جمہوری حکومت کا ایک ہی ہتھیار تحمل تحمل تحمل

جمہوری حکومت اپنے عوام پر ظلم نہیں کر سکتی۔ یہ کچھ دن اور بیٹھ جاتے تو قیامت نہیں آجاتی۔ تحمل کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔

msuherwardy@gmail.com

کس کی غلطی ہے۔ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ مجھے تو پہلے ہی پتہ تھا۔ میں تو کہہ رہا تھا کہ ایسا کرو تو ایسا ہی ہو گا۔پلاننگ ہی ناقص تھی۔ کوئی پلان ہی نہیں تھا۔ وزیر داخلہ باتیں بہت کرتا ہے کام زیرو ہے۔ وزیر داخلہ ناتجربہ کار ہے۔ ایک وزیر کے لیے ساری حکومت داؤ پر لگا دی ہے۔ یہ کوئی سیاسی دھرنا نہیں تھا۔ یہ مذہبی معاملہ ہے۔ حکومت مذہبی معاملات کو سیاسی کیوں بنا رہی ہے۔

پوری دنیا میں پاکستان کا مذاق بنا دیا ہے۔ یہ سب تو آپ سن ہی رہے ہو نگے۔ پھر فوج آگئی ہے۔ فوج کے بغیر ان کا گزارا بھی نہیں اور فوج کے خلاف باتیں بھی کرتے ہیں۔ فوج نے گولی چلانے سے انکا رکر دیا ہے۔ یہ دھرنا ان کے گلے میں پھنس گیا ہے۔ اب نہیں حکومت بچ سکتی۔ حکومت بند گلی میں پہنچ گئی ہے۔ ٹرپل ون بریگیڈ آگئی ہے۔

سب باتیں اپنی جگہ لیکن بہر حال پاکستان کی عدلیہ کو یہ بات سمجھنی ہو گی کہ ملک پر حکومت کرنا ان کا کام نہیں۔ انھیں انتظامی اور سیاسی معاملات سے حتی الامکا ن خود کو دور رکھنا چاہیے۔ حکومت کرنا حکومت کا کام ہے۔ سیاست کرنا سیاسی جماعتوں کا کام ہے۔ یہ عدلیہ کے کام نہیں ہیں۔ بلکہ کافی حد تک مذہبی معاملات سے بھی عدلیہ کو دور رہنا چاہیے۔ عدلیہ کا کام انصاف کرنا ہے۔

فریقین کے درمیان انصاف کرنا۔ انتظامی معاملات کو حل کرنا عدلیہ کا کام نہیں ہے۔ دھرنا ہے اس کو کیسے ہینڈل کرنا ہے یہ حکومت کا اداروں کا کام ہے۔ کس سے کیسے ڈیل کرنا ہے۔ کس سے نرمی کرنی ہے۔ کس سے سختی کرنی ہے۔ کہاں آپریشن کرنا ہے۔ کہاں آپریشن نہیں کرنا ہے۔ کس سے مذاکرات کرنے ہیں۔ کس سے نہیں کرنے ہیں۔ یہ حکومت کا کام ہے۔ آج حکومت اپنی ناکامی اپنی ناقص حکمت عملی کو عدلیہ کے فیصلوں کے پیچھے چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ویسے تو تمام چینل بند کر دیے گئے ہیں لیکن پی ٹی وی پر سارا دن ایک ہی ٹکر چلتا رہا ہے کہ عدلیہ کے فیصلہ پر آپریشن کیا گیا ہے۔

عدلیہ کے احکامات کی روشنی میں آپریشن ناگزیر تھا۔ ویسے تو حکومت نے نجی ٹی وی کے ساتھ سوشل میڈیا کو بھی بند کر دیا لیکن واٹس ایپ کھلا تھا۔ اس پر بھی ماحول سنجیدہ تھا لیکن ایک لطیفہ عام رہا کہ عدلیہ پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دینے والے وزیر داخلہ آ پریشن کے لیے عدلیہ کے فیصلہ کا سہارا لے رہے ہیں۔ اور عدلیہ کے فیصلوں کی پاسداری کا بگل بجاتے نہیں تھک رہے ہیں۔

یہ بات بھی فضول ہے کہ کسی کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس قدر رد عمل ہو گا۔ کیا لوگ بابری مسجد کو گرائے جانے پر عوامی ردعمل بھول گئے تھے۔ کس طرح لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا تھا۔ توہین آمیز خاکوں پر احتجاج پر عوامی رد عمل بھی سب کے سامنے تھا۔ممتاز قادری کا جنازہ بھی سب کے سامنے تھا۔ کب عوام نے ایسے کسی معاملہ پر سخت رد عمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔ جو کسی کو اندازہ نہیں تھا۔ یہ کوئی پانامہ کا معاملہ نہیں تھا کہ لوگ باہر نہیں آتے۔ غلط یا صحیح کی بحث سے قطع نظر سے توہین رسالت کا معاملہ تھا۔ حکومت کا کیس کمزور تھا۔

میں سمجھتا ہوں کہ آرمی چیف نے درست مشورہ دیا کہ دھرنے سے پر امن طریقے سے نبٹا جائے۔ انھوں نے فریقین کو تشدد سے پرہیز کرتے ہوئے قومی مفاد میں کام کرنے کا مشورہ دیا۔ جب پورے ملک میں آگ لگ رہی ہو۔ ہر شہر میں مظاہرے ہو رہے ہوں ایسے میں ملک کا سپہ سالار اور کیا مشورہ دے سکتا ہے۔ کیا سپہ سالار کو چاہیے تھا کہ وہ فوری طور پر دھرنے والوں پر گولی چلانے کے لیے فوج کو بھیج دیتے۔ نہیں ہر گز نہیں۔ یہ تو وزیر داخلہ کو چاہیے تھا کہ وہ آپریشن کرنے سے پہلے عسکری قیادت کو اعتماد میں لیتے۔ لیکن اپنے وزیر داخلہ کی تو منطق ہی نرالی ہے۔


انھوں نے تو پہلے ہی اسلام آباد سے رینجرز واپس بھیج دی تھی۔ ان کی تو شان کے ہی خلاف تھا کہ وہ عسکری قیادت سے مشورہ کرتے۔ وہ تو خود ہی عقل کل ہیں۔ اب جب حالات کنٹرول سے باہر ہو گئے ہیں تو فوج کو بلا لو۔ گند آپ کرو۔ صاف فوج کرے۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ غلطی آپ کریں۔ سدھارے فوج۔ اورپھر فوج بری بھی ہو گی۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ تنقید تو سب ہی کر رہے ہیں میں کر رہا ہوں تو کونسا کمال کر رہا ہوں ۔ یہ سب سے آسان کام ہے۔ کیا حل یہ تھا کہ زاہد حامد استعفیٰ دے دیتے۔ نہیں ہر گز نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اس وقت اندرونی طور پر شدید انتشار کا شکار ہے۔ وہاں گروپ بندی اتنی شدید ہو چکی ہے۔ ایک دوسرے کا صحیح مشورہ بھی کوئی ماننے کو تیار نہیں۔ ورنہ جب لاہور میں الحمرا میں نواز شریف نے حلقہ 120میں جیت کے بعد شکریہ ادا کرنے کے لیے تقریب منعقد کی تھی۔ تو وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا تھا کہ یہ غلطی جیسے بھی ہوئی ہے جس سے بھی ہوئی ہے اس کو کابینہ سے نکال دیا جائے۔ تب تک اس دھرنے کا کوئی امکان ہی نہیں تھا۔

شہباز شریف کے اس مطالبہ کے بعد راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی بنا دی گئی۔ خیر سے کیپٹن صفدر نے اس موضوع پر ایک متنازعہ تقریر بھی کر دی جس کا کوئی سر پیر نہیں تھا۔ لیکن پھر کسی نے بریک لگا دی۔ راجہ ظفر الحق کی رپورٹ کو دبا دیا گیا۔ کیوں۔ اگر رپورٹ منظر عام پر آجاتی تو دھرنا کا جواز ختم ہو جاتا۔ اس دھرنے کے دوران بھی اس رپورٹ کو منظر عام پر لایا جا سکتا تھا۔ لیکن نہیں لایا گیا۔ کہیں نہ کہیں ایسا ہے کہ اس ایشو کو بنایا بھی ن لیگ نے اور اب ا س کا شکار بھی ن لیگ ہی ہو گئی ہے۔

بہر حال اہم سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا۔ کیا زاہد حامد کے استعفیٰ سے معاملہ حل ہو جائے گا۔ افسوس کہ وہ مرحلہ گزر گیا۔ معاملہ استعفیٰ سے بھی زیادہ پیچیدہ ہو گیا ہے۔ نفرت کی لہر زاہد حامد سے بڑھ کر پوری ن لیگ کو لپیٹ میں لے رہی ہے۔ یہ صرف مذہبی طور پرہی نہیں بلکہ سیاسی طور پر بھی خطرناک ہے۔ نواز شریف جتنے مرضی نظریاتی ہو جائیں۔ لبرل ہو جائیں۔

سیکولر ہو جائیں حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں نواز شریف کی سیاسی برتری کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ یہ بھی رہی ہے کہ وہ رائٹ ونگ یعنی مذہبی حلقوں کو قابل قبول رہے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ رائے رہی ہے کہ وہ ایک مذہبی انسان ہیں۔داتا کے ماننے والے ہیں۔ اہل سنت ووٹ ان کو ملتا تھا۔ اور اب ان کا مذہبی ووٹ ان سے ناراض ہو رہا ہے۔رائٹ ونگ ووٹ ان سے ناراض ہو رہا ہے۔ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ نواز شریف اور ن لیگ سے اس کا ووٹ بینک ناراض ہو رہا ہے۔ انتخابات کے اتنے قریب یہ زیادہ خطرناک ہے۔ ۔

سب پوچھ رہے ہیں کہ اب کیا ہوگا۔ یہ دھرنا کیسے ختم ہو گا۔ خادم رضوی کیسے اٹھے گا۔ کیا عدلیہ اس کو اٹھا سکے گی۔ عدلیہ اب کیا کرے گی۔ کیا دوبارہ آپریشن کا حکم دیدے گی۔ مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں کہ جب میں لکھ رہا ہوں اور جب آپ پڑھ رہے ہونگے صورتحال کتنی تبدیل ہو چکی ہوگی۔ قومی اداروں کو متنازعہ معاملات سے الگ رہنا چاہیے۔ اس سے انھیں کوئی نیک نامی نہیں ملے گی۔

حکومت کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ یہ جمہوری حکومت ہے۔ یہ مارشل لا نہیں۔ آمریت نہیں۔ جمہوری حکومت اپنے عوام پر ظلم نہیں کر سکتی۔ یہ کچھ دن اور بیٹھ جاتے تو قیامت نہیں آجاتی۔ تحمل کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ مزید کیا جانا چاہے تھا۔ کوئی حرج نہیں تھا۔ عدلیہ کے فیصلہ کی روشنی میں بھی آپریشن کوئی عقل مندی نہیں تھی۔ اب بھی تحمل کا مظاہرہ ہی واحد حل ہے۔
Load Next Story