ہم دیکھیں گے
ایک قابل ذکر گفتگو ’’فیضؔ اور یہ بکھرا معاشرہ‘‘ ڈاکٹر عارفہ سیدہ کی تھی جو مایوسی کی طرف لے جاتی تھی
یہ کریڈٹ صرف عمران خان کو نہیں جاتا نصف صدی پہلے فیضؔ صاحب نے گرجدار آواز میں کہہ دیا تھا کہ؎
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول، زباں اب تک تیری ہے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
گزشتہ ہفتے 17 نومبر سے 19 نومبر تک تیسرا فیضؔ انٹرنیشنل فیسٹیول الحمرا آرٹس کونسل میں منعقدہوا۔ یہ حسب سابق آنے والے دنوں کے سفیروں کے نام تھا۔ شام 4 بجے نمائش کا افتتاح ہوا جس میں فیضؔ صاحب کی لائف ہسٹری، ان کی یادگار و نایاب تصاویر کی صورت میں اور ان کی چند نظمیں انلارج کی ہوئی فریموں میں ڈسپلے کی ہوئی تھیں۔ یہ نظم بھی ان میں شامل تھی۔
نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
جو تجھ سے عہد وفا استوار رکھتے ہیں
علاج گردش لیل و نہار رکھتے ہیں
فیسٹیول کے پہلے دن نمائش کے شاملین سے محترمہ سلیمیٰ ہاشمی اور جناب آئی اے رحمان نے خطاب کیا۔ اسی روز شام 6 بجے ''لو پھر بہار آئی'' کے نام سے اجوکا تھیٹر کی پیشکش بھی ڈرامے کی صورت میں تھی جس نے محفل میں اپنا رنگ بھر دیا۔
یہ فیسٹیول کا تیسرا سال تھا۔ یوں تو ساری دنیا میں فیض احمد فیضؔ کے حوالے سے تقریبات ہوتی رہتی ہیں لیکن پاکستان میں ان کی صاحبزادی سلیمیٰ ہاشمی اور فیملی پاکستان اور بیرون ملک سے فیضؔ کے مداحوں کو اکٹھا کر لیتی ہے۔ ان تین دنوں میں ایک گھنٹے کے دورانیے کے الحمرا کی پانچ جگہوں پر ستر سے زیادہ Events ہوئے اور علم و ادب، موسیقی، آرٹ، تھیٹر، فلم، نمائش، گفتگو، شاعری، مکالمہ، سبھی سے دیدہ و دل کی ضیافت ہوئی۔ یہاں انڈور ہی نہیں آؤٹ ڈور پروگرام بھی تھے۔ بچوں کی دلچسپیوں، سائنس اور تھیٹر سے متعلق ورکشاپس کا اہتمام بھی تھا۔ فیسٹیول کے تین دنوں میں چھ نئی کتب کی رونمائی ہوئی اور ہر لانچ سے پہلے تعارفی تقریب ہوئی۔ بیرون ممالک سے آئے مہمانوں جن میں فلسطینی آرکیٹیکٹ خاتون، ملک شام کے میوزک کمپوزر اور برطانیہ کے میاں بیوی کی خوب پذیرائی ہوئی۔ برطانوی Tanya Walk اردو نہیں جانتی تھی لیکن اس نے فیضؔ صاحب کا کلام سنایا اور نغمیں غزلیں گائیں جبکہ اس کے خاوند نے گٹار پر اس کا ساتھ دیا۔
اس فیسٹیول کا ایک اچھوتا اور خوبصورت رنگ بھی یہ تھاکہ ہر پروگرام کا عنوان فیضؔ صاحب کی کسی نظم یا غزل کے ٹکڑے سے اخذ کر کے بامعنی بنایا گیا تھا۔ مثلاً Art as Healer پر گفتگو کا عنوان ان کی ایک نظم سے لے کر اس طرح تھا ''بے وجہ قرار آ جائے'' جبکہ فیضؔ صاحب کی شاعری میں نغمگی'' کے لیے ان کی نظم سے مصرع لے کر اسے ''ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے'' کا عنوان دیا گیا تھا۔ بشریٰ انصاری کے پروگرام کا عنوان بھی فیضؔ صاحب سے یوں مستعار لیا گیا تھا کہ ''ہم آگئے تو گرمئی بازار دیکھنا۔''
فیضؔ نے کہا؎
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
یہ گیت اقبال بانو کی گرجدار آواز میں بھی موجود ہے لیکن فیسٹیول میںٹینا ثانی کی آواز تھی اور پیانو کی موسیقی کے پس منظر میں عدیل ہاشمی اور اسد انیس کی ادائیگی۔ ایک گفتگو کا سلسلہ بشریٰ انصاری نے شروع کیا جس کے لیے فیضؔ صاحب کا شعر ''تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے۔ تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے'' ان کے پیش نظر رکھا گیا تھا لیکن اس اداس اور بیقرار غزل میں بھی بشریٰ نے امید کی کرنوں کو بجھنے نہ دیا۔ بہار کے امکاں کو زندہ رکھنے کے لیے موجودہ پانچ سیاسی پارٹیوں کے نمایندوں نے اپنی گفتگو میں روشن مستقبل کی نوید دی۔ اگرچہ موجودہ حکمران سیاسی پارٹی کے بڑوں نے اپنی بدبو دار تقاریر میں فضا کو مکدر کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔
علامہ اقبال اور فیض صاحب کے دو نواسوں یوسف صلاح الدین اور عدیل ہاشمی نے اپنے اپنے نانا کو یاد کرتے ہوئے جو کچھ بیان کیا ہر سننے والا رشک کرتا ہو گا اور وہ Legendary Grand Fathers کا ذکر کرتے ہوئے کتنی مشکل سے جذبات کو قابو میں رکھے ہوئے ہوں گے۔
دور حاضر کے معروف شاعر امجد اسلام امجد اور ڈرامہ نویس اصغر ندیم سید نے اپنی اپنی فیلڈ کو پیش نظر رکھ کر ''عمر گزشتہ کی کتاب'' میں سے قیام پاکستان کی ستر سالہ تاریخ کے ورق الٹ کر سامعین کے سامنے ادیبوں اور شاعروں کی کارکردگی اورکنٹری بیوشن کا احاطہ کیا اور ہر دو نے خوبصورت انداز میں ماہرانہ تجزیہ پیش کیا۔ کالجوں کے نوجوان طلباء اور گرامر اسکول کے بچوں نے ڈیبیٹ مقابلے اور رقص پیش کرنے میں صلاحیتیں سامعین، ناظرین کو دکھائیں تو خوب داد پائی۔ اسی طرح نوجوان گائیکوں نے فیضؔ صاحب کی نظمیں اور غزلیں گا کر سامعین سے بھر پور داد وصول کی۔ سنگت پروڈکشن نے ہفتہ اتوار دونوں دن تھیٹر پلے سے سامعین کا دل بہلایا۔ لوک ورثہ نے فیضؔ کے گیت ''جگ وسدا اے میں وی وساں'' کو سامنے رکھ کر پرفارمنس دی۔
فیضؔ کے کلام میں سے ''بہار کے امکاں'' اور ''ہر اک اولی الامر کو صدا دو'' کی روشنی میں اعتزاز احسن، افراسیاب خٹک، اسد عمر، مجتبیٰ شجاع، عاصم سجاد، عطیہ عنایت اللہ، فوزیہ وقار اور آئی اے رحمان نے اپنے اپنے تجزیوں میں آج کل کی سیاست سے کرپشن کے خاتمے، احتساب کے امکان اور Male Domination کو پیش نظر رکھ کر سنجیدہ گفتگو کی جس میں فیضؔ کی اداسی میں امید کی کرن کا ذکر نمایاں تھا۔ یعنی؎
یہ شب کی آخری ساعت گراں کیسی بھی ہو ہمدم
جو اس ساعت میں پنہاں ہے اجالا ہم بھی دیکھیں گے
ایک قابل ذکر گفتگو ''فیضؔ اور یہ بکھرا معاشرہ'' ڈاکٹر عارفہ سیدہ کی تھی جو مایوسی کی طرف لے جاتی تھی لیکن اسی روز ڈاکٹر عارفہ کی بات چیت زہرہ نگاہ کے ساتھ فیضؔ ہی کے کلام میں سے لیے گئے موضوع ''گلشن میں بہار آئی'' پر ہوئی جو بتاتی تھی کہ فیضؔ ہمیشہ پر امید رہتے تھے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول، زباں اب تک تیری ہے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
گزشتہ ہفتے 17 نومبر سے 19 نومبر تک تیسرا فیضؔ انٹرنیشنل فیسٹیول الحمرا آرٹس کونسل میں منعقدہوا۔ یہ حسب سابق آنے والے دنوں کے سفیروں کے نام تھا۔ شام 4 بجے نمائش کا افتتاح ہوا جس میں فیضؔ صاحب کی لائف ہسٹری، ان کی یادگار و نایاب تصاویر کی صورت میں اور ان کی چند نظمیں انلارج کی ہوئی فریموں میں ڈسپلے کی ہوئی تھیں۔ یہ نظم بھی ان میں شامل تھی۔
نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
جو تجھ سے عہد وفا استوار رکھتے ہیں
علاج گردش لیل و نہار رکھتے ہیں
فیسٹیول کے پہلے دن نمائش کے شاملین سے محترمہ سلیمیٰ ہاشمی اور جناب آئی اے رحمان نے خطاب کیا۔ اسی روز شام 6 بجے ''لو پھر بہار آئی'' کے نام سے اجوکا تھیٹر کی پیشکش بھی ڈرامے کی صورت میں تھی جس نے محفل میں اپنا رنگ بھر دیا۔
یہ فیسٹیول کا تیسرا سال تھا۔ یوں تو ساری دنیا میں فیض احمد فیضؔ کے حوالے سے تقریبات ہوتی رہتی ہیں لیکن پاکستان میں ان کی صاحبزادی سلیمیٰ ہاشمی اور فیملی پاکستان اور بیرون ملک سے فیضؔ کے مداحوں کو اکٹھا کر لیتی ہے۔ ان تین دنوں میں ایک گھنٹے کے دورانیے کے الحمرا کی پانچ جگہوں پر ستر سے زیادہ Events ہوئے اور علم و ادب، موسیقی، آرٹ، تھیٹر، فلم، نمائش، گفتگو، شاعری، مکالمہ، سبھی سے دیدہ و دل کی ضیافت ہوئی۔ یہاں انڈور ہی نہیں آؤٹ ڈور پروگرام بھی تھے۔ بچوں کی دلچسپیوں، سائنس اور تھیٹر سے متعلق ورکشاپس کا اہتمام بھی تھا۔ فیسٹیول کے تین دنوں میں چھ نئی کتب کی رونمائی ہوئی اور ہر لانچ سے پہلے تعارفی تقریب ہوئی۔ بیرون ممالک سے آئے مہمانوں جن میں فلسطینی آرکیٹیکٹ خاتون، ملک شام کے میوزک کمپوزر اور برطانیہ کے میاں بیوی کی خوب پذیرائی ہوئی۔ برطانوی Tanya Walk اردو نہیں جانتی تھی لیکن اس نے فیضؔ صاحب کا کلام سنایا اور نغمیں غزلیں گائیں جبکہ اس کے خاوند نے گٹار پر اس کا ساتھ دیا۔
اس فیسٹیول کا ایک اچھوتا اور خوبصورت رنگ بھی یہ تھاکہ ہر پروگرام کا عنوان فیضؔ صاحب کی کسی نظم یا غزل کے ٹکڑے سے اخذ کر کے بامعنی بنایا گیا تھا۔ مثلاً Art as Healer پر گفتگو کا عنوان ان کی ایک نظم سے لے کر اس طرح تھا ''بے وجہ قرار آ جائے'' جبکہ فیضؔ صاحب کی شاعری میں نغمگی'' کے لیے ان کی نظم سے مصرع لے کر اسے ''ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے'' کا عنوان دیا گیا تھا۔ بشریٰ انصاری کے پروگرام کا عنوان بھی فیضؔ صاحب سے یوں مستعار لیا گیا تھا کہ ''ہم آگئے تو گرمئی بازار دیکھنا۔''
فیضؔ نے کہا؎
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
یہ گیت اقبال بانو کی گرجدار آواز میں بھی موجود ہے لیکن فیسٹیول میںٹینا ثانی کی آواز تھی اور پیانو کی موسیقی کے پس منظر میں عدیل ہاشمی اور اسد انیس کی ادائیگی۔ ایک گفتگو کا سلسلہ بشریٰ انصاری نے شروع کیا جس کے لیے فیضؔ صاحب کا شعر ''تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے۔ تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے'' ان کے پیش نظر رکھا گیا تھا لیکن اس اداس اور بیقرار غزل میں بھی بشریٰ نے امید کی کرنوں کو بجھنے نہ دیا۔ بہار کے امکاں کو زندہ رکھنے کے لیے موجودہ پانچ سیاسی پارٹیوں کے نمایندوں نے اپنی گفتگو میں روشن مستقبل کی نوید دی۔ اگرچہ موجودہ حکمران سیاسی پارٹی کے بڑوں نے اپنی بدبو دار تقاریر میں فضا کو مکدر کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔
علامہ اقبال اور فیض صاحب کے دو نواسوں یوسف صلاح الدین اور عدیل ہاشمی نے اپنے اپنے نانا کو یاد کرتے ہوئے جو کچھ بیان کیا ہر سننے والا رشک کرتا ہو گا اور وہ Legendary Grand Fathers کا ذکر کرتے ہوئے کتنی مشکل سے جذبات کو قابو میں رکھے ہوئے ہوں گے۔
دور حاضر کے معروف شاعر امجد اسلام امجد اور ڈرامہ نویس اصغر ندیم سید نے اپنی اپنی فیلڈ کو پیش نظر رکھ کر ''عمر گزشتہ کی کتاب'' میں سے قیام پاکستان کی ستر سالہ تاریخ کے ورق الٹ کر سامعین کے سامنے ادیبوں اور شاعروں کی کارکردگی اورکنٹری بیوشن کا احاطہ کیا اور ہر دو نے خوبصورت انداز میں ماہرانہ تجزیہ پیش کیا۔ کالجوں کے نوجوان طلباء اور گرامر اسکول کے بچوں نے ڈیبیٹ مقابلے اور رقص پیش کرنے میں صلاحیتیں سامعین، ناظرین کو دکھائیں تو خوب داد پائی۔ اسی طرح نوجوان گائیکوں نے فیضؔ صاحب کی نظمیں اور غزلیں گا کر سامعین سے بھر پور داد وصول کی۔ سنگت پروڈکشن نے ہفتہ اتوار دونوں دن تھیٹر پلے سے سامعین کا دل بہلایا۔ لوک ورثہ نے فیضؔ کے گیت ''جگ وسدا اے میں وی وساں'' کو سامنے رکھ کر پرفارمنس دی۔
فیضؔ کے کلام میں سے ''بہار کے امکاں'' اور ''ہر اک اولی الامر کو صدا دو'' کی روشنی میں اعتزاز احسن، افراسیاب خٹک، اسد عمر، مجتبیٰ شجاع، عاصم سجاد، عطیہ عنایت اللہ، فوزیہ وقار اور آئی اے رحمان نے اپنے اپنے تجزیوں میں آج کل کی سیاست سے کرپشن کے خاتمے، احتساب کے امکان اور Male Domination کو پیش نظر رکھ کر سنجیدہ گفتگو کی جس میں فیضؔ کی اداسی میں امید کی کرن کا ذکر نمایاں تھا۔ یعنی؎
یہ شب کی آخری ساعت گراں کیسی بھی ہو ہمدم
جو اس ساعت میں پنہاں ہے اجالا ہم بھی دیکھیں گے
ایک قابل ذکر گفتگو ''فیضؔ اور یہ بکھرا معاشرہ'' ڈاکٹر عارفہ سیدہ کی تھی جو مایوسی کی طرف لے جاتی تھی لیکن اسی روز ڈاکٹر عارفہ کی بات چیت زہرہ نگاہ کے ساتھ فیضؔ ہی کے کلام میں سے لیے گئے موضوع ''گلشن میں بہار آئی'' پر ہوئی جو بتاتی تھی کہ فیضؔ ہمیشہ پر امید رہتے تھے۔