سانحہ بادامی باغ لاہور اورحکومت کی ذمے داری

مشتعل مظاہرین نے مکانوں اور دکانوں کے ساتھ ساتھ ایک چرچ کو بھی آگ لگا دی۔


March 10, 2013
مظاہرین شاید یہ بھول گئے کہ اسلام کسی بھی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ کا ہر حال میں احترام کرنے کا درس دیتا ہے۔ فوٹو: عابد نواز/ ایکسپریس

بادامی باغ لاہور میں مسیحی برادری کی بستی جوزف کالونی میں توہین رسالت کے مبینہ واقعے پر ہزاروں مشتعل افراد نے بستی کو آگ لگا دی اور توڑ پھوڑ کی' مظاہرین کے پتھرائو کے باعث پولیس افسران سمیت متعدد اہلکار زخمی ہو گئے۔ یہ امر حیران کن ہے کہ مسلمان عشق رسولؐ کے علمبردار تو ہیں مگر کسی افسوسناک واقعے پر وہ مشتعل ہو کر عشق رسولؐ کے تقاضوں کو بھول جاتے ہیں۔ انھیں یہ امر ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ نبی پاکؐ رحمتہ اللعالمین ہیں۔

آپؐ کی رحمت مسلم اور غیر مسلم سب کے لیے ہے۔ رحمت اور محبت کے اس نور مجسمؐ سے کبھی کسی غیر مسلم کو تکلیف نہ پہنچی خواہ وہ آپؐ کو کتنی ہی ایذائیں کیوں نہ پہنچاتا رہا۔ فتح مکہ کے موقع پر آپؐ نے کسی سے کوئی بدلہ نہ لیا اور اپنے خاندان کے قاتلوں تک کو معاف فرما کر اپنے پیروکاروں کے لیے قیامت تک بے نظیر مثال قائم کر دی۔ مگر ہم پاکستانی کیسے مسلمان اور عاشق رسولؐ ہیں کہ کسی ایک کے ارتکاب گناہ پر سیکڑوں بے گناہوں کے گھر جلا دیتے ہیں۔ سینیٹر پروفیسر ساجد میر کا کہنا قطعی صائب ہے کہ توہین رسالت کا ارتکاب جرم عظیم اور اس کی سزا موت ہے لیکن اس کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہے' کسی ایک شخص کے جرم کی سزا پوری بستی کو دینا کہاں کا عشق رسالت ہے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ ہنگامہ آرائی کی آڑ میں بعض افراد لوٹ مار بھی کرتے رہے۔ مشتعل مظاہرین نے مکانوں اور دکانوں کے ساتھ ساتھ ایک چرچ کو بھی آگ لگا دی۔ مظاہرین شاید یہ بھول گئے کہ اسلام کسی بھی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ کا ہر حال میں احترام کرنے کا درس دیتا ہے اور اسے مکمل تحفظ دینے کا داعی ہے۔ جوزف کالونی کے المناک واقعے نے سانحہ گوجرہ کی یاد تازہ کر دی جہاں عیسائی بستی مشتعل مظاہرین کا نشانہ بنی تھی۔ جوزف کالونی میں ہونے والی لوٹ مار سے یہ صورت حال آشکار ہوتی ہے کہ بہت سے شر پسند بھی اس میں شریک ہو گئے جو عام طور پر ایسے واقعے کی تاک میں رہتے ہیں۔

پولیس نے 100 سے زائد مشتبہ شر پسندوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ شہریوں کی جان و مال کو بلا تفریق تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہے۔ کسی شخص کو اس کے کیے کی سزا دینا ریاست کی ذمے داری ہے وجہ خواہ کوئی بھی ہو۔ کسی بھی شخص کو اس امر کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر دوسروں کو نقصان پہنچائے۔ گوجرہ اور جوزف کالونی کے سانحات کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو اس سے ریاست کی کمزوری اور قانون پر عملدرآمد کرانے کی ذمے داری میں کوتاہی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ریاست کے تمام ادارے درست کام کر رہے ہوں تو ایسے سانحات جنم نہیں لیتے۔

بعض گروہوں کا کہنا ہے کہ ایسے المناک واقعات کے پیچھے کاروباری رنجش یا قبضہ مافیا کی جانب سے دوسرے فریق کی جائیداد ہتھیانے کی کوشش بھی کارفرما ہو سکتی ہے۔ یہ قبضہ مافیا مذہب کی آڑ لے کر شرپسندوں کی مدد سے اپنے مذموم مقاصد پورے کرتا ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ جب مبینہ توہین رسالت کا ملزم گرفتار اور اس کے خلاف مقدمہ درج ہوچکا تھاتومظاہرین کی جانب سے جوزف کالونی جلانے کا کیا جواز تھا، انھیں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے محکمانہ انکوائری اور عدالتی فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔ کسی ایک شخص کے جرم پر عام لوگوں کے گھر جلانا اور ان کے جان و مال کو نقصان پہنچانا کسی صورت درست قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ مذہب اسلام اس کی اجازت دیتا ہے۔

حکومت کو اس واقعے کی فوری طور پر اعلیٰ سطح پر انکوائری کرانی چاہیے اور ذمے داروں کو قرار واقعی سزا دینی چاہیے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا سدباب کیا جا سکے۔ یہ امر ذہن نشین رہناچاہیے کہ مسیحی صدیوں سے یہاں رہ رہے ہیں' یہ ان کی سرزمین ہے، وہ اس مٹی سے محبت کرتے اور محب وطن شہری ہیں۔ یہ مسیحیوں کے گھر نہیں جلائے گئے بلکہ ایک پاکستانی گروہ نے بے گناہ دوسرے پاکستانی گروہ کے گھر جلائے ہیں جو زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی محنت' صلاحیت اور ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا اور اس کا نام روشن کر رہا ہے۔لہٰذا یہ ریاست پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تمام پاکستانیوں کی جان و مال کا تحفظ ہر صورت یقینی بنائے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ اس واقعے کو روایتی تساہل اور محکمانہ لاپروائی کی نذر نہ ہونے دے کیونکہ یہ مشاہدے میں آیا ہے کہ جب بھی کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے حکومت عوام کے اشتعال کو ٹھنڈا کرنے کے لیے فوری کارروائی اور انصاف فراہم کرنے کی یقین دہانی تو کرادیتی ہے مگر حالات معمول پر آتے ہی وہ واقعہ طاق نسیاں کی نذر ہو جاتا ہے۔ حکومت کی اسی تساہل پسندی' لاپروائی اور حقائق سے اغماض برتنے کی روایت ہی کا شاخسانہ ہے کہ کسی بھی واقعے پر شرپسندوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ایسے مواقع پر پولیس اور انتظامیہ کا رویہ بھی درست نہیں ہوتا۔

اگر سانحہ گوجرہ کے بعد حکومت ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شرپسندوں کے خلاف کارروائی کرتی تو آج جوزف کالونی کا سانحہ رونما نہ ہوتا۔ کسی بھی سانحہ پر حکومت معاملات کی اصل تہہ تک پہنچنے کے بجائے متاثرین کی صرف مالی مدد کرکے اپنے فرائض سے بری ہو جاتی ہے۔ اب بھی حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور معاملے سے چشم پوشی کی روایت برقرار رکھی تو مستقبل میں بھی ایسے افسوسناک واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت اس واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کراتے ہوئے شرپسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرے کیونکہ پاکستان اسی صورت امن کا گہوارہ بنے گا جب یہاں اقلیتوں کا مستقبل مکمل محفوظ ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں