کیا کراچی نیا بیروت بننے جارہا ہے

کراچی پر بزور طاقت قبضہ کرنے کی ایک ایسی دوڑ لگ گئی جس میں ہر سیاسی اور مذہبی جماعت شامل ہوگئی۔


Zaheer Akhter Bedari March 10, 2013
[email protected]

اسلام آباد کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرانس کے ایک پولیٹیکل سائنٹسٹ Laurent Gayer نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ کراچی ایک نیا بیروت بننے جارہا ہے۔ گائر کا کہنا ہے کہ پرتشدد سیاست فرقہ وارانہ اور صوبوں کے حوالے سے عوام کی تقسیم اور مذہبی انتہاپسندی و ہ عوامل ہیں جو کراچی کو نئے بیروت بنانے کی طرف لے جارہے ہیں، گائر Karachi orderd disorder and the struggle for the city کے نام سے ایک کتاب لکھ رہے ہیں جس کی اشاعت کا اہتمام ہرٹ اینڈ دی آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کر رہا ہے۔

ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز نے ان کے لیکچر کا اہتمام کیا تھا کراچی سے تعلق رکھنے والی بزنس کمیونٹی کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مسٹر گائر نے کہا کہ آپ دو عشروں سے اپنی جان و مال کے تحفظ کے لیے بھتہ دے رہے ہیں جو اب ناقابل برداشت ہوگیا ہے، اس کمیونٹی کے اور بہت سارے افراد اب ملک چھوڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ لوگ یا تو بنگلہ دیش جارہے ہیں یا مشرق وسطیٰ۔ گائر نے کہا کہ میری تحقیق کے مطابق کراچی ممبئی اس حوالے سے یکساں شہر ہیں کہ ممبئی میں بھی مسلح سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے اور کراچی میں بھی یہی صورت حال دکھائی دیتی ہے۔

گائر کا کہنا ہے کہ 2007 سے کراچی کی سیاست میں مسلح گروپوں کا آغاز اے این پی اور لیاری امن کمیٹی کی سرگرمیوں سے ہوا۔ گائر کا کہنا ہے کہ اب تمام سیاسی سماجی اور مذہبی جماعتوں میں ہتھیار کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کا مقصد کراچی میں اپنی موجودگی اور طاقت کو منوانا ہے۔ گائر کا کہنا ہے کہ حکومتی مشینری کے ان جرائم میں براہ راست ملوث ہونے سے کراچی کے حالات بہتر ہونے کی سرے سے کوئی امید نہیں۔گائر کا کہنا ہے کہ کراچی کے خون خرابے میں شدید اضافہ مذہبی تنظیموں کی سرگرمیوں سے ہوا۔

متحدہ جو بنیادی طور پر اے این پی سے برسر پیکار تھی اب اسے طالبان کا بھی سامنا ہے۔ گائر کا کہنا ہے کہ طالبان نہ صرف اغواء برائے تاوان، بینک ڈکیتیوں کے ذریعے بھاری سرمایہ حاصل کر رہے ہیں بلکہ کراچی ان کے زخمی اور تھکے ہوئے کارکنوں کی آرام گاہ بھی بنا ہوا ہے۔ ان بدلتے ہوئے حالات کی وجہ سے کراچی پر متحدہ کی بالادستی کو بھی خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ گائر کا کہنا ہے کہ ہتھیاروں کی بھرمار اور آزادانہ نقل و حمل کی وجہ سے شہریوں کے لیے اب اپنا تحفظ ممکن نہیں رہا۔ گائر کا کہنا ہے کہ آبادی میں باہر سے آنے والے اور سندھیوں کی تعداد میں اضافے سے اردو بولنے والوں کی اکثریت کو خطرات لاحق ہیں۔

فرانس کے پولیٹیکل سائنٹسٹ نے کراچی کے مستقبل کے حوالے سے جن خطرات کی نشاندہی کی ہے اور کراچی کو بیروت میں تبدیل کرنے والے عوامل اور عناصر کی جو نشاندہی کی ہے انھیں جھٹلایا نہیں جاسکتا، لیکن فرنچ اسکالر نے کراچی میں آنے والی ان خطرناک تبدیلیوں میں اہل سیاست کے کردار کا پوری طرح جائزہ نہیں لیا۔ دنیا کے بڑے صنعتی شہروں میں پسماندہ علاقوں سے حصول روزگار کے لیے بڑے پیمانے پر نقل آبادی یا اربنائزیشن ایک عام بات ہے۔

لیکن جو سیاستدان اور حکمران شہری آبادی میں اس بے لگام اضافے کے مضمرات اور خطرات کا ادراک اور بصیرت رکھتے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اربنائزیشن کا یہ عمل اپنی حدود میں رہے کہ بڑے شہر خون خرابے سے بچے رہیں۔اس صورت حال کو قابو میں رکھنے کے لیے اہل سیاست خاص طور پر حکمران طبقات کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ پسماندہ علاقوں میں رہنے والوں کو ان ہی کے علاقوں میں روزگار مہیا کیا جائے تاکہ روزگار کے لیے بڑے شہروں کی طرف جانے کے رجحان میں کمی آئے لیکن یہ منصوبہ بندی وہ حکمران وہ سیاستدان کرتے ہیں جنھیں عوام اور ملک کے مستقبل اور بڑے شہروں کی ترقی میں دلچسپی ہوتی ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں نے ان خطرات کو نظرانداز کرکے جو آبادی کے عدم توازن سے پیدا ہوتے ہیں محض اپنے سیاسی مفادات کی خاطر نہ صرف یہ کہ پسماندہ علاقوں سے آنے والوں کی حوصلہ افزائی کی بلکہ ''کراچی سب کا شہر ہے'' کے نعرے لگاتے رہے جس کا واحد مقصد سیاسی مفادات اور سیاسی بلیک میلنگ تھا۔

اس پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی پر بزور طاقت قبضہ کرنے کی ایک ایسی دوڑ لگ گئی جس میں ہر سیاسی اور مذہبی جماعت شامل ہوگئی، چونکہ یہ دوڑ سیاست سے نکل کر مسلح گروپوں کی شکل اختیار کرگئی جس کی وجہ سے کراچی کا ہر علاقہ میدان جنگ میں بدل گیا اس پر ستم یہ ہوا کہ دہشت گردوں کو بھی یہ احساس ہوا کہ کراچی سونے کی ایک ایسی چڑیا ہے جس کے پر ہر سیاسی اور مذہبی جماعت نوچ رہی ہے تو ہم کیوں اس بہتی گنگا میں ہاتھ نہ دھوئیں بلکہ اس سونے کی چڑیا نے دہشت گردوں کو یہ ترغیب بھی فراہم کی کہ لوٹ مار میں حصہ لینے کے بجائے اس پر قبضہ ہی کیوں نہ کیا جائے، اس مقصد کے لیے ان کے پاس ہتھیار بھی تھے اور جانثار کارکن بھی، وہ اس جنگ کا ایک طاقتور حصہ بن گئے اور خون غریباں کا وہ بازار گرم ہوا جس کا نظارہ ہم روز درجنوں بے گناہوں کے قتل اور بوری بند لاشوں کی شکل میں کر رہے ہیں۔

جو سیاستدان، جو دانشور کراچی کے غیر منصوبہ بند پھیلاؤ اور اس کے نتائج کا ادراک رکھتے تھے اور اس خطرے سے آگاہ تھے کہ اس صورت حال کا نتیجہ غریب طبقات کے درمیان محاذ آرائی اور نفرت کی شکل ہی میں نکلے گا وہ عشروں پہلے سے سندھ کے دانشوروں سے مل کر کوشش کرتے رہے کہ سندھ کے دو اصل فریقوں یعنی نئے اور پرانے سندھیوں کے درمیان مفاہمت کا کوئی راستہ نکلے، لیکن بوجوہ ان کی کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں۔

ڈاکٹر منظور کے مکان پر اس حوالے سے میٹنگیں ہوتی رہیں اور کراچی کے وفود سندھی دانشوروں سے ملتے رہے، لیکن لسانی اور نسلی سیاست کے پھیلاؤ نے ان مخلصانہ کوششوں کو پروان چڑھنے نہ دیا اور کراچی بتدریج اس پرتشدد سیاست کی طرف بڑھتا رہا جو آج اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ زبان، قومیت، طبقات بے گناہ اور گناہ گاروں کی تمیز ختم ہوکر رہ گئی ہے اس جنگ میں فرقوں اور فقہوںکی لڑائی نے دوسرے امتیازات کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔

حیرت یہ ہے کہ اس خطرناک اور خونریز جنگ اور اس کے نتائج کو آج بھی سمجھنے اور اس خونریزی کو روکنے کے بجائے نفرتوں کی سیاست کو پروان چڑھایا جارہا ہے،اس اندھے پن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہا پسند طاقتیں اپنے ایجنڈے کو کامیاب بنانے کے لیے اپنے صوبوں سے لاکھوں کی تعداد میں سادہ لوح غریبوں کو مختلف ترغیبات کے ذریعے کراچی لا رہے ہیں اور کراچی کے چپے چپے پر انھیں آباد کیا جارہا ہے۔ اب یہ مسئلہ حصول روزگار سے نکل کر کراچی پر قبضے کی جنگ میں بدل گیا ہے اور سیاستدان اس خطرناک صورت حال کو پس پشت ڈال کر اس شہر، اس صوبے کو اپنے سیاسی مفادات کی سولی پر چڑھا رہے ہیں۔

ہر سیاسی اور مذہبی جماعت کراچی میں جرم بے گناہی میں مارے جانے والے کی شناخت اپنے کارکنوں، اپنے فقہوں، اپنی نسل اور زبان کے حوالے سے کرکے مختلف کمیونٹیز میں تعصب اور نفرت تو بڑھا رہی ہے لیکن کوئی یہ نہیں جانتا کہ مرنے یا مارا جانے والا غریب تھا اور مارنے والے کا تعلق بھی غریب طبقے ہی سے تھا۔ اس حوالے سے مارے جانے والوں کی شناخت کی جاتی ہے تو ان جماعتوں کے مفادات کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے اور عوام میں طبقاتی شعور پیدا ہوتا ہے جو انھیں آپس کی قتل وغارت گری سے روکتا ہے۔ اسے اس ملک کی بدقسمتی کہیں کہ اس ملک کے عوام کی یہاں طبقاتی سیاست کرنے والی طاقتیں خود بے ہودہ اور شرمناک تقسیم اور دھڑے بندیوں کا شکار ہیں اور اس شہر کو بدترین خانہ جنگی کی طرف بڑھتا دیکھ رہے ہیں اور خاموش ہیں۔

فرانس کے اسکالر گائر کے یہ خدشات بے بنیاد نہیں کہ کراچی ایک نیا بیروت بننے جارہا ہے جو لوگ بیروت کی خانہ جنگی سے واقف ہیں جس نے مشرق وسطیٰ کے اس پیرس کو شمالی وزیرستان جیسے خون اور آگ کے شہر میں بدل دیا تھا اور آج تک یہ بیروت ماضی کا پیرس نہ بن سکا وہ یقینا یہ جانتے اور سمجھتے ہیں کہ اگر کراچی ایک بار بیروت بن گیا تو پھر اس کا دوبارہ عروس البلاد بننا قطعی ممکن نہیں رہے گا۔

بیروت کی متحارب طاقتوں میں دہشت گردی کا وہ عنصر شامل نہ تھا جو کراچی کی قتل و غارت میں سب سے زیادہ طاقتور فریق کی حیثیت سے شامل ہوگیا اور ہمارے سیاستدان ، ہمارے مذہبی رہنما، ہمارے دانشور ان خطرناک حقائق کو نظرانداز کرکے جمہوریت کے کوہ طور کی طرف آنکھیں بند کرکے اس لیے بھاگ رہے ہیں کہ یہ جمہوریت انھیں اسلام آباد کے تخت پر بٹھائے گی اور لوٹ مار کے وہ مواقعے فراہم کرے گی جو ان طبقات کا خواب، ان کی ضرورت ہے۔

لیکن افسوس کہ ان کا یہ خواب بلکہ شرمناک خواب شاید اس لیے پورا نہ ہوسکے کہ یہاں وہ اندھی بہری اور گونگی طاقت پھل پھول اور تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے جو بقول ہمارے ایک کالم نگار دوست کے جو ''پہلے گولی مارتی ہے اور بعد میں نام پوچھتی ہے'' اور ان شہیدوں کا دائرہ غریب بستیوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ ان بستیوں تک پہنچ جائے گا جہاں ہمارے جمہوری بادشاہ رہتے ہیں کیونکہ وہ اندھی طاقت سیاست جمہوریت ریاست اور حکومت سب کو کفر اور واجب القتل سمجھتی ہے۔ اس سے دوستی بھی اب کام نہیں آئے گی جب کراچی بیروت بن جائے گا، جہاں خون بویا جاتا ہے اور لاشیں اگائی جاتی ہیں۔ کاش! ہم اس شہر کو بیروت بننے سے روک سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں