بچت کا تصور پیوست خاک کیوں
بچت کی ضرورت اور اہمیت کو زمانہ قدیم ہی سے محسوس کیا گیا ہے۔
ایک وقت تھا جب لوگ سادہ زندگی بسرکیا کرتے تھے۔ روپے پیسے کی ریل پیل تک نہیں تھی اور نہ ہی لوگوں میں دولت کے حصول کی طمع تھی ۔ عورتوں میں نت نئے فیشن اور نمود ونمائش کا رواج تک نہ تھا، زندگی نہایت پر سکون تھی۔ کاروباری کھانے کے بجائے گھریلوکھانے کی تیاری عروج پر تھی اورگھرکے تمام افراد ایک ساتھ بیٹھ کرکھانا کھاتے تھے۔ کمانے والا ایک اورکھانے والے کنبے کے کئی افراد کے باوجود آپس میں محبتیں تھیں۔ خونی رشتوں اور خاندانی پاسداری کا خیال رکھا جاتا تھا۔
آبادی کی قلت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ گاؤں اور دیہات شہر سے نہایت ہی کم مسافت پر واقع تھے۔ زمین زرخیز ہوا کرتی تھی ۔ چھوٹے اور بڑوں کے درمیان عزت واحترام کا مقدس رشتہ استوار تھا۔ کم عمر اور جوان بچیوں میں شرم وحیا تھی۔ خورونوش کی اشیا آپ کی دسترس میں تھیں۔ ارد گرد کا ماحول نہایت خوشگواراورصحت افزا ہوا کرتا تھا ۔لڑکے اور لڑکیوں کے رشتہ ناتے آپس ہی میں طے پا جاتے تھے اور یوں خاندان کی روایت، عزت وناموس اور بھرم قائم رہتا تھا ۔
گھرکے معاشی نظام کا انحصار سونا چاندی اور نقدی یا زرکی صورت میں تھا۔ یہ وہ دور تھا جب بینکنگ نظام نہیں تھا اور لوگ اپنی بچت زیر زمین چھپا کر دیا کرتے تھے۔ سونا ایک قیمتی اور نایاب دھات ہے جو زمانہ قدیم ہی سے ہمارے معاشرے کی صنف نازک کی کمزوری رہی ہے اور یوں سونا نسل درنسل اپنی بہو، بیٹیوں کو جہیز کی صورت میں دے دیا جاتا تھا ۔
بچت کی عادت ایک ایسا انسانی وصف ہے جو عقل ودانش کی بنیاد پر محدود آمدنی میں سے کچھ رقم پس انداز کر لے تاکہ جمع شدہ رقم بوقت ضرورت کام آسکے، کسی کی محتاجی بھی نہ رہے۔ بچت کی ضرورت اور اہمیت کو زمانہ قدیم ہی سے محسوس کیا گیا ہے۔ جس کا اندازہ یہاں سے لگایا جاسکتا ہے کہ معاشی ترقی کے لیے پیش رفت اس وقت تک ناممکن ہے جب تک ملک میں رہنے والا ہر شہری اپنی آمدنی سے کچھ رقم اپنے ضروری اخراجات کو منہا کرنے کے بعد پس انداز نہ کر لے۔
یہ اس صورت ممکن ہو سکتا ہے جب تک ملک میں ہر شہری کی اوسطا آمدنی بنیادی اشیا کی قوت خرید سے زیادہ ہو۔ لوگوں کا بچت سے جمع شدہ سرمایہ بالکل ایسا ہے جیسے انسان کے بدن میں خون کا وافر ذخیر ہ۔ جدید ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ انسان کی خواہشات بے شمار ہیں جب کہ وسائل محدود ہیں جس کو سامنے رکھتے ہوئے انھوں نے عدم ترجیح کا نظریہ متعارف کروایا۔ نظریے کے تحت ایسی ضروریات جن کا نعم البدل نہیں ان کی ترجیحات کو اولیت دی جائے اور بقیہ کسی اور وقت کے لیے چھوڑ دیا جائے۔
بے جا اخراجات ، اسراف، فضول خرچی سے کسی حد تک اجتناب کیا جائے۔ قرآن ناطق میں متعدد جگہ اسراف اور فضول خرچی سے منع فرمایا ہے۔ اس ضمن میں خصوصی طور پر پروفیسر رابنز، آدم اسمتھ نے معاشی ترقی کے لیے صر ف دولت کا جو تصور دیا تھا اس کو مشعل راہ بنا کر کسی حد تک غربت و افلاس و بیروزگاری سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اسی لیے فردوسی نے خوب کہا تھا ''استقلال دولت کی کنجی ہے اورکفایت شعاری اس کا تالا '' اور ادھر ارسطو بھی کچھ اسی طرح فرماگئے ''خواہشات کی یلغار انسان کوکمزور بنا دیتی ہے'' آپ اپنے پڑوسی ملک ''چین'' ہی کی مثال لے لیںجو دنیا کی دوسری معاشی طاقت بن چکا ہے۔ اس ہدف کے حصول کے لیے انھوں نے سب سے پہلے ملک سے کرپٹ سیاستدانو ں کا خاتمہ کیااور ٹیکس فری، بجلی فری گھریلوصنعتوں (Cottage Industries) کو بھرپور فروغ دیا اور نشے کی عادی قوم کو ترقی یافتہ دنیا کی صف میں لاکھڑا کیا۔ اسی طرح ترکی اور جرمنی کی زندہ مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔
سب سے پہلے اٹلی کی یونیورسٹی کے معروف پروفیسر فلیپورویزا نے 1924میں اس حقیقت سے پردہ فاش کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا کہ ''کفایت شعاری یا بچت کے بغیر دنیا میں معاشی انقلاب برپا کرنا قطعا نا ممکن ہے۔کفایت شعاری اور بچت کے اس مشن کی آبیاری لیے موصوف نے 31 اکتوبر 1924 کو ''ورلڈ سوسائٹی آف سیونگ بینکس '' کی باضابطہ بنیاد رکھی جس کے تحت اٹلی ہی کے شہر ''ملانو'' میں عالمی سیونگ بینکس کانگریس کا انعقاد کیا گیا۔
کانگریس کے اختتام پر متفقہ طورپر ہر سال 4 نومبرکو ''بچت کا عالمی دن '' منانے کا حتمی فیصلہ کیا گیا۔ اس تحریک کا مقصد لوگوں میں بچت یا کفایت شعاری دونوں انفرادی اوراجتماعی سطح پر جدید معیشت کے فروغ اور ترقی کے لیے آگاہی میں تیزی سے اضافہ کرنا ہے ۔ حسب معمول گزشتہ سالوں کی طرح اس سال کو بھی ''ہمارے مستقبل کا آغاز ہماری بچتوں سے ہے '' سلوگن سے منسوب کیا گیا ہے۔ اس امر پر زور دیا گیا کہ نقد زر کی صورت میں بچایا گیا سرمایہ بطور زر امانت سیونگ بینکوں میں جمع کروایا جائے نہ کہ اس پیسے کو زیر زمین دفن کیا جائے۔
بینکاری کا سسٹم کا آغاز اسی دور سے ہوا اور دنیا کے کئی ممالک میں ''سیونگ بینک '' کی شاخوں کا جال بچھنا شروع ہوگیا۔ ان سیونگ بینکوں میں لوگوں کی بچت شدہ رقمیں تمسکات) Deposits ) کی شکل میں جمع ہونگیں۔ ظاہر ہے سرمایہ کاری ہوگی، نئی صنعتیں لگیں گیں، روزگار کے مواقعے پیدا ہونگے، صنعتیں ترقی کریں گی تو بیرونی دنیا سے تجارت بڑھے گی جس سے خاطر خواہ سرمایہ زر مبادلے کی شکل میں ملے گا۔ ادھر آپ کی درآمدات اور برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔
پاکستان کے معرض وجود کے وقت ریاست مالی مشکلات کا شکار تھی۔ ہندوستان کے شہر بمبئی میں قائم مسلمان بینک اور دیگر مالیاتی اداروں نے مالی مدد دے کر اس نوزائیدہ مملکت کو سہارا دیا بینک کا انحصار بھی لوگوں کی بچت پر تھا۔ اس بینک کا نعرہ تھا ''آج بچایے کل کام آئے گا '' بچت کی عادت کے فروغ کے لیے اس بینک نے اسکولوں کی سطح پر نو عمر طلبا و طالبات میں سیونگ بینک اکاؤنٹ متعارف کروائے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے چند دنوں بعد مملکت کے مالی امور چلانے کے لیے مرکزی بینک کی بنیاد رکھی ۔ افسوس ! ملک کا موجودہ معاشی ڈھانچہ بیرونی قرضوں پرکھڑا ہے۔ ہر شخص یا ادارہ صرف اور صرف اپنے منافعے میں راتوں رات اضافے کے لیے اپنے '' منجن'' کی فروخت میں مصروف ہے۔ اب سیونگ بینکینگ کی جگہ ٹھیکے داری نظام کے تحت کنزیومر بینکینگ نے لے لی ہے۔ ملک میں بیروز گاری اور بڑھتی ہوئی مہنگائی نے لوگو ں کی قوت خرید کا پیمانہ گرا کر بچت کا تصور بھی پیوست خاک کردیا ہے۔
آبادی کی قلت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ گاؤں اور دیہات شہر سے نہایت ہی کم مسافت پر واقع تھے۔ زمین زرخیز ہوا کرتی تھی ۔ چھوٹے اور بڑوں کے درمیان عزت واحترام کا مقدس رشتہ استوار تھا۔ کم عمر اور جوان بچیوں میں شرم وحیا تھی۔ خورونوش کی اشیا آپ کی دسترس میں تھیں۔ ارد گرد کا ماحول نہایت خوشگواراورصحت افزا ہوا کرتا تھا ۔لڑکے اور لڑکیوں کے رشتہ ناتے آپس ہی میں طے پا جاتے تھے اور یوں خاندان کی روایت، عزت وناموس اور بھرم قائم رہتا تھا ۔
گھرکے معاشی نظام کا انحصار سونا چاندی اور نقدی یا زرکی صورت میں تھا۔ یہ وہ دور تھا جب بینکنگ نظام نہیں تھا اور لوگ اپنی بچت زیر زمین چھپا کر دیا کرتے تھے۔ سونا ایک قیمتی اور نایاب دھات ہے جو زمانہ قدیم ہی سے ہمارے معاشرے کی صنف نازک کی کمزوری رہی ہے اور یوں سونا نسل درنسل اپنی بہو، بیٹیوں کو جہیز کی صورت میں دے دیا جاتا تھا ۔
بچت کی عادت ایک ایسا انسانی وصف ہے جو عقل ودانش کی بنیاد پر محدود آمدنی میں سے کچھ رقم پس انداز کر لے تاکہ جمع شدہ رقم بوقت ضرورت کام آسکے، کسی کی محتاجی بھی نہ رہے۔ بچت کی ضرورت اور اہمیت کو زمانہ قدیم ہی سے محسوس کیا گیا ہے۔ جس کا اندازہ یہاں سے لگایا جاسکتا ہے کہ معاشی ترقی کے لیے پیش رفت اس وقت تک ناممکن ہے جب تک ملک میں رہنے والا ہر شہری اپنی آمدنی سے کچھ رقم اپنے ضروری اخراجات کو منہا کرنے کے بعد پس انداز نہ کر لے۔
یہ اس صورت ممکن ہو سکتا ہے جب تک ملک میں ہر شہری کی اوسطا آمدنی بنیادی اشیا کی قوت خرید سے زیادہ ہو۔ لوگوں کا بچت سے جمع شدہ سرمایہ بالکل ایسا ہے جیسے انسان کے بدن میں خون کا وافر ذخیر ہ۔ جدید ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ انسان کی خواہشات بے شمار ہیں جب کہ وسائل محدود ہیں جس کو سامنے رکھتے ہوئے انھوں نے عدم ترجیح کا نظریہ متعارف کروایا۔ نظریے کے تحت ایسی ضروریات جن کا نعم البدل نہیں ان کی ترجیحات کو اولیت دی جائے اور بقیہ کسی اور وقت کے لیے چھوڑ دیا جائے۔
بے جا اخراجات ، اسراف، فضول خرچی سے کسی حد تک اجتناب کیا جائے۔ قرآن ناطق میں متعدد جگہ اسراف اور فضول خرچی سے منع فرمایا ہے۔ اس ضمن میں خصوصی طور پر پروفیسر رابنز، آدم اسمتھ نے معاشی ترقی کے لیے صر ف دولت کا جو تصور دیا تھا اس کو مشعل راہ بنا کر کسی حد تک غربت و افلاس و بیروزگاری سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اسی لیے فردوسی نے خوب کہا تھا ''استقلال دولت کی کنجی ہے اورکفایت شعاری اس کا تالا '' اور ادھر ارسطو بھی کچھ اسی طرح فرماگئے ''خواہشات کی یلغار انسان کوکمزور بنا دیتی ہے'' آپ اپنے پڑوسی ملک ''چین'' ہی کی مثال لے لیںجو دنیا کی دوسری معاشی طاقت بن چکا ہے۔ اس ہدف کے حصول کے لیے انھوں نے سب سے پہلے ملک سے کرپٹ سیاستدانو ں کا خاتمہ کیااور ٹیکس فری، بجلی فری گھریلوصنعتوں (Cottage Industries) کو بھرپور فروغ دیا اور نشے کی عادی قوم کو ترقی یافتہ دنیا کی صف میں لاکھڑا کیا۔ اسی طرح ترکی اور جرمنی کی زندہ مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔
سب سے پہلے اٹلی کی یونیورسٹی کے معروف پروفیسر فلیپورویزا نے 1924میں اس حقیقت سے پردہ فاش کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا کہ ''کفایت شعاری یا بچت کے بغیر دنیا میں معاشی انقلاب برپا کرنا قطعا نا ممکن ہے۔کفایت شعاری اور بچت کے اس مشن کی آبیاری لیے موصوف نے 31 اکتوبر 1924 کو ''ورلڈ سوسائٹی آف سیونگ بینکس '' کی باضابطہ بنیاد رکھی جس کے تحت اٹلی ہی کے شہر ''ملانو'' میں عالمی سیونگ بینکس کانگریس کا انعقاد کیا گیا۔
کانگریس کے اختتام پر متفقہ طورپر ہر سال 4 نومبرکو ''بچت کا عالمی دن '' منانے کا حتمی فیصلہ کیا گیا۔ اس تحریک کا مقصد لوگوں میں بچت یا کفایت شعاری دونوں انفرادی اوراجتماعی سطح پر جدید معیشت کے فروغ اور ترقی کے لیے آگاہی میں تیزی سے اضافہ کرنا ہے ۔ حسب معمول گزشتہ سالوں کی طرح اس سال کو بھی ''ہمارے مستقبل کا آغاز ہماری بچتوں سے ہے '' سلوگن سے منسوب کیا گیا ہے۔ اس امر پر زور دیا گیا کہ نقد زر کی صورت میں بچایا گیا سرمایہ بطور زر امانت سیونگ بینکوں میں جمع کروایا جائے نہ کہ اس پیسے کو زیر زمین دفن کیا جائے۔
بینکاری کا سسٹم کا آغاز اسی دور سے ہوا اور دنیا کے کئی ممالک میں ''سیونگ بینک '' کی شاخوں کا جال بچھنا شروع ہوگیا۔ ان سیونگ بینکوں میں لوگوں کی بچت شدہ رقمیں تمسکات) Deposits ) کی شکل میں جمع ہونگیں۔ ظاہر ہے سرمایہ کاری ہوگی، نئی صنعتیں لگیں گیں، روزگار کے مواقعے پیدا ہونگے، صنعتیں ترقی کریں گی تو بیرونی دنیا سے تجارت بڑھے گی جس سے خاطر خواہ سرمایہ زر مبادلے کی شکل میں ملے گا۔ ادھر آپ کی درآمدات اور برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔
پاکستان کے معرض وجود کے وقت ریاست مالی مشکلات کا شکار تھی۔ ہندوستان کے شہر بمبئی میں قائم مسلمان بینک اور دیگر مالیاتی اداروں نے مالی مدد دے کر اس نوزائیدہ مملکت کو سہارا دیا بینک کا انحصار بھی لوگوں کی بچت پر تھا۔ اس بینک کا نعرہ تھا ''آج بچایے کل کام آئے گا '' بچت کی عادت کے فروغ کے لیے اس بینک نے اسکولوں کی سطح پر نو عمر طلبا و طالبات میں سیونگ بینک اکاؤنٹ متعارف کروائے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے چند دنوں بعد مملکت کے مالی امور چلانے کے لیے مرکزی بینک کی بنیاد رکھی ۔ افسوس ! ملک کا موجودہ معاشی ڈھانچہ بیرونی قرضوں پرکھڑا ہے۔ ہر شخص یا ادارہ صرف اور صرف اپنے منافعے میں راتوں رات اضافے کے لیے اپنے '' منجن'' کی فروخت میں مصروف ہے۔ اب سیونگ بینکینگ کی جگہ ٹھیکے داری نظام کے تحت کنزیومر بینکینگ نے لے لی ہے۔ ملک میں بیروز گاری اور بڑھتی ہوئی مہنگائی نے لوگو ں کی قوت خرید کا پیمانہ گرا کر بچت کا تصور بھی پیوست خاک کردیا ہے۔