ہوش مندی کا مظاہرہ کیا جائے

حالات کا تقاضا ہے کہ قومی سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس فوری طور پر طلب کیا جائے

حالات کا تقاضا ہے کہ قومی سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس فوری طور پر طلب کیا جائے۔ فوٹو: فائل

تحریک لبیک کے دھرنے کو ختم کرنے کے لیے حکومت نے جو آپریشن شروع کیا تھا وہ اپنا ہدف حاصل نہیں کر سکا اور احتجاج ملک کے دیگر شہروں تک پھیل گیا۔حکومت نے ٹی وی چینلز کی نشریات بند اور دیگر اقدامات کرکے غیریقینی کی صورتحال پیدا کردی اور ملک افواہوں اور قیاس آرئیوں کی زد میں آگیا۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر دھرنا 21 ویں روز بھی بدستور جاری ہے۔

اکیس روز سے راولپنڈی، اسلام آباد کے شہر تو ایک عذاب میں مبتلا ہیں لیکن دو روز سے لاہور، فیصل آباد، کراچی اور دیگر شہروں میں دھرنے اور احتجاج نے ملک بھر کے عوام کو شدید مشکلا ت اور اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ کئی مقامات پر لوگ ابھی تک پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ شہروں میں داخلوں کے راستوں کو دھرنے والوں نے بند کر رکھا جب کہ انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

گزشتہ روز اسلام آباد میں اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا۔یہ اجلاس وزیراعظم کی صدارت میں ہوا جس میں آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ ،ڈی جی آئی ایس آئی، وزیر داخلہ اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے شرکت کی، بعدازاں وزیراعظم اورآرمی چیف کے درمیان ون آن ون ملاقات بھی ہوئی۔ اس کے بعد حکومت نے ٹی وی چینل کی نشریات بحال کردیں ۔ ابھی تک دھرنے والے موجود ہیں اور وہ اپنے مطالبات پر بدستور قائم ہیں ، یوں دیکھا جائے تو تنازعہ تاحال موجود ہے اور اس کا ابھی تک کوئی حتمی حل سامنے نہیں آیا۔ اعلیٰ سطح اجلاس میں کیا کیا امور زیر بحث آئے اور کیا فیصلے ہوئے ، اس کا پتہ ان اقدامات سے لگے گا جو حکومت آیندہ لے گی۔

اس سارے منظر نامے پر غور کیا جائے تو یہی لگتا ہے کہ حکومت نے شروع ہی سے اس احتجاج پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ کوشش کی اور نہ ہی احتجاج کی اس چنگاری کے شعلہ جوالہ بن کر بھڑکنے کے مضمرات کا درست اندازہ لگانے کی کوشش کی گئی۔دو ڈھائی ہفتے سے اسلام آباد میں دھرنا جاری تھا، تقریریں ہو رہی تھیں، عدلیہ کا فیصلہ بھی سامنے تھا، مذاکرات بھی جاری تھے لیکن مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا۔

بالآخر دھرنا ختم کرنے کے لیے آپریشن کا آپشن اختیار کیا گیا لیکن نتیجہ میں احتجاج ملک بھر میں پھیل گیا جس میں ہلاک یا زخمی ہونے والوں کی تعداد کا فی الحال حساب نہیں لگایا جا سکا سوائے ان تصاویر کے جو اخبارات میں شایع ہوئی ہیں۔صورتحال کی سنگینی کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ شیخوپورہ سے نون لیگ کے رکن قومی اسمبلی میاں جاوید لطیف کو بھی مشتعل مظاہرین نے تشدد کا نشانہ بنایا ۔ اطلاعات کے مطابق وہ مظاہرین سے بات چیت کرنے گئے تھے۔

احتجاج کو تین ہفتے سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے جنہوں نے اسلام آباد کے بیرونی علاقے میں بیٹھ کر عوام کی آمدو رفت کو روک رکھا ہے لیکن انھیں بزور طاقت وہاں سے اٹھانے کی کوشش کی گئی تو احتجاج کا دائرہ پورے ملک میں پھیل گیا جس سے ملک ایک خوفناک بحران سے دوچار ہو گیا۔ مسلم لیگ (ن) نے احتجاج پر قابو پانے کی اپنی طرف سے یہ کوشش کر کے دیکھ لی۔


مبصرین کو اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر لاہور سے احتجاجی مظاہرین کس طرح بحفاظت سیکڑوں کلومیٹر کا سفر کر کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچ گئے جہاں انھوں نے راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم یعنی انٹرچینج پر قبضہ جما کر دھرنا دے دیا جس کے نتیجے میں دونوں جڑواں شہروں کے لاکھوں باشندے پھنس کر رہ گئے۔ بار بار کی اپیلوں کے باوجود دھرنے والے ایمبولینسز کو بھی راستہ دینے پر تیار نہ تھے جس کے باعث بہت سے مریض اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی جان سے گزرتے رہے۔ کئی شادیاں دھرنے کی وجہ سے ملتوی ہو گئیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے بنیادی فرض کو پورا کرنے میں بھی کامیاب نہ ہو سکی۔

وفاقی دارالحکومت کے ساتھ جڑا ہوا دوسرا شہر راولپنڈی جو ملک کا چوتھا سب سے کثیر آبادی والا شہر ہے اس کے شہری تین ہفتوں سے زیادہ عرصے سے انتہائی سخت عذاب میں مبتلا ہیں اور اس کا خاتمہ ابھی ممکن نظر نہیں آرہا۔ اس بحران کی وجہ سے حکمران مسلم لیگ (ن) دائیں بازو کی جماعتوں کی حمایت بھی کھو بیٹھی حالانکہ مسلم لیگ خود دائیں بازو کی جماعت ہے اور اس کے مذہبی جماعتوں سے ہمیشہ اچھے تعلقات رہے ہیں۔ اس بات کی بھی لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر کسی پارٹی کو کس طرح لاکھوں شہریوں کی جان عذاب میں ڈالنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔

یہ بھی سمجھ نہیں آرہی کہ حکومت اگر آئینی ترمیم کو غلطی مان رہی ہے اور وہ کہتی ہے کہ غلطی درست بھی کردی گئی ہے تو پھر اس کے ذمے داروں کو بے نقاب کرنے میں کیوںضد کا مظاہرہ کررہی ہے۔ اگر ذمے داروں کو بے نقاب کردیا جاتا تو دھرنا ختم ہوجاتا ۔بہرحال معاملات کو تحمل اور تدبر سے حل کیا جانا چاہیے جو اس موقع پر دور دور تک نظر نہیں آیا۔ یہ ظاہر ہے کہ حکومت کے لیے اولین قدم کے طور پر سب سے پہلے امن و امان بحال کرنے کا مقصد ہونا چاہیے۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ سیکیورٹی اور انٹیلی جنس اتھارٹیز کو باہم بیٹھ کر لائحہ عمل طے کرنا چاہیے تھا تاکہ اس سنگین مسئلہ کو اچھے اور معقول طریقے سے حل کر لیا جاتا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اس موقع پر پس منظر میں رہے حالانکہ ان کے منصب کا تقاضا ہے کہ وہ اس بحران کو حل کرنے کے لیے اپنا حسن تدبر استعمال کریں۔ مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جسے وزیراعظم عباسی خیال کرتے ہیں کہ ان کا اصل فرض پارٹی کے اصل سربراہ کے ساتھ ان کی وفاداری کا اظہار ہے اور وہ کہتے بھی رہتے ہیں کہ ان کے وزیراعظم بدستور میاں محمد نواز شریف ہی ہیں جنھیں عدالت کی طرف سے نااہل قرار دیا جا چکا ہے لیکن ملک کا سیکیورٹی بحران اس حد تک بڑھ گیا ہے جو فی الفور حل کا متقاضی ہے کیونکہ اس میں مزید تاخیر کو کسی صورت بھی روا نہیں رکھا جا سکتا۔

حالات کا تقاضا ہے کہ قومی سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس فوری طور پر طلب کیا جائے اور اس بحران کا حل نکالنے کی کوشش کی جائے یا چاروں وزرائے اعلی کو اسلام آباد میں طلب کر لیا جائے جو اس بحران کو حل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کریں۔ اس حوالے سے ایک ابہام یہ بھی ہے کہ شاید سول اور عسکری ادارے ایک پیج پر نہیں ہیں یا ان میں تعاون اور یکسوئی کا فقدان ہے۔اس تاثر کو دور کیا جانا چاہیے۔پاکستان کی سلامتی سب کے لیے اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی حکمت عملی ملک وقوم کے لیے خطرناک بھی ہوسکتی ہے۔پاکستان کے اردگرد حالات ٹھیک نہیں ہیں، اس کا سب کو اداراک بھی ہے، ایسے حالات میں ملک کسی انارکی یا گھیراؤ جلاؤ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔دھرنے والوں اور حکومت اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز کو اس پہلو کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ لہذا سب کو ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

 
Load Next Story