دو ہم نام گلوکارائیں

زہرہ بائی آگرے والی خیال، دادرا، ٹھمری گیت اور دیگر پکے راگوں کے گانے پر مکمل عبور رکھتی تھیں۔

fatimaqazi7@gmail.com

LAUSANNE:
انیسویں صدی کے اوائل میں غیر منقسم ہندوستان کی فلمی دنیا میں مسلمان گلوکاراؤں کے کافی نام ملتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ اس دور میں جبکہ ادب میں بھی خواتین اپنے اصلی نام کے بجائے بیٹے یا والد کے نام سے لکھتی تھیں۔ مثلاً بنت نذر یا والدہ افضل علی وغیرہ۔ وہیں ہمیں پلے بیک سنگرز میں زہرہ بائی انبالے والی، شمشاد بیگم، امیر بائی کرناٹکی، نورجہاں، زینت اور زہرہ بائی آگرے والی کے نام بہت نمایاں نظر آتے ہیں۔ منور سلطانہ گلوکارہ بھی تھیں اور فلموں میں ہیروئن کے رول بھی ادا کرتی تھیں۔

آج ہم آپ کی ملاقات دو ہم نام گلوکاراؤں سے کرواتے ہیں۔ یہ ہیں زہرہ بائی انبالے والی اور دوسری ہیں زہرہ بائی آگرے والی۔ زہرہ بائی انبالے والی کا جنم مشرقی پنجاب کے شہر انبالے میں ہوا اور زہرہ بائی آگرے والی کی جنم بھومی ٹھہری آگرہ۔ دونوں چونکہ ہمنام تھیں اور دونوں ہی کا تعلق موسیقی کے معروف اور نامور گھرانے ''آگرہ گھرانہ'' سے تھا، اسی لیے ایک نے انبالے کا لاحقہ چنا اور دوسری نے آگرے کا۔

زہرہ بائی انبالے والی کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولا ان کی صاف، نکھری ہوئی آواز میں قدرتی طور پر ایک چاشنی تھی جو سننے والوں کو متاثر کرتی تھی۔ وہ نہ صرف فلموں کے لیے گاتی تھیں بلکہ کلاسیکل میوزک پہ بھی پورا عبور رکھتی تھیں۔ ان کا جنم 1918 میں ہوا اور وفات 21 جنوری 1990میں۔ زہرہ کا شمار ان گلوکاراؤں میں ہوتا ہے جن کی آواز کی رینج بہت زیادہ تھی۔ لیکن انھوں نے گایا ہمیشہ مدھم اور نچلے سروں میں۔

وہ تیرہ برس کی تھیں جب پہلا گیت گایا، جو یہ تھا۔

پس دیوارکھڑے ہیں' تیرا کیا لیتے ہیں
دیکھ لیتے ہیں' تپش دل کی بجھا لیتے ہیں

زہرہ بائی انبالے والی کے خاندان میں کسی کا بھی تعلق موسیقی سے نہیں تھا۔ انھیں بچپن ہی سے گانے کا شوق تھا، جسے ان کے نانا نے پروان چڑھایا اور نہ صرف ساتھ دیا بلکہ موسیقی کی تعلیم کا باقاعدہ انتظام بھی کیا۔ انھوں نے موسیقی کی تعلیم استاد غلام حسین خاں سے حاصل کی۔ زیڈ اے بخاری ان دنوں آل انڈیا ریڈیوکے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ وہ اچھے اور نئے فنکاروں کی تلاش میں ہمیشہ سرگرداں رہتے تھے۔ جہاں بھی ٹیلنٹ نظر آیا اسے پکڑ کر ریڈیو لے آئے۔

تقسیم کے بعد بخاری صاحب پاکستان آگئے۔ ان تک جب زہرہ کی تعریف پہنچی تو ایک محفل میں جہاں کلاسیکل موسیقی کے حوالے سے اچھے گانے والے جمع تھے۔ وہیں زہرہ نے ٹھمری، دادرا اور خیال پیش کیا۔ بخاری صاحب کی جوہر شناس نظروں نے پہچان لیا کہ یہ بچی بہت آگے تک جائے گی۔ لہٰذا وہ زہرہ کو آل انڈیا ریڈیو لے آئے۔ جہاں استاد فیاض احمد خاں جیسے نامور لوگ بھی موسیقی کے شعبے سے منسلک تھے۔ زہرہ جب ریڈیو سے وابستہ ہوگئیں تو ان کی شہرت فلمی دنیا تک جا پہنچی۔

ایک گرامو فون کمپنی نئے ٹیلنٹ کی تلاش میں رہتی تھی۔ ایک جگہ محفل موسیقی میں اس کمپنی نے جب زہرہ کو سنا اور ان کی کھنک دار آواز ان کے کانوں میں پڑی تو فوراً ہی کانٹریکٹ سائن ہوگئے۔ ادھر بخاری صاحب مہینے میں چار مرتبہ ریکارڈنگ کے لیے بلانے لگے۔ زہرہ نے ٹھمری، دادرا، بھیرویں، خیال، غزل اور گیت سب گائے۔ 14 برس کی عمر میں ان کی شادی ہوگئی، لیکن شوہر نے گانے پر پابندی نہیں لگائی۔ یہ وہ دور تھا جب فلمی دنیا پر امیربائی کرناٹکی، شمشاد بیگم، راجکماری اور اوما دیوی اور منور سلطانہ کا راج تھا۔

یہ سب گلوکارائیں اپنی اپنی گائیکی میں منفرد تھیں، لیکن زہرہ بائی انبالے والی ان میں نمایاں یوں ہیں کہ کلاسیکل، سیمی کلاسیکل گیت اور غزل سب میں ان کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا۔ زہرہ کی آواز کی کوالٹی کو صحیح معنوں میں موسیقار اعظم نوشاد علی نے سمجھا۔ 1944 میں بننے والی فلم ''رتن'' کے گیتوں نے زہرہ کو وہ لازوال شہرت دی جو آج تک موسیقی کے شائقین کو یاد ہے خاص طور پہ یہ گیت:

1۔ انکھیاں ملا کے جیا برما کے چلے نہیں جانا...(رتن)

2۔آئی دیوالی' آئی دیوالی...(رتن)

3۔اڑن کھٹولے پہ اڑ جاؤں' تیرے ہاتھ نہ آؤں...(زہرہ اور شمشاد بیگم)

4۔ شاید وہ جا رہے بچ کر بری نظر سے ...(میلہ)


5۔ یہ رات پھر نہ آئے گی' جوانی بیت جائے گی...(محل، زہرہ+امیربائی کرناٹکی)

6۔بیٹھی ہوں دل میں تیری تمنا لیے ہوئے

7۔چلے گئے چلے گئے' دل میں آگ لگانے والے

8۔ ساون کے بادلو' ان سے یہ جا کہو ...(زہرہ+کرن دیوان۔ فلم ''رتن'')

9۔ کہیں چراغ محبت جلائے جاتے ہیں

''رتن''، ''انمول گھڑی'' اور ''میلہ'' تینوں فلموں کا میوزک نوشاد علی نے دیا تھا۔ آج بھی ان فلموں کے سدابہار گیت شائقین ذوق و شوق سے سنتے ہیں۔ زہرہ نے جو بھی گایا امر ہوگیا، ۔ ''رتن'' 1944 میں بنی، ''انمول گھڑی'' 1946 میں ''میلہ'' 1948 میں ''جادو'' 1951 میں ۔ اور 1945 میں وہ مشہور زمانہ فلم بنی جس کا نام ''زینت'' تھا۔ ایشین فلم انڈسٹری میں سب سے پہلی خواتین کی قوالی ''آہیں نہ بھریں' شکوے نہ کیے کچھ بھی نہ زباں سے کام لیا ''سامنے آئی۔ اپنے وقت میں یہ قوالی بہت مقبول ہوئی۔ اسے زہرہ بائی، نور جہاں اور کلیانی نے گایا تھا۔ اور بول لکھے تھے نخشب نے۔

اس قوالی سے آنے والے فلمی دور کو ایک نئی راہ ملی اور خواتین کی قوالیاں فلم کی ضرورت بن گئیں۔ بالخصوص فلم ''برسات کی رات'' اور ''مغل اعظم'' کی قوالیاں۔ 1933 میں زہرہ نے ایک فلم ''ڈاکو کی لڑکی'' میں بھی کام کیا۔ متذکرہ بالا گلوکار خواتین کا دور 1951 تک رہا۔ جب 1948 میں لتا اور گیتا رائے (گیتادت) نے گلوکاری کے میدان میں قدم رکھا تو آہستہ آہستہ زہرہ بائی انبالے والی، شمشاد، خورشید، اومادیوی، امیربائی کرناٹکی، راجکماری سب پس منظر میں چلی گئیں۔

زہرہ بائی آگرہ والی کا جنم 1868 میں آگرہ میں ہوا اور 1913 میں وہیں وفات پائی۔ ہندوستانی کلاسیکل میوزک میں آگرہ والی کا مقام بہت بلند ہے۔ ''آگرہ گھرانہ'' موسیقی کا مشہورگھرانہ تھا۔ وہ ذی اثر اور بارسوخ گائیکہ تھیں، درباروں اور امرا و رؤسا کی محفلوں میں وہ عزت سے بلائی جاتی تھیں، صاحب ذوق اور صاحب حیثیت لوگ ان کے فن کے قدردان تھے۔ وہ مشہور مغنیہ گوہر جان کی ہم عصر تھیں۔ گوہر جان کا نام موسیقی کی دنیا میں خاصا مشہور ہے وہ بھی اپنے فن میں یکتا تھیں، لیکن گوہر جان بھی صرف راجے مہاراجوں اور نوابین کی محفلوں ہی میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتی تھیں۔

قرۃ العین حیدر نے اپنے ناول ''گردش رنگ چمن'' میں گوہر جان کا تذکرہ کیا تھا۔ ایک بارگوہر نے اکبر الٰہ آبادی سے فرمائش کی کہ کوئی شعر ان پر بھی کہا جائے۔ اکبر مزاحیہ شعر کہتے تھے فوراً ہی شعرکہا جس کا مجھے صرف مصرعہ ثانی یاد ہے جو کچھ یوں تھا۔

سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا

یقینا مصرعہ اول میں ''گوہر'' کا قافیہ روا رکھا ہوگا۔

زہرہ بائی آگرے والی خیال، دادرا، ٹھمری گیت اور دیگر پکے راگوں کے گانے پر مکمل عبور رکھتی تھیں۔ انھوں نے موسیقی کی تعلیم استاد شیرخاں، استاد کلن خاں اور کمپوزر محبوب خاں سے حاصل کی۔ خیال کی گائیکی میں انھیں کمال حاصل تھا۔ انھوں نے غزلیں بھی گائیں، غزل گائیکی کی تعلیم استاد احمد خاں سے حاصل کی اور استاد فیاض خاں سے بھی موسیقی کا درس لیا۔ پٹیالہ گھرانہ کے استاد بڑے غلام علی خاں بھی استاد فیاض خاں کا بہت احترام کرتے تھے۔ مشہور گرامو فون کمپنی L.H.M.V نے1908 تا 1911میں زہرہ کے کئی گراموفون ریکارڈ تیار کیے اور 25 گانوں کا معاوضہ انھیں 2500 سالانہ کے حساب سے دیا۔ 2003 میں گراموفون کمپنی نے ان کے 60 سے زائد آڈیو کیسٹ جو گیت، غزل اور ٹھمری پہ مشتمل تھے دوبارہ ریلیزکیے۔

زہرہ بائی انبالے والی اور زہرہ بائی آگرے والی میں کئی باتیں مشترک ہیں۔ نام، شہرت، غزل، گیت، ٹھمری، دادرا گانے کے علاوہ موسیقی کا گھرانہ بھی ایک۔ لیکن سب سے بڑی بات یہ کہ نامور اساتذہ سے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ اسی لیے ان کی گائیکی آج بھی زندہ ہے۔ جبکہ آج یہ حال ہے کہ بس مائیک پکڑ کے تھرکنا آگیا اور گلوکا ربن گئے۔ سارا کام میوزیشن نے سازوں سے کردیا۔ اسی لیے آج کے زیادہ تر فنکاروں پہ یہ جملہ صادق آتا ہے کہ:

''ادھر ڈوبے ادھر نکلے''
Load Next Story