نفرت کی سیاست
مسلمانوں کو براہ راست نشانہ بنانے کے بجائے مسلم تاریخی عمارتوں کی آڑ میں مسلمانوں پر نفرت کے تیر برسائے جا رہے ہیں۔
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ ایسا کون سا دن جاتا ہے جب کسی مسلمان کو اس کے مسلمان ہونے کی پاداش میں قتل نہیں کردیا جاتا۔ گائے کا احترام کرانے اور اس کی حفاظت کے لیے نریندر مودی نے پورے بھارت میں گؤ رکھشک نامی جو آر ایس ایس کے دہشت گردوں پر مشتمل جو تنظیم بنائی ہے اس کا اصل مقصد گائے کی آڑ میں مسلمانوں کا قتل عام کرنا ہی ہے۔ مودی حکومت صرف سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے گائے کے ذریعے مسلمانوں سے نفرت کی فضا پیدا کر رہی ہے۔
2014 کا الیکشن صرف مسلمانوں سے نفرت کی بنیاد پر جیتا تھا اور اب وہ اگلے عام انتخابات کے علاوہ ریاستوں کے موجودہ الیکشن بھی اسی بنیاد پر جیتنا چاہتے ہیں۔ اس وقت بھارت کے عام لوگوں کو مسلمانوں سے نفرت دلانے کے لیے مسلمان بادشاہوں کی تعمیر کردہ تاریخی عمارتوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ بھی دراصل سیاسی ہے۔ چند ماہ بعد ریاست گجرات اور ہماچل پردیش میں الیکشن ہونے والے ہیں چنانچہ انھوں نے وہاں کامیابیاں بٹورنے کے لیے پھر زہریلی مہم کا آغاز کردیا ہے مگر اس دفعہ مسلمانوں کو براہ راست نشانہ بنانے کے بجائے مسلم تاریخی عمارتوں کی آڑ میں مسلمانوں پر نفرت کے تیر برسائے جا رہے ہیں۔
جہاں تک ریاست گجرات کا تعلق ہے یہ مودی کی آبائی ریاست ہے۔ اسی ریاست میں ان کا جنم بھی ہوا تھا چنانچہ سن آف دی سوائل ہونے کی وجہ سے وہ اس ریاست کے وزیراعلیٰ بھی مقرر ہوئے تھے۔ ان کی اس تقرری میں ان کے استاد ایل کے ایڈوانی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس ریاست میں انھوں نے اپنی مسلم دشمن سیاست سے خوب کامیابیاں سمیٹی تھیں۔ وہ یہاں دو مرتبہ الیکشن جیت کر وزیر اعلیٰ مقرر ہوچکے تھے۔ وہ اس ریاست میں اپنے پہلے الیکشن سے قبل گودھرا آنے والی سابرمتی ایکسپریس میں بنارس سے لوٹنے والے ہندو یاتریوں کے ڈبے میں لگنے والی آگ کو مسلمانوں کی کارروائی قرار دے کر اس کی پاداش میں احمد آباد اور گجرات کے دیگر شہروں میں مسلمانوں کا قتل عام کروا چکے تھے۔
مودی کے حکم سے ہونے والے اس قتل عام میں کئی ہزار مسلمانوں کو شہید کردیا گیا تھا۔ بربریت کی انتہا کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ حاملہ مسلمان عورتوں کے پیٹ چاک کردیے گئے تھے۔ خواتین کے ساتھ سرعام سڑکوں پر زیادتیاں کی گئی تھیں اور ان کے معصوم بچوں کے سر ان کے سامنے تلواروں سے کاٹ دیے گئے تھے۔ مسلمان دشمنی کا صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا تھا بلکہ ہندو آبادیوں میں مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگا کر انھیں ہمیشہ کے لیے وہاں سے بے دخل کرنے کے علاوہ ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات کو مسلمانوں سے نفرت بڑھانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
اسی مسلم کش پروپیگنڈے کے سہارے مودی یہاں دس سال تک بغیر کسی مزاحمت کے حکمرانی کرتے رہے تھے۔ تاہم اب اسی ریاست میں ان کے لیے حالات سازگار نہیں رہے ہیں۔ انھوں نے دہلی میں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ایک خاتون کو گجرات کا وزیر اعلیٰ مقرر کردیا تھا جس نے اپنی نااہلی سے مودی کی بنی بنائی ساکھ کو خاک میں ملادیا ہے۔ اس کے علاوہ مودی گجرات میں آباد پٹیل برادری اور دلتوں کو اپنی ظالمانہ اور آمرانہ پالیسیوں کی وجہ سے سخت ناراض کردیا ہے۔
