رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
حکومت کو چاہیے کہ ختم نبوتؐ کے قانون میں ترمیم کرنے کی سزا مجرموں کو ضرور دے۔
''بلیک فرائیڈے'' سے نفرت کا اظہار قرآنی تعلیمات کے حوالے سے ہر عام و خاص کی زبان زد پر ہے۔ آن لائن پر بھی بڑے پیمانے پر سیل جاری ہے، 70 فیصد اور 80 فیصد ڈسکاؤنٹ کے ساتھ ضروری اشیا، جن میں کپڑے، میک اپ، پرس وغیرہ شامل ہیں۔ چونکہ دسمبر کی آمد ہے، عیسائیوں کا تہوار کرسمس آنے والا ہے، اسی لیے انھوں نے اپنے ہم مذہب لوگوں کے لیے یہ سیل لگائی ہے، تاکہ ہر شخص آسانی کے ساتھ عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکے۔ ہمارے یہاں ہمارے مسلمان تاجر الٹ اور دو، چار ماہ پہلے ہی لوگوں کی جان خودکشی کی شکل میں لینے کی تیاریاں شروع کردیتے ہیں۔
گزشتہ برسوں میں پاکستانی تاجروں نے بھی محض غفلت کی بنا پر جمعہ جیسے مبارک دن کو بلیک فرائیڈے کا نام دے کر تجارت شروع کردی تھی لیکن لوگوں کے احتجاج کے بعد صورتحال بدل گئی۔ 1977 میں جمعہ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے سرکاری طور پر چھٹی ہونے لگی۔ یہ معجزہ اس طرح رونما ہوا کہ مولانا احتشام الحق تھانوی نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے درخواست کی تھی جسے بھٹو صاحب نے برملا تسلیم کیا اور اس طرح جمعہ کی چھٹی کا قانون منظور ہوگیا، پھر حالات بدلے، معاملات بدلے، حکومت بدلی اور بہت کچھ ہوا۔ جمعہ کی چھٹی بھی ہونے لگی۔
یہ دور ضیا الحق کا تھا، اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں بھٹو نے اسلامی احکامات اور استحکام پاکستان کے لیے بنیاد رکھی، بیج بویا، لیکن پھل کسی اور نے کھائے۔ ان کی قسمت میں تو صدر اور وزیراعظم بننا اور دار پر چڑھنا لکھا تھا۔ نہ ملک ٹوٹتا اور نہ شاید ایسے حالات ہوتے، بہرحال یہ ایک الگ دردناک کہانی ہے۔ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ مولانا احتشام الحق تھانوی کے صاحبزادے نے ببانگ دہل جمعہ کی چھٹی کی مخالفت کی لیکن انھوں نے اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا کہ وقت نماز چھٹی کرنا جائز ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے، جوکہ اب نااہل ہوچکے ہیں، انھوں نے حکومت سنبھالتے ہی 1997 میں جمعہ کی چھٹی کو ختم کردیا۔ انھوں نے 11 ستمبر وفات قائداعظم اور 9 نومبر ''اقبال ڈے'' کی چھٹیاں منسوخ کردیں۔ جو مقتدر حضرات اپنے وطن کے بانی قائداعظم محمد علی جناح اور شاعر مشرق علامہ اقبال کی قدر اور ان کی خدمات کو نہ سراہ سکیں، وہ اس ملک پر حکومت کرنے کے بھلا کیسے اہل ہوسکتے ہیں؟
جس طرح دوسری قوموں خصوصاً عیسائیوں کے لیے اتوار اور یہودیوں کے لیے ہفتے کے دن کی اہمیت مسلم ہے اسی طرح جمعہ کا دن مسلمانوں کے لیے متبرک ہے۔ قرآن پاک میں سورۃ الجمعہ موجود ہے، اس سورۃ کے دوسرے رکوع میں مسلمانوں کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جمعہ کی اذان کے بعد ہر قسم کی خرید و فروخت بالکل ناجائز ہے، قرآنی سورۃ کے مطابق جمعہ کی پہلی اذان کے بعد جمعہ کی تیاری کے سوا کوئی اور کام جائز نہیں، نیز جب تک نماز جمعہ ختم نہ ہوجائے خرید و فروخت کا معاملہ ناجائز ہے۔ اللہ کے ذکر سے مراد جمعہ کا خطبہ اور نماز ہے، نماز کے بعد تجارت کا سلسلہ جاری رہنا گناہ یا ناقابل اعتراض نہیں ہے۔
جمعہ کی چھٹی سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ گھر میں رہتے ہوئے نماز کی تیاری میں آسانی اور نماز سکون سے اور خطبہ تسکین قلب کے ساتھ سنا جاسکتا ہے، آفس ٹائم ختم ہونے کی جلدی نہیں ہوتی ہے، اہل اقتدار کو ماضی کے تلخ حقائق کو جانتے ہوئے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کرسیاں بڑی کمزور ہوتی ہیں اور شاہی محلات کی زندگی بھی عارضی ہوتی ہے۔ ہر عروج کو زوال ہے لیکن جو زوال ہمارے سابقہ صدور و وزرا اور وزرائے اعظم کو نصیب ہوا وہ قابل غور ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ ختم نبوتؐ کے قانون میں ترمیم کرنے کی سزا مجرموں کو ضرور دے۔ حکومت چوکس رہے کہ آیندہ ایسی جرأت کوئی نہ کرسکے۔ جب تک مسلمان اس دنیا میں موجود ہیں، دنیا کی کوئی طاقت قانون ختم نبوتؐ کو تبدیل نہیں کرسکتی۔ اﷲ کی مدد شامل ہے۔ لیکن افسوس کہ ایمانی قوت باطل میں بدل گئی ہے۔ اپنے حلف لینے کا بھی پاس نہیں ہے کہ خدا کو گواہ بناکر اسی وحدہ لاشریک سے وعدے کیے تھے، لیکن کیا کیا؟ سب کچھ دکھاوا ہے دل تو کچھ اور کہتا ہے، نفس امارہ دوڑائے پھرتا ہے، نگاہوں کی شرم اور ضمیر مردہ ہوچکا ہے۔ اقبال نے ایسے ہی لوگوں کے لیے کیا خوب کہا ہے۔
یہی آدم ہے سلطان بحر و بر کا
کہوں کیا ماجرا اس بے بصر کا
نہ خود بیں' نہ خدا بیں نہ جہاں بیں
یہی شہکار ہے تیرے ہنر کا
ایک اور رباعی ملاحظہ فرمائیے، ہم سب کا ایک ہی حال ہے، جیسے عوام ویسے ہی حکمران۔
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل، وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں، تو باقی نہیں
ختم نبوت کے تحفظ کے لیے نبی آخرالزماںؐ کی سیرت پاک کی روشنی میں معاملات طے ہونے چاہیں۔ یہ پاکستان لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا، اس پر حکومت کرنے کا حق مسلمانوں کا ہے۔ اور جو ختم نبوت کا منکر ہو، وہ مسلمان بھلا کیسے ہوسکتا ہے؟
گزشتہ برسوں میں پاکستانی تاجروں نے بھی محض غفلت کی بنا پر جمعہ جیسے مبارک دن کو بلیک فرائیڈے کا نام دے کر تجارت شروع کردی تھی لیکن لوگوں کے احتجاج کے بعد صورتحال بدل گئی۔ 1977 میں جمعہ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے سرکاری طور پر چھٹی ہونے لگی۔ یہ معجزہ اس طرح رونما ہوا کہ مولانا احتشام الحق تھانوی نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے درخواست کی تھی جسے بھٹو صاحب نے برملا تسلیم کیا اور اس طرح جمعہ کی چھٹی کا قانون منظور ہوگیا، پھر حالات بدلے، معاملات بدلے، حکومت بدلی اور بہت کچھ ہوا۔ جمعہ کی چھٹی بھی ہونے لگی۔
یہ دور ضیا الحق کا تھا، اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں بھٹو نے اسلامی احکامات اور استحکام پاکستان کے لیے بنیاد رکھی، بیج بویا، لیکن پھل کسی اور نے کھائے۔ ان کی قسمت میں تو صدر اور وزیراعظم بننا اور دار پر چڑھنا لکھا تھا۔ نہ ملک ٹوٹتا اور نہ شاید ایسے حالات ہوتے، بہرحال یہ ایک الگ دردناک کہانی ہے۔ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ مولانا احتشام الحق تھانوی کے صاحبزادے نے ببانگ دہل جمعہ کی چھٹی کی مخالفت کی لیکن انھوں نے اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا کہ وقت نماز چھٹی کرنا جائز ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے، جوکہ اب نااہل ہوچکے ہیں، انھوں نے حکومت سنبھالتے ہی 1997 میں جمعہ کی چھٹی کو ختم کردیا۔ انھوں نے 11 ستمبر وفات قائداعظم اور 9 نومبر ''اقبال ڈے'' کی چھٹیاں منسوخ کردیں۔ جو مقتدر حضرات اپنے وطن کے بانی قائداعظم محمد علی جناح اور شاعر مشرق علامہ اقبال کی قدر اور ان کی خدمات کو نہ سراہ سکیں، وہ اس ملک پر حکومت کرنے کے بھلا کیسے اہل ہوسکتے ہیں؟
جس طرح دوسری قوموں خصوصاً عیسائیوں کے لیے اتوار اور یہودیوں کے لیے ہفتے کے دن کی اہمیت مسلم ہے اسی طرح جمعہ کا دن مسلمانوں کے لیے متبرک ہے۔ قرآن پاک میں سورۃ الجمعہ موجود ہے، اس سورۃ کے دوسرے رکوع میں مسلمانوں کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جمعہ کی اذان کے بعد ہر قسم کی خرید و فروخت بالکل ناجائز ہے، قرآنی سورۃ کے مطابق جمعہ کی پہلی اذان کے بعد جمعہ کی تیاری کے سوا کوئی اور کام جائز نہیں، نیز جب تک نماز جمعہ ختم نہ ہوجائے خرید و فروخت کا معاملہ ناجائز ہے۔ اللہ کے ذکر سے مراد جمعہ کا خطبہ اور نماز ہے، نماز کے بعد تجارت کا سلسلہ جاری رہنا گناہ یا ناقابل اعتراض نہیں ہے۔
جمعہ کی چھٹی سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ گھر میں رہتے ہوئے نماز کی تیاری میں آسانی اور نماز سکون سے اور خطبہ تسکین قلب کے ساتھ سنا جاسکتا ہے، آفس ٹائم ختم ہونے کی جلدی نہیں ہوتی ہے، اہل اقتدار کو ماضی کے تلخ حقائق کو جانتے ہوئے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کرسیاں بڑی کمزور ہوتی ہیں اور شاہی محلات کی زندگی بھی عارضی ہوتی ہے۔ ہر عروج کو زوال ہے لیکن جو زوال ہمارے سابقہ صدور و وزرا اور وزرائے اعظم کو نصیب ہوا وہ قابل غور ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ ختم نبوتؐ کے قانون میں ترمیم کرنے کی سزا مجرموں کو ضرور دے۔ حکومت چوکس رہے کہ آیندہ ایسی جرأت کوئی نہ کرسکے۔ جب تک مسلمان اس دنیا میں موجود ہیں، دنیا کی کوئی طاقت قانون ختم نبوتؐ کو تبدیل نہیں کرسکتی۔ اﷲ کی مدد شامل ہے۔ لیکن افسوس کہ ایمانی قوت باطل میں بدل گئی ہے۔ اپنے حلف لینے کا بھی پاس نہیں ہے کہ خدا کو گواہ بناکر اسی وحدہ لاشریک سے وعدے کیے تھے، لیکن کیا کیا؟ سب کچھ دکھاوا ہے دل تو کچھ اور کہتا ہے، نفس امارہ دوڑائے پھرتا ہے، نگاہوں کی شرم اور ضمیر مردہ ہوچکا ہے۔ اقبال نے ایسے ہی لوگوں کے لیے کیا خوب کہا ہے۔
یہی آدم ہے سلطان بحر و بر کا
کہوں کیا ماجرا اس بے بصر کا
نہ خود بیں' نہ خدا بیں نہ جہاں بیں
یہی شہکار ہے تیرے ہنر کا
ایک اور رباعی ملاحظہ فرمائیے، ہم سب کا ایک ہی حال ہے، جیسے عوام ویسے ہی حکمران۔
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل، وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں، تو باقی نہیں
ختم نبوت کے تحفظ کے لیے نبی آخرالزماںؐ کی سیرت پاک کی روشنی میں معاملات طے ہونے چاہیں۔ یہ پاکستان لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا، اس پر حکومت کرنے کا حق مسلمانوں کا ہے۔ اور جو ختم نبوت کا منکر ہو، وہ مسلمان بھلا کیسے ہوسکتا ہے؟