یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی
سرکاری خزانے کو لٹانا اور بات ہے اور گھر سے پیسوں کی بوریاں کھولنا اور بات ہے۔
بار بار ایک فقرہ سننے اور پڑھنے کو مل رہا ہے، اب تو جیسے کان پک گئے ہوں، خورشید قصوری کے گھر پر کچھ زیادہ ہی جمہوریت تھی، شریک محفل کئی افراد نے لبرٹی لیتے ہوئے یہ فقرہ دہرایا۔ پھر تو میں چیخ پڑا۔ علیم خاں کا قصور تو میں جانتا ہوں، یہ رشید بھٹی کون ہیں اور ان کے گناہ کیا ہیں۔ ہو سکتا ہے میری طرح آپ بھی اس کیفیت سے گزر رہے ہوں، جب یہ سنتے ہوں کہ اگر علیم خان اور عبدالرشید بھٹی نے ہی جیتنا تھا تو تحریک انصاف سے تبدیلی کی کیا توقع کی جائے۔
تو گویا یار لوگ یہ توقع کر رہے تھے کہ تحریک انصاف میں نہرو، گاندھی، چرچل اور لنکن کو جیتنا چاہیے تھا۔ جس معاشرے نے خان بہادروں کی آغوش میں آنکھ کھولی ہو، وہاں ایک عام آدمی کس کھاتے میں ہو گا۔ علیم خان کو میں نے کوٹ پینٹ میں شاید ہی کبھی دیکھا ہو، سفید شلوار قمیص پہنتا ہے اور رشید بھٹی کو تو پہچاننا ہی مشکل ہو جاتا ہے، سر پر صافہ، بدن پر سفید کرتا، نیچے سفید دھوتی۔ یوں لگتا ہے ابھی ابھی کسی گائوں سے کوئی گنوار آپ کی محفل میں گھس آیا ہو مگر بولتا ہے تو آپ ششدر رہ جاتے ہیں، فوک وزڈم اس کی باندی دکھائی دیتی ہے، بلھے شاہ، بابا فرید اور شاہ حسین کا کلام اس کی گفتگو میں نگینے کی طرح جڑا ہوتا ہے۔
مسئلہ پہچاننے کا ہو تو دو سال قبل ڈاکٹرز اسپتال کی انتظار گاہ میں، میں اپنے بیٹے کے ساتھ رات گئے بیٹھا تھا۔ یوں لگا کوئی آدمی مجھے گھور رہا ہے، وہ نزدیک آیا، مجھے میرا نام لے کر پکارا، تب احساس ہوا کہ وہ علیم خان ہے۔ چند ماہ بعد میں چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو اس سے ملاقاتیں بڑھ گئیں۔ میں اس کی ذات کے اندر جھانکنا چاہتا تھا۔ مجھے صاف لگ رہا تھا کہ یہ شخص باہر سے صحیح پہچانا نہیں جاتا۔ ہمیشہ مسکراتا ہوا چہرہ مگر آپ اس کے دل پر دستک دیں تو اندر سے بے حد سنجیدہ۔ اس نے دوسروں کے دکھوں کا مداوا کرنے کی عبادت کو شعار بنا لیا۔ شوکت خانم میں دو کروڑ روپے سے خصوصی وارڈ، بون میرو کی تکلیف میں مبتلا بچے کا علاج۔
میانوالی جیسے دور دراز اور پس ماندہ علاقے میں نمل یونیورسٹی کی آئی ٹی لیب میں ستر لاکھ روپے سے مکمل سازو سامان، لاہور میں خصوصی بچوں کے ایک جدید اسکول میں دو کروڑ روپے کا عطیہ۔ یتیم اور بے سہارا مگر ذہین بچے اور بچیوں کے لیے لاہور کینٹ جیسے مہنگے علاقے میں دو ہوسٹل اور وہ بھی مکمل ایئر کنڈیشنڈ۔ فائیو اسٹار ہوٹل جیسا کھانا۔ کیا یہ کام کوئی آسان کام ہے۔ اب وہ سیاست میں ہے۔ اللہ کا دیا اس کے پاس بہت ہے اور وہ پارٹی پر بے دریغ خرچ کر رہا ہے۔ میں نے پچاسی کے بعد کی اس سیاست کو قریب سے دیکھا ہے جو پیسے اور صرف پیسے کے بل پر چلتی ہے۔ تو پھر علیم خان پر کیا اعتراض۔
