وہ کل جو کسی نے نہیں دیکھی ہے

آج بھی کوئی فرق نہیں پڑا ہے گائے بھی وہی ہے اور دوہنے والے بھی وہی ہیں، نام بدلتے رہے ہیں.


Saad Ulllah Jaan Baraq November 26, 2017
[email protected]

BIRMINGHAM, UK: قصہ وہی گائے کا ہے بلکہ دو گائیوں کا قصہ سمجھ لیجیے، ایک وہ گائے جو ''پوجی'' جاتی ہے اور دوسری وہ جو ''دوہی'' جاتی ہے۔ جو پوجی جاتی ہے وہ تو رشی و شیٹھ اور کھشتری و شوامتر ہیں اور جو دوہی جاتی ہے وہ دونوں کی ساجھے کی ہے جس پر راجہ اور رشی دونوں کے درمیان اتفاق ہوا ہے کہ تم بھی دوہو، میں بھی دوہوں گا، تم بھی ہڑپو اور مجھے بھی ہڑپنے دو۔

آج بھی کوئی فرق نہیں پڑا ہے گائے بھی وہی ہے اور دوہنے والے بھی وہی ہیں، نام بدلتے رہے ہیں لیکن کام (دوہنے کا) وہی چل رہا ہے۔ ہا ں، البتہ زمانے کے ساتھ اس کام میں وسعت بھی بہت پیدا ہو گئی ہے۔ پہلے کھشتری اور برہمن یا راجہ اور رشی کی ''لمیٹڈ کمپنی'' تھی۔ لیکن آہستہ آہستہ اس میں ساجھے داروں کی نئی نئی شاخیں پھوٹتی رہیں تو کمپنی بھی لمیٹیڈ کہاں ''ان لمیٹڈ'' ہو گئی، اور پھر جمہوریت کے ظہور کے ساتھ تو باقاعدہ ایک بہت بڑا ''گروپ آف کمپنیز'' وجود میں آ گیا، جس میں شاعر و صورت گرو افسانہ نویس اور گانے ترانے قوالیوں والے بھی شامل ہو گئے اور یہ تعویذات، عملیات، منتر جنتر اور جنات والے بابا بھی شیئر ہولڈر بن گئے۔

لیکن مقصد و مرام سب کا اب بھی ایک ہی ہے، امید اور آنے والی چمکدار ''کل'' بیچ بیچ کر ''آج'' کو بھلانا۔ کہ فکر مت کرو آج اگر برا ہے تو ہونے دو ''کل'' بہت جلد ہی تخت گرائے جائیں جب تاج اچھالے جائیں گے، جب ظلم و ستم کے کوہ گران روئی بن کر اڑ جائیں گے

گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل ہم ہوں گے
یہ چاردن کی جدائی تو کوئی بات نہیں

گر آج اوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں

حالانکہ وہ دن جس کا وعدہ ہے اور وہ وعدہ رب ذولجلال کا ہے۔ وہ ایک اور خاص الخاص ''دن'' ہے لیکن یہ ہمارے ''کل'' کے سوداگر اس خاص دن کی باتوں کو بڑی فنکاری سے اسی جیتے جاگتے دن پر اپلائی کر دیتے ہیں۔

جب راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

کہاں کا راج؟ کونسا راج اور کب؟ لیکن ماننا پڑے گا کہ اس ''خدا'' والے ''کل'' اور اس دنیا کے کل کو آپس میں گڈ مڈ کرنا تو کوئی ان سے سیکھے۔ لوگوں کو لگتا ہے جیسے وہ کل بس سامنے ہی ہے اس کل کل میں بات اس اصلی والی ''کل'' تک پہنچ جائے گی لیکن یہ شاعروں، صورت گروں، افسانہ نویسوں کی ''کل'' کبھی ''آج'' نہیں ہو پائے گی۔ ان تمام لوگوں سے معذرت کے ساتھ جو شعروں افسانوں اور نعروں میں عوام کو ایک جعلی اور مصنوعی کل کے دلاسے دے دے کر آج کو برداشت کرنے کی تلقین کرتے ہیں ان میں سے ایک ہم بھی ہیں لیکن

منہ سے ہم آپ بُرا تو نہیں کہتے کہ فراقؔ
ہے ترا دوست مگر آدمی اچھا بھی نہیں

بھئی خدا نے تو جس کل یا دوسرے دن کا وعدہ کیا ہے وہ تو اٹل ہے برم ہے اور غیر مبدل ہے کہ سچے خدا کا سچا وعدہ ہے اس لیے وہ دن تو یقینًا آئے گا لیکن یہ تم لوگ بیج میں کس کل کی بات کر رہے ہو ان میں اور اس ماں میں کوی فرق نہیں جو ہانڈی میں پانی ابال رہی تھی۔

بھوکے بچوں کی تسلی کے لیے

ماں نے پھر پانی پکایا دیر تک

خیر اپنے شاعروں، صورت گروں، افسانہ نویسوں کو ہم برا یا کم از کم اس سے زیادہ برا تو کہہ نہیں سکتے جتنے وہ ہیں۔ بچارے کریں بھی تو کیا کریں ''آج'' کے سوداگروں کے لیے ''کل'' نہیں بچیں گے تو ''آج'' میں یہ بھی کیا کھائیں گے؟ وہ نجومی تو احمق تھا یا اپنے فن میں کچا تھا جس نے ایک خدا مارے کو ''چالیس سال'' کا عدد بتایا تھا۔ اگر ہمارے لیڈروں کے زیر سایہ پلا بڑھا ہوتا تو سیدھا سادا ''کل' کا ہدف بتا دیتا اور وہ بڑے آرام سے ستر سال کا ٹ کر بھی کل کا منتظر رہتا، بلکہ انتظار انتظار میں انڈر گراؤنڈ ہو کر اس اصلی والی ''کل'' کی امید میں لیٹ جاتا جس کا وعدہ رب سچے نے کیا ہوا ہے۔

ایک لوہار کی دکان میں اس کا بیٹا بیٹھے ہوئے کھجور کھا رہا تھا کہ اتنے میں کوئی خدا مارا ایک لوہے کا ٹکڑا لے کر آ گیا کہ اس کا مجھے درانتی بنا کر دے دو۔ لوہار کے بیٹے نے کہا ٹھیک ہے بن جائے گی۔آدمی نے پوچھا کب تک بن جائے گی۔ لوہار کا بیٹا کھجور کی گٹھلی ایک کونے میں پھینک کر بولا جب اس گٹھلی کا درخت بن جائے گا اور پھل دینے لگے گا تب تک۔ آدمی چلا گیا تھوڑی دیر بعد اس کا باپ آیا تو بیٹے نے روداد سنائی۔

لوہار نے کہا تم بڑے بے وقوف ہو کیا پتہ کھجور کی گٹھلی کل پھوٹ جائے اور پرسوں درخت بن کر پھل دینے لگے ایسا ''جلدی'' کا وعدہ ہمارے پیشے کو سوٹ نہیں کرتا صاف صاف ''کل'' کا وعدہ کر دیتے کیونکہ کل نہ کبھی آئی ہے اور نہ آئے گی کیونکہ آج جو کل ہے وہ کل ہمیشہ آج بن کر آتا ہے اور آج کا کل پھر کل ہوتا ہے اس سلسلے میں پاکستانی سیاست اور لیڈر بہت منجھے ہوئے ہیں کیونکہ ان کا کل ستر سال سے بدستور کل ہی ہے اور آیندہ بھی ''کل'' ہی رہے گی۔

اس لیے تو ایک ماہر تجارت کا قول ہے کہ سب سے اچھا مال تجارت ''کل'' ہے کہ اس پر نہ تو کبھی کچھ خرچ ہوتا ہے نہ دینا پڑتا ہے جتنی مرضی ہو اسے بیچو بیجتے رہو ''کل'' میں کچھ بھی کمی یا فرق نہیں آئے گا۔ ہمارے اندازے کے مطابق آج تک دنیا میں جتنے بھی شاعر و صورت گر و افسانہ نویس ہوئے ہیں تجارتیں چلی ہیں دکانیں کھلی ہیں سب کے سب وہ کل بیجتے رہے ہیں جو کسی نے نہیں دیکھی ہے کس کو پتہ بھی نہیں کہ کب کیسے اور کس طرح ''کل'' نے آج کا روپ دھارن کر لیا اور آج تو آج ہوتا ہے کل نہیں ہوتا اس سلسلے میں امیر حمزہ شنواری کا ایک شعر بڑے کمال کا ہے

تاچہ نن حمزہ تہ پہ وعدے پسے وعدہ ورکہ
نو سہ نوی خبرہ دے پیدا کڑہ پہ زاڑہ کے

یعنی تم نے آج حمزہ کو ایک مرتبہ پھر ''کل'' کا وعدہ دے دیا ہے تو آخر اس میں نئی بات کیا ہوئی مطلب یہ کہ یہ وعدہ تو سال بھر پہلے بھی تھا اور سال بھر بعد بھی رہے گا۔ کل جیسے آج تک کسی نے نہیں دیکھا ہے کیونکہ وہ صرف ایک ہی ''بار'' آئے گی اور وہ وہی کل ہوگی جس کے نام پر لوگ نقلی کل بیچتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں