ہو ، لیکن اس کے دوررس اثرات ضرور سامنے آئیں گے ۔ عام افراد یہ گلہ کرتے ہیں کہ ہماری پارلیمنٹ عوامی مفادات سے زیادہ شخصی یا طاقت پرمبنی مفادات کے تابع ہوتی ہے جو جمہوری اصولوں کے برعکس ہے ۔
دنیا میں پارلیمانی جمہوریت بنیادی طور پر اپنی ساکھ اور صلاحیت کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے ۔یہ ساکھ کی اہم کنجی اصولی معیارات اور سنجیدہ طرز فکر پر مبنی سیاست اور اس سے جڑے ہوئے فیصلوں کے ساتھ پرکھی جاتی ہے ۔لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری سیاست اور جمہوریت سے وابستہ فریقین جمہوری طرز فکر کی سیاست پر بڑی فوقیت دیتے ہیں، لیکن عملی طور پر ان کی سیاست میں جمہوریت اور پارلیمانی روایات سمیت پارلیمنٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
ہمارے جیسے ملکوں میں سیاسی فریقین پارلیمنٹ کو جمہوری سیاست میں اپنے مخصوص اور فرد واحد پر مبنی مفاد کو سامنے رکھ کر بطور ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔پارلیمانی اور جمہوری سیاست کا فہم اور ادراک رکھنے والے اس بات کی گواہی دیں گے کہ ہم ابھی مجموعی طور پر پارلیمانی اور جمہوری سیاست سے بہت دور کھڑے ہیں ۔
آج دنیا میں پارلیمنٹ اور پارلیمانی سیاست کسی سیاسی تنہائی میں نہیں دیکھی جاتی۔ دنیا میں پارلیمانی اور جمہوری سیاست کو جانچنے والے اہم ادارے مختلف ملکوں کے نظام کو جانچ کر اس کی درجہ بندی کرتے ہیں ۔یہ بجا کہ پاکستان میں جمہوری اور پارلیمانی سیاست کا عمل تواتر سے نہیں چل سکا ، بار بار کی غیر جمہوری مداخلتوں نے اس نظام کو کمزور کیا ۔لیکن جو وقت جمہوری اور سیاسی قوتوں کو ملا اس سے جمہوری اور پارلیمانی طرز سیاست کو کوئی مضبوط بنیاد فراہم نہیں کی جاسکی۔
پارلیمنٹ کے سامنے جہاں سیاسی مفادات اہم ہوتے ہیں وہیں اس کی اہم ترجیحات میں ریاستی اور قومی مفادات کو ہر سطح پر فوقیت دی جاتی ہے ، وگرنہ دوسری صورت میں پارلیمنٹ اپنی بے توقیری کا سبب بنتی ہے ۔یہ بات بجا ہے کہ سیاست یا پارلیمنٹ کے فیصلوں میں عددی تعداد کو سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے ۔لیکن عددی تعداد میں برتری کے باوجود فیصلوں کی سیاسی اور اخلاقی ساکھ کو بنیاد بنا کر سیاسی اصول وضع کیے جاتے ہیں ، تاکہ بہتر سیاسی تشخص قائم ہو۔
حال ہی میں پارلیمنٹ میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد ان کو پارٹی کی قیادت سے روکنے کا پیپلز پارٹی کی طرف سے پیش کردہ بل کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا ہے ۔اس بل کی حمایت میں 98جب کہ مخالفت میں 163ووٹ پڑے ۔ اس عددی برتری کے بعد نواز شریف کی بطور پارٹی صدر کے فیصلے کی توثیق کی گئی۔
یقینی طور پر نواز شریف کی سیاست کے تناظر میں یہ اہم کامیابی ہے کیونکہ جو لوگ ان کو پارٹی صدارت سے بھی علیحدہ کرنے کے خواہش مند ہیں ان کو سیاسی پسپائی اختیارکرنا پڑی ۔کیونکہ حکمران جماعت مسلم لیگ )ن ( کو پارلیمنٹ میں عددی برتری حاصل ہے ۔ یہ منظر ظاہر کرتا ہے کہ تمام تر سیاسی ، انتظامی اور قانونی مشکلات کے باوجود نواز شریف کی پارٹی پر گرفت موجود ہے ، اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
لیکن اس عددی برتری کے باوجود یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پارلیمنٹ کی ساکھ پر سیاسی اور اخلاقی تناظر میں کئی سوالات اٹھتے ہیں ۔ اگرچہ ہماری سیاست میں اخلاقیات پر مبنی اصول کہاں ہیں جو ماتم کیا جائے ۔لیکن جو کچھ ہوا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ پوری قانون سازی کا محور فرد واحد کی بالادستی اور اس کے ذاتی سیاسی مفاد سے جڑا ہوا تھا۔
یہ بات بجا کے سیاسی جماعت کے لیے اس کا اپنا سیاسی مفاد زیادہ اہم ہوتا ہے ،لیکن اس کے باوجود دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ اس مفاد میں پارلیمنٹ اپنی حیثیت منواتی ہے یا اس پر سوالات اٹھتے ہیں ۔اس لیے اس فیصلہ کے خلاف جو آوازیں اٹھ رہی ہیں ان کو یکسر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔لیکن یہ واقعی دنیا کی سیاسی تاریخ کا اہم واقعہ ہے کہ کسی فرد کو ملک کی سب سے بڑی عدالت کی جانب سے نااہل قرار دیا جاتا ہے ، جب کہ وہ اور اس کی جماعت اسے صدر کے لیے اہل سمجھتی ہے ۔
اس عدی برتری سے نواز شریف کی صدارت تو بچ گئی ،لیکن کوئی اچھی پارلیمانی روایت قائم نہیں ہوسکی ۔یقینی طور پر اس بل کے مسترد ہونے کے بعد یہ لڑائی ختم نہیں ہوئی بلکہ اس میں کئی اور پہلو سامنے آگئے ہیں ۔پہلا مسئلہ تو قانونی ہے ۔ اگرچہ پارلیمنٹ سپریم ہے مگر سپریم کورٹ کے پاس یہ اختیارکہ وہ کسی بھی منظور شدہ قانون پر اس کی حمایت اورمخالفت کی تشریح یا فیصلہ کرسکتی ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ اس فیصلہ کے فوری بعد سپریم کورٹ کی جانب سے رجسٹرار کی مسترد کردہ درخواست کو سماعت کے لیے قبول کرنا ظاہر کرتا ہے کہ اس مسئلہ پر قانونی جنگ ابھی باقی ہے ۔اس درخواست میں بنیادی نقطہ یہ ہی اٹھایا گیا ہے کہ ایک نااہل فرد پارٹی صدر نہیں بن سکتا۔اگر فیصلہ قانونی محاذ پر نواز شریف کے خلاف آتا ہے تو پھر حکومت عدلیہ کو ٹارگٹ کرے گی ، جو بلاوجہ ٹکراؤ پیدا کرے گا ۔
بدقسمتی سے ہماری سیاسی روایت یہ بن گئی ہے کہ سیاسی فریقین جب خود سے اپنے معاملات حل کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو متبادل کے طور پر اعلی عدلیہ کی طرف دیکھتے ہیں ۔پہلے ہی یہ بحث پاکستان میں موجود ہے کہ سیاسی قیادتوں کی طرف سے ہر مسئلہ کو عدلیہ میں لے جانے سے سیاسی نظام مستحکم نہیں بلکہ کمزور ہوا ہے۔
بات بڑی سادہ سی ہے کہ جب عددی برتری کو بنیاد بنا کر سیاسی جماعتیں ، قیادتیں یا پارلیمنٹ کوئی بھی فیصلہ کرتی ہے جس میں مشاورت نہ ہو تو لوگوں کے پاس متبادل راستہ عدالتیں ہی رہ جاتی ہیں ۔کیونکہ قانونی فیصلوں کی تشریح کا حق عدلیہ کے پاس ہی ہوتا ہے ۔حزب اختلاف کی جماعتوں کے پاس ایک آپشن عدلیہ ہے تو دوسری آپشن پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کو بلانا بھی ہوسکتا ہے جہاں اس مسئلہ کو دوبارہ سے پیش کیا جائے ۔
ممکن ہے کہ حکمران جماعت کے لیے حالیہ فیصلہ اور عددی برتری جمہوریت کی فتح ہو، لیکن پارلیمنٹ میں ہونے والے بیشتر فیصلوں کی پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر رائے مخالفت ہوسکتی ہے ۔ اگر یہ دلیل مان لی جائے کہ پارلیمنٹ کا ہر فیصلہ مقدس ہے تو پھرماضی میں بھی پارلیمنٹ کے ہونے والے تمام وہ برے فیصلے بھی قبول کرنے ہونگے جو سیاسی اور فوجی حکمران نے عددی برتری کی بنیاد پر اپنی آمرانہ سوچ اور سیاست کو طاقت فراہم کرنے کے لیے کیے۔لیکن یہ عجیب بات ہے کہ پارلیمنٹ کے بعض فیصلے جو ہماری حمایت میں ہے وہ ٹھیک اور جو ہماری مخالفت میں ہیں وہ غلط ہوتے ہیں۔
ممکن ہے کہ نواز شریف کی بطور صدر یہ فیصلہ کسی کے لیے جمہوری ہو ، لیکن اس کے دوررس اثرات ضرور سامنے آئیں گے ۔ عام افراد یہ گلہ کرتے ہیں کہ ہماری پارلیمنٹ عوامی مفادات سے زیادہ شخصی یا طاقت پرمبنی مفادات کے تابع ہوتی ہے جو جمہوری اصولوں کے برعکس ہے ۔