انسانی اسمگلنگ اور ترقی یافتہ ممالک
سرکاری اداروں اور سرحدی سیکیورٹی اہلکاروں کی معاونت ہی انسانی اسمگلنگ کے فروغ میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے
اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقبل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے ہفتے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ''تنازعات کی صورت حال میں ٹریفکنگ ان پرسنز'' پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے رکن ممالک کے مابین تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے جب کہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے امیر اور غریب کے مابین بڑھتے ہوئے فرق، آپس کے بڑھتے ہوئے تنازعات اور اقتصادی ناہمواریوں سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔
انسانی اسمگلنگ کے اسباب میں امیر اور غریب کے درمیان بڑھتا ہوا مسلسل تفاوت، اقتصادی ناہمواریاں،روزگار کے محدود ذرایع اور معقول اجرت کے حصول کا نہ ہونا بنیادی محرکات ہیں۔ جب تک انسانی اسمگلنگ کا سبب بننے والے عوامل شد ومد سے متحرک ہیں اس عفریت پر قابو پانا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ عالمی طاقتوں کی جانب سے پسماندہ اور غریب ممالک کے استحصال، وہاں کے وسائل کی لوٹ مار کے لیے باہمی تنازعات کو ہوا دینا بھی انسانی اسمگلنگ میں افزونی کا سبب بنا ہے۔
پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں قومی وسائل کی لوٹ مار میں ملوث مافیا جس میں حکمران، سیاست دان اور بیورو کریٹ بھی شامل ہیں، وہ اپنی ناجائز دولت کو چھپانے کے لیے ترقی یافتہ ممالک کا رخ کرتے ہیں، نتیجتاً ترقی پذیر ممالک میں کرپشن کے باعث نہ صرف ترقیاتی منصوبے متاثر ہوتے ہیں بلکہ عوامی غربت اور مہنگائی میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
غریب ممالک کے باشندے غربت کے اس جال سے باہر نکلنے کے لیے ترقی یافتہ ممالک میں جانے کے لیے ہر جائز وناجائز راستہ اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والے افراد میں سے متعدد نامساعد حالات یا پھر سرحدی سیکیورٹی محافظوں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں مگر اس کے باوجود انسانی اسمگلنگ کا دھندہ کم ہونے کے بجائے روز بروز بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ انسانی اسمگلروں کے دہشت گردوں سے روابط بھی تشویش ناک امر ہے۔
عالمی طاقتوں کو اس تمام صورت حال کا بخوبی ادراک ہے مگر وہ اس سلسلے میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ چونکہ افریقہ اور پسماندہ ممالک میں جنم لینے والے تنازعات کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک کے اقتصادی مفادات وابستہ ہیں لہٰذا یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ وہ ان تنازعات کو کبھی ختم کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ غریب ممالک کی پسماندگی میں بھی خوش حال ممالک کے منفی کردار سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
انسانی اسمگلرز اپنے مذموم دھندے کے لیے جدید مواصلاتی ذرایع بھی استعمال کر رہے ہیں جس سے ان کے منفی کاروبار کو مہمیز ملی ہے۔ انسانی اسمگلنگ کا راستہ تب تک مسدود نہیں ہو سکتا جب تک عالمی قوتیں اس ناسور کو ختم کرنے کے لیے اس کے حقیقی معنی و مفہوم کے مطابق متحرک نہیں ہوتیں۔ سرکاری اداروں اور سرحدی سیکیورٹی اہلکاروں کی معاونت ہی انسانی اسمگلنگ کے فروغ میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔
انسانی اسمگلنگ کا راستہ روکنے کے لیے اس کے بنیادی اسباب کا خاتمہ کرنا ہو گا ورنہ جس سرعت سے انسانی اسمگلروں اور دہشت گرد گروہوں کے مابین تعلقات استوار ہو رہے ہیں وہ مستقبل میں عالمی سطح پر بڑی پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں۔
ترقی یافتہ امیر ممالک کو اپنی پالیسیوں پر بھی نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے، عالمی مالیاتی اداروں اور ترقی یافتہ ممالک کو یہ حقیقت تسلیم کرلینے چاہیے کہ اگر تیسری دنیا کے ممالک کا معاشی اور سیاسی استحصال جاری رہا تو خوشحال ممالک کی جانب انسانی اسمگلنگ کا عمل جاری رہے اور اسے ختم کرنا نا ممکن ہوگا۔ جب غریب ممالک میں غربت کم ہوگی تو وہاں سے آبادی کا انخلا بھی کم ہوتا چلا جائے گا۔
انسانی اسمگلنگ کے اسباب میں امیر اور غریب کے درمیان بڑھتا ہوا مسلسل تفاوت، اقتصادی ناہمواریاں،روزگار کے محدود ذرایع اور معقول اجرت کے حصول کا نہ ہونا بنیادی محرکات ہیں۔ جب تک انسانی اسمگلنگ کا سبب بننے والے عوامل شد ومد سے متحرک ہیں اس عفریت پر قابو پانا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ عالمی طاقتوں کی جانب سے پسماندہ اور غریب ممالک کے استحصال، وہاں کے وسائل کی لوٹ مار کے لیے باہمی تنازعات کو ہوا دینا بھی انسانی اسمگلنگ میں افزونی کا سبب بنا ہے۔
پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں قومی وسائل کی لوٹ مار میں ملوث مافیا جس میں حکمران، سیاست دان اور بیورو کریٹ بھی شامل ہیں، وہ اپنی ناجائز دولت کو چھپانے کے لیے ترقی یافتہ ممالک کا رخ کرتے ہیں، نتیجتاً ترقی پذیر ممالک میں کرپشن کے باعث نہ صرف ترقیاتی منصوبے متاثر ہوتے ہیں بلکہ عوامی غربت اور مہنگائی میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
غریب ممالک کے باشندے غربت کے اس جال سے باہر نکلنے کے لیے ترقی یافتہ ممالک میں جانے کے لیے ہر جائز وناجائز راستہ اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والے افراد میں سے متعدد نامساعد حالات یا پھر سرحدی سیکیورٹی محافظوں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں مگر اس کے باوجود انسانی اسمگلنگ کا دھندہ کم ہونے کے بجائے روز بروز بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ انسانی اسمگلروں کے دہشت گردوں سے روابط بھی تشویش ناک امر ہے۔
عالمی طاقتوں کو اس تمام صورت حال کا بخوبی ادراک ہے مگر وہ اس سلسلے میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ چونکہ افریقہ اور پسماندہ ممالک میں جنم لینے والے تنازعات کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک کے اقتصادی مفادات وابستہ ہیں لہٰذا یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ وہ ان تنازعات کو کبھی ختم کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ غریب ممالک کی پسماندگی میں بھی خوش حال ممالک کے منفی کردار سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
انسانی اسمگلرز اپنے مذموم دھندے کے لیے جدید مواصلاتی ذرایع بھی استعمال کر رہے ہیں جس سے ان کے منفی کاروبار کو مہمیز ملی ہے۔ انسانی اسمگلنگ کا راستہ تب تک مسدود نہیں ہو سکتا جب تک عالمی قوتیں اس ناسور کو ختم کرنے کے لیے اس کے حقیقی معنی و مفہوم کے مطابق متحرک نہیں ہوتیں۔ سرکاری اداروں اور سرحدی سیکیورٹی اہلکاروں کی معاونت ہی انسانی اسمگلنگ کے فروغ میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔
انسانی اسمگلنگ کا راستہ روکنے کے لیے اس کے بنیادی اسباب کا خاتمہ کرنا ہو گا ورنہ جس سرعت سے انسانی اسمگلروں اور دہشت گرد گروہوں کے مابین تعلقات استوار ہو رہے ہیں وہ مستقبل میں عالمی سطح پر بڑی پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں۔
ترقی یافتہ امیر ممالک کو اپنی پالیسیوں پر بھی نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے، عالمی مالیاتی اداروں اور ترقی یافتہ ممالک کو یہ حقیقت تسلیم کرلینے چاہیے کہ اگر تیسری دنیا کے ممالک کا معاشی اور سیاسی استحصال جاری رہا تو خوشحال ممالک کی جانب انسانی اسمگلنگ کا عمل جاری رہے اور اسے ختم کرنا نا ممکن ہوگا۔ جب غریب ممالک میں غربت کم ہوگی تو وہاں سے آبادی کا انخلا بھی کم ہوتا چلا جائے گا۔