گجرات میں پٹیل بڑی تعداد میں آباد ہیں ان کے ملازمتوں میں کوٹہ بڑھانے کے علاوہ دیگر مطالبات کو پس پشت ڈالنے کی وجہ سے وہ پوری ریاست میں زبردست احتجاجی مہم چلا رہے ہیں انھوں نے اب اپنے مطالبات کو پورا کرانے کے لیے کانگریس پارٹی سے رجوع کرلیا ہے۔
دلتوں کے بھی کئی افراد کو گائے کا گوشت کھانے اور اس کی تجارت کرنے کی پاداش میں مودی کے غنڈوں نے قتل کردیا ہے چنانچہ انھوں نے بھی پوری ریاست میں بڑے بڑے احتجاجی جلسے منعقد کرکے مودی کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا ہے۔ انتخابی وعدے پورے نہ ہونے کی وجہ سے عام لوگ بھی اب مودی کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں چنانچہ گجرات میں بی جے پی کا جیتنا مشکل نظر آرہا ہے اس تناظر میں مودی نے مسلم مہم کو مزید تیز کردیا ہے۔
مسلم تاریخی عمارتوں کو نشانہ بنانا بھی اسی مہم کا حصہ ہے۔ اس گھناؤنی مہم میں سرفہرست تاج محل ہے بدقسمتی سے تاج محل کو بھارتی تہذیب پر ایک سیاہ دھبہ قرار دیا جا رہا ہے۔ آر ایس ایس کے دہشت گرد اس خوبصورت اور دنیا کے سات عجائبات میں شامل عمارت کو ڈھانے کے در پے ہیں۔
پہلے وہ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ اسے ایک قدیم مندر کو توڑ کر بنایا گیا ہے بابری مسجد کے سلسلے میں بھی ان کا ایسا ہی دعویٰ ہے کہ اسے رام سے منسوب مندر کو توڑ کر بنایا گیا تھا مگر خود بھارتی ماہرین آثار قدیمہ نے اپنی تحقیق سے یہ ثابت کردیا ہے کہ نہ بابری مسجد کو کسی مندر کو توڑ کر بنایا گیا تھا اور نہ تاج محل کی تعمیر سے قبل اس جگہ پر کوئی مندر موجود تھا۔
تاج محل سے نفرت کا یہ حال ہے کہ اترپردیش کے متعصب وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے واضح اعلان کیا ہے کہ تاج محل مسلمان حملہ آوروں کی تعمیرکردہ عمارت ہے جو ہندوؤں کو مرعوب کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ بی جے پی کے ایک اور لیڈر نے اس قدیم عمارت کو محبت کے بجائے نفرت کی یادگار قرار دیا ہے۔ ایک نے اسے غدار اور حملہ آور شاہجہان کی بدنما نشانی قرار دے کر اسے فوراً گرانے کا مشورہ دیا ہے۔ ہندو انتہا پسند لیڈروں کے ان بیانات سے یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ جس طرح بابری مسجد کو آر ایس ایس کے دہشت گردوں نے ڈائنامائیٹ سے اڑا دیا تھا اسی طرح تاج محل کو بھی نہ ڈھا دیا جائے۔
ہندو انتہا پسند لیڈروں کے زہریلے بیانات کے جواب میں سماج وادی پارٹی کے ایک مسلم رہنما اعظم خان نے کہا ہے کہ اگر تاج محل حملہ آور اور غدار کا تعمیر کردہ ہے تو پھر اس کے ساتھ ساتھ انگریزوں کے تعمیر کردہ پارلیمنٹ ہاؤس اور راشٹریتی بھون کو بھی گرا دینا چاہیے۔ ایک اور مسلم رہنما اسدالدین اویسی نے کہا ہے کہ اگر مسلم عمارتوں سے واقعی اتنی نفرت ہے تو پھر نریندر مودی کو آیندہ لال قلعے سے جھنڈا نہیں لہرانا چاہیے۔
