کراچی میں خواتین پر حملے کرنیوالا ملزم غائب
2ماہ گزر جانے کے باوجودچھرا مار ملزم قانون کی گرفت میں نہ آسکا
گلستان جوہر میں خواتین پر تیز دھار آلے سے حملے کرنے والا چھرا مار ملزم چھلاوے کی طرح غائب ہوگیا جب کہ پولیس نے بھی گرفتاری کے لیے سنجیدگی سے کوششیں کرنا چھوڑ دیں۔
گلستان جوہر میں خواتین پر تیز دھار آلے سے حملے کرنے والا چھرا مار ملزم چھلاوے کی طرح غائب ہوگیا ، ملزم نے اپنی وارداتوں کا آغاز 25 ستمبر کو گلستان جوہر کے بلاک 13 اور 15 میں 4 خواتین کو زخمی کرکے کیا اور اس کے بعد یہ سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا ، اگلے ہی روز 2 خواتین کو نشانہ بنایا گیا ، ملزم اپنی 125 موٹر سائیکل پر آتا اور واردات کے بعد اطمینان کے ساتھ فرار ہوجاتا۔
پہلے پہل پولیس حکام نے ان وارداتوں کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے بعد انھیں چھپانے کی کوشش کی لیکن جب ایکسپریس نیوز نے متاثرہ بچی عروسہ اور اس کے خاندان کی خبر نشر کی تب انتظامیہ جاگی اور پھر مقدمات درج کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ، 26 ستمبر کو زخمی ہونے والی حاجرہ بی بی پر حملے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی ایکسپریس نے حاصل کی جس میں ملزم کا حلیہ واضح نہیں تھا ، ملزم دبلی پتلی جسامت کا حامل جبکہ اس کا قد 5 فٹ 2 انچ سے 5 فٹ 6 انچ تک معلوم ہوتا تھا ، ملزم صرف خواتین کو ہی نشانہ بناتا اور جسم کے مخصوص حصے پر ہی وار کرتا تھا جس سے گلستان جوہر ، گلشن اقبال اور اطراف کے علاقوں میں دہشت پھیل گئی تھی، سر شام ہی سناٹا ہوجاتا تھا اور خواتین نے گھروں سے باہر نکلنا چھوڑ دیا تھا ، رات گئے تک جو خاندان ریسٹورینٹس جاتے تھے انھوں نے بھی باہر نکلنا ترک کردیا تھا۔
اس صورتحال کے باعث انتظامیہ میں کھلبلی مچ گئی اور ان علاقوں میں 500 کی اضافی نفری تعینات کی گئی جس میں خواتین پولیس اہلکار بھی شامل تھیں ، زیادہ تر اہلکار سادہ لباس میں ہوتے اور موٹر سائیکلوں پر گشت کرتے رہتے تھے لیکن اب یہ 500 کی اضافی نفری بھی واپس چلی گئی ہے محسوس ہوتا ہے کہ پولیس نے اس معاملے میں سنجیدگی لینا ہی چھوڑدی ہے اور محض تھانوں کی نفری سے ہی کام چلایا جارہا ہے ، واقعات کو 2ماہ بیت گئے لیکن ملزم اب تک گرفتار نہیں کیا جاسکا۔
علاوہ ازیں گلستان جوہر میں تیز دھار آلے سے خواتین کو زخمی کرنے کے مقدمات گلستان جوہر ، شارع فیصل ، پی آئی بی کالونی ، عزیز بھٹی ، جوہر آباد اور سعود آباد میں درج کیے گئے جن میں سے5مقدمات پولیس نے اے کلاس کردیے ، پولیس نے موقف اختیار کیا کہ ان مقدمات میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل رہا لہٰذا مقدمات بند کیے جائیں ، اگر ثبوت مل گیا تو تفتیش دوبارہ شروع کردی جائیگی ، باقی دیگر کیسز مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
گلستان جوہر میں خواتین پر تیز دھار آلے سے حملے کرنے والا چھرا مار ملزم چھلاوے کی طرح غائب ہوگیا ، ملزم نے اپنی وارداتوں کا آغاز 25 ستمبر کو گلستان جوہر کے بلاک 13 اور 15 میں 4 خواتین کو زخمی کرکے کیا اور اس کے بعد یہ سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا ، اگلے ہی روز 2 خواتین کو نشانہ بنایا گیا ، ملزم اپنی 125 موٹر سائیکل پر آتا اور واردات کے بعد اطمینان کے ساتھ فرار ہوجاتا۔
پہلے پہل پولیس حکام نے ان وارداتوں کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے بعد انھیں چھپانے کی کوشش کی لیکن جب ایکسپریس نیوز نے متاثرہ بچی عروسہ اور اس کے خاندان کی خبر نشر کی تب انتظامیہ جاگی اور پھر مقدمات درج کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ، 26 ستمبر کو زخمی ہونے والی حاجرہ بی بی پر حملے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی ایکسپریس نے حاصل کی جس میں ملزم کا حلیہ واضح نہیں تھا ، ملزم دبلی پتلی جسامت کا حامل جبکہ اس کا قد 5 فٹ 2 انچ سے 5 فٹ 6 انچ تک معلوم ہوتا تھا ، ملزم صرف خواتین کو ہی نشانہ بناتا اور جسم کے مخصوص حصے پر ہی وار کرتا تھا جس سے گلستان جوہر ، گلشن اقبال اور اطراف کے علاقوں میں دہشت پھیل گئی تھی، سر شام ہی سناٹا ہوجاتا تھا اور خواتین نے گھروں سے باہر نکلنا چھوڑ دیا تھا ، رات گئے تک جو خاندان ریسٹورینٹس جاتے تھے انھوں نے بھی باہر نکلنا ترک کردیا تھا۔
اس صورتحال کے باعث انتظامیہ میں کھلبلی مچ گئی اور ان علاقوں میں 500 کی اضافی نفری تعینات کی گئی جس میں خواتین پولیس اہلکار بھی شامل تھیں ، زیادہ تر اہلکار سادہ لباس میں ہوتے اور موٹر سائیکلوں پر گشت کرتے رہتے تھے لیکن اب یہ 500 کی اضافی نفری بھی واپس چلی گئی ہے محسوس ہوتا ہے کہ پولیس نے اس معاملے میں سنجیدگی لینا ہی چھوڑدی ہے اور محض تھانوں کی نفری سے ہی کام چلایا جارہا ہے ، واقعات کو 2ماہ بیت گئے لیکن ملزم اب تک گرفتار نہیں کیا جاسکا۔
علاوہ ازیں گلستان جوہر میں تیز دھار آلے سے خواتین کو زخمی کرنے کے مقدمات گلستان جوہر ، شارع فیصل ، پی آئی بی کالونی ، عزیز بھٹی ، جوہر آباد اور سعود آباد میں درج کیے گئے جن میں سے5مقدمات پولیس نے اے کلاس کردیے ، پولیس نے موقف اختیار کیا کہ ان مقدمات میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل رہا لہٰذا مقدمات بند کیے جائیں ، اگر ثبوت مل گیا تو تفتیش دوبارہ شروع کردی جائیگی ، باقی دیگر کیسز مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