رشید بھٹی کو میں زیادہ نہیں جانتا تھا، بعض صحافی دوستوں کے پاس اسے آتے جاتے دیکھتا تھا، ایک صاحب اس کے چھوٹے بھائی کے دوست ہیں، ان سے کچھ معلومات مل جاتی تھیں لیکن اب میں نے ان کو پی سی آئی اے کے اجلاس میں بلایا اور پوچھ ہی لیا کہ کیا آپ بھی پیسے والے ہیں، یا دیہی معاشرے کے کوئی وڈیرے، حسن نثار نے اپنے ایک کالم میں عقدہ کھولا کہ اس پر کئی قتل ڈالے گئے۔ سوال سن کر رشید بھٹی شرما سا گیا۔ یوں لگا جیسے اس سے زیادہ معصوم دنیا میں اور کوئی اور نہ ہو۔ میں نے اس کی لجاجت دیکھ کر خجالت سے کہا کہ میرے پاس تو ایک طویل فہرست تھی ان لوگوں کی جن کو آپ کے دست مبارک سے قتل کروانا چاہتا تھا۔
رشید بھٹی نے براہ راست جواب نہ دیا، وہ گائوں کی زندگی میں واپس چلا گیا، دو تین صدیوں کی تاریخ کھنگال ڈالی اور کہا کہ اس عرصے میں اس کے علاقے میں کوئی قتل نہیں ہوا۔ وہ یونیورسٹی میں بھی پڑھتا رہا جو اس کے حلیے سے ثابت نہیں ہوتا لیکن اس نے لیاقت بلوچ، فرید پراچہ، احسان اللہ وقاص، جیسے ہم مکتبوں کے نام لیے تو اعتبار کرنا پڑا، رشید بھٹی انقلابی تھا، اور اس نے ہر ہر موڑ پر رجعت پسندوں سے ٹکر لی۔ وہ سیاست میں آیا تو اس نے اپنے انقلابی نظریات کو بروئے کار لانے کی کوشش کی مگر یہاں کا تو باوا آدم نرالا تھا۔ یہاں تو بالا دست اور استحصالی ٹولے کا سکہ چلتا تھا۔ اس نے پارٹی ہائی کمان سے شکائت کی۔
اس کی دلیل بڑی معقول تھی کہ پارٹی آپ کی ہے، اس انداز سیاست سے نقصان آپ کا ہے۔ میں تو آپ کی خیر خواہی میں بات کر رہا ہوں۔ جواب ملا، اگر پارٹی میری ہے اور نقصان بھی میرا ہے تو آپ کو درد کیوں اٹھ رہا ہے۔ مجھے اور پارٹی کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں اور جا کر کہیں اور انقلاب برپا کریں۔ پھر کئی برس کا بن باس، رشید بھٹی زندگی کے تھپیڑے سہتا سہتا تحریک انصاف تک آن پہنچا، یہاں اسے تبدیلی کا نعرہ حقیقت کا روپ دھارتا نظر آیا۔
وہ دو سال قبل پارٹی میں شامل ہوا تھا مگر اسے پارٹی میں کہیں جگہ نہیں ملی حتیٰ کہ عمران نے فیصلہ کیا کہ پارٹی میں جگہ لینے دینے کا فیصلہ پارٹی کے ممبر کریں گے اور پہلے ہی ہلے میں رشید بھٹی نے معرکہ مار لیا ، وہ لاہور جیسے میٹرو پولیٹن شہر میں پارٹی کا سیکریٹری جنرل چن لیا گیا، علیم خان نے صدارت کا منصب مار لیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ لاہور کسی اور پارٹی کا گڑھ ہے مگر یہیں سے تحریک انصاف کو ایسی قیادت میسر آ گئی ہے جو ''اسٹیٹس کو'' توڑنے کے لیے سارے حربے اور سارے گر جانتی ہے، پیسہ اس کے پاس ہے، پیرو کار اس کے پاس ہیں، دانش اور حکمت اس کے پاس ہے، دکھی دلوں کا مرہم اس کے پاس ہے۔
سرکاری خزانے کو لٹانا اور بات ہے اور گھر سے پیسوں کی بوریاں کھولنا اور بات ہے۔ اور سب سے بڑھ کر جوان خون اور جوان جذبے اس کے ساتھ ہیں، وہ پوری توانائی کے ساتھ الیکشن کے اکھاڑے میں اترے گی۔ کوئی سال قبل اسی لاہور میں سونامی کا آغاز ہوا تھا، خود کپتان کا خیال تھا کہ زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار افراد اکٹھے ہو سکیں گے مگر موقع آیا تو ہر جانب سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ اور ہر سیاسی پارٹی اس کی نقالی پر مجبور ہوئی مگر وہ بات کہاں جو مولوی مدن میں تھی۔ اب پھر لاہور کی آزمائش ہے۔23 مارچ کو سونامی کی جھلک پھر دیکھنے کو ملے گی مگر اسی ہزار تو منتخب نمایندے ہی آئیں گے جنہوں نے حلف اٹھانا ہے، ہر شخص پانچ افراد ساتھ لے آیا تو تعداد چار لاکھ تک پہنچ جائے گی، اس سے کم نہیں ہو سکتی، زیادہ ہو سکتی ہے۔
یہ سونامی نہیں طوفان عظیم ہو گا جو پورے ملک پر حاوی ہو گا۔ یہ ہے تجزیہ رشید بھٹی کا جو اس نے ہمارے ساتھیوں کے سامنے پیش کیا۔ اب شک کی گنجائش ہی نہیں، میدان سجنے والا ہے۔ سرکاری خزانے اور جواں ہمت فرزانے آمنے سامنے ہوں گے۔ آنے و الا الیکشن کوئی جُوا نہیں بلکہ ایک لگا بندھا کھیل ہو گا۔ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، اس کا انحصار الیکشن کمیشن پر ہے۔ جو لم لیٹ نظر آہا ہے، جعلی ڈگریوں پر پسپائی اختیار کر چکا ہے، ابھی کئی امتحان باقی ہیں، ٹیکس چور، بجلی چور، قرضے خور، بد دیانت، خائن جو باسٹھ تریسٹھ کے معیار پر پورے نہیں اترتے، انھیں الیکشن کی دوڑ سے باہر کرنا ہو گا۔ یہ سب نہ ہوا تو تحریک انصاف کا سونامی ٹھاٹھیں مارتا نظر آئے گا۔ وہ اسٹیٹس کو اور اس کے محافظوں اور سرپرستوں کو غرق کردے گا۔ فنا کے گھاٹ اتار دے گا۔ اب یا تو اسٹیٹس کو چلے گا اور اندھیروں کا راج رہے گا یا پھر نئے چراغ جلیں گے اور روشنی کا دورہ دورہ ہو گا۔
تو گویا یار لوگ یہ توقع کر رہے تھے کہ تحریک انصاف میں نہرو، گاندھی، چرچل اور لنکن کو جیتنا چاہیے تھا۔ جس معاشرے نے خان بہادروں کی آغوش میں آنکھ کھولی ہو، وہاں ایک عام آدمی کس کھاتے میں ہو گا۔ علیم خان کو میں نے کوٹ پینٹ میں شاید ہی کبھی دیکھا ہو، سفید شلوار قمیص پہنتا ہے اور رشید بھٹی کو تو پہچاننا ہی مشکل ہو جاتا ہے، سر پر صافہ، بدن پر سفید کرتا، نیچے سفید دھوتی۔ یوں لگتا ہے ابھی ابھی کسی گائوں سے کوئی گنوار آپ کی محفل میں گھس آیا ہو مگر بولتا ہے تو آپ ششدر رہ جاتے ہیں، فوک وزڈم اس کی باندی دکھائی دیتی ہے، بلھے شاہ، بابا فرید اور شاہ حسین کا کلام اس کی گفتگو میں نگینے کی طرح جڑا ہوتا ہے۔