ہندو انتہا پسند لیڈر خواہ کچھ بھی کہتے رہیں مگر تاج محل کی قدر و منزلت کبھی کم نہیں ہوسکتی ۔ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے اندرون اور بیرون بھارت سے لاکھوں لوگ ہر سال یہاں آتے ہیں ۔ مسلم قدیم عمارتوں کے علاوہ مسلمان بادشاہوں کے خلاف بھی زہریلا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ ٹیپو سلطان مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں کے مشترکہ ہیرو تسلیم کیے جاتے ہیں ۔ بی جے پی نے انھیں بھی ہندو دشمن قرار دے دیا ہے۔
ٹیپو سلطان جنوبی ہند کا وہ واحد حکمراں تھا جس نے انگریزوں سے صلح کرنے کے بجائے ان کے برصغیر پر قبضہ کرنے کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے کئی جنگیں لڑیں اور بالآخر انگریزوں سے بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ جنوبی ہند کے ہندو شروع سے ہی ان کا دل سے احترام کرتے آرہے ہیں مگر بی جے پی نے اقتدار میں آکر اس ہردلعزیز ہیروکو بھی متنازعہ بنادیا ہے تاہم اس کے باوجود ہر سال وہاں کے ہندو مسلمان ریاستی حکومت کے ساتھ مل کر ان کے یوم پیدائش پر شایان شان جشن مناتے ہیں۔
ادھر بی جے پی نے مہاراجہ پرتاپ سنگھ کی اکبر بادشاہ سے جنگ میں شکست کو جیت میں تبدیل کرکے تاریخ کو مسخ کردیا ہے۔ تمام بھارتی تاریخ داں ہندوستان کی تاریخ کو مسخ کرنے پر بی جے پی حکومت پر سخت تنقید کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ تاریخ کی سچائی کو کسی طرح نہیں جھٹلایا جاسکتا۔ بی جے پی حکومت نے راجستھان کے نصاب تعلیم میں دیدہ دلیرانہ نقب زنی کی ہے۔ بی جے پی دراصل آر ایس ایس کی ہدایت پر یہ تمام مسلم کش کارروائیاں کر رہی ہے جس کا مقصد سیاسی فائدہ اٹھانا ہے۔
نریندر مودی چونکہ آر ایس ایس کے کندھے پر سار ہوکر پچھلے انتخابی معرکے میں کامیاب ہوئے تھے چنانچہ وہ اس کے احکامات کو کسی طرح نہیں ٹال سکتے مگر اب بھارتی عوام مودی کی نفرت کی پالیسی کو خوب سمجھ چکے ہیں اور پھر انھوں نے اپنے انتخابی وعدوں میں سے ایک کو بھی پورا نہیں کیا ہے، ساتھ ہی بھارتی معیشت کا بھٹہ بٹھادیا ہے چنانچہ ان کا آئندہ وزیر اعظم منتخب ہونا محال نظر آتا ہے۔
2014 کا الیکشن صرف مسلمانوں سے نفرت کی بنیاد پر جیتا تھا اور اب وہ اگلے عام انتخابات کے علاوہ ریاستوں کے موجودہ الیکشن بھی اسی بنیاد پر جیتنا چاہتے ہیں۔ اس وقت بھارت کے عام لوگوں کو مسلمانوں سے نفرت دلانے کے لیے مسلمان بادشاہوں کی تعمیر کردہ تاریخی عمارتوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ بھی دراصل سیاسی ہے۔ چند ماہ بعد ریاست گجرات اور ہماچل پردیش میں الیکشن ہونے والے ہیں چنانچہ انھوں نے وہاں کامیابیاں بٹورنے کے لیے پھر زہریلی مہم کا آغاز کردیا ہے مگر اس دفعہ مسلمانوں کو براہ راست نشانہ بنانے کے بجائے مسلم تاریخی عمارتوں کی آڑ میں مسلمانوں پر نفرت کے تیر برسائے جا رہے ہیں۔
جہاں تک ریاست گجرات کا تعلق ہے یہ مودی کی آبائی ریاست ہے۔ اسی ریاست میں ان کا جنم بھی ہوا تھا چنانچہ سن آف دی سوائل ہونے کی وجہ سے وہ اس ریاست کے وزیراعلیٰ بھی مقرر ہوئے تھے۔ ان کی اس تقرری میں ان کے استاد ایل کے ایڈوانی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس ریاست میں انھوں نے اپنی مسلم دشمن سیاست سے خوب کامیابیاں سمیٹی تھیں۔ وہ یہاں دو مرتبہ الیکشن جیت کر وزیر اعلیٰ مقرر ہوچکے تھے۔ وہ اس ریاست میں اپنے پہلے الیکشن سے قبل گودھرا آنے والی سابرمتی ایکسپریس میں بنارس سے لوٹنے والے ہندو یاتریوں کے ڈبے میں لگنے والی آگ کو مسلمانوں کی کارروائی قرار دے کر اس کی پاداش میں احمد آباد اور گجرات کے دیگر شہروں میں مسلمانوں کا قتل عام کروا چکے تھے۔
