نکاح نامے میں عورت کے حقوق
خواتین کا تحفظ کرتے نکات حرف غلط کی طرح کاٹ دیے جاتے ہیں۔
آج بھی ہمارے ملک کے بہت سے علاقوں میں خواتین کی تعلیم کا تصور موجود نہیں، جس کی وجہ سے انہیں اپنے حقوق کا کچھ پتا ہی نہیںِ۔
حتیٰ کہ جب ان کی زندگی کے اہم فیصلے کا موقع آتا ہے تب بھی وہ اس سے بہرہ ور نہیں ہو پاتیں، جب کہ کسی بھی شادی کے لیے جتنا لڑکے کی رضا مندی ضروری ہے اتنا ہی لڑکی کی مرضی شامل ہونا بھی ناگزیر ہے۔
ایسے معاشرے میں جہاں عورت کو پیر کی جوتی کی طرح سمجھا جاتا ہو، وہاں اس کے حق کی بات کیوں کر سمجھی جا سکتی ہے، آج شہروں میں بھی خود کو بہت اعلا تعلیم یافتہ اور دین دار سمجھنے والے لوگ بھی اپنی بہن، بیٹیوں کے نکاح کرتے وقت لڑکی کی مرضی کے بغیر ہی اس کے حقوق کا احاطہ کرنے والے حصے کٹوا دتے ہیں، چوں کہ یہ معاشرہ مردوں کا ہے، اس لیے رشتے کے معاملات سے شادی طے پانے تک ہرہر معاملات میں لڑکی کا خاندان لڑکے والوں کے سامنے پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہوتا ہے اور نکاح نامے میں لڑکی کی طرف سے پُر کیے جانے والے یہ نکات کاٹے جانے بھی اس ہی رویے کا عکاس ہے۔
لگتا ایسا ہے کہ اگر نکاح کے الفاظ میں لڑکی کے لیے مہر کا تذکرہ شامل نہ ہوتا تو شاید نکاح نامے میں اس کے آگے بھی خط تنسیخ پھیر دی جاتی۔۔۔ لیکن چوں کہ ایجاب وقبول کے سمے اس کا بھی ذکر ہوتا ہے اس لیے اسے چاروناچار پُر کرنا ہی پڑتا ہے، لیکن لڑکی کے اس اہم ترین حق مہر کا حال یہ ہے کہ اس کے لیے گردان لگائی جاتی ہے کہ ہم نے 32 روپے کا ''شرعی'' مہر رکھا ہے، استدلال یہ کیا جاتا ہے کہ حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کا جب نکاح ہوا تو ان کا مہر 32 درہم تھا جس کے مطابق 32 روپے کا شرعی حق بنتا ہے، ایسا ہوا ضرور، مگر یہ آدھی بات ہے، کیوں کہ جب یہ نکاح ہوا تو حضرت علیؓ کے پاس ان کی کُل جائیداد ایک گھوڑے کی زین تھی۔
جسے بیچ کر 64 درہم ملے، اور اس کا آدھا حصہ مہر کا طور پر بی بی فاطمہؓ کو دیا گیا۔ 32 روپے مہر کے شرعی ہونے کے استدلال کرنے والا کوئی ہے جو اپنی نصف جائیداد نکاح میں مہر کے طور پر دے؟ جب کہ یہ بات ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ نہیں جانتے اور لڑکی میں اتنی سکت نہیں کہ وہ اپنے اس حق پر بات کر سکے، جب رشتے طے کرتے ہوئے اس کے گھر والے ہی ہر وقت لڑکے والوں کے رعب اور جی حضوری میں دبے چلے جارہے ہوتے ہیں تو اس بے چاری کی کیا مجال کہ کچھ سوال کرے!
اس کے والدین اور سرپرست بھی مہر کا معاملہ یوں طے کرتے ہیں، جیسے بھیک مانگ رہے ہوں یا نہ چاہتے ہوئے بھی اس پر بات کرنا پڑ گئی ہو۔ نکاح کے وقت طے پانے والے مہر کو نہ جانے کیوں طلاق سے نتھی کر دیا گیا، کہ یہ طلاق کے وقت ہی ادا کیا جائے گا، اس ہی لیے کہیں اسے بدشگونی قرار دے کر بھی لڑکی والوں کو خاموش کرا دیا جاتا ہے کہ ''کیسی بات کرتے ہیں، اللہ نہ کرے ہمارے بچے نے کون سی طلاق دینی ہے!'' نکاح نامے میں مہر دو طریقے سے ادا کیا جا سکتا ہے۔ ایک نکاح کے فوری بعد، جب کہ دوسرا جب بیوی طلب کرے۔ اس میں طلاق کا کوئی ذکر نہیں، کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہماری بیوی نے مہر معاف کر دیا ہے یا پھر وہ خود ہی جبراً بیوی سے معاف کروا لیتے ہیں، جو کہ ان کے حق پر بہت بڑا ڈاکا ہے۔
نکاح نامے کے مطابق طلاق کا حق لڑکی کو بھی مل سکتا ہے، یہ ضروری نہیں کہ یہ حق صرف لڑکے کے پاس ہی ہو، مگر اس معاشرے میں تو نکاح سے پہلے ہی اس اختیار کو ایسے کاٹ دیا جاتا ہے جیسے غلطی سے چھپ گیا ہو۔ نکاح نامے میں ایک نکتہ یہ بھی درج ہوتا ہے کہ اگر شوہر کو طلاق کا حق دیا گیا ہے تو کسی پابندی کے ساتھ ہے یا نہیں؟ یعنی مرد کے لیے پھر طلاق کے لیے ان شرائط کو پورا کرنا بھی ضروری ہوگا۔
شادی کے موقع پر ہی مہر اور نان نفقے سے متعلق کوئی دستاویزات تیار کرانے سے متعلق نکتہ بھی نکاح نامے کا حصہ ہے، یعنی قانونی طور پر لڑکے کو پابند کرنا کہ وہ لڑکی اور ان کے ہونے والے بچوں کا خرچہ اٹھائے گا اور جب ایسی کوئی دستاویزات تیار نہیں ہوتی تو لڑکی والے خدانخواستہ کسی بھی مشکل وقت میں قانونی کارروائی نہیں کر پاتے۔ بہت سے لوگ شادی کر کے کسی غیر ملک میں جا بستے ہیں اور لڑکی اور بچوں کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔
اسلام میں مرد کو بیک وقت 4 بیویوں کی اجازت ہے، مگر دونوں، تینوں یا چاروں بیویوں کے حقوق برابر ہونا بھی ضروری ہیں، اس حوالے سے نکاح نامے میں ایک شق موجود ہے، جس سے 2 سے 4 خواتین کو تحفظ ملتا ہے کہ اگر لڑکے نے پہلے سے شادی کی ہوئی ہے تو کیا اس نے دوسری شادی کے لیے مسلم خاندانی قوانین کے آرڈینینس 1961ء کے تحت ثالثی کونسل سے اجازت نامہ حاصل کیا ہے یا نہیں؟
یعنی لڑکی جو پہلی بیوی تھی اس کا قانونی طور پر شوہر کو دوسری شادی کی اجازت دینا ہے اس طرح دوسری لڑکی جو اب بیوی بننے جا رہی ہے کا بھی تحفظ ہوتا ہے کہ اس کے علم میں لازمی یہ بات آجاتی ہے کہ لڑکے کا پہلے نکاح ہوا تھا، جس کے بعد وہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ اسے شادی کرنی ہے یا نہیں اور نکاح نامے میں اس شق کے کاٹنے سے بہت سی لڑکیوں کو شادی کے وقت اپنے شوہر کی پچھلی شادیوں کا معلوم نہیں چل پاتا، اور بعد میں نوبت طلاق تک جاپہنچتی ہے۔ یہ وہ معاشرہ ہے جو لڑکی کو ہی ذمے دار ثابت کرتا ہے کہ طلاق لے کر بیٹھی ہے۔
خواتین کے حقوق سے متعلق قوانین کو بدلنے اور ادھورا اپنانے میں بھی یہی معاشرہ ذمے دار ہے، حالاں کہ جب بات اپنی بیٹی اور بہن کی ہو تو لوگوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے اور یہی حقوق بیوی کے لیے نامناسب لگتے ہیں۔ اس لیے مردوں کو اس کے لیے آگے آنا ہوگا، کیوں کہ وہ صرف کسی کے شوہر نہیں بلکہ کسی کے بھائی اور باپ بھی ہیں۔ اگر وہ کل اپنی بہن اور بیٹی کے حقوق کے طلب گار ہیں تو پہلے آگے بڑھ کر دوسروں کی بہن، بیٹی کو وہ حقوق دیں۔
حتیٰ کہ جب ان کی زندگی کے اہم فیصلے کا موقع آتا ہے تب بھی وہ اس سے بہرہ ور نہیں ہو پاتیں، جب کہ کسی بھی شادی کے لیے جتنا لڑکے کی رضا مندی ضروری ہے اتنا ہی لڑکی کی مرضی شامل ہونا بھی ناگزیر ہے۔
ایسے معاشرے میں جہاں عورت کو پیر کی جوتی کی طرح سمجھا جاتا ہو، وہاں اس کے حق کی بات کیوں کر سمجھی جا سکتی ہے، آج شہروں میں بھی خود کو بہت اعلا تعلیم یافتہ اور دین دار سمجھنے والے لوگ بھی اپنی بہن، بیٹیوں کے نکاح کرتے وقت لڑکی کی مرضی کے بغیر ہی اس کے حقوق کا احاطہ کرنے والے حصے کٹوا دتے ہیں، چوں کہ یہ معاشرہ مردوں کا ہے، اس لیے رشتے کے معاملات سے شادی طے پانے تک ہرہر معاملات میں لڑکی کا خاندان لڑکے والوں کے سامنے پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہوتا ہے اور نکاح نامے میں لڑکی کی طرف سے پُر کیے جانے والے یہ نکات کاٹے جانے بھی اس ہی رویے کا عکاس ہے۔
لگتا ایسا ہے کہ اگر نکاح کے الفاظ میں لڑکی کے لیے مہر کا تذکرہ شامل نہ ہوتا تو شاید نکاح نامے میں اس کے آگے بھی خط تنسیخ پھیر دی جاتی۔۔۔ لیکن چوں کہ ایجاب وقبول کے سمے اس کا بھی ذکر ہوتا ہے اس لیے اسے چاروناچار پُر کرنا ہی پڑتا ہے، لیکن لڑکی کے اس اہم ترین حق مہر کا حال یہ ہے کہ اس کے لیے گردان لگائی جاتی ہے کہ ہم نے 32 روپے کا ''شرعی'' مہر رکھا ہے، استدلال یہ کیا جاتا ہے کہ حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کا جب نکاح ہوا تو ان کا مہر 32 درہم تھا جس کے مطابق 32 روپے کا شرعی حق بنتا ہے، ایسا ہوا ضرور، مگر یہ آدھی بات ہے، کیوں کہ جب یہ نکاح ہوا تو حضرت علیؓ کے پاس ان کی کُل جائیداد ایک گھوڑے کی زین تھی۔
جسے بیچ کر 64 درہم ملے، اور اس کا آدھا حصہ مہر کا طور پر بی بی فاطمہؓ کو دیا گیا۔ 32 روپے مہر کے شرعی ہونے کے استدلال کرنے والا کوئی ہے جو اپنی نصف جائیداد نکاح میں مہر کے طور پر دے؟ جب کہ یہ بات ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ نہیں جانتے اور لڑکی میں اتنی سکت نہیں کہ وہ اپنے اس حق پر بات کر سکے، جب رشتے طے کرتے ہوئے اس کے گھر والے ہی ہر وقت لڑکے والوں کے رعب اور جی حضوری میں دبے چلے جارہے ہوتے ہیں تو اس بے چاری کی کیا مجال کہ کچھ سوال کرے!
اس کے والدین اور سرپرست بھی مہر کا معاملہ یوں طے کرتے ہیں، جیسے بھیک مانگ رہے ہوں یا نہ چاہتے ہوئے بھی اس پر بات کرنا پڑ گئی ہو۔ نکاح کے وقت طے پانے والے مہر کو نہ جانے کیوں طلاق سے نتھی کر دیا گیا، کہ یہ طلاق کے وقت ہی ادا کیا جائے گا، اس ہی لیے کہیں اسے بدشگونی قرار دے کر بھی لڑکی والوں کو خاموش کرا دیا جاتا ہے کہ ''کیسی بات کرتے ہیں، اللہ نہ کرے ہمارے بچے نے کون سی طلاق دینی ہے!'' نکاح نامے میں مہر دو طریقے سے ادا کیا جا سکتا ہے۔ ایک نکاح کے فوری بعد، جب کہ دوسرا جب بیوی طلب کرے۔ اس میں طلاق کا کوئی ذکر نہیں، کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہماری بیوی نے مہر معاف کر دیا ہے یا پھر وہ خود ہی جبراً بیوی سے معاف کروا لیتے ہیں، جو کہ ان کے حق پر بہت بڑا ڈاکا ہے۔
نکاح نامے کے مطابق طلاق کا حق لڑکی کو بھی مل سکتا ہے، یہ ضروری نہیں کہ یہ حق صرف لڑکے کے پاس ہی ہو، مگر اس معاشرے میں تو نکاح سے پہلے ہی اس اختیار کو ایسے کاٹ دیا جاتا ہے جیسے غلطی سے چھپ گیا ہو۔ نکاح نامے میں ایک نکتہ یہ بھی درج ہوتا ہے کہ اگر شوہر کو طلاق کا حق دیا گیا ہے تو کسی پابندی کے ساتھ ہے یا نہیں؟ یعنی مرد کے لیے پھر طلاق کے لیے ان شرائط کو پورا کرنا بھی ضروری ہوگا۔
شادی کے موقع پر ہی مہر اور نان نفقے سے متعلق کوئی دستاویزات تیار کرانے سے متعلق نکتہ بھی نکاح نامے کا حصہ ہے، یعنی قانونی طور پر لڑکے کو پابند کرنا کہ وہ لڑکی اور ان کے ہونے والے بچوں کا خرچہ اٹھائے گا اور جب ایسی کوئی دستاویزات تیار نہیں ہوتی تو لڑکی والے خدانخواستہ کسی بھی مشکل وقت میں قانونی کارروائی نہیں کر پاتے۔ بہت سے لوگ شادی کر کے کسی غیر ملک میں جا بستے ہیں اور لڑکی اور بچوں کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔
اسلام میں مرد کو بیک وقت 4 بیویوں کی اجازت ہے، مگر دونوں، تینوں یا چاروں بیویوں کے حقوق برابر ہونا بھی ضروری ہیں، اس حوالے سے نکاح نامے میں ایک شق موجود ہے، جس سے 2 سے 4 خواتین کو تحفظ ملتا ہے کہ اگر لڑکے نے پہلے سے شادی کی ہوئی ہے تو کیا اس نے دوسری شادی کے لیے مسلم خاندانی قوانین کے آرڈینینس 1961ء کے تحت ثالثی کونسل سے اجازت نامہ حاصل کیا ہے یا نہیں؟
یعنی لڑکی جو پہلی بیوی تھی اس کا قانونی طور پر شوہر کو دوسری شادی کی اجازت دینا ہے اس طرح دوسری لڑکی جو اب بیوی بننے جا رہی ہے کا بھی تحفظ ہوتا ہے کہ اس کے علم میں لازمی یہ بات آجاتی ہے کہ لڑکے کا پہلے نکاح ہوا تھا، جس کے بعد وہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ اسے شادی کرنی ہے یا نہیں اور نکاح نامے میں اس شق کے کاٹنے سے بہت سی لڑکیوں کو شادی کے وقت اپنے شوہر کی پچھلی شادیوں کا معلوم نہیں چل پاتا، اور بعد میں نوبت طلاق تک جاپہنچتی ہے۔ یہ وہ معاشرہ ہے جو لڑکی کو ہی ذمے دار ثابت کرتا ہے کہ طلاق لے کر بیٹھی ہے۔
خواتین کے حقوق سے متعلق قوانین کو بدلنے اور ادھورا اپنانے میں بھی یہی معاشرہ ذمے دار ہے، حالاں کہ جب بات اپنی بیٹی اور بہن کی ہو تو لوگوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے اور یہی حقوق بیوی کے لیے نامناسب لگتے ہیں۔ اس لیے مردوں کو اس کے لیے آگے آنا ہوگا، کیوں کہ وہ صرف کسی کے شوہر نہیں بلکہ کسی کے بھائی اور باپ بھی ہیں۔ اگر وہ کل اپنی بہن اور بیٹی کے حقوق کے طلب گار ہیں تو پہلے آگے بڑھ کر دوسروں کی بہن، بیٹی کو وہ حقوق دیں۔