’’تیزاب حملوں‘‘ کے واقعات نے بیتے برس کا چہرہ بگاڑ دیا

صنف نازک پر تیزاب پھینکنے کے واقعات میں گذشتہ سال تشویش ناک حد تک اضافہ


Rizwan Tahir Mubeen March 10, 2013
تیزاب سے جھلسنے کے واقعات میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملزمان کو سزائیں ملنے کے تناسب میں بھی تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں صنف نازک کے حقوق کی صورت حال نہایت دگر گوں ہے۔

اگر صرف خواتین پر تشدد کے حوالے سے سامنے آنے والے اعدادوشمار کا جائزہ لیں تو خاصے تلخ حقائق سامنے آتے ہیں۔ خواتین پر تشدد کے خلاف ہمارے تمام حلقۂ فکر یکسو ہیں اور اس ظالمانہ چلن کے حق میں کوئی استدلال موجود نہیں، اس کے باوجود ہمارے ہاں اس شرم ناک معاملے سے نظریں چرائی جاتی ہیں۔

ماہرین سماجیات کے مطابق ''پاکستان میں کسی لڑکی یا عورت کو قتل کرنے کے لیے محض یہ الزام بھی کافی سمجھا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے خاندان کی عزت میں کمی آئی ہے۔''

2012ء کے دوران پاکستان میں اگرچہ خواتین پر تشدد کے واقعات میں 12 فی صد کمی دیکھنے میں آئی، لیکن یہ امر خاصا حیران کن ہے کہ تیزاب پھینکنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں حقوق نسواں کے لیے سرگرم عورت فاؤنڈیشن کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 2012ء میں خواتین پر تشدد کے 7ہزار 516 واقعات درج ہوئے۔ 2011ء میں یہ تعداد 8 ہزار کے لگ بھگ تھی، جب کہ 2010ء میں یہ تعداد ساڑھے 8 ہزار تھی، یعنی ہمارے ہاں خواتین کے حوالے سے شعور بے دار ہو رہا ہے اور ان پر تشدد کے واقعات بتدریج کم ہو رہے ہیں، لیکن دوسری جانب تیزاب پھینکنے کے جو 83 مقدمات درج ہوئے، وہ 2011ء کے مقابلے میں 89 فی صد زاید ہیں۔

تیزاب سے جھلسنے کے واقعات میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملزمان کو سزائیں ملنے کے تناسب میں بھی تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس گھنائونے جرم کے لیے بنائے جانے والے سخت قوانین خاصے کارگر ثابت ہوئے ہیں۔ ان قوانین کے تحت جرم ثابت ہونے پر چودہ سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانہ ہو سکتا ہے۔ ان قوانین میں ترامیم سے قبل سزائیں دینے کا تناسب چھ فی صد تھا، تاہم اب 2012ء میں یہ اٹھارہ فی صد تک پہنچ گیا ہے۔

لوگوں پر تیزاب پھینکنے کا شمار نہایت بے رحمانہ تشدد میں ہوتا ہے۔ ملک میں ہر سال درجنوں لوگوں کے چہرے تیزاب کے حملوں میں مسخ ہو جاتے ہیں اور ان میں اکثریت خواتین کی ہے۔ خواتین پر تیزاب گردی کے یہ واقعات گھروں، فیکٹریوں اور راہ چلتے ہوئے بھی پیش آئے، خواتین کو کبھی غیرت کے نام پر، کبھی شادی سے انکار پر، کبھی خاندانی دشمنی، جائیداد کے تنازع یا کبھی گھریلو ناچاقی کے باعث تیزاب سے جھلسا دیا جاتا ہے۔

چھ ماہ قبل لاہور کے میو اسپتال میں ایک نرس رحمانہ پر اس کے شوہر کی جانب سے تیزاب پھینکنے کا واقعہ پیش آیا، جس کی زد میں اس کی ساتھی نرسیں بھی آئیں اور ان کا چہرہ اور جسم جھلس گیا۔ ایک خاتون کو خاوند سے ناچاقی کی سزا کے طور پر زندگی بھر کے لیے اتنی خوف ناک سزا دی گئی۔ اس ہی طرح ایک فیکٹری میں کام کرنے والی پندرہ سالہ لڑکی سدرہ فیکٹری مالک کے بیٹے کی جانب سے تیزاب گردی کا شکار ہوئی، اہل خانہ کی بھاگ دوڑ کے بعد جولائی 2012ء میں مجرم جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلا گیا۔

مگر سدرہ کی ساری زندگی تباہ ہوگئی، تیزاب پھینکے جانے کی وجہ سے اس کا سر، چہرہ، ایک بازو اور جسم بری طرح متاثر ہوا ہے۔ داہنی آنکھ میں روشنی باقی نہیں رہی، جب کہ بائیں آنکھ بھی متاثر ہے۔ اس کے اب تک چھ آپریشن ہو چکے ہیں، اسے اپنے کانوں اور ہونٹوں کی سرجری اور سر کے بالوں کی پیوند کاری بھی کرانا ہے۔

پاکستان میں تیزاب کے حملوں کے خلاف مہم چلانے والے وکلا کا کہنا ہے کہ چیلینجز سے بچنے کے لیے تیزاب حملوں کے مقدمات خصوصی عدالتوں میں چلائے جائیں، قانونی طریقہ کار کو آسان بنایا جائے اور متاثرین کو جلد از جلد تلافی کی رقم ادا کی جانی چاہیے تاکہ وہ اپنا علاج کرا سکیں۔

عالمی یوم خواتین پر صنف نازک کے حقوق کے لیے بڑی باتیں کی جاتی ہیں، اور معاشرے میں اس کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے، لیکن آج کے اس دورمیں بھی ہمارے معاشرے میں خواتین پر تشدد اور تیزاب پھینکے جانے کے گھنائونے واقعات جاری ہیں، جس پر پورے معاشرے کو متحد ہو کر آواز بلند کرنا چاہیے، تاکہ اس انسانیت سوز باب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کیا جاسکے۔

تیزاب کی بہ آسانی دست یابی

تیزاب جیسے خطرناک محلول کی ملک میں بہ آسانی دست یابی بہت بڑا مسئلہ ہے، یہاں تیزاب خریدنے والوں سے یہ تک نہیں پوچھا جاتا کہ اس کو کس مقصد کے لیے تیزاب چاہیے۔ ہمارے ہاں تیزاب کی فروخت کھلے عام ہوتی ہے، اگرچہ تیزاب کی تیاری سے متعلق قانون تو موجود ہے، مگر پرچون اور ہول سیل کی دکانوں پر کسی قانون کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔ اس لیے ملزمان کے لیے یہ مہلک، سستا اور آسان ہتھیار ہے۔

سوکن کا شکار

بہاول پور سے تعلق رکھنے والی نذیراں بی بی کو اپنی سوکن کی جانب سے اس گھنائونے فعل کا سامنا کرنا پڑا۔ شوہر کے انتقال کے بعد اس کے سسرال والوں نے اسے اپنے دوسرے بیٹے سے شادی پر مجبور کیا، جس پر اس کی پہلی بیوی کو بہت غصہ تھا، اس کی شادی کے تین مہینے بعد اس نے سوتے ہوئے اس کے چہرے اور جسم پر تیزاب پھینک دیا، جس سے چھبیس سالہ نذیراں کا چہرہ بری طرح مسخ ہو گیا اور وہ بینائی سے محروم ہوگئی۔ معاملہ عدالت میں گیا تو بے دست و پا نذیراں بی بی کو شوہر اور سسرال کی جانب سے شدید دبائو کا سامنا کرنا پڑا، نتیجتاً مسئلہ عدالت سے باہر حل کیا گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کی ایک اور بہن اس کے سسرال میں بیاہی ہوئی تھی اور نذیراں نہیں چاہتی تھی کہ اس کی وجہ سے اس کی بہن کی زندگی بھی خراب ہو۔ اس لیے اس نے چار لاکھ روپے لیے اور کریانے کی دکان کھول لی۔ آج نذیراں اپنی بیٹیوں کو اسکول بھیجتی ہیں اور اپنے شوہر کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں۔ اگر میں دیکھ سکتی تو اپنے شوہر سے تعلق ہی نہ رکھتی لیکن میری بچیوں کو اس کی ضرورت ہے۔

والدین بھی الزامات کی زد میں۔۔۔!

خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات میں غیروں کے ساتھ اپنے بھی ملوث رہے ہیں۔ اور تو اور اس کریہہ فعل کے حوالے سے اب والدین تک ان الزامات سے محفوظ نہیں۔ پچھلے سال دسمبر میں تیزاب گرنے سے آزاد کشمیر کی ایک پندرہ سالہ لڑکی کی ہلاکت ہوئی اور والدین نے مبینہ طور پر اس کے قتل کا اعتراف بھی کیا۔ تاہم بعد میں لڑکی کی خود کُشی کا موقف اپنایا گیا اور بعد ازاں عدالت سے عدم ثبوت کی بنا پر انہیں بری کر دیا گیا۔

ملزمان کو سزا ازالہ نہیں، متاثرہ خواتین

تیزاب گردی خواتین پر تشدد کی ایک اذیت ناک شکل ہے، اس کا شکار اکثر طالبات اور ملازمت پیشہ خواتین ہوتی ہیں، جن پر راہ چلتے تیزاب انڈیل دیا جاتا ہے، اس سے متاثر ہونے والی خاتون کا چہرہ تو متاثر ہوتا ہی ہے، اکثر بینائی بھی چلی جاتی ہے اور بعض اوقات زندگی بھی ختم ہو جاتی ہے یا اگر جان بچ بھی جاتی ہے تو ایسا جینا مرنے سے زیادہ تکلیف دہ معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ انسانی چہرے کے عضلات بہت نازک ہوتے ہیں، اس میں ذرا سا بھی نقص اس کی فطری ترتیب کومتاثر کرتا ہے، لہٰذا تیزاب جیسی مہلک چیز سے اس کا جھلس جانا نہایت بھیانک تصور ہے۔

اس سنگین جرم کے ارتکاب کرنے والے کو قید اور جرمانے کی سزا دینے سے کیا متاثر ہونے والی خواتین کی تکلیف کی تلافی ہو سکتی ہے؟ حقیقتاً متاثرہ خواتین اس تباہی کا سبب بننے والے کے لیے اس انجام کو بہت کم تصور کرتی ہیں۔ ایک طرف ان کی زندگی موت جیسی ہو جاتی ہے، اس لیے ان کا کہنا ہے کہ انہیں اس سے بھی کڑی سزا دی جائے، بہاول پور میں سوکن کی تیزاب گردی کا شکار نذیراں اس کا جواب کچھ یوں دیتی ہیں ''میرے نزدیک مجرم کے لیے سب سے بہترین سزا یہی ہے کہ اس پر بھی تیزاب پھینکا جائے۔''

تشدد کے واقعات

خواتین پر تشدد کے سب سے زیادہ واقعات 47 ہزار 53 پنجاب میں، 16 ہزار 74 سندھ، 674 خیبر پختونخوا، 159 بلوچستان اور 281 واقعات اسلام آباد میں درج ہوئے۔ سب سے زیادہ واقعات قتل کے درج ہوئے، جن کی تعداد 17ہزار47 رہی، جب کہ خواتین کا اغوا دوسرا بڑا جرم رہا، جن کی تعداد 16 ہزار 7 رہی۔ اسی طرح ملک بھر میں عصمت دری کے 820 واقعات پیش آئے، خودکُشیوں کے 574 اور غیرت کے نام قتل پر 432 واقعات ہوئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں