پیرس 2017

ہم نے قرطبہ شہر پر ایک الوداعی نظر ڈالی اور مالاگا ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوئے جہاں سے ہمیں پیرس کی پرواز پکڑنا تھی۔

Amjadislam@gmail.com

قرطبہ کی تقریب اس اعتبار سے بہت شاندار اور مثالی تھی کہ اس پورے شہر میں پاکستانیوں کی کل آبادی عورتوں اور بچوں سمیت سو، سوا سو افراد پر مشتمل ہے اور ان میں سے تقریباً آدھے لوگ اس وقت ہال میں موجود تھے جبکہ تقریباً اتنے ہی لوگ اردگرد کے کچھ علاقوں سے آئے تھے جن میں دس کے قریب وہ دوست بھی شامل تھے جو ارشد نذیر ساحل اور حافظ احمد کے ساتھ خاص طور پر ایک ہزار کلو میٹر کا سفر کرکے بارسلونا سے پہنچے تھے۔

رات تین بجے ہم نے قرطبہ شہر پر ایک الوداعی نظر ڈالی اور مالاگا ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوئے جہاں سے ہمیں پیرس کی پرواز پکڑنا تھی۔ میاں طیب ہمیں داخلی دروازے پر ا تار کر کرائے کی گاڑی واپس کرنے کے لیے گئے تو دور دور تک سناٹا تھا۔ معلوم ہوا کہ اس وقت صرف ہماری فلائٹ والا کائونٹر ہی کھلا ہے اور وہ اتنے فاصلے پر واقع ہے کہ بیچ میں خاصا پیدل چلنے کے علاوہ دو لفٹوں کا سہارا بھی لینا پڑتا ہے۔

پیرس ایئرپورٹ پر حسب توقع میزبان چوہدری سعید سرور کے ساتھ عزیزی ایاز محمود ایاز اور عاکف غنی بھی موجود تھے۔ ہمارے قیام کا انتظام ایئرپورٹ کے علاقے میں ہی ملینئم نامی ایک معقول ہوٹل میں کیا گیا تھا جس کی پارکنگ وسیع اور ماحول بہت پرسکون اور خوبصورت تھا۔ البتہ ٹیکنالوجی کی سہولیات کے معاملے میں اس کا تعلق موجودہ کی بجائے گزشتہ ''ملینئم'' سے لگتا تھا کہ واپسی کے لمحے تک اس کی وائی فائی کی سروس کسی نہ کسی مسئلے کا شکار رہی۔

لابی کی حد تک تو تھوڑا بہت گزارا ہوجاتا تھا مگر کمروں کے اندر واپس ایپ کام نہیں کرتا تھا جس نے بہت ڈسٹرٹ رکھا۔ اب خیال آتا ہے کہ یہ سہولتیں ہمیں کس قدر زیادہ اور تیزی سے اپنا غلام اور عادی بنالیتی ہیں کہ اب ہمیں تھوڑی دیر کے لیے بھی رابطے کا ٹوٹنا گراں گزرتا ہے جبکہ چند برس قبل تک اگر دو تین دن کے وقفے سے بھی گھر والوں سے ایک دو منٹ کی ہی بات ہوجاتی تھی تو بھی ہم اسے ایک نعمت سے کم نہیں سمجھتے تھے۔

یہ تکلیف دہ لطیفہ میں پہلے بھی کئی کالموں میں دہرا چکا ہوں جس کا تعلق بیرون وطن مقیم پاکستانیوں اور ان کی انجمن سازی سے ہے کہ بقول شخصے جس شہر میں دو پاکستانی جمع ہوجائیں وہاں تین انجمنیں بن جاتی ہیں۔ پوچھا گیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ دو بندے تین انجمنیں بنالیں جواب ملا کہ ایک تو وہ مل کر بناتے ہیں اور ایک ایک ان کی اپنی اپنی ہوتی ہے۔

ادبی گروہ بندیوں اور انجمنوں کی حد تک تو یہ لطیفہ اب باقاعدہ ''حقیقہ'' بن چکا ہے جس کا ایک منظر یہاں پیرس میں بھی دیکھنے کو ملا کہ غزالی ایجوکیشن کے 2015ء والے پروگرام میں ایاز محمود ایاز اور سمن شاہ نے وہاں کی ادبی برادری کی مل کر بہت اچھے طریقے سے نمایندگی کی تھی۔ مگر اب یہ دونوں اپنا اپنا الگ گروپ بناچکے تھے۔ مقامی میزبان سعید سرور چوہدری نے بتایا کہ ان کو اس واقعے کا علم نہیں تھا۔ چنانچہ انھوں نے تقریب کے انتظامات کے ضمن میں سمن شاہ سے رابطہ کیا۔


دوسری طرف جب عزیزی ایاز محمود ایاز نے مجھے یہ اطلاع دی کہ سفیر پاکستان معین الحق بھی ہمارے اعزاز میں ایک تقریب کرنا چاہتے ہیں جو سفارت خانے میں ہوگی اور جس میں ان کی وساطت سے وہاں کی ادیب برادری کے نمایندوں کو بھی مدعو کیا جائے گا تو میں نے بھی برادرم عامر جعفری سے بات کرکے انھیں اگلے دن یعنی 6 نومبر کی شام کا وقت دے دیا جس کا اعلان انھوں نے واٹس ایپ پر بھی کردیا بس اس کے بعد تو ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔

سمن شاہ نے سعید سرور چوہدری اور غزالی ٹرسٹ دونوں سے رابطہ کیا اور انھیں بتایا کہ یہ ان کے پروگرام کو خراب کرنے کی ایک باقاعدہ اور سوچی سمجھی سازش ہے اور اگر سفارت خانے میں کوئی پروگرام رکھا گیا تو نتائج کے ذمے دار وہ خود ہوں گے اور یہ کہ اس کی وجہ سے اصل مقصد یعنی پاکستانی دیہات کے غریب، نادار اور بے سہارا بچوں کی تعلیم کے لیے فنڈ ریزنگ کا سلسلہ تباہ ہوکر رہ جائے گا۔ اس پر وہ لوگ بھی گھبرا گئے اور سچی بات ہے کہ میں بھی پریشان ہوگیا، دونوں بلکہ تینوں طرف سے واٹس ایپ میسیجز اور فون کالز کا سلسلہ شروع ہوگیا اور بات بتنگڑ کی شکل اختیار کرتی چلی گئی۔

مسلسل کوشش اور بار بار کے رابطے کے بعد معاملات کسی حد تک سیدھے تو ہوگئے مگر پروگرام کی کامیابی کے امکانات پر لگے ہوئے سوالیہ نشان کسی طرح کم نہ ہوسکے۔ عزیزی عاکف غنی کے ہمراہ جب ہم کارڈ پر دیئے گئے وقت سے بھی کوئی ڈیڑھ گھنٹہ بعد جلسہ مشاعرہ گاہ پہنچے تو اس وقت بھی حاضرین کی تعداد سو سواسو سے زیادہ نہ تھی جو بلاشبہ حوصلہ شکن تھی مگر نہ صرف اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا بلکہ پروگرام بھی ہر اعتبار سے بہت کامیاب رہا۔

میری بھتیجی مہرین، اس کا میاں ذاکر، گزشتہ پریس یاترا کے میزبان نصیر مرزا اور ان کے صاحبزادے نوید مرزا سمیت بہت سے احباب سے ملاقات اور تجدید ملاقات ہوئی مگر سب سے زیادہ خوشگوار حیرت پرویز سجاد صاحب سے مل کر ہوئی کہ ہماری اس ملاقات کا درمیانی وقفہ تقریباً نصف صدی کا تھا جب ہم دونوں کرکٹ کے میدانوں میں ملا کرتے تھے۔ وہ لیفٹ آرم لیگ اسپنر تھے اور اپنے مختصر ٹیسٹ کریئر میں انھوں نے بہت نام کمایا تھا۔

وہ پاکستان کی پہلی ٹیسٹ ٹیم کے کھلاڑی وقار حسن اور فلمی دنیا کے نامور ڈائریکٹر اقبال شہزاد کے بھائی ہیں اور فن اور کھیل سے ان کے خاندان کا یہ لگاؤ ان کی اگلی نسلوں کو بھی ٹرانسفر ہوا ہے ان سے گلے ملتے ہوئے پرانا مگر بروقت شعر بہت یاد آیا۔

اے ذوقؔ کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے

(جاری ہے)
Load Next Story