مسئلہ پہچاننے کا ہو تو دو سال قبل ڈاکٹرز اسپتال کی انتظار گاہ میں، میں اپنے بیٹے کے ساتھ رات گئے بیٹھا تھا۔ یوں لگا کوئی آدمی مجھے گھور رہا ہے، وہ نزدیک آیا، مجھے میرا نام لے کر پکارا، تب احساس ہوا کہ وہ علیم خان ہے۔ چند ماہ بعد میں چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو اس سے ملاقاتیں بڑھ گئیں۔ میں اس کی ذات کے اندر جھانکنا چاہتا تھا۔ مجھے صاف لگ رہا تھا کہ یہ شخص باہر سے صحیح پہچانا نہیں جاتا۔ ہمیشہ مسکراتا ہوا چہرہ مگر آپ اس کے دل پر دستک دیں تو اندر سے بے حد سنجیدہ۔ اس نے دوسروں کے دکھوں کا مداوا کرنے کی عبادت کو شعار بنا لیا۔ شوکت خانم میں دو کروڑ روپے سے خصوصی وارڈ، بون میرو کی تکلیف میں مبتلا بچے کا علاج۔
میانوالی جیسے دور دراز اور پس ماندہ علاقے میں نمل یونیورسٹی کی آئی ٹی لیب میں ستر لاکھ روپے سے مکمل سازو سامان، لاہور میں خصوصی بچوں کے ایک جدید اسکول میں دو کروڑ روپے کا عطیہ۔ یتیم اور بے سہارا مگر ذہین بچے اور بچیوں کے لیے لاہور کینٹ جیسے مہنگے علاقے میں دو ہوسٹل اور وہ بھی مکمل ایئر کنڈیشنڈ۔ فائیو اسٹار ہوٹل جیسا کھانا۔ کیا یہ کام کوئی آسان کام ہے۔ اب وہ سیاست میں ہے۔ اللہ کا دیا اس کے پاس بہت ہے اور وہ پارٹی پر بے دریغ خرچ کر رہا ہے۔ میں نے پچاسی کے بعد کی اس سیاست کو قریب سے دیکھا ہے جو پیسے اور صرف پیسے کے بل پر چلتی ہے۔ تو پھر علیم خان پر کیا اعتراض۔
رشید بھٹی کو میں زیادہ نہیں جانتا تھا، بعض صحافی دوستوں کے پاس اسے آتے جاتے دیکھتا تھا، ایک صاحب اس کے چھوٹے بھائی کے دوست ہیں، ان سے کچھ معلومات مل جاتی تھیں لیکن اب میں نے ان کو پی سی آئی اے کے اجلاس میں بلایا اور پوچھ ہی لیا کہ کیا آپ بھی پیسے والے ہیں، یا دیہی معاشرے کے کوئی وڈیرے، حسن نثار نے اپنے ایک کالم میں عقدہ کھولا کہ اس پر کئی قتل ڈالے گئے۔ سوال سن کر رشید بھٹی شرما سا گیا۔ یوں لگا جیسے اس سے زیادہ معصوم دنیا میں اور کوئی اور نہ ہو۔ میں نے اس کی لجاجت دیکھ کر خجالت سے کہا کہ میرے پاس تو ایک طویل فہرست تھی ان لوگوں کی جن کو آپ کے دست مبارک سے قتل کروانا چاہتا تھا۔
رشید بھٹی نے براہ راست جواب نہ دیا، وہ گائوں کی زندگی میں واپس چلا گیا، دو تین صدیوں کی تاریخ کھنگال ڈالی اور کہا کہ اس عرصے میں اس کے علاقے میں کوئی قتل نہیں ہوا۔ وہ یونیورسٹی میں بھی پڑھتا رہا جو اس کے حلیے سے ثابت نہیں ہوتا لیکن اس نے لیاقت بلوچ، فرید پراچہ، احسان اللہ وقاص، جیسے ہم مکتبوں کے نام لیے تو اعتبار کرنا پڑا، رشید بھٹی انقلابی تھا، اور اس نے ہر ہر موڑ پر رجعت پسندوں سے ٹکر لی۔ وہ سیاست میں آیا تو اس نے اپنے انقلابی نظریات کو بروئے کار لانے کی کوشش کی مگر یہاں کا تو باوا آدم نرالا تھا۔ یہاں تو بالا دست اور استحصالی ٹولے کا سکہ چلتا تھا۔ اس نے پارٹی ہائی کمان سے شکائت کی۔
اس کی دلیل بڑی معقول تھی کہ پارٹی آپ کی ہے، اس انداز سیاست سے نقصان آپ کا ہے۔ میں تو آپ کی خیر خواہی میں بات کر رہا ہوں۔ جواب ملا، اگر پارٹی میری ہے اور نقصان بھی میرا ہے تو آپ کو درد کیوں اٹھ رہا ہے۔ مجھے اور پارٹی کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں اور جا کر کہیں اور انقلاب برپا کریں۔ پھر کئی برس کا بن باس، رشید بھٹی زندگی کے تھپیڑے سہتا سہتا تحریک انصاف تک آن پہنچا، یہاں اسے تبدیلی کا نعرہ حقیقت کا روپ دھارتا نظر آیا۔
وہ دو سال قبل پارٹی میں شامل ہوا تھا مگر اسے پارٹی میں کہیں جگہ نہیں ملی حتیٰ کہ عمران نے فیصلہ کیا کہ پارٹی میں جگہ لینے دینے کا فیصلہ پارٹی کے ممبر کریں گے اور پہلے ہی ہلے میں رشید بھٹی نے معرکہ مار لیا ، وہ لاہور جیسے میٹرو پولیٹن شہر میں پارٹی کا سیکریٹری جنرل چن لیا گیا، علیم خان نے صدارت کا منصب مار لیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ لاہور کسی اور پارٹی کا گڑھ ہے مگر یہیں سے تحریک انصاف کو ایسی قیادت میسر آ گئی ہے جو ''اسٹیٹس کو'' توڑنے کے لیے سارے حربے اور سارے گر جانتی ہے، پیسہ اس کے پاس ہے، پیرو کار اس کے پاس ہیں، دانش اور حکمت اس کے پاس ہے، دکھی دلوں کا مرہم اس کے پاس ہے۔
سرکاری خزانے کو لٹانا اور بات ہے اور گھر سے پیسوں کی بوریاں کھولنا اور بات ہے۔ اور سب سے بڑھ کر جوان خون اور جوان جذبے اس کے ساتھ ہیں، وہ پوری توانائی کے ساتھ الیکشن کے اکھاڑے میں اترے گی۔ کوئی سال قبل اسی لاہور میں سونامی کا آغاز ہوا تھا، خود کپتان کا خیال تھا کہ زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار افراد اکٹھے ہو سکیں گے مگر موقع آیا تو ہر جانب سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ اور ہر سیاسی پارٹی اس کی نقالی پر مجبور ہوئی مگر وہ بات کہاں جو مولوی مدن میں تھی۔ اب پھر لاہور کی آزمائش ہے۔23 مارچ کو سونامی کی جھلک پھر دیکھنے کو ملے گی مگر اسی ہزار تو منتخب نمایندے ہی آئیں گے جنہوں نے حلف اٹھانا ہے، ہر شخص پانچ افراد ساتھ لے آیا تو تعداد چار لاکھ تک پہنچ جائے گی، اس سے کم نہیں ہو سکتی، زیادہ ہو سکتی ہے۔
یہ سونامی نہیں طوفان عظیم ہو گا جو پورے ملک پر حاوی ہو گا۔ یہ ہے تجزیہ رشید بھٹی کا جو اس نے ہمارے ساتھیوں کے سامنے پیش کیا۔ اب شک کی گنجائش ہی نہیں، میدان سجنے والا ہے۔ سرکاری خزانے اور جواں ہمت فرزانے آمنے سامنے ہوں گے۔ آنے و الا الیکشن کوئی جُوا نہیں بلکہ ایک لگا بندھا کھیل ہو گا۔ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، اس کا انحصار الیکشن کمیشن پر ہے۔ جو لم لیٹ نظر آہا ہے، جعلی ڈگریوں پر پسپائی اختیار کر چکا ہے، ابھی کئی امتحان باقی ہیں، ٹیکس چور، بجلی چور، قرضے خور، بد دیانت، خائن جو باسٹھ تریسٹھ کے معیار پر پورے نہیں اترتے، انھیں الیکشن کی دوڑ سے باہر کرنا ہو گا۔ یہ سب نہ ہوا تو تحریک انصاف کا سونامی ٹھاٹھیں مارتا نظر آئے گا۔ وہ اسٹیٹس کو اور اس کے محافظوں اور سرپرستوں کو غرق کردے گا۔ فنا کے گھاٹ اتار دے گا۔ اب یا تو اسٹیٹس کو چلے گا اور اندھیروں کا راج رہے گا یا پھر نئے چراغ جلیں گے اور روشنی کا دورہ دورہ ہو گا۔