مودی کے حکم سے ہونے والے اس قتل عام میں کئی ہزار مسلمانوں کو شہید کردیا گیا تھا۔ بربریت کی انتہا کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ حاملہ مسلمان عورتوں کے پیٹ چاک کردیے گئے تھے۔ خواتین کے ساتھ سرعام سڑکوں پر زیادتیاں کی گئی تھیں اور ان کے معصوم بچوں کے سر ان کے سامنے تلواروں سے کاٹ دیے گئے تھے۔ مسلمان دشمنی کا صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا تھا بلکہ ہندو آبادیوں میں مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگا کر انھیں ہمیشہ کے لیے وہاں سے بے دخل کرنے کے علاوہ ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات کو مسلمانوں سے نفرت بڑھانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
اسی مسلم کش پروپیگنڈے کے سہارے مودی یہاں دس سال تک بغیر کسی مزاحمت کے حکمرانی کرتے رہے تھے۔ تاہم اب اسی ریاست میں ان کے لیے حالات سازگار نہیں رہے ہیں۔ انھوں نے دہلی میں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ایک خاتون کو گجرات کا وزیر اعلیٰ مقرر کردیا تھا جس نے اپنی نااہلی سے مودی کی بنی بنائی ساکھ کو خاک میں ملادیا ہے۔ اس کے علاوہ مودی گجرات میں آباد پٹیل برادری اور دلتوں کو اپنی ظالمانہ اور آمرانہ پالیسیوں کی وجہ سے سخت ناراض کردیا ہے۔
گجرات میں پٹیل بڑی تعداد میں آباد ہیں ان کے ملازمتوں میں کوٹہ بڑھانے کے علاوہ دیگر مطالبات کو پس پشت ڈالنے کی وجہ سے وہ پوری ریاست میں زبردست احتجاجی مہم چلا رہے ہیں انھوں نے اب اپنے مطالبات کو پورا کرانے کے لیے کانگریس پارٹی سے رجوع کرلیا ہے۔
دلتوں کے بھی کئی افراد کو گائے کا گوشت کھانے اور اس کی تجارت کرنے کی پاداش میں مودی کے غنڈوں نے قتل کردیا ہے چنانچہ انھوں نے بھی پوری ریاست میں بڑے بڑے احتجاجی جلسے منعقد کرکے مودی کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا ہے۔ انتخابی وعدے پورے نہ ہونے کی وجہ سے عام لوگ بھی اب مودی کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں چنانچہ گجرات میں بی جے پی کا جیتنا مشکل نظر آرہا ہے اس تناظر میں مودی نے مسلم مہم کو مزید تیز کردیا ہے۔
مسلم تاریخی عمارتوں کو نشانہ بنانا بھی اسی مہم کا حصہ ہے۔ اس گھناؤنی مہم میں سرفہرست تاج محل ہے بدقسمتی سے تاج محل کو بھارتی تہذیب پر ایک سیاہ دھبہ قرار دیا جا رہا ہے۔ آر ایس ایس کے دہشت گرد اس خوبصورت اور دنیا کے سات عجائبات میں شامل عمارت کو ڈھانے کے در پے ہیں۔
پہلے وہ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ اسے ایک قدیم مندر کو توڑ کر بنایا گیا ہے بابری مسجد کے سلسلے میں بھی ان کا ایسا ہی دعویٰ ہے کہ اسے رام سے منسوب مندر کو توڑ کر بنایا گیا تھا مگر خود بھارتی ماہرین آثار قدیمہ نے اپنی تحقیق سے یہ ثابت کردیا ہے کہ نہ بابری مسجد کو کسی مندر کو توڑ کر بنایا گیا تھا اور نہ تاج محل کی تعمیر سے قبل اس جگہ پر کوئی مندر موجود تھا۔
تاج محل سے نفرت کا یہ حال ہے کہ اترپردیش کے متعصب وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے واضح اعلان کیا ہے کہ تاج محل مسلمان حملہ آوروں کی تعمیرکردہ عمارت ہے جو ہندوؤں کو مرعوب کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ بی جے پی کے ایک اور لیڈر نے اس قدیم عمارت کو محبت کے بجائے نفرت کی یادگار قرار دیا ہے۔ ایک نے اسے غدار اور حملہ آور شاہجہان کی بدنما نشانی قرار دے کر اسے فوراً گرانے کا مشورہ دیا ہے۔ ہندو انتہا پسند لیڈروں کے ان بیانات سے یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ جس طرح بابری مسجد کو آر ایس ایس کے دہشت گردوں نے ڈائنامائیٹ سے اڑا دیا تھا اسی طرح تاج محل کو بھی نہ ڈھا دیا جائے۔
ہندو انتہا پسند لیڈروں کے زہریلے بیانات کے جواب میں سماج وادی پارٹی کے ایک مسلم رہنما اعظم خان نے کہا ہے کہ اگر تاج محل حملہ آور اور غدار کا تعمیر کردہ ہے تو پھر اس کے ساتھ ساتھ انگریزوں کے تعمیر کردہ پارلیمنٹ ہاؤس اور راشٹریتی بھون کو بھی گرا دینا چاہیے۔ ایک اور مسلم رہنما اسدالدین اویسی نے کہا ہے کہ اگر مسلم عمارتوں سے واقعی اتنی نفرت ہے تو پھر نریندر مودی کو آیندہ لال قلعے سے جھنڈا نہیں لہرانا چاہیے۔
ہندو انتہا پسند لیڈر خواہ کچھ بھی کہتے رہیں مگر تاج محل کی قدر و منزلت کبھی کم نہیں ہوسکتی ۔ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے اندرون اور بیرون بھارت سے لاکھوں لوگ ہر سال یہاں آتے ہیں ۔ مسلم قدیم عمارتوں کے علاوہ مسلمان بادشاہوں کے خلاف بھی زہریلا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ ٹیپو سلطان مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں کے مشترکہ ہیرو تسلیم کیے جاتے ہیں ۔ بی جے پی نے انھیں بھی ہندو دشمن قرار دے دیا ہے۔
ٹیپو سلطان جنوبی ہند کا وہ واحد حکمراں تھا جس نے انگریزوں سے صلح کرنے کے بجائے ان کے برصغیر پر قبضہ کرنے کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے کئی جنگیں لڑیں اور بالآخر انگریزوں سے بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ جنوبی ہند کے ہندو شروع سے ہی ان کا دل سے احترام کرتے آرہے ہیں مگر بی جے پی نے اقتدار میں آکر اس ہردلعزیز ہیروکو بھی متنازعہ بنادیا ہے تاہم اس کے باوجود ہر سال وہاں کے ہندو مسلمان ریاستی حکومت کے ساتھ مل کر ان کے یوم پیدائش پر شایان شان جشن مناتے ہیں۔
ادھر بی جے پی نے مہاراجہ پرتاپ سنگھ کی اکبر بادشاہ سے جنگ میں شکست کو جیت میں تبدیل کرکے تاریخ کو مسخ کردیا ہے۔ تمام بھارتی تاریخ داں ہندوستان کی تاریخ کو مسخ کرنے پر بی جے پی حکومت پر سخت تنقید کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ تاریخ کی سچائی کو کسی طرح نہیں جھٹلایا جاسکتا۔ بی جے پی حکومت نے راجستھان کے نصاب تعلیم میں دیدہ دلیرانہ نقب زنی کی ہے۔ بی جے پی دراصل آر ایس ایس کی ہدایت پر یہ تمام مسلم کش کارروائیاں کر رہی ہے جس کا مقصد سیاسی فائدہ اٹھانا ہے۔
نریندر مودی چونکہ آر ایس ایس کے کندھے پر سار ہوکر پچھلے انتخابی معرکے میں کامیاب ہوئے تھے چنانچہ وہ اس کے احکامات کو کسی طرح نہیں ٹال سکتے مگر اب بھارتی عوام مودی کی نفرت کی پالیسی کو خوب سمجھ چکے ہیں اور پھر انھوں نے اپنے انتخابی وعدوں میں سے ایک کو بھی پورا نہیں کیا ہے، ساتھ ہی بھارتی معیشت کا بھٹہ بٹھادیا ہے چنانچہ ان کا آئندہ وزیر اعظم منتخب ہونا محال نظر آتا ہے۔