احساسِ گناہ سے بچیں
خود کو مجرم سمجھنے سے ترقی کا عمل رک جاتا ہے۔
لاہور:
دنیا کا کوئی میڈیکل ٹیسٹ' ایکسرے اور الٹراساؤنڈ اس بیماری کی تشخیص نہیں کر سکتا کیونکہ یہ بیماری جسمانی نہیں ہے۔
ماہرین نفسیات اس کو ذہنی بیماری قرار دیتے ہیں لیکن یہ ذہن کے ساتھ ساتھ روح کو بھی کھا جاتی ہے۔ اس بیماری کا نام ہے احساس گناہ اور انگلش میں اس کو Guilt کہتے ہیں۔ تقریباً ہر انسان کو اس بیماری کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ہر انسان اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور یہ بیماری دیمک کی طرح اندر ہی اندر اس کو چاٹتی رہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ بیماری ہمیں اپنا شکار کیسے بنا لیتی ہے؟ اس کا جواب ہے کہ ہم سب اپنے آپ کو جانچنے اور ماپنے کے معیار بناتے ہیں اور جب ہم اس پر پورا نہیں اترتے تو ہم اپنی نظروں کے سامنے ہی مجرم بن جاتے ہیں۔ یہ احساس جرم ہمیں ہماری نگاہوں میں ہی گرا دیتا ہے اور ہماری ساری شخصیت تباہ ہو جاتی ہے۔ آیئے پہلے یہ جانیں کہ اپنے آپ کو ماپنے کے معیار کیسے بنتے ہیں؟
اینھراپالوجی انسان کے رویوں اور مزاج کا علم ہے، یہ علم ہمیں بتاتا ہے کہ ''سیکھنا'' ہماری جبلت میں شامل ہے، ہم شعوری یا لاشعوری طور پر علم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ علم درست بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی لیکن ہم اپنے سیکھے ہوئے غلط علم کو بھی درست سمجھ رہے ہوتے ہیں اور اس عمل کے نتیجے میں ایک مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ہماری زندگی میں سیکھا ہوا علم، ایسے جملے جن سے ہم متاثر ہوں اور ایسی باتیں جو ہم نے کسی ایسے شخص سے سنی ہوئی ہوں، جس سے ہم متاثر ہیں... یہ سب کچھ ہمارے عقائد کو جنم دیتا ہے اور ہمارے عقائد، وہ معیار اور اصول بنا دیتے ہیں جن سے ہم نے خودکو اور دوسروں کو پرکھنا اور جانچنا ہوتا ہے۔ معیار اور اصولوں کو بنانے والا علم عموماً چار ذرائع سے حاصل ہوتا ہے۔
ہمارے علم کا پہلا ذریعہ ہمارے والدین ہوتے ہیں۔ والد اور والدہ میں سے والدہ کا کردار اور علم ہمیں زیادہ متاثر کرتا ہے۔ کیونکہ ہم دنیا کی واحد مخلوق ہیں جس کو اپنی والدہ کے ساتھ کافی زیادہ وقت گزارنا ہوتا ہے۔ ہماری زندگی کے ابتدائی ایام کا سہارا ہمارے والدین ہوتے ہیں، اس لئے ہم ان پر بھروسہ بھی کرتے ہیں اور ان کے بتائے اور سمجھائے ہوئے علم پر بھی مکمل یقین کر لیتے ہیں۔ والدین کا ادب واحترام اپنی جگہ لیکن لازمی نہیں کہ ان کا علم اور آگہی بھی قابل قبول ہو۔
یاد رکھئے علم آسانی پیدا کرتا ہے اور جہالت مشکلات اور پریشانیوں کو جنم دیتی ہے۔ بے شمار لوگ جس گلٹ کا شکار ہوتے ہیں وہ زندگی کے ابتدائی ایام کے سیکھے علم کی وجہ سے ہوتا ہے، یہ گلٹ ان کی زندگی کا سب سے وزنی بوجھ بن کر ان کی ذات اور صلاحیتوں کو دبا دیتا ہے اور ماہرین نفسیات کے بقول اس گلٹ کو منیج کرنا تھوڑا سا مشکل ہوتا ہے۔
ہماری زندگی کا دوسرا علم سوسائٹی اور معاشرے سے جڑا ہوتا ہے۔ ہم سب کے سوشل سرکل مختلف ہوتے ہیں اور یہ سرکلز ہمارے علم میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ علاقہ و محلہ وشہر اور ملک سب کے اپنے اپنے طور طریقے اور رواج ہوتے ہیں اور ان سے حاصل کیا گیا علم بھی ہمیں معیار اور اصول دے دیتا ہے، یہ اصول ہمیں پرکھنے اور آزمانے پر اکساتے ہیں اور جب ہم خود کو پرکھتے ہیں تو اگر ہم ان پر پورا نہیں اترتے تو اس کے نتیجے میں ہم گلٹ یا احساس گناہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات ہم اردگرد کے لوگوں کے طنز اور مذاق سے گلٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم دوسروں کے کہے ہوئے جھوٹ اور منفی جملوں سے خود کو مجرم سمجھنے لگتے ہیں اور یہ عمل ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔
ہمارا دین ہماری زندگی میں علم کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ہم بچپن میں قرآن پاک عربی میں پڑھتے ہیں اور اس کا ترجمہ نہیں پڑھتے، اس سے قرآن کریم کا اصل مفہوم ہم تک نہیں پہنچتا ۔ ہم میں سے اکثر نے حدیثیں اتنی ہی پڑھی ہوتی ہیں جتنی دینیات کی کتاب میں لکھی ہوتی ہیں اور ان کو بھی ہم پرچے میں پاس ہونے کے لئے یاد کرتے ہیں۔ ہم قرآن و حدیث کا مطالعہ خود کرنے کے بجائے جمعہ کے خطبہ پر مکمل بھروسہ کر لیتے ہیں اور اس طرح اسلام کا ادھورا علم ہماری ذات کے ادھورے پن میں بدل جاتا ہے۔ اگر ہمیں ''موت کا منظر'' اور ''مرنے کے بعد کیا ہو گا؟''کا زیادہ علم ہو جائے تو خدا تعالیٰ کا رحمان اور رحیم ہونا بھول جاتا ہے اور تصور رحمت پر یقین نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے اندر ایک خوفناک گلٹ پیدا ہو جاتا ہے، جو ہمیں ایک ہی دفعہ مارنے کی بجائے روز اندر ہی اندر ہمارا گلا دباتا رہتا ہے۔
یہ ایک سنجیدہ سوال ہے کہ ہمیں گناہ کرتے ہوئے شرم نہیں آتی اور توبہ کرتے ہوئے ہم شرم کیوں محسوس کرتے ہیں؟
ہم روز ٹی وی دیکھتے ہیں اور اخبار پڑھتے ہیں اور اکثر ا وقات دیواروں پر لگے اشتہار بھی پڑھ لیتے ہیں۔ ٹی وی، اخبار اور دیوار پر لگے اشتہار کو بنایا ہی ایسے جاتا ہے کہ دیکھنے والا متاثر ہو۔ یہ سب کچھ 'خریدار' کو پیدا کرنے کے لئے ہوتا ہے اور ہم نہ صرف خریدار بنتے ہیں بلکہ ایک اچھا ''شکار'' بھی بن جاتے ہیں۔ علم کا یہ ذریعہ ہمارے معیار اور پیمانوں کو بدل دیتا ہے۔ ہم بسااوقات سگریٹ پینے کو اعزاز سمجھتے ہیں اور خالص دود پینے کو بیماری کا ذریعہ۔ اس طرح لاشعوری طور پر ہم کئی طرح کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ میڈیا لوگوںکے سوچنے کے انداز کو متاثر کرتا ہے۔ آپ کی شرافت آپ کے گلٹ کا سبب بن جاتی ہے کیونکہ آپ میڈیا کے دیئے گئے ''ڈان کلچر'' پر پورے نہیں اتر رہے ہوتے۔
علم کے ان ذرائع کو جاننے کے بعد اس حقیقت کو سامنے رکھیئے کہ ہمارا ''سیکھا ہوا علم غلط اور ادھورا ہو سکتا ہے۔'' ہمیں اپنے علم کوپرکھنے اور جانچنے کے لئے بھی علم کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ گنجائش ہمارا مسئلہ حل کر دیتی ہے۔ آیئے اب اس خطرناک دشمن یعنی گلٹ کا مقابلہ کرنا سیکھیں۔
1۔ کہا جاتا ہے کہ خدا انسان کو معاف کر دیتا ہے لیکن انسان خود کو معاف نہیں کرتا۔ اپنے آپ کو معاف کرنا سیکھیں۔ ہر وقت خود کو مجرم نہ سمجھیں۔ خود سے پیار کریں۔ نفسیات میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے، اسے آٹو سجیشن کہتے ہیں، اردو میں اس کو خود کلامی کہہ سکتے ہیں۔ اس طریقہ علاج کو آسانی سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ آپ صبح اٹھنے کے بعد اور رات سونے سے پہلے اپنا دائیاں ہاتھ سینے پر رکھیں اور پوری توجہ اور ارتکاز کے ساتھ خود کو دس بار یہ جملہ کہیں ''میں نے خود کو معاف کیا اور میں اپنے آپ سے بہت محبت کرتا ہوں۔'' صرف چند دن کی مشق کے بعد آپ اپنے آپ کو احساس جرم اور احساس گناہ سے آزاد محسوس کریں گے۔
2۔ اللہ کریم سے سچے دل سے توبہ کریں۔ توبہ اور استغفار اللہ کا انعام ہے۔ جب ہم توبہ کرتے ہیں تو ہمارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور ہمارا احساس معطر ہو جاتا ہے۔ یاد رکھیئے سچی توبہ گناہ کی یاد کو ختم کر دیتی ہے۔ دراصل گناہ کی یاد ہی احساس گناہ کو زندہ رکھتی ہے۔ جب ہم مکمل یقین کے ساتھ کہ ہمارا رب ہمیں معاف کر سکتا ہے توبہ کرتے ہیں تو گلٹ ختم ہو جاتا ہے۔
3۔ اس علم کو پرکھیں جو آپ نے اپنے بچپن سے حاصل کیا ہے۔ اپنے خیالات اور عقائد پر سوالات اٹھائیں۔ مثلاً اگر کوئی خیالات یا عقیدہ گلٹ کا سبب بن رہا ہے اور آپ کو تکلیف دے رہا ہے' آپ کے ا ندر ایک گھٹن اور چھبن پیدا کر رہا ہے تو اس پر سوال اٹھائیں کہ ''کیا یہ بات حقیقت ہے؟ یا میری فرضی سوچ ہے۔'' اس طرح بھی کہ سکتے ہیں کہ ''جیسا کہ یہ سوچیں مجھے ایک عرصے سے نقصان پہنچا رہی ہیں کیوں نہ ان کو چھوڑ دیا جائے۔'' یاد رکھیں اپنی سوچ و علم اور عقیدہ پر سوال آپ کے اندر Doubt (شک) پیدا کرتے ہیں اور یہ شک آپ کو نیا علم سیکھنے پر مجبور کرتا ہے۔
4۔ ہم ماضی، ماضی کی یادوں اور ماضی کی باتوں کو نہیں بدل سکتے۔ اگر ہمیں یہ تنگ کریں اور گلٹ کا شکار بننے دیں تو ماضی سے رابطہ توڑ دیجئے۔ ہم نے اپنے وزن سے زیادہ اپنے ماضی کا وزن اٹھایا ہوتا ہے۔ ماضی ایک ''مردہ وقت'' کا نام ہے اس کو ساتھ لے کر نہ پھریئے۔ ماضی سے سبق حاصل کیجئے اور تنگ کرنے والی یادوں اور واقعات کو بھلا دیجئے۔ ہم اپنے گھر کی ہر پرانی اور بے کار شے کو باہر پھینک دیتے ہیں، اس طرح بے کار ماضی کو بھی پھینک دیجئے۔
5۔ اگر آپ حساس طبیعت کے مالک ہیں تو ڈپریس کرنے والے لوگوں سے بچیں۔ لوگ منفی رائے دینے اور تنقید کرنے کے ایکسپرٹ ہوتے ہیں۔ آپ ابھی سوچئے کئی چہرے آپ کے ذہن میں آجائیں گے۔ لازم نہیں کہ آپ ان سے اپنا تعلق توڑ دیں۔ بہتر ہے کہ آپ اپنے ذہن میں ان کو لیبل دے دیں کہ ان کی بات کا اثر نہیں لینا اور نہ ہی ان سے زیادہ گفتگو کرنی ہے۔ ہمارے کئی ساتھیوں کو شرمندگی محسوس کرواتے ہوئے شرمندگی محسوس نہیں ہوتی۔ یہ خواب چرانے والے لوگ ہوتے ہیں اور سب سے بڑا چور وہ ہے جو آپ کے خواب چرالے۔ آپ کو گلٹ کی اندھی دلدل میں پھینک دے۔ جیسے کارکے آگے گائے آ جائے تو ہمیں دو منٹ کے لئے اس کے ہٹنے کا انتظار کرنا ہوتا ہے بالکل اسی طرح ان کے راستے سے ہٹنے کا انتظار کیجئے اور پھر سفر زندگی پر رواں دواں ہو جائیے۔
6۔ ہم کالی عینک لگا کر دنیا کو دیکھتے ہیں اور دنیا کالی نظر آتی ہے۔ یہ کالی عینک ہمارے سوچنے کا انداز ہوتا ہے۔ سوچنے کا انداز بدلیں تو آپ کی زندگی بدل جاتی ہے۔ گلٹ آپ کی شخصت کے ادھورے پن کا اظہار بھی ہوتے ہیں۔ آپ اگر ان کو سمجھ جائیں تو یہ رائی بن جاتے ہیں اور اگر نہ سمجھیں تو پہاڑ۔
7۔ خود کو سمجھنا شروع کریں۔ اپنی عادتوں' سوچوں' خوبیوں' خامیوں اور شخصیت کو سمجھیں۔ خودشناسی آپ کے اندر سے احساس گناہ کو ختم کر دیتی ہے۔ ہم سب کو جانتے اور سمجھتے ہیں لیکن کبھی خود کو جاننے اور سمجھنے کی طرف دھیان نہیں دیا ہوتا۔ جس طرح آئنیہ دیکھنے سے آپ کو اپنی شکل صورت میں بہتری کا موقع ملتا ہے بالکل اسی طرح خود کو جاننے سے ا پنے اندر موجود گلٹ پر کام کرنے اور اسے ختم کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
ایک بات بہت اہم ہے کہ گلٹ اور ندامت میں فرق ہے۔ ندامت ایک مثبت احساس ہے، آپ اس احساس کی وجہ سے خود کو تبدیل کرنے کا سوچتے ہیں، لیکن گلٹ کے احساس میں آپ اپنی اصلاح کا نہیں سوچتے اور کئی سالوں تک اس شرمندگی کے احساس کو ساتھ لئے پھرتے ہیں۔
یاد رکھئے وہ گناہ بڑے کمال کا گناہ ہے جو آپ کو ندامت اور رب کی بارگاہ میں لے جائے۔ آپ توبہ کریں اور خدا آپ کی توبہ منظور کر کے اسے قبول کرے۔ کیونکہ ہمارے گناہ جتنے مرضی ہو جائیں اور ہماری شخصیت میں جتنی مرضی ندامت آ جائے، ہمارے گناہ ہمیشہ اللہ کی رحمت اور فضل کے مقابلے میں بہت تھوڑے ہوتے ہیں، اس کی رحمت ہم پر اپنا کرم کر کے رہتی ہے۔n
facebook/qasim.ali.shah
دنیا کا کوئی میڈیکل ٹیسٹ' ایکسرے اور الٹراساؤنڈ اس بیماری کی تشخیص نہیں کر سکتا کیونکہ یہ بیماری جسمانی نہیں ہے۔
ماہرین نفسیات اس کو ذہنی بیماری قرار دیتے ہیں لیکن یہ ذہن کے ساتھ ساتھ روح کو بھی کھا جاتی ہے۔ اس بیماری کا نام ہے احساس گناہ اور انگلش میں اس کو Guilt کہتے ہیں۔ تقریباً ہر انسان کو اس بیماری کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ہر انسان اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور یہ بیماری دیمک کی طرح اندر ہی اندر اس کو چاٹتی رہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ بیماری ہمیں اپنا شکار کیسے بنا لیتی ہے؟ اس کا جواب ہے کہ ہم سب اپنے آپ کو جانچنے اور ماپنے کے معیار بناتے ہیں اور جب ہم اس پر پورا نہیں اترتے تو ہم اپنی نظروں کے سامنے ہی مجرم بن جاتے ہیں۔ یہ احساس جرم ہمیں ہماری نگاہوں میں ہی گرا دیتا ہے اور ہماری ساری شخصیت تباہ ہو جاتی ہے۔ آیئے پہلے یہ جانیں کہ اپنے آپ کو ماپنے کے معیار کیسے بنتے ہیں؟
اینھراپالوجی انسان کے رویوں اور مزاج کا علم ہے، یہ علم ہمیں بتاتا ہے کہ ''سیکھنا'' ہماری جبلت میں شامل ہے، ہم شعوری یا لاشعوری طور پر علم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ علم درست بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی لیکن ہم اپنے سیکھے ہوئے غلط علم کو بھی درست سمجھ رہے ہوتے ہیں اور اس عمل کے نتیجے میں ایک مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ہماری زندگی میں سیکھا ہوا علم، ایسے جملے جن سے ہم متاثر ہوں اور ایسی باتیں جو ہم نے کسی ایسے شخص سے سنی ہوئی ہوں، جس سے ہم متاثر ہیں... یہ سب کچھ ہمارے عقائد کو جنم دیتا ہے اور ہمارے عقائد، وہ معیار اور اصول بنا دیتے ہیں جن سے ہم نے خودکو اور دوسروں کو پرکھنا اور جانچنا ہوتا ہے۔ معیار اور اصولوں کو بنانے والا علم عموماً چار ذرائع سے حاصل ہوتا ہے۔
ہمارے علم کا پہلا ذریعہ ہمارے والدین ہوتے ہیں۔ والد اور والدہ میں سے والدہ کا کردار اور علم ہمیں زیادہ متاثر کرتا ہے۔ کیونکہ ہم دنیا کی واحد مخلوق ہیں جس کو اپنی والدہ کے ساتھ کافی زیادہ وقت گزارنا ہوتا ہے۔ ہماری زندگی کے ابتدائی ایام کا سہارا ہمارے والدین ہوتے ہیں، اس لئے ہم ان پر بھروسہ بھی کرتے ہیں اور ان کے بتائے اور سمجھائے ہوئے علم پر بھی مکمل یقین کر لیتے ہیں۔ والدین کا ادب واحترام اپنی جگہ لیکن لازمی نہیں کہ ان کا علم اور آگہی بھی قابل قبول ہو۔
یاد رکھئے علم آسانی پیدا کرتا ہے اور جہالت مشکلات اور پریشانیوں کو جنم دیتی ہے۔ بے شمار لوگ جس گلٹ کا شکار ہوتے ہیں وہ زندگی کے ابتدائی ایام کے سیکھے علم کی وجہ سے ہوتا ہے، یہ گلٹ ان کی زندگی کا سب سے وزنی بوجھ بن کر ان کی ذات اور صلاحیتوں کو دبا دیتا ہے اور ماہرین نفسیات کے بقول اس گلٹ کو منیج کرنا تھوڑا سا مشکل ہوتا ہے۔
ہماری زندگی کا دوسرا علم سوسائٹی اور معاشرے سے جڑا ہوتا ہے۔ ہم سب کے سوشل سرکل مختلف ہوتے ہیں اور یہ سرکلز ہمارے علم میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ علاقہ و محلہ وشہر اور ملک سب کے اپنے اپنے طور طریقے اور رواج ہوتے ہیں اور ان سے حاصل کیا گیا علم بھی ہمیں معیار اور اصول دے دیتا ہے، یہ اصول ہمیں پرکھنے اور آزمانے پر اکساتے ہیں اور جب ہم خود کو پرکھتے ہیں تو اگر ہم ان پر پورا نہیں اترتے تو اس کے نتیجے میں ہم گلٹ یا احساس گناہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات ہم اردگرد کے لوگوں کے طنز اور مذاق سے گلٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم دوسروں کے کہے ہوئے جھوٹ اور منفی جملوں سے خود کو مجرم سمجھنے لگتے ہیں اور یہ عمل ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔
ہمارا دین ہماری زندگی میں علم کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ہم بچپن میں قرآن پاک عربی میں پڑھتے ہیں اور اس کا ترجمہ نہیں پڑھتے، اس سے قرآن کریم کا اصل مفہوم ہم تک نہیں پہنچتا ۔ ہم میں سے اکثر نے حدیثیں اتنی ہی پڑھی ہوتی ہیں جتنی دینیات کی کتاب میں لکھی ہوتی ہیں اور ان کو بھی ہم پرچے میں پاس ہونے کے لئے یاد کرتے ہیں۔ ہم قرآن و حدیث کا مطالعہ خود کرنے کے بجائے جمعہ کے خطبہ پر مکمل بھروسہ کر لیتے ہیں اور اس طرح اسلام کا ادھورا علم ہماری ذات کے ادھورے پن میں بدل جاتا ہے۔ اگر ہمیں ''موت کا منظر'' اور ''مرنے کے بعد کیا ہو گا؟''کا زیادہ علم ہو جائے تو خدا تعالیٰ کا رحمان اور رحیم ہونا بھول جاتا ہے اور تصور رحمت پر یقین نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے اندر ایک خوفناک گلٹ پیدا ہو جاتا ہے، جو ہمیں ایک ہی دفعہ مارنے کی بجائے روز اندر ہی اندر ہمارا گلا دباتا رہتا ہے۔
یہ ایک سنجیدہ سوال ہے کہ ہمیں گناہ کرتے ہوئے شرم نہیں آتی اور توبہ کرتے ہوئے ہم شرم کیوں محسوس کرتے ہیں؟
ہم روز ٹی وی دیکھتے ہیں اور اخبار پڑھتے ہیں اور اکثر ا وقات دیواروں پر لگے اشتہار بھی پڑھ لیتے ہیں۔ ٹی وی، اخبار اور دیوار پر لگے اشتہار کو بنایا ہی ایسے جاتا ہے کہ دیکھنے والا متاثر ہو۔ یہ سب کچھ 'خریدار' کو پیدا کرنے کے لئے ہوتا ہے اور ہم نہ صرف خریدار بنتے ہیں بلکہ ایک اچھا ''شکار'' بھی بن جاتے ہیں۔ علم کا یہ ذریعہ ہمارے معیار اور پیمانوں کو بدل دیتا ہے۔ ہم بسااوقات سگریٹ پینے کو اعزاز سمجھتے ہیں اور خالص دود پینے کو بیماری کا ذریعہ۔ اس طرح لاشعوری طور پر ہم کئی طرح کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ میڈیا لوگوںکے سوچنے کے انداز کو متاثر کرتا ہے۔ آپ کی شرافت آپ کے گلٹ کا سبب بن جاتی ہے کیونکہ آپ میڈیا کے دیئے گئے ''ڈان کلچر'' پر پورے نہیں اتر رہے ہوتے۔
علم کے ان ذرائع کو جاننے کے بعد اس حقیقت کو سامنے رکھیئے کہ ہمارا ''سیکھا ہوا علم غلط اور ادھورا ہو سکتا ہے۔'' ہمیں اپنے علم کوپرکھنے اور جانچنے کے لئے بھی علم کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ گنجائش ہمارا مسئلہ حل کر دیتی ہے۔ آیئے اب اس خطرناک دشمن یعنی گلٹ کا مقابلہ کرنا سیکھیں۔
1۔ کہا جاتا ہے کہ خدا انسان کو معاف کر دیتا ہے لیکن انسان خود کو معاف نہیں کرتا۔ اپنے آپ کو معاف کرنا سیکھیں۔ ہر وقت خود کو مجرم نہ سمجھیں۔ خود سے پیار کریں۔ نفسیات میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے، اسے آٹو سجیشن کہتے ہیں، اردو میں اس کو خود کلامی کہہ سکتے ہیں۔ اس طریقہ علاج کو آسانی سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ آپ صبح اٹھنے کے بعد اور رات سونے سے پہلے اپنا دائیاں ہاتھ سینے پر رکھیں اور پوری توجہ اور ارتکاز کے ساتھ خود کو دس بار یہ جملہ کہیں ''میں نے خود کو معاف کیا اور میں اپنے آپ سے بہت محبت کرتا ہوں۔'' صرف چند دن کی مشق کے بعد آپ اپنے آپ کو احساس جرم اور احساس گناہ سے آزاد محسوس کریں گے۔
2۔ اللہ کریم سے سچے دل سے توبہ کریں۔ توبہ اور استغفار اللہ کا انعام ہے۔ جب ہم توبہ کرتے ہیں تو ہمارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور ہمارا احساس معطر ہو جاتا ہے۔ یاد رکھیئے سچی توبہ گناہ کی یاد کو ختم کر دیتی ہے۔ دراصل گناہ کی یاد ہی احساس گناہ کو زندہ رکھتی ہے۔ جب ہم مکمل یقین کے ساتھ کہ ہمارا رب ہمیں معاف کر سکتا ہے توبہ کرتے ہیں تو گلٹ ختم ہو جاتا ہے۔
3۔ اس علم کو پرکھیں جو آپ نے اپنے بچپن سے حاصل کیا ہے۔ اپنے خیالات اور عقائد پر سوالات اٹھائیں۔ مثلاً اگر کوئی خیالات یا عقیدہ گلٹ کا سبب بن رہا ہے اور آپ کو تکلیف دے رہا ہے' آپ کے ا ندر ایک گھٹن اور چھبن پیدا کر رہا ہے تو اس پر سوال اٹھائیں کہ ''کیا یہ بات حقیقت ہے؟ یا میری فرضی سوچ ہے۔'' اس طرح بھی کہ سکتے ہیں کہ ''جیسا کہ یہ سوچیں مجھے ایک عرصے سے نقصان پہنچا رہی ہیں کیوں نہ ان کو چھوڑ دیا جائے۔'' یاد رکھیں اپنی سوچ و علم اور عقیدہ پر سوال آپ کے اندر Doubt (شک) پیدا کرتے ہیں اور یہ شک آپ کو نیا علم سیکھنے پر مجبور کرتا ہے۔
4۔ ہم ماضی، ماضی کی یادوں اور ماضی کی باتوں کو نہیں بدل سکتے۔ اگر ہمیں یہ تنگ کریں اور گلٹ کا شکار بننے دیں تو ماضی سے رابطہ توڑ دیجئے۔ ہم نے اپنے وزن سے زیادہ اپنے ماضی کا وزن اٹھایا ہوتا ہے۔ ماضی ایک ''مردہ وقت'' کا نام ہے اس کو ساتھ لے کر نہ پھریئے۔ ماضی سے سبق حاصل کیجئے اور تنگ کرنے والی یادوں اور واقعات کو بھلا دیجئے۔ ہم اپنے گھر کی ہر پرانی اور بے کار شے کو باہر پھینک دیتے ہیں، اس طرح بے کار ماضی کو بھی پھینک دیجئے۔
5۔ اگر آپ حساس طبیعت کے مالک ہیں تو ڈپریس کرنے والے لوگوں سے بچیں۔ لوگ منفی رائے دینے اور تنقید کرنے کے ایکسپرٹ ہوتے ہیں۔ آپ ابھی سوچئے کئی چہرے آپ کے ذہن میں آجائیں گے۔ لازم نہیں کہ آپ ان سے اپنا تعلق توڑ دیں۔ بہتر ہے کہ آپ اپنے ذہن میں ان کو لیبل دے دیں کہ ان کی بات کا اثر نہیں لینا اور نہ ہی ان سے زیادہ گفتگو کرنی ہے۔ ہمارے کئی ساتھیوں کو شرمندگی محسوس کرواتے ہوئے شرمندگی محسوس نہیں ہوتی۔ یہ خواب چرانے والے لوگ ہوتے ہیں اور سب سے بڑا چور وہ ہے جو آپ کے خواب چرالے۔ آپ کو گلٹ کی اندھی دلدل میں پھینک دے۔ جیسے کارکے آگے گائے آ جائے تو ہمیں دو منٹ کے لئے اس کے ہٹنے کا انتظار کرنا ہوتا ہے بالکل اسی طرح ان کے راستے سے ہٹنے کا انتظار کیجئے اور پھر سفر زندگی پر رواں دواں ہو جائیے۔
6۔ ہم کالی عینک لگا کر دنیا کو دیکھتے ہیں اور دنیا کالی نظر آتی ہے۔ یہ کالی عینک ہمارے سوچنے کا انداز ہوتا ہے۔ سوچنے کا انداز بدلیں تو آپ کی زندگی بدل جاتی ہے۔ گلٹ آپ کی شخصت کے ادھورے پن کا اظہار بھی ہوتے ہیں۔ آپ اگر ان کو سمجھ جائیں تو یہ رائی بن جاتے ہیں اور اگر نہ سمجھیں تو پہاڑ۔
7۔ خود کو سمجھنا شروع کریں۔ اپنی عادتوں' سوچوں' خوبیوں' خامیوں اور شخصیت کو سمجھیں۔ خودشناسی آپ کے اندر سے احساس گناہ کو ختم کر دیتی ہے۔ ہم سب کو جانتے اور سمجھتے ہیں لیکن کبھی خود کو جاننے اور سمجھنے کی طرف دھیان نہیں دیا ہوتا۔ جس طرح آئنیہ دیکھنے سے آپ کو اپنی شکل صورت میں بہتری کا موقع ملتا ہے بالکل اسی طرح خود کو جاننے سے ا پنے اندر موجود گلٹ پر کام کرنے اور اسے ختم کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
ایک بات بہت اہم ہے کہ گلٹ اور ندامت میں فرق ہے۔ ندامت ایک مثبت احساس ہے، آپ اس احساس کی وجہ سے خود کو تبدیل کرنے کا سوچتے ہیں، لیکن گلٹ کے احساس میں آپ اپنی اصلاح کا نہیں سوچتے اور کئی سالوں تک اس شرمندگی کے احساس کو ساتھ لئے پھرتے ہیں۔
یاد رکھئے وہ گناہ بڑے کمال کا گناہ ہے جو آپ کو ندامت اور رب کی بارگاہ میں لے جائے۔ آپ توبہ کریں اور خدا آپ کی توبہ منظور کر کے اسے قبول کرے۔ کیونکہ ہمارے گناہ جتنے مرضی ہو جائیں اور ہماری شخصیت میں جتنی مرضی ندامت آ جائے، ہمارے گناہ ہمیشہ اللہ کی رحمت اور فضل کے مقابلے میں بہت تھوڑے ہوتے ہیں، اس کی رحمت ہم پر اپنا کرم کر کے رہتی ہے۔n
facebook/qasim.ali.shah