غم کی قسم
بات ساری احساسیت کی ہے اور پھر ضمیر بڑی حیثیت کا حامل ہے۔
تم اپنا رنج و غم اپنی پریشانی مجھے دے دو
تمہیں غم کی قسم اس دل کی ویرانی مجھے دے دو
ہمارے ملک کے سابقہ بڑے سیاسی عہدیدار ان کی نت نئی باتیں سنتا ہوں اور سر دھنستا ہوں شعر پر آگے جاکر بات ہوگی، اپنے الفاظ پر اتفاق کرنا چاہیے جوکچھ کہہ رہے ہیں لیکن کارنامے مختلف ہیں۔ دوسروں کو تسلی شفق دینے والا میں آج خود غم زدہ ہوں، اب میرا غم کون دور کرسکتا ہے۔ 98 فی صد لوگ ضرور مایوس، پریشان، غمزدہ ہوںگے۔ 2 فی صد کی بات اس لیے نہیں کررہا کہ یہ بہت زیادہ امیر، رؤسا، صاحب حیثیت، بڑے عہدوں کے مالک ہیں۔
عیش کی زندگی ہے ایک الگ بات ہے کوئی ایک دو لوگ ہوں جو اس پرتعیش زندگی میں خوش نہ ہوں پہلے میں اس بات کو نہیں مانتا تھا لوگ کہا کرتے تھے جس قدر غریب غمگسار، مجبور لوگوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتا ہے اپنے بارے میں سوچنے کے بجائے ان بے سہارا لاوارث، مجبور، غم زدہ لوگوں کے بارے میں ان باتوں سے دور کرنے کی کاوش کرے ضروری نہیں ہر کوشش میں کامیابی ہو کہیں ناکامی بھی ہوتی ہے۔ میرا ایک بہت پرانا قطعہ میں اس کو میرے کامل، جید استادوں نے پسند کیا شاباش دی حوصلہ بڑھایا جو باتیں آج تک یاد ہیں اگر آپ کو زحمت نہ ہو تو میرا یہ قطعہ پڑھ لیں آپ پڑھیںگے اور میں خوش ہوجاؤںگا۔
رات ہوتے ہی چٹخ جاتے ہیں، میرے زخم بہنے لگتا ہے لوگوں میں احساس کا خون کتنا مجبور بنادیتی ہے ناکامی مجھے اشک بہتے رہے ، بہتے رہے میں ہی نہ سکوں نہ جانے کس قدر لوگ ہوںگے جو اپنے اشک بھی نہ پی سکتے ہوں۔ انسان جب کسی کے لیے مدد کرنے میں ناکام ہوتا ہے تو بالکل میرا قطعہ اس پر پورا اترتا ہے اگر دور شاہی ہوتا تو شاید میں کسی بادشاہ کا درباری بن جاتا۔اشعار سناتا اور اس کی داستان حیات لکھتا اس کے کارناموں کو تخلیق تو نہیں کرسکتا لیکن تحریر ضرور کرتا۔
اب تو ایسا دور ہے جو سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کہتا ہے میں سارے لوگوں کی بات قطعی نہیں کررہا ہاں چند ایسے لوگ جو اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہیں جن کو سچ اچھا نہیں لگتا اگر ان سے کوئی بات یقین کرانی ہو تو اب یہ بات عیاں ہے کہ ''غم کی قسم'' کھائیں تو شاید یقین کرلیں۔ اس لیے کہ وہ سمجھ رہے ہیں لوگ غم زدہ، مایوس، فکر مند ہیں اس لیے وہ ''غم کی قسم'' پر ضرور یقین کریںگے جب نا اہل لوگوں کو اہل لوگوں سے زیادہ پذیرائی، عزت تحفظ ملے گا تو بے چارے اہل منہ تکتے رہیںگے یا پھر وہ کوشش کریںگے کہ ہم بھی ان کے نقش قدم پر چلیں تاکہ ہمارا بھی اسی طرح وی وی آئی پی پروٹوکول ہو۔
بات ساری احساسیت کی ہے اور پھر ضمیر بڑی حیثیت کا حامل ہے۔ اب کسی بڑے آدمی کو آپ کہیں ضمیر کو زندہ رکھیں تو وہ آپ سے پوچھے گا یہ تو بتاؤ یہ ضمیر ہوتا کیا ہے کہاں ملتا ہے اور کس طرح اس کو زندہ رکھا جاتا ہے جب ضمیر کو بھولنا شروع ہوجائیں تو ان سے آگے کی کیا امید ہوگی۔
چمچے، کرچھے، مالشیے، جوتے بنانے والے پر میری بات کو آفرین کہنے والے نہ ہوتے تو کبھی غلط مشورے نہ ملتے۔ آج ان غلط مشوروں کے باعث جو بھگت رہے ہیں ناگفتہ بہ کی حالت میں ہیں لیکن دوسروں کو ظاہر کررہے ہیں جسے وہی اس ملک کے سربراہ ہیں ان کے علاوہ کوئی اور شخص اسلامی جمہوریہ پاکستان نہیں چلاسکتا۔ شاید وہ بھول گئے کتنے آئے کتنے گئے جو نیک خواہاں رہے ملک و قوم کے لیے کچھ کیا ہو تو یقینی ان کا نام مورخ اچھے الفاظ میں لکھے گا ورنہ اچھے لفظ پر شاید اس کا قلم نہ چلے۔
ہر اس ملک نے ترقی کی جس کے سربراہان ایماندار، دیانت دار، ملک و قوم کے ہمدرد تھے اس لیے کہ انھوں نے اپنے لیے کچھ سوچا نہ ہی کیا وہ صرف اپنے ملک اور قوم کے لیے سوچتے اور کرتے رہے ان ملکوں نے اتنی ترقی کی جس نے دوسرے ملکوں کو پیچھے چھوڑ دیا کسی بھی حکمران میں اچھے اوصاف ہوںگے۔ یقینا اس کا ملک آگے بڑھے گا اور عوام میں خوشحالی آئے گی۔
عوام ووٹ دے کر اس لیے منتخب نہیں کرتے کہ اپنے اغراض و مقاصد میں پیش پیش رہیں اور ملک و قوم کے تمام مقاصد بھول جائیں پہلے ملک پھر عوام ملک ہے تو عوام بھی ہے اس لیے ہر کامیاب حکمران نے پہلے اپنے ملک کے لیے بڑے بڑے کام کیے عوام کو بے روزگاری سے بچایا، تعلیم عام کردی شفاخانوں کے مین گیٹ چو بیس گھنٹے کھلے رکھے ان کا کہناہے کہ اگر ایک مریض کسی بھی مرض کا شکار ہے اس کا علاج فوری ہونا چاہیے، اگر ذرا بھی غفلت برتی گئی تو یہ مریض اپنے گھر، باہر تک نہ جانے کتنے لوگوں کو اپنے مرض میں مبتلا کردے وہ زیادہ مشکل ہوگا لہٰذا پہلا مریض شفایاب ہوگا تو دوسرا مریض اس کے مرض سے بچے گا۔
لیکن ہمارے ہاں ایسی سوچ شاید نہ ہو اس لیے کہ سرکاری شفاخانوں ایک سینٹر پر کئی مریض ہوںگے اور سیکڑوں مریض روز علاج کے لیے آئیںگے لیکن انھیں پورے نہ دیکھے جائیں اس لیے کہ اسپتال کا وقت مقررہ کے بعد او پی ڈی نہیں ہوتی ڈاکٹر، نرسیں کم ہونے کے باعث موجودہ سرکاری اسپتال نظر آرہے ہیں لیکن کمی کے باعث اس قدر مریضوں کو دیکھنے سے قاصر ہیں ان کی بات اپنی جگہ درست ہے اگر او پی ڈی میں صرف چار یا پانچ ڈاکٹر ہوں اور مریض سیکڑوں کے حساب سے آئیں تو وہ کس طرح اتنے مریضوں کو دیکھ سکتے ہیں.
نہایت بد قسمتی ہے ہمارے حکمرانوں نے بنیادی ضروریات پر توجہ نہ دی اور جس نے دی تو اس کو رخصت کردیاگیا (رخصت کرنے میں کہیں نا اہل کو نہ سمجھ لیں اس امر پر جنرل (ر) پرویز مشرف کے بارے میں ہے) ہم کس قدر بد نصیب ہیں تعلیمی ادارے، اسکول، کالجز، یونی ورسٹیز، شفاخانے جو تھے وہ آج بھی وہی ہیں افسوس آنے والی حکومتوں نے اس میں اضافہ کیوں نہیں کیا ہمارے ملک میں شاید کوئی ایسا اسپتال نہیں ہے جہاں سے امیر، امراء رؤسا، حکمران اپنے علاج کراسکے۔
اگر ان کو ایک چھینک آجائے تو وہ یورپی ممالک میں جاکر علاج کرواتے ہیں جہاں اس قدر مالیت خرچ ہوتی ہے ایک دن کے علاج میں جو زر لگتا ہے اس رقم میں ایک غریب خاندان کا ایک ماہ گزرسکتا ہے سوچنے کی بات ہے وہ سرکاری ٹیکسوں کی خدمات اپنی ذات کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ کاش وہ اپنے ملک کے اسپتالوں کو اہمیت دیں تو شاید ان کو بھی باہرنہیں جانا پڑے گا۔
افسوس موجودہ حکمرانوں نے شاید یہ سوچا بھی نہ ہو کہ ہمارے ملک میں ساڑھے بارہ کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے ہیں اس کے علاوہ ہر سال تقریباً لاکھوں میں بے) روزگاری بڑھ رہی ہے ایسے تعلیم یافتہ جو ہر سال سند حاصل کرکے فارغ و تحصیل ہیں وہ بھی بے روزگار بمشکل آٹے میں نمک کے برابر کسی کو نوکری ملتی ہے ورنہ لوگ اپنی نوکریوں کے لیے دفتروں کے چکر لگاتے، سیڑھیاں چڑھتے اترتے نظر آئیںگے سوچنے کی بات ہے اگر ہم اپنے ملک میں ہر سال دس یا بارہ کارخانوں، ٹیکنیکل فیکٹریز۱، کپڑا بنانے کے کارخانوں کا اضافہ ہوتا جاتا تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس قدر بے روزگاری نہ ہوتی۔ ہمیں مزدوروں ہی نہیں، انجینئرز، ڈاکٹرز اور دیگر ٹیکنیکل حضرات بے روزگار نظر آرہے ہیں جب کہ اگر ان کے لیے فیکٹرز قائم کی جائیں تو وہ اس طرح بے روزگار نہ ہوتے۔
تمہیں غم کی قسم اس دل کی ویرانی مجھے دے دو
ہمارے ملک کے سابقہ بڑے سیاسی عہدیدار ان کی نت نئی باتیں سنتا ہوں اور سر دھنستا ہوں شعر پر آگے جاکر بات ہوگی، اپنے الفاظ پر اتفاق کرنا چاہیے جوکچھ کہہ رہے ہیں لیکن کارنامے مختلف ہیں۔ دوسروں کو تسلی شفق دینے والا میں آج خود غم زدہ ہوں، اب میرا غم کون دور کرسکتا ہے۔ 98 فی صد لوگ ضرور مایوس، پریشان، غمزدہ ہوںگے۔ 2 فی صد کی بات اس لیے نہیں کررہا کہ یہ بہت زیادہ امیر، رؤسا، صاحب حیثیت، بڑے عہدوں کے مالک ہیں۔
عیش کی زندگی ہے ایک الگ بات ہے کوئی ایک دو لوگ ہوں جو اس پرتعیش زندگی میں خوش نہ ہوں پہلے میں اس بات کو نہیں مانتا تھا لوگ کہا کرتے تھے جس قدر غریب غمگسار، مجبور لوگوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتا ہے اپنے بارے میں سوچنے کے بجائے ان بے سہارا لاوارث، مجبور، غم زدہ لوگوں کے بارے میں ان باتوں سے دور کرنے کی کاوش کرے ضروری نہیں ہر کوشش میں کامیابی ہو کہیں ناکامی بھی ہوتی ہے۔ میرا ایک بہت پرانا قطعہ میں اس کو میرے کامل، جید استادوں نے پسند کیا شاباش دی حوصلہ بڑھایا جو باتیں آج تک یاد ہیں اگر آپ کو زحمت نہ ہو تو میرا یہ قطعہ پڑھ لیں آپ پڑھیںگے اور میں خوش ہوجاؤںگا۔
رات ہوتے ہی چٹخ جاتے ہیں، میرے زخم بہنے لگتا ہے لوگوں میں احساس کا خون کتنا مجبور بنادیتی ہے ناکامی مجھے اشک بہتے رہے ، بہتے رہے میں ہی نہ سکوں نہ جانے کس قدر لوگ ہوںگے جو اپنے اشک بھی نہ پی سکتے ہوں۔ انسان جب کسی کے لیے مدد کرنے میں ناکام ہوتا ہے تو بالکل میرا قطعہ اس پر پورا اترتا ہے اگر دور شاہی ہوتا تو شاید میں کسی بادشاہ کا درباری بن جاتا۔اشعار سناتا اور اس کی داستان حیات لکھتا اس کے کارناموں کو تخلیق تو نہیں کرسکتا لیکن تحریر ضرور کرتا۔
اب تو ایسا دور ہے جو سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کہتا ہے میں سارے لوگوں کی بات قطعی نہیں کررہا ہاں چند ایسے لوگ جو اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہیں جن کو سچ اچھا نہیں لگتا اگر ان سے کوئی بات یقین کرانی ہو تو اب یہ بات عیاں ہے کہ ''غم کی قسم'' کھائیں تو شاید یقین کرلیں۔ اس لیے کہ وہ سمجھ رہے ہیں لوگ غم زدہ، مایوس، فکر مند ہیں اس لیے وہ ''غم کی قسم'' پر ضرور یقین کریںگے جب نا اہل لوگوں کو اہل لوگوں سے زیادہ پذیرائی، عزت تحفظ ملے گا تو بے چارے اہل منہ تکتے رہیںگے یا پھر وہ کوشش کریںگے کہ ہم بھی ان کے نقش قدم پر چلیں تاکہ ہمارا بھی اسی طرح وی وی آئی پی پروٹوکول ہو۔
بات ساری احساسیت کی ہے اور پھر ضمیر بڑی حیثیت کا حامل ہے۔ اب کسی بڑے آدمی کو آپ کہیں ضمیر کو زندہ رکھیں تو وہ آپ سے پوچھے گا یہ تو بتاؤ یہ ضمیر ہوتا کیا ہے کہاں ملتا ہے اور کس طرح اس کو زندہ رکھا جاتا ہے جب ضمیر کو بھولنا شروع ہوجائیں تو ان سے آگے کی کیا امید ہوگی۔
چمچے، کرچھے، مالشیے، جوتے بنانے والے پر میری بات کو آفرین کہنے والے نہ ہوتے تو کبھی غلط مشورے نہ ملتے۔ آج ان غلط مشوروں کے باعث جو بھگت رہے ہیں ناگفتہ بہ کی حالت میں ہیں لیکن دوسروں کو ظاہر کررہے ہیں جسے وہی اس ملک کے سربراہ ہیں ان کے علاوہ کوئی اور شخص اسلامی جمہوریہ پاکستان نہیں چلاسکتا۔ شاید وہ بھول گئے کتنے آئے کتنے گئے جو نیک خواہاں رہے ملک و قوم کے لیے کچھ کیا ہو تو یقینی ان کا نام مورخ اچھے الفاظ میں لکھے گا ورنہ اچھے لفظ پر شاید اس کا قلم نہ چلے۔
ہر اس ملک نے ترقی کی جس کے سربراہان ایماندار، دیانت دار، ملک و قوم کے ہمدرد تھے اس لیے کہ انھوں نے اپنے لیے کچھ سوچا نہ ہی کیا وہ صرف اپنے ملک اور قوم کے لیے سوچتے اور کرتے رہے ان ملکوں نے اتنی ترقی کی جس نے دوسرے ملکوں کو پیچھے چھوڑ دیا کسی بھی حکمران میں اچھے اوصاف ہوںگے۔ یقینا اس کا ملک آگے بڑھے گا اور عوام میں خوشحالی آئے گی۔
عوام ووٹ دے کر اس لیے منتخب نہیں کرتے کہ اپنے اغراض و مقاصد میں پیش پیش رہیں اور ملک و قوم کے تمام مقاصد بھول جائیں پہلے ملک پھر عوام ملک ہے تو عوام بھی ہے اس لیے ہر کامیاب حکمران نے پہلے اپنے ملک کے لیے بڑے بڑے کام کیے عوام کو بے روزگاری سے بچایا، تعلیم عام کردی شفاخانوں کے مین گیٹ چو بیس گھنٹے کھلے رکھے ان کا کہناہے کہ اگر ایک مریض کسی بھی مرض کا شکار ہے اس کا علاج فوری ہونا چاہیے، اگر ذرا بھی غفلت برتی گئی تو یہ مریض اپنے گھر، باہر تک نہ جانے کتنے لوگوں کو اپنے مرض میں مبتلا کردے وہ زیادہ مشکل ہوگا لہٰذا پہلا مریض شفایاب ہوگا تو دوسرا مریض اس کے مرض سے بچے گا۔
لیکن ہمارے ہاں ایسی سوچ شاید نہ ہو اس لیے کہ سرکاری شفاخانوں ایک سینٹر پر کئی مریض ہوںگے اور سیکڑوں مریض روز علاج کے لیے آئیںگے لیکن انھیں پورے نہ دیکھے جائیں اس لیے کہ اسپتال کا وقت مقررہ کے بعد او پی ڈی نہیں ہوتی ڈاکٹر، نرسیں کم ہونے کے باعث موجودہ سرکاری اسپتال نظر آرہے ہیں لیکن کمی کے باعث اس قدر مریضوں کو دیکھنے سے قاصر ہیں ان کی بات اپنی جگہ درست ہے اگر او پی ڈی میں صرف چار یا پانچ ڈاکٹر ہوں اور مریض سیکڑوں کے حساب سے آئیں تو وہ کس طرح اتنے مریضوں کو دیکھ سکتے ہیں.
نہایت بد قسمتی ہے ہمارے حکمرانوں نے بنیادی ضروریات پر توجہ نہ دی اور جس نے دی تو اس کو رخصت کردیاگیا (رخصت کرنے میں کہیں نا اہل کو نہ سمجھ لیں اس امر پر جنرل (ر) پرویز مشرف کے بارے میں ہے) ہم کس قدر بد نصیب ہیں تعلیمی ادارے، اسکول، کالجز، یونی ورسٹیز، شفاخانے جو تھے وہ آج بھی وہی ہیں افسوس آنے والی حکومتوں نے اس میں اضافہ کیوں نہیں کیا ہمارے ملک میں شاید کوئی ایسا اسپتال نہیں ہے جہاں سے امیر، امراء رؤسا، حکمران اپنے علاج کراسکے۔
اگر ان کو ایک چھینک آجائے تو وہ یورپی ممالک میں جاکر علاج کرواتے ہیں جہاں اس قدر مالیت خرچ ہوتی ہے ایک دن کے علاج میں جو زر لگتا ہے اس رقم میں ایک غریب خاندان کا ایک ماہ گزرسکتا ہے سوچنے کی بات ہے وہ سرکاری ٹیکسوں کی خدمات اپنی ذات کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ کاش وہ اپنے ملک کے اسپتالوں کو اہمیت دیں تو شاید ان کو بھی باہرنہیں جانا پڑے گا۔
افسوس موجودہ حکمرانوں نے شاید یہ سوچا بھی نہ ہو کہ ہمارے ملک میں ساڑھے بارہ کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے ہیں اس کے علاوہ ہر سال تقریباً لاکھوں میں بے) روزگاری بڑھ رہی ہے ایسے تعلیم یافتہ جو ہر سال سند حاصل کرکے فارغ و تحصیل ہیں وہ بھی بے روزگار بمشکل آٹے میں نمک کے برابر کسی کو نوکری ملتی ہے ورنہ لوگ اپنی نوکریوں کے لیے دفتروں کے چکر لگاتے، سیڑھیاں چڑھتے اترتے نظر آئیںگے سوچنے کی بات ہے اگر ہم اپنے ملک میں ہر سال دس یا بارہ کارخانوں، ٹیکنیکل فیکٹریز۱، کپڑا بنانے کے کارخانوں کا اضافہ ہوتا جاتا تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس قدر بے روزگاری نہ ہوتی۔ ہمیں مزدوروں ہی نہیں، انجینئرز، ڈاکٹرز اور دیگر ٹیکنیکل حضرات بے روزگار نظر آرہے ہیں جب کہ اگر ان کے لیے فیکٹرز قائم کی جائیں تو وہ اس طرح بے روزگار نہ ہوتے۔