کسان کا بیٹا وزیراعظم مزدور کا بیٹا صدر
جمہوریت کا تقاضا ہے کہ ملک کا وزیر اعظم کسان کا بیٹا ہو، ملک کا صدر مزدور کا بیٹا ہو۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بیسویں صدی کے نصف اول کی بات ہے حیدرآباد دکن پر میر عثمان علی خان حکمران تھے، انھیں عرف عام میں حضور نظام کہا جاتا تھا، حضور نظام کے رعب و دبدبے کا عالم یہ تھا کہ حضور کے جاگنے سے لے کر حویلی سے باہر نکلنے تک پولیس لگاتار سیٹیوں کے ذریعے رعایا کو بادشاہ کی نقل و حرکت کے بارے میں بتاتی تھی کہ اب حضور جاگ گئے ہیں، اب حضور حمام میں ہیں، اب حضور ناشتہ کر رہے ہیں، اب حضور نکل رہے ہیں، اس دوران سارے شہر میں پولیس الرٹ رہتی اور جب حضور کی سواری شاہراہوں سے گزرتی تو سڑکوں کے دونوں طرف کھڑے ہوئے عوام سر جھکا کر کھڑے رہتے، یوں حضور کی سواری گزر جاتی۔
اس قسم کا ایک مظاہرہ ہم نے 1967ء میں سوات میں دیکھا۔ ہم کچھ دوست سیاسی دوستوں سے ملاقات کے لیے کراچی سے بذریعہ کار سفر کرتے ہوئے جب مردان پہنچے تو معلوم ہوا کہ سوات کے والی جب باہر نکلتے ہیں تو سڑکوں پر ٹریفک رک جاتا ہے اور ہم نے اپنی نظروں سے سوات میں والی سوات کا ٹھاٹ باٹ حیدرآباد دکن کے حضور نظام جیسا دیکھا، جب والی سڑک سے گزرتے تو سڑک کے دونوں طرف کھڑے عوام سر جھکا کر کھڑے ہوجاتے، ٹریفک رک جاتا اور یہ صورتحال والی کے گزر جانے تک برقرار رہتی۔
اکوڑہ خٹک میں ہم معروف پشتو دانشور اور شاعر کے مہمان تھے، ہر روز سر شام دریائے کابل کے کنارے بیٹھ جاتے اور اجمل خٹک کی شاعری سے محظوظ ہوتے۔ اجمل خٹک کا یہ حال تھا کہ جب وہ گھر سے نکلتے تو خفیہ کا ایک اہلکار ان کے پیچھے سائے کی طرح رہتا۔ ہم اکوڑہ خٹک سے اجمل خٹک کے ساتھ جب پشاور جا رہے تھے تو بس میں خفیہ اہلکار موجود تھا۔
دنیا سے اب شاہی نظام ختم ہوگیا ہے اور ہر طرف جمہوریت کا بول بالا ہے لیکن ساری دنیا جمہوری حکمرانوں کے جاہ و جلال کروفر کو دیکھ کر بادشاہی دور کو بھول رہی ہے۔ زرعی معیشت سے جڑے ہوئے کسان اور ہاری وڈیروں کے ایوانوں میں اگر باریابی کی اجازت ملے تو اس طرح جاتے ہیں جیسے غلام آقا کی بارگاہوں میں جاتے تھے۔ آج بھی کسان اور ہاری سر جھکا کر وڈیروں کی بارگاہوں میں باریابی کا شرف حاصل کرتے ہیں لیکن رونا یہ ہے کہ ہمارے جمہوری حکمرانوں کا رعب و دبدبہ کروفر ماضی کے بادشاہوں سے بھی زیادہ ہے ۔
اگر جمہوریت عوامی ہو تو ہر شہری کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لے اور کامیابی کی شکل میں قانون ساز اداروں میں پہنچ کر قانون سازی میں حصہ لے۔ لیکن ہماری 70 سالہ جمہوریت میں آج تک کوئی مزدور، کوئی کسان، کوئی ہاری، کوئی غریب نہ انتخابات میں حصہ لے سکا نہ قانون ساز اداروں میں پہنچ سکا۔
اس کی سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ عام انسان مزدور اور کسان کو ایسے احساس کمتری میں مبتلا کرکے رکھ دیا گیا ہے کہ وہ سر جھکا کر ایلیٹ کے شہزادوں کے حق میں ووٹ ڈالنے کے علاوہ کچھ سوچ ہی نہیں سکتا، اس نفسیاتی حربے کے ساتھ ساتھ انتخابی نظام کو اس طرح تشکیل دیا گیا ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کروڑوں کا سرمایہ درکار ہوتا ہے اور جس غریب کو دو وقت کی روٹی دستیاب نہ ہو وہ کروڑوں روپے لگا کر انتخابات میں حصہ کیسے لے سکتا ہے؟
ہمارے سیاستدان ویسے تو عوامی راج کا نعرہ لگاتے ہیں اور عوام کو یہ بتاتے رہتے ہیں کہ ''قوت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں'' لیکن احساس کمتری، احساس محرومی میں مبتلا عوام کو کوئی نہیں بتاتا کہ اسے انتخابات میں حصہ لینے کا حق ہے اسے قانون ساز اداروں میں جانے کا حق ہے اس کے برخلاف اس کے جذبات سے کھیلتے ہوئے اسے اس بات کی تلقین کی جاتی ہے کہ وہ اپنا ووٹ دے کر جمہوریت کو مضبوط کرے تاکہ اس کے مسائل حل ہوسکیں۔ 70 سال سے اسے یہی سبق پڑھایا جا رہا ہے کہ اس کا ووٹ بڑا قیمتی ہوتا ہے۔
بلاشبہ اس کا ووٹ بہت قیمتی ہوتا ہے لیکن اس کا ووٹ اس کے لیے قیمتی نہیں ہوتا بلکہ اس کا ووٹ مختلف حوالوں سے حاصل کرنیوالی سیاسی اشرافیہ کے لیے قیمتی ہوتا ہے کیونکہ وہ اس غریب کا ووٹ لے کر قانون ساز اداروں میں جاتی ہے، صوبائی، مرکزی حکومتوں میں اور سینیٹ میں جاتی ہے اور لوٹ مار کا وہ بازار گرم کرتی ہے کہ جمہوریت کا منہ کالا ہو جاتا ہے۔
بڑے بڑے عوام کے غمخوار اور عوام کے مسائل حل کرنے کے دعویدار عوام کو یہ تو بتاتے ہیں کہ عوام اگر انھیں ووٹ دیں تو وہ ان کے مسائل حل کرینگے، اگرچہ 70 سال سے یہ جھوٹے وعدے کیے جا رہے ہیں لیکن کوئی عوام دوست رہنما عوام کو یہ نہیں بتاتا کہ انتخابات میں حصہ لینا اور قانون ساز اداروں میں پہنچنا بنیادی طور پر تمہارا حق ہے کیونکہ جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت ہوتا ہے لیکن ہماری زمینی اشرافیہ، صنعتی اشرافیہ اور اس کے اتحادی 70 سال سے جمہوریت کے نام پر عوام کو دھوکا دے کر اربوں روپوں کی لوٹ مار کر رہے ہیں اور اب جب احتساب کا سامنا ہے تو آج بھی عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم سے انتقام لیا جا رہا ہے اور ہم جمہوریت کے لیے لڑ رہے ہیں۔
ہماری مڈل کلاس کے اکابرین آمریت کے سخت خلاف ہیں اور جمہوریت کو ملکی ترقی اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہیں کوئی بھی باشعور انسان جمہوریت کی مخالفت نہیں کرسکتا کیونکہ صدیوں کے سیاسی ارتقا کے بعد انسانی معاشرے جمہوریت کی منزل پر فروکش ہیں لیکن اگر جمہوریت کا مطلب کرپٹ اشرافیہ کی سیاست پر بالادستی اور اقتدار پر قبضہ ہے اور عوام کو اس جمہوریت کے دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر باہر پھینک دیا جاتا ہے تو عوام ایسی کرپٹ اشرافیائی جمہوریت پر لعنت بھیجنے میں حق بجانب ہیں۔
ملک میں بے لگام اربوں روپوں کی کرپشن کے نتیجے میں عدالت عالیہ نے احتساب کا عمل شروع کیا ہے اس پر کرپٹ اشرافیہ شور مچا رہی ہے کہ یہ احتساب نہیں انتقام ہے اور غیر سیاسی قوتیں اس احتساب کی محرک ہیں ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ہم کسی قیمت پر آمریت کو ملک پر مسلط نہیں ہونے دینگے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج آمریت کے خلاف باتیں کرنیوالوں میں کون ایسا جمہوریت پسند ہے جو آمریت کی گود میں پرورش نہ پایا ہو۔ کیا ہمارے جمہوریت پسند رہنما عوام کو یہ بتا سکتے ہیں کہ مارشل لائی حکومتوں میں شامل ہونے والے کون تھے؟
ہمارے ملک میں 5 کروڑ سے زیادہ مزدور ہیں، ہماری دیہی آبادی کا 60 فیصد سے زیادہ حصہ کسان اور ہاری ہیں، جمہوریت کا تقاضا ہے کہ ملک کا وزیر اعظم کسان کا بیٹا ہو، ملک کا صدر مزدور کا بیٹا ہو۔ اس کا نام جمہوریت ہے اور ایسی جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق ہو تو ملک کے 21 کروڑ سے زیادہ عوام سڑکوں پر نکل آئینگے وہ کسی اشرافیائی جمہوریت کے لیے نہ سڑکوں پر آئینگے نہ اس کی حمایت کرینگے۔