سردیوں کے پہناوے

خواتین شال، سویٹر، لونگ کوٹ اور مخملی ملبوسات زیادہ پسند کرتی ہیں


اہلیہ محمد فیصل November 27, 2017
سردی کے کچھ مخصوص ملبوسات خصوصی طور پر پاکستانی ثقافت کی پہچان ہیں جس میں گرم شال ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ فوٹو: فائل

وطن عزیز میں موسم سرما کا آغاز ہوچکا ہے۔ ملک کے طول عرض میں سرد ہوائیں چلنے لگی ہیں اور الماریوں، صندوقوں وغیرہ میں رکھے ہوئے گرم ملبوسات باہر نکل آئے ہیں۔

سرد موسم میں ملبوسات کے شوخ رنگ شخصیت کو جاذب نظر بنانے میں اہم کردار اداکرتے ہیں۔ اس موسم میں پہناؤوں کے اعتبار سے سویٹر ،مفلر، شال، شیفون اور ویلوٹ کے ملبوسات کی بہار نظر آتی ہے۔ جارجیٹ ،شیفون اور ویلویٹ کے کپڑے کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔ بازاروں اور شاپنگ سینٹرز میں نت نئے انداز کے رنگ برنگے سویٹر، لونگ کوٹ اور شالیں دکھائی دیتی ہیں۔

سردی میں خواتین اپنی پسند کے اعتبار سے مختلف گرم ملبوسات کا انتخاب کرتی ہیں۔ آج کل چوںکہ بھڑکیلے اور جدید تراش خراش والے لباس عام ہیں، اس لیے عموماً خواتین شال جسے پشمینہ اور پٹی بھی کہا جاتا ہے، اوڑھنا زیادہ پسند کرتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ شال اوڑھنے سے ان کے لباس کی خوب صورتی نمایاں ہوتی ہے اور شال ان کی شخصیت کو منفرد اور پروقار بنادیتی ہے۔ شال کو مختلف طریقوں سے سیٹ کرکے لباس کی تراش خراش کو بھی نمایاں کیا جاسکتا ہے۔

ادھیڑ عمر خواتین سویٹر کی بہ نسبت شال اوڑھنا زیادہ پسند کرتی ہیں۔ ماضی میں سویٹر سادہ ہوا کرتے تھے۔ اب ان میں بھی موتیوں زمرد اور پرل کا دستی کام کرکے منفرد انداز دیے جارہے ہیں۔اسی طرح خواتین اور خصوصاً نوعمر لڑکیوں میں چند سال سے لونگ کوٹ اور لونگ سویٹر کا رجحان مقبول ہورہا ہے جس سے ان کی شخصیت نکھر آتی ہے۔

سردی کے کچھ مخصوص ملبوسات خصوصی طور پر پاکستانی ثقافت کی پہچان ہیں جس میں گرم شال ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ صوبہ سرحد میں خاص طور پر تیار ہوتی ہے۔ اس میں عمدہ اون اورکھدر استعمال ہوتا ہے جو نہ صرف سردی کو روکتی ہے بلکہ شخصیت کو بھی باوقار بناتی ہے۔ خواتین کے لیے کئی قسم کی شال مارکیٹ میں نظر آتی ہیں جن کی تیاری میں اون،سلک بروکیڈ، جیکارڈ اورکاٹن کا استعمال کیا جاتا ہے۔

عمومًا خواتین اپنے لیے پشمینہ، جاما وار، شاہ توش اور اونی شال کا انتخاب کرتی ہیں۔کشمیری شال خواتین میں بے حد مقبول ہیں مگر وہ مہنگے داموں ملتی ہے،کیوںکہ اس کی تیاری میں محنت بہت کرنی پڑتی ہے۔ اس کی بنائی اورکڑھائی ایک الگ ہی مقام رکھتی ہیں۔ اب کشمیری شال مشینوں پر بھی تیار کی جانے لگی ہے جو متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کی بھی پہنچ میں ہے۔

شال کے علاوہ پاکستانی کھدر کا کپڑا بھی سردیوں میں بے تحاشا بکتا ہے۔ گھریلوخواتین کھدر پر کڑھائی اور اسٹون ورک کروا کر اسے دیدہ زیب بنا لیتی ہیں جس سے سردی سے بچاؤ بھی ہو جاتا ہے اور کپڑے کی خوب صورتی میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ کھدر کی تیاری میں مخصوص خاکی رنگ کا دھاگہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اصلی کھدر پنجاب کے مختلف شہروں میں کھڈیوں پر ہاتھ سے تیار کیا جاتا ہے، مگر اب اس کے لیے بھی مشینوں کا استعمال عام ہوتا جارہا ہے۔

ویلویٹ کے کپڑے کا انتخاب بھی سردی میں خواتین کی اولین ترجیحات میں شامل ہو جاتا ہے سردی کے موسم کی شادی کی تقریبات میں ویلویٹ کا مکمل لباس یا ویلویٹ کے کوٹ اور کوٹی بیشترخواتین زیب تن کی ہوئی نظر آتی ہیں۔ سیاہ، براؤن، سرخ، نارنجی ،جامنی اورنیلے رنگ کا ویلویٹ انتہائی خوب صورت اور موسم کی مناسبت سے جاذبِ نظر محسوس ہوتا ہے اور شخصیت کی دلربائی کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ کچھ خواتین مکمل ویلویٹ کے استعمال کے بجائے شیفون ،جارجٹ اور کاٹن پر ویلویٹ کے پیس کٹ ور ک کی صورت میں کڑھائی اور موتی ٹنکواکر لگواتی ہیں، جس سے ان کا لباس دیدہ زیب صورت اختیار کرجاتا ہے۔

آج کے جدید دور میں موسم کی مناسبت سے آن لائن شاپنگ کی سہولت عام ہوتی جارہی ہے۔ اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم سردی کے ملبوسات منتخب کرکے گھر بیٹھے منگواسکتے ہیں۔ تو پھر اپنی پسند کے مطابق سردی کے ملبوسات انتخابِ کیجیے اور موسم کالطف دوبالا کیجیے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