عظیم چائنہ وژن
چین کے پاکستان میں سی پیک کے آغاز سے پاکستان کو معاشی ترقی پر گامزن کرنے کے لیے اپنا قدم آگے بڑھا رہا ہے
کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے ایک پندرہ رکنی وفد نے چین کا خیر سگالی دورہ کیا۔ یہ دورہ تاریخی اعتبار سے اس لیے بھی اہم تھا کہ پہلی مرتبہ اخبارات کے ایڈیٹرز کی اتنی بڑی تعداد میں وفد تشکیل پایا جس کے لیے سی پی این ای کے سیکریٹری جنرل اعجازالحق کی کوششیں شامل تھیں۔
پاک چین 66 سالہ لازوال دوستی کو وقت نے ثابت کیا ہے کہ سمندروں سے زیادہ گہری، ہمالیہ پہاڑوں سے زیادہ بلند، اسٹریٹیجیک کے طور پر فولاد سے زیادہ مضبوط ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان یہ غیر معمولی تعلقات دونوں ملکوں کے رہنماؤں کے اس وژن کی... اصول، پر امن خطہ، باہمی دلچسپی، علاقائی اور گلوبل ترقی ہے ۔ 31 مئی 1951ء میں پاکستان اور چائنہ کے درمیان ڈپلومیٹک تعلقات کا آغاز ہوا۔ پاکستان پہلا ملک تھا جس نے چائنہ کو تسلیم کیا اور دونوں ملکوں کے درمیان تاریخ میں دوستانہ تعلقات کے نئے باب کا آغاز کیا۔
سی پی این ای کے وفد نے چین کے دارالحکومت بیجنگ ،خودمختار علاقے سنکیانگ سمیت چین کے مختلف مقامات کا دورہ کیا۔
ایئر چائنہ کی فلائٹ سے ہم 13؍ نومبر کی صبح بیجنگ ایئرپورٹ پہنچے، جہاں سے ایک طویل فاصلے پر امیگریشن کی لائن میں ہم بھی غیر ملکیوں کی لائن میں کھڑے ہو گئے۔ امیگریشن سے فارغ ہوئے تو ایک ٹرین سے دس منٹ سفر کے بعد ہم نے ایئرپورٹ کے دوسرے حصے میں پہنچ کر سامان وصول کیا اور کسٹم کے مراحل سے گزر کر جونہی باہر نکلے، ہمارے وفد کے استقبال کے لیے ہمارے میزبان جو چائنہ اکنامک نیٹ سے تعلق رکھتے تھے پہلے سے موجود تھے۔
ایئرپورٹ سے نکلتے ہی میزبان ہمیں ظہرانے کے لیے ایک چائنیز ریسٹورنٹ لے گئے۔ ریسٹورنٹ کے باہر واضح طور پر حلال فوڈ تحریر تھا، یوں ایک بحث جو سفر کے دوران رہی کہ وہاں کون سے کھانے کھائے جائیں، ختم ہوئی۔ انتہائی پرتکلف ظہرانے کے بعد ہماری منزل رتن ہوٹل تھا جو بیجنگ شہر کے وسط میں واقع ہے۔
سڑکوں کی دونوں جانب بلند و بالا عمارات چین کی عظیم ترقی کو ظاہر کرتی تھیں۔ راستے بھر لوگوں کو اپنے کاموں میں اس قدر مشغول دیکھا لگتا تھا کسی کو دوسرے کے لیے وقت نہیں ہے۔ شام ساڑھے چھ بجے تمام بازار بند ہو جاتے ہیں۔ سڑکوں پر گاڑیوں کا ہجوم دکھائی دیتا ہے جو کام کے بعد گھروں کو لوٹ رہے ہوتے ہیں۔ یہاں صبح سات بجے دفتری اوقات شروع ہو جاتے ہیں۔ کام کام اور کام کے اصول پر انتہائی مصروف ماحول نظر آتا ہے۔
شام کو بیجنگ میں پاکستان کے سفیر مسعود خالد کی جانب سے وفد کے اعزاز میں پاکستانی سفارتخانے میں عشائیہ دیا گیا۔ سفیر مسعود خالد نے سی پی این ای کے وفد کو چینی کمیونسٹ پارٹی کی ۱۹ویں پیپلز کانفرنس سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ چیئرمین موزئے تنگ کے بعد صدر شی جن پنگ سب سے طاقتور رہنما بن کر ابھرے ہیں اور شی جن پنگ کو آیندہ پانچ سالوں کے لیے دوبارہ صدر مقرر کیا گیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ون بیلٹ ون روڈ (اوبور) پراجیکٹ میں چین کی تیاریاں پہلے سے جاری تھیں ، اب اصل تیاری پاکستان کو کرنی ہے جس کے لیے وسیع پیمانے پر فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ سفیر وفد کے اراکین میں گھل مل گئے اور ان کے سوالات کے جوابات بھی دیتے رہے۔
اگلے دن صبح وفد کو چینی کمیونسٹ پارٹی کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل زنگ ای نے گزشتہ ماہ منعقد ہونے والی ۱۹ویں پیپلز کانگریس کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور علاقائی امن اور استحکام کے فروغ اور چین کے صدر شی جن پنگ کے منصوبوں پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ انھوں نے رشوت ستانی کے خلاف چینی کمیونسٹ پارٹی کی مہم کے بارے میں بھی وفد کو تفصیل سے آگاہ کیا۔ جنرل زنگ ای نے وفد کے اراکین کے سوالات کے جوابات بھی دیے۔ اس کے بعد ہمیں چائنہ اکنامک نیٹ کے دفتر کا دورہ کرایا گیا۔
چائنا اکنامک نیٹ ورک انگریزی اور چینی زبانوں میں ویب سائیٹ کا وسیع ادارہ ہے جس میں آڈیو اور ویڈیو سمیت وسیع تر معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ جہاں انھوں نے مختلف شعبہ جات کے دوران بریفنگ میں یہاں ہونیوالے کام کے متعلق معلومات دیں جس میں شرکائے وفد کو اقتصادی و معاشی ترقی کے بارے میں اعداد و شمار سے بھی آگاہ کیا گیا۔ ان کے اسٹوڈیوز اور MCR رومز دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ یہاں سے فارغ ہوئے تو ایک حلال ریسٹورنٹ میں پر تکلف ظہرانہ کا اہتمام کیا گیا تھا۔
ظہرانے کے بعد وفد کو بیجنگ شہر کے وسط میں ایکسپو سٹی کا دورہ کرایا گیا جہاں چین کی حکومت کے پانچ سالہ کارکردگی پر نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا۔ نمائش میں ہائی اسپیڈ بلٹ ٹرین، ونڈ اور سولر پاور پراجیکٹ کے ماڈلز اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے متعلق بے شمار چیزوں کا ڈسپلے کیا گیا تھا۔
سی پی این ای کے وفد کو اس کے بعد بیجنگ یونیورسٹی کے شعبہ لسانیات میں مدعو کیا گیا تھا جہاں شعبہ اردو کے سربراہ پروفیسر ٹانگ نے چین میں اردو زبان اور اردو ادب کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی۔ دورے کے دوران یونیورسٹی میں اردو میں پی ایچ ڈی کرنیوالے طالبعلموں سے بھی ملاقات کرائی گئی۔
پروفیسر ڈاکٹر ٹانگ سے ملاقات انتہائی دوستانہ ماحول میں ہوئی،گفتگو کے دوران ان کا اردو پر عبور قابل تحسین تھا وہ کمال مہارت سے غالب اور اقبال کے شعر سناتے رہے۔ جس کے بعد پروفیسر ڈاکٹر ٹانگ نے پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی نژاد کے ہوٹل ''خان بابا ہوٹل ''پر پرتکلف عشائیہ دیا۔ تین دن سے چائنیز کھانوں کے بعد پاکستانی کھانوں کا بہترین ذائقہ یہاں موجود تھا گویا جیسے آپ پشاور ہی کے کسی ریسٹورنٹ میں کڑاہی اور کباب سے لطف اندوز ہو رہے ہوں۔
تیسرے دن صبح ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد ہم چین کے وزارت خارجہ میں میٹنگ کے لیے روانہ ہوئے۔ وزارت خارجہ کے دفتر میں ڈائریکٹر چن چن پن جو دفتر خارجہ میں ایشین امور کو دیکھتے ہیں استقبال کیا اور بین الاقوامی اور علاقائی صورتحال پر چین کے مؤقف کو بیان کیا۔ اس کے علاوہ سی پیک سمیت ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبوں کے تحت اقتصادی سرگرمیوں پر تفصیلی روشنی ڈالی اور وفد کو بتایا کہ چین اپنے تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ مصالحت پر یقین رکھتا ہے اور تمام تنازعات کا مذاکرات کے ذریعہ حل تلاش کرنے پر یقین رکھتا اور چاہتا ہے کہ خطے کے تمام ممالک ون بیلٹ ون روڈ کا حصہ بنے اور اقتصادی ترقی کے ثمرات سے فائدہ اٹھا سکیں۔
دفتر خارجہ سے نکلنے کے بعد ہماری اگلی منزل چائنہ کے سب سے بڑے انگریزی اخبار چائنہ ڈیلی کا دفتر تھی جہاں پر ڈپٹی ایڈیٹر انچیف سن شانگ وو نے بریفنگ دی۔ چائنہ ڈیلی دنیا کے آٹھ ممالک سے بیک وقت شایع ہوتا ہے۔ اس کی چین میں اشاعت ایک ملین سے زائد ہے اور تقریباً ستائیس ملین آن لائن ریڈرز ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ہم کسی بھی چیز کو منفی اثر انداز کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ ہم دوستانہ ممالک کے خلاف منفی اثرات شایع کرنے سے بھی انکار کرتے ہیں۔ یہی ادارہ ایشین نیٹ کے نام سے ہفت روزہ بھی شایع کرتا ہے جو پاکستان میں بھی دستیاب ہے۔
بیجنگ کے بعد سی پی این ای کا وفد خودمختار علاقے سنکیانگ کے دارالحکومت ارومچی پہنچا جہاں کمیونسٹ پارٹی چائنہ کے مقامی رہنما غیرات سیف نے سنکیانگ کے متعلق بریفنگ میں بتایا کہ یہ پاکستان کے رقبے سے تین گنا بڑا صوبہ ہے، یہاں پر کپاس کی کاشت کی جاتی ہے جو ہمسایہ ممالک پاکستان اور ازبکستان برآمد کی جاتی ہے۔
سنکیانگ کی آبادی 24ملین ہے جس میں 53 ایتھنک گروپس اور مسلمانوں کے بھی 10 ایتھنک گروپس ہیں۔ 1950ء میں سنکیانگ میں کوئی بھی انڈسٹری نہیں تھی۔ یہاں ڈویلپمنٹ کا آغاز 1950ء کے بعد شروع ہوا۔ 2010ء میں سنکیانگ کی جی ڈی پی 10 بلین یوآن تھی جو 2017ء میں 960 بلین یوآن تک پہنچ گئی ہے اور اس میں بڑا حصہ کاٹن ایکسپورٹ کا ہے جو چائنہ اور بیرون ملک برآمد کیا جاتا ہے۔ سنکیانگ صوبے کو 30 بلین یوآن وفاق سے صوبے میں ڈویلپمنٹ کے لیے الگ سے دیے جاتے ہیں۔
ارومچی میں 26 کلومیٹر سب وے کی تعمیر کا آغاز 2012ء میں ہوا تھا جو 2017ء دسمبر میں مکمل ہو جائے گا اور اتنے بڑے منصوبے کا صرف پانچ سال میں مکمل ہونا بھی ڈویلپمنٹ کے شعبہ میں چین کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ پاکستان سی پیک سے بینیفشری ہونے والا پہلا ملک ہے۔ سی پیک سے پاکستان اپنے توانائی کے بحران پر قابو پا سکتا ہے اور چین پاکستان کے ساتھ مل کر اسٹریٹجی بنا رہا ہے اور پاکستان کو توانائی کے شعبہ میں بھرپور تکنیکی مدد بھی فراہم کر رہا ہے۔ ارومچی کی اہم صنعتوں میں الیکٹرک ٹرانسفارمر اور الیکٹرک کیبلز کی صنعتیں شامل ہیں۔
اگلے دن صبح جب ہم ہوٹل سے باہر نکلے تو شدید سردی اور ہلکی ہلکی برف باری نے ہمارا استقبال کیا اور ہم سب میزبان کی فراہم کردہ بس میںبیٹھ کے سنکیانگ ٹی وی کے دفتر روانہ ہوئے۔ سب سے پہلے ہمیںان اسٹوڈیوز کا دورہ کرایا گیا جہاں سات مختلف علاقائی زبانوں میں پروگرامز کی ڈبنگ کی جا رہی تھی۔ وفد کو اسٹوڈیو کا تفصیلی دورہ کرایا گیا اور ہمارے سامنے بھی بچوں کی ایک فلم کے منظر کو علاقائی زبان میں ڈب کیا گیا۔
سنکیانگ ٹی وی اور ریڈیو کے دفاتر ایک ہی بلاک میں مختلف عمارتوں میں قائم ہیں لہٰذا وفد پیدل ہی ریڈیو کی عمارت کی طرف روانہ ہوا۔ سنکیانگ ریڈیو اور ٹی وی کے اسٹوڈیوز بہترین تکنیکی سہولتوں سے آراستہ تھے۔ سنکیانگ ٹی وی کے دفتر سے نکل کر ہم نے ایک بازار کا رخ کیا جہاں وفد کے اراکین نے خریداری کی اور لنچ کے لیے واپس ہوٹل روانہ ہوئے۔
سہ پہر کو ہم ایک دفعہ پھر تیار ہو کر دنیا کے تیسرے بڑے ونڈ ٹربائن تیار کرنیوالے کارخانے گولڈ ونڈ روانہ ہوئے۔ گولڈ ونڈ نے دنیا بھر کے علاوہ پاکستان میں بھی پاور ہاؤس کی تنصیب کی ہے۔ وفد کو پاکستان میں چلنے والے ونڈ پاور پلانٹ کی براہ راست مانیٹرنگ بھی دکھائی گئی۔ آخر میں وفد کے تمام اراکین کو ونڈ مل کا ماڈل بھی تحفہ کے طور پر دیا گیا۔بعدازاں وفد کو چائنہ ریلوے ہیوی انڈسٹری کمپلیکس کا دورہ کرایا گیا جہاں پر ہیوی مشینری کی تیاری کے مراحل سے بھی آگاہ کیا گیا۔ اسی طرح زیر زمین سرنگیں بنانے میں استعمال ہونے والی ہیوی مشینری کے کارخانے کا بھی دورہ کروایا گیا۔
ارومچی کے ڈرائی پورٹ پر وفد کو ارومچی کو یورپ سے ملانے والی ریلوے لائن کے روٹ اور سامان تجارت کی رسد و ترسیل کے نظام سے متعلق تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ لائن ارومچی سے ماسکو تک مکمل ہو چکی ہے اور ہمارے سامنے کارگو ٹرین بھی روانہ ہوئی۔
سی پی این ای وفد کا چین کا یہ خیر سگالی دورہ دونوں ملکوں کے درمیان عظیم تعلقات کا مظہر تھا جس میں ایڈیٹرز کو چین میں حالیہ ہونے والی ترقی کے حوالے سے بہترین معلومات فراہم کی گئیں۔اپریل 2015ء میں چین کے صدر شی پنگ نے چائنہ، پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کا افتتاح کیاتو پاکستان کے وزیر اعظم نے سی پیک منصوبے کو ملک کی معاشی بدحالی سے نکالنے کے لیے گیم چینجر کہا۔ چین کے پاکستان میں سی پیک کے آغاز سے پاکستان کو معاشی ترقی پر گامزن کرنے کے لیے اپنا قدم آگے بڑھا رہا ہے، اب پاکستان کو سی پیک سے اپنے لیے خوشحالی اور ترقی کے لیے نئی سمتوں کا تعین کرنا ہوگا۔