اسٹیبلشمنٹ کی سیاست

جو تماشہ یہاں سجایا گیا ہے، وہ ہماری سیاسی، جمہوری، آئینی، قانونی اور عوامی مفادات پر مبنی سیاست کے خلاف ہے


سلمان عابد November 27, 2017
[email protected]

پاکستان میں بدقسمتی سے سویلین کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ کو بالادستی حاصل رہی ہے۔ یہ بالادستی فوجی حکومتوں کی شکل میں نظر آتی ہے لیکن سیاسی حکومتوں میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ آج بھی جو جمہوری سیاست چل رہی ہے اس میں بھی سیاستدان اسٹیبلشمنٹ کو ایک طاقتور فریق سمجھتے ہیں۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف تو اپنے خلاف ہونے والے تمام فیصلوں کو سول اور فوجی بیورورکریسی پر مبنی اسٹیبلشمنٹ کے کھیل کے ساتھ جوڑتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے پس پردہ کھیل نے اس ملک میں جمہوری عمل کو مضبوط بنانے کے بجائے کمزور کیا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ آج بھی جمہوریت اپنے ارتقائی عمل سے گزررہی ہے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سیاست سے جڑے ہوئے مختلف فریقین سمیت اہل دانش کا ایک بڑا طبقہ جمہوری عمل کی کمزوری یا ناکامی کو محض خارجی مسئلہ سمجھ کر اپنا بیانیہ پیش کرتا ہے۔ اس طبقہ کے بقول ساری خرابی کی جڑ طاقتور اسٹیبلشمنٹ ہے جس نے سیاست کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے اہل سیاست و دانش یہ تسلیم کرنے سے انکاری ہیں کہ اس میں ان کا اپنا بھی قصور ہے لیکن چونکہ ہم اپنی غلطیاں تسلیم نہیں کرتے اور ملبہ اسٹیبلشمنٹ پر ڈال دیتے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کی سیاست اور فیصلوں میں بے شمار خرابیاں ہیں اور ہونگی، لیکن تمام مسائل کو ان کے ساتھ جوڑنا بھی کوئی عقلمندی نہیں۔کچھ تو خود ہمارے داخلی مسائل،طرز عمل، رویے، سوچ، فیصلے ہیں جو ہمیں بھی کمزور کرتے ہیں اور جمہوری عمل کو بھی کمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہمیں اگر جمہوری سیاست کو طاقت فراہم کرنی ہے تو تین کام ترجیحی بنیادوں پر کرنے ہونگے۔ اول ہمیں سیاست، سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کو مضبوط بنیادوں پر جمہوری اور شفافیت کے عمل سے جوڑنا ہوگا۔ دوئم سیاست اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک توازن قائم کرنا ہوگا جو دونوں فریقین کو اپنے اپنے دائرہ کار تک محدود رکھے اور فریقین میں اعتماد سازی اور تعاون کے امکانات کو مضبوط کرے۔سوئم ایک دوسرے سے مقابلہ بازی کا رجحان، الزام تراشیوں پر مبنی سیاست اور ایک دوسرے کو ناکام بنانے کی حکمت عملیاں وضع کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم بادشاہت پر مبنی نظام چاہتے ہیں جب کہ جمہوری نظام کی بنیادی کنجی باہمی مشاورت، مشترکہ فیصلہ سازی، سیاسی اداروں کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ ہمارا جمہوری نظام اپنے مفاداتی اصولوں کی بنیاد پر کھڑا رہتا ہے تو سیاسی نظام میں ایک خلا پیدا ہوتا ہے۔

یہ خلا ایک طرف سیاسی بحرانوں میں شدت پیدا کرتا ہے تو دوسری طرف ان مسائل کو بنیاد بناکر دوسرا فریق یعنی اسٹیبلشمنٹ اپنے لیے راستہ ہموار کرتی ہے ۔ہمارے ہاں کی سیاسی تاریخ دیکھیں تو اس میں خود اہل سیاست کا ایک بڑا طبقہ جن میں بڑی سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت بھی شامل ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر جمہوری اور سیاسی نظام کو کمزور کرنے کے کھیل میں برابر شریک ہوتی ہے۔

یہ جو جماعتیں اور بڑی قیادتیں مشکل وقت میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑی ہوتی ہیں اور للکارتی ہیں لیکن موقع ملنے پر اسی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت و تائیدسے حکمرانی کے کھیل میں حصہ دار بن جاتی ہیں۔

ایک مسئلہ یہ بھی ہے جس طرح سے سیاست میں تقسیم گہری ہوتی جارہی ہے۔ اہل دانش تک یہ تقسیم گہری ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اس کھیل میں سیاسی فتووں کو بھی عروج حاصل ہوگیا ہے اور ایک باقاعدہ فیشن بن گیا ہے کہ ہم کسی کو پس پردہ قوتوں کا حامی اور مخالف سمجھ کر اپنی فکر قائم کرتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جو اہل سیاست اور اہل دانش جمہوری لبادہ اوڑھ کر خود کسی کو اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار کہتے ہیں ان کا اپنا ماضی اور حال اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو یہاں محض ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

اگر اسٹیبلشمنٹ کسی ایک یا دو سیاسی فریقین سے ڈیل کرے تو سب سے اچھی ہے اور اگر وہ ان کے مقابلے میں کسی اورکی سرپرستی کرے تو وہ جمہوری عمل کے لیے خطرناک ہے۔ یہ بات بجا کہ اسٹیبلشمنٹ کا کوئی سیاسی کردار نہیں ہونا چاہیے۔لیکن اگر ساری سیاسی قوتیں اس بنیادی نکتہ پر متفق ہوجائیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے کھیل میں شریک کار نہیں ہو نگی، تو اس مضبوط اسٹیبلشمنٹ کے سامنے ایک بند باندھا جاسکتا ہے۔

اب مسئلہ محض داخلی اسٹیبلشمنٹ کا نہیں بلکہ علاقائی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کا بھی ہے جو یہاں سیاسی اور مقامی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اپنے مفادات کے کھیل کو طاقت فراہم کرتی ہے۔کیونکہ اب ہمیں اپنے داخلی معاملات کو کسی سیاسی تنہائی میں نہیں دیکھنا چاہیے اور اس کے تانے بانے اور مسائل کی نوعیت بیرونی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی جڑی ہوئی ہے۔

اسی طرح ہمیں ایک اور نکتہ سمجھنا ہوگا کہ اب سیاسی وجمہوری حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان دنیا میں بڑھتے ہوئے سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے تعلقات کار کو نئے سرے سے سمجھ کر نیا فریم ورک بھی بنانا ہوگا۔ یہ کہنا کہ فیصلہ سازی کے عمل میں ان سے کوئی مشاورت نہیں ہوگی، ممکن نہیں۔

یہ جو دنیا میں بدقسمتی سے سیکیورٹی ریاستیں بن رہی ہیں اس میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بھی بڑھ گیا ہے۔اسی طرح خود اسٹیبلشمنٹ کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے سامنے بھی سیاسی نظام کو مستحکم کرنے کا ایجنڈا سرفہرست ہی ہونا چاہیے۔فیصلے کا اختیار یقینی طور پر سیاسی حکومت کو ہی ہوگا، لیکن یہ عمل باہمی مشاورت پر مبنی نہیں ہوگاتو بداعتمادی پیدا ہوگی۔

کسی بھی ذمے دار ریاست میں نہ تو سیاست گالی ہوتی ہے اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ، دونوں فریقین کو ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھ کر مستقبل کی طرف پیش قدمی کرنی چاہیے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کی سیاست میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ہماری سیاست، ریاست سے جڑے ہوئے مفادات کے بالکل برعکس ہے۔ہم خود اپنے اداروں کی تذلیل کا باعث بن رہے ہیں اور الزام دوسروں پر لگاتے ہیں کہ وہ ہمیں تباہ کررہا ہے۔

سیاستدانوں، سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت پر زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ موجودہ طرز عمل کا تجزیہ کریں اور دیکھیں کہ اس بداعتمادی اور ٹکرا و کی پالیسی سے خود ہماری ریاست تماشہ بن رہی ہے۔ اہل دانش کا وہ طبقہ جو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اور مخالفت کو محض اپنے ذاتی مفادات کے کھیل سے جوڑ کر کسی ایک فریق کا غلام بن کر دانشورانہ کرپشن کرتا ہے اس کا ہر سطح پر احتساب ہونا چاہیے ،کیونکہ یہ ہمیں دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔

کیا وجہ ہے کہ ہم دنیا کے دیگر ممالک یا ریاستوں کے تجربات سے سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ وہاں جو تجربے سیاسی حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جاری ہیں اس سے ضرور سیکھا جائے کیونکہ جو تماشہ یہاں سجایا گیا ہے، وہ ہماری سیاسی، جمہوری، آئینی، قانونی اور عوامی مفادات پر مبنی سیاست کے خلاف ہے، اس پر ہر سطح پر مزاحمت ہونی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں