مسئلہ کشمیر کا حل
بھارت کو یہ بات سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کشمیر کے حوالے سے اس کا سخت گیر رویہ سرحدی کشیدگی میں اضافہ کررہا ہے
پاکستان اور بھارت کے آزاد ہونے کے بعد ایشیا میں اور بھی ممالک آزاد ہوئے۔ ان میں سے اکثر کی ترقی اور خوشحالی قابل رشک ہے۔ آپ چین کو دیکھ لیں۔ عالمی برادری میں نمایاں مقام حاصل کیا اور اب وہ ایک عالمی اقتصادی طاقت بن چکا ہے۔ انڈونیشیا نے پرتگالیوں سے آزادی حاصل کی پھر اس سے ملائیشیا اور پھر ملائیشیا سے سنگاپور الگ ہوا۔ اس خطے میں لسانی کشمکش بھی تھی، مذہبی نظام بھی، سرحدی تنازعات بھی، انھوں نے مل جل کر ان مسائل سے نجات حاصل کی، اب یہ ممالک ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ ادھر جرمنی اور جاپان کی مثالیں بھی قابل ذکر ہیں۔
پاکستان اور بھارت میں آنکھ کھولنے والی ہر نئی نسل یہ سوال کرتی ہے کہ یہ دونوں ممالک نصف صدی سے زاید عرصہ گزرنے کے باوجود تعمیر اور ترقی میں کوئی قابل ذکر مقام کیوں نہ بناسکے؟ یہ وہ سوال ہے جن کا ہمیں جواب تلاش کرنا چاہیے۔اس حوالے سے پاکستانی عوام یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے ہاں پاکستان کے ابتدائی ایام سے ہی جمہوریت کا تسلسل نہیں رہا۔ ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا اور اس سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہوسکا۔
لیکن بھارت میں تو سیاسی اور جمہوری عمل مستقل چلتا رہا ہے، کامیاب جمہوری نظام اپنی سوسائٹی کو روشن خیال اور لبرل دکھانے کے لیے سیکولر ازم کا پرچار آئین سازی کا مرحلہ جلد از جلد طے کرلیاگیا۔ جاگیرداری کو آزادی کے فوراً بعد بڑی حد تک محدود کردیا گیا۔ انتظامی طور پر جہاں اور جب نئے صوبوں کے بنانے کی ضرورت ہوئی انھوں نے دیر نہیں کی۔ یہ سارے اقدامات ایسے تھے جن کی وجہ سے بھارت کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہونا چاہیے تھا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ نصف صدی سے زاید عرصہ گزر جانے کے باوجود بھارت کی بڑی آبادی پسماندگی اور غربت کا شکار ہے۔ آخر کیوں؟
اس بات کا ایک ہی جواب ہے کہ بھارت نے اپنے ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان کے ساتھ تصادم کی راہ اختیار کی۔ اس نے اپنے وسائل سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اپنے وسائل کو ایک دوسرے کی مخالفت میں جنگی تیاریوں پر جھونکنے پر صرف کیے۔ نتیجے میں پاکستان کا بھی اپنے دفاع اور سلامتی کا خطرہ پیدا ہوا۔ نتیجتاً وہ بھی اپنی کمزور اقتصادی معاشی حالات کے باوجوداسلحہ کی دوڑ میں شریک ہوا۔ یہ اقدامات ملک کی سلامتی اور دفاع کا تقاضا تھے۔
سوال یہ ہے کہ اس نظام کا بنیادی سبب کیا ہے۔ سیاست کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ اس نظام کا بنیادی سبب مسئلہ کشمیر ہے۔ مسئلہ کشمیر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک مستقل سیاسی مسئلے کے طور پر موجود ہے۔ یہ مسئلہ ہندوستان اور پاکستان کا جھگڑا نہیں بلکہ اس مسئلے کو بین الاقوامی حیثیت حاصل ہے، کیونکہ یہ مسئلہ انسانی آبادی کے ایک بڑے حصے کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا اس وقت تک اس خطے میں امن قائم نہیں رہ سکتا اور نہ ہی معاشی اور اقتصادی خوشحالی آسکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔ اس لیے ہمیں سب سے پہلے مسئلے کو سمجھنا ہوگا۔
1947 میں جب تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان کیا گیا تو وائسرائے ہند ماؤنٹ بیٹن نے تمام ریاستوں کے سامنے تقسیم ہند کے تین ممکنہ راستے رکھے۔ (1) ریاستیں اپنی خودمختاری کا اعلان کردیں۔ (2) ہندوستان یا پاکستان سے الحاق کرلیں۔ (3) ریاستیں باہمی طور پر ایک دوسرے سے الحاق کرلیں۔ ماؤنٹ بیٹن نے اس بات پر زور دیا کہ ریاستوں کے حکمران راجا اور نواب اس بات کا فیصلہ کرتے وقت ریاستوں کے عوام کی خواہشات، جغرافیائی عوامل کو ہر حال میں پیش نظر رکھیں۔
ستم ظریفی کہیے ہری سنگھ نے کشمیری عوام کی خواہش کے برعکس کشمیری عوام جو مذہبی، جغرافیائی، ثقافتی اور تاریخی اعتبار سے پاکستانی عوام کا حصہ تھے، ان کا ہندوستان سے الحاق کردیا۔ اس کے نتیجے میں کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہوگیا۔ اس کے ردعمل میں کشمیر کی آزادی کی تحریک نے شدت اختیار کرلی۔
بھارت نے اس تحریک کو کچلنے کے لیے اپنی فوج وہاں بھیجی، اس نے لاکھوں کشمیری مسلمانوں کا قتل عام کیا، جب یہ معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جایا گیا تو سلامتی کونسل نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ ریاست جموں و کشمیر کا قطعی فیصلہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی آزاد اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے ذریعے کیا جائے گا۔ بھارت کئی دہائیوں سے اس انحراف کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا واحد حل اقوام متحدہ کے مینڈیٹ اور استصواب رائے میں پوشیدہ ہے۔
بھارت سے جب بھی مسئلہ کشمیر پر بات کی جاتی ہے تو بھارت کی جانب سے یہ موقف اپنایا جاتا ہے کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے، کشمیر میں جو ہنگامہ آرائی اور بدامنی ہے اس کی وجہ کشمیر میں بیرونی مداخلت کار ہیں، جو جموں و کشمیر میں کشمیری عوام کی مدد کے نام پر مجاہدین کے روپ میں پاکستان سے بھیجے جاتے ہیں، اگر پاکستان اپنی مداخلت بند کردے تو کشمیر کا مسئلہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بھارت کا یہ الزام سراسر غلط ہے۔
سیاست کا طالب علم بھی یہ بات جانتا ہے کہ جب کسی خطے کے عوام حق خود ارادیت چاہتے ہیں لیکن انھیں اس حق سے محروم رکھاجاتا ہے تو مسلح بغاوت جنم لیتی ہے، جس سے بد امنی جنم لیتی ہے، لہٰذا بھارت کو مسئلہ کشمیر کو جذباتی تناظر میں دیکھنے اور پاکستان پر الزام لگانے کے بجائے اس مسئلے کو حقائق کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔
بھارت کو یہ بات سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کشمیر کے حوالے سے اس کا سخت گیر رویہ سرحدی کشیدگی میں اضافہ کررہا ہے اور اس کے نتیجے میں اسلحہ سازی کی دوڑ میں دونوں ملکوں کی معاشی پسماندگی میں اضافہ ہورہا ہے۔ ان دونوں ممالک کے بیشتر وسائل اسلحے کے حصول پر خرچ ہورہے ہیں۔ اس سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ بھارت اپنے رویے کو لچکدار بنائے اور مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب توجہ دے۔
عالمی برادری بالخصوص عالمی طاقتوں کو بھی اپنے ذاتی مفادات بالائے طاق رکھ کر اس مسئلے کی جانب توجہ دینی چاہیے۔ انھیں یہ بات سمجھنی چاہیے دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہیں، اگر خدانخواستہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ ہوئی تو ایٹمی ہتھیار استعمال ہوسکتے ہیں۔
عالمی دنیا کو اس بات کا احساس بھی ہونا چاہیے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں جو تصورات ہیں وہ خیالی یا افسانوی نہیں ہیں بلکہ سائنسی حقائق پر مبنی ہیں صرف ڈھائی منٹ میں 35 کروڑ انسان لقمہ اجل بن سکتے ہیں۔ یہ لمحہ فکریہ ہے، دنیا کے کسی بھی خطے میں رہنے والے ہر باشعور انسان کو اس مسئلے کے حل کی جانب توجہ دینی چاہیے اور اپنا مثبت کردار ضرور ادا کرنا چاہیے۔
پاکستان اور بھارت میں آنکھ کھولنے والی ہر نئی نسل یہ سوال کرتی ہے کہ یہ دونوں ممالک نصف صدی سے زاید عرصہ گزرنے کے باوجود تعمیر اور ترقی میں کوئی قابل ذکر مقام کیوں نہ بناسکے؟ یہ وہ سوال ہے جن کا ہمیں جواب تلاش کرنا چاہیے۔اس حوالے سے پاکستانی عوام یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے ہاں پاکستان کے ابتدائی ایام سے ہی جمہوریت کا تسلسل نہیں رہا۔ ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا اور اس سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہوسکا۔
لیکن بھارت میں تو سیاسی اور جمہوری عمل مستقل چلتا رہا ہے، کامیاب جمہوری نظام اپنی سوسائٹی کو روشن خیال اور لبرل دکھانے کے لیے سیکولر ازم کا پرچار آئین سازی کا مرحلہ جلد از جلد طے کرلیاگیا۔ جاگیرداری کو آزادی کے فوراً بعد بڑی حد تک محدود کردیا گیا۔ انتظامی طور پر جہاں اور جب نئے صوبوں کے بنانے کی ضرورت ہوئی انھوں نے دیر نہیں کی۔ یہ سارے اقدامات ایسے تھے جن کی وجہ سے بھارت کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہونا چاہیے تھا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ نصف صدی سے زاید عرصہ گزر جانے کے باوجود بھارت کی بڑی آبادی پسماندگی اور غربت کا شکار ہے۔ آخر کیوں؟
اس بات کا ایک ہی جواب ہے کہ بھارت نے اپنے ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان کے ساتھ تصادم کی راہ اختیار کی۔ اس نے اپنے وسائل سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اپنے وسائل کو ایک دوسرے کی مخالفت میں جنگی تیاریوں پر جھونکنے پر صرف کیے۔ نتیجے میں پاکستان کا بھی اپنے دفاع اور سلامتی کا خطرہ پیدا ہوا۔ نتیجتاً وہ بھی اپنی کمزور اقتصادی معاشی حالات کے باوجوداسلحہ کی دوڑ میں شریک ہوا۔ یہ اقدامات ملک کی سلامتی اور دفاع کا تقاضا تھے۔
سوال یہ ہے کہ اس نظام کا بنیادی سبب کیا ہے۔ سیاست کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ اس نظام کا بنیادی سبب مسئلہ کشمیر ہے۔ مسئلہ کشمیر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک مستقل سیاسی مسئلے کے طور پر موجود ہے۔ یہ مسئلہ ہندوستان اور پاکستان کا جھگڑا نہیں بلکہ اس مسئلے کو بین الاقوامی حیثیت حاصل ہے، کیونکہ یہ مسئلہ انسانی آبادی کے ایک بڑے حصے کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا اس وقت تک اس خطے میں امن قائم نہیں رہ سکتا اور نہ ہی معاشی اور اقتصادی خوشحالی آسکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔ اس لیے ہمیں سب سے پہلے مسئلے کو سمجھنا ہوگا۔
1947 میں جب تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان کیا گیا تو وائسرائے ہند ماؤنٹ بیٹن نے تمام ریاستوں کے سامنے تقسیم ہند کے تین ممکنہ راستے رکھے۔ (1) ریاستیں اپنی خودمختاری کا اعلان کردیں۔ (2) ہندوستان یا پاکستان سے الحاق کرلیں۔ (3) ریاستیں باہمی طور پر ایک دوسرے سے الحاق کرلیں۔ ماؤنٹ بیٹن نے اس بات پر زور دیا کہ ریاستوں کے حکمران راجا اور نواب اس بات کا فیصلہ کرتے وقت ریاستوں کے عوام کی خواہشات، جغرافیائی عوامل کو ہر حال میں پیش نظر رکھیں۔
ستم ظریفی کہیے ہری سنگھ نے کشمیری عوام کی خواہش کے برعکس کشمیری عوام جو مذہبی، جغرافیائی، ثقافتی اور تاریخی اعتبار سے پاکستانی عوام کا حصہ تھے، ان کا ہندوستان سے الحاق کردیا۔ اس کے نتیجے میں کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہوگیا۔ اس کے ردعمل میں کشمیر کی آزادی کی تحریک نے شدت اختیار کرلی۔
بھارت نے اس تحریک کو کچلنے کے لیے اپنی فوج وہاں بھیجی، اس نے لاکھوں کشمیری مسلمانوں کا قتل عام کیا، جب یہ معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جایا گیا تو سلامتی کونسل نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ ریاست جموں و کشمیر کا قطعی فیصلہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی آزاد اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے ذریعے کیا جائے گا۔ بھارت کئی دہائیوں سے اس انحراف کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا واحد حل اقوام متحدہ کے مینڈیٹ اور استصواب رائے میں پوشیدہ ہے۔
بھارت سے جب بھی مسئلہ کشمیر پر بات کی جاتی ہے تو بھارت کی جانب سے یہ موقف اپنایا جاتا ہے کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے، کشمیر میں جو ہنگامہ آرائی اور بدامنی ہے اس کی وجہ کشمیر میں بیرونی مداخلت کار ہیں، جو جموں و کشمیر میں کشمیری عوام کی مدد کے نام پر مجاہدین کے روپ میں پاکستان سے بھیجے جاتے ہیں، اگر پاکستان اپنی مداخلت بند کردے تو کشمیر کا مسئلہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بھارت کا یہ الزام سراسر غلط ہے۔
سیاست کا طالب علم بھی یہ بات جانتا ہے کہ جب کسی خطے کے عوام حق خود ارادیت چاہتے ہیں لیکن انھیں اس حق سے محروم رکھاجاتا ہے تو مسلح بغاوت جنم لیتی ہے، جس سے بد امنی جنم لیتی ہے، لہٰذا بھارت کو مسئلہ کشمیر کو جذباتی تناظر میں دیکھنے اور پاکستان پر الزام لگانے کے بجائے اس مسئلے کو حقائق کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔
بھارت کو یہ بات سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کشمیر کے حوالے سے اس کا سخت گیر رویہ سرحدی کشیدگی میں اضافہ کررہا ہے اور اس کے نتیجے میں اسلحہ سازی کی دوڑ میں دونوں ملکوں کی معاشی پسماندگی میں اضافہ ہورہا ہے۔ ان دونوں ممالک کے بیشتر وسائل اسلحے کے حصول پر خرچ ہورہے ہیں۔ اس سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ بھارت اپنے رویے کو لچکدار بنائے اور مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب توجہ دے۔
عالمی برادری بالخصوص عالمی طاقتوں کو بھی اپنے ذاتی مفادات بالائے طاق رکھ کر اس مسئلے کی جانب توجہ دینی چاہیے۔ انھیں یہ بات سمجھنی چاہیے دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہیں، اگر خدانخواستہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ ہوئی تو ایٹمی ہتھیار استعمال ہوسکتے ہیں۔
عالمی دنیا کو اس بات کا احساس بھی ہونا چاہیے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں جو تصورات ہیں وہ خیالی یا افسانوی نہیں ہیں بلکہ سائنسی حقائق پر مبنی ہیں صرف ڈھائی منٹ میں 35 کروڑ انسان لقمہ اجل بن سکتے ہیں۔ یہ لمحہ فکریہ ہے، دنیا کے کسی بھی خطے میں رہنے والے ہر باشعور انسان کو اس مسئلے کے حل کی جانب توجہ دینی چاہیے اور اپنا مثبت کردار ضرور ادا کرنا چاہیے۔