ریاست بچانی ہے تو مصلحتیں ترک کریں

انگریز دور کی یاد مجھے بادامی باغ لاہور کے المناک سانحے کی وجہ سے آئی ہے۔

ayazkhan@express.com.pk

انگریز دور کو یاد کرنے والے بزرگوں کی تعداد اب بہت کم رہ گئی ہے لیکن مجھے یاد ہے ہمارے بچپن میں بے شمار ایسے لوگ موجود تھے جو اس ''سنہری'' دور کو یاد کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ امن و امان کے حوالے سے وہ مثالی دور تھا۔ زیور سے لدی ہوئی اکیلی عورت بھی رات بھر برصغیر پاک و ہند کے شہروں اور دیہات میں بلا خوف و خطر سفر کر سکتی تھی اور کسی کی جرات نہیں تھی کہ وہ آنکھ اٹھا کر بھی اس کی طرف دیکھ سکے۔

انگریزوں کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں تھی جس کی مدد سے وہ ایسا مثالی امن قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے جو آج ضرب المثل بن گیا ہے۔ ان کا کمال صرف یہ تھا کہ وہ ریاستی قوانین پر عمل کراتے تھے۔ گورا قانون اور ضابطے کے معاملے میں کسی امتیاز کا قائل نہیں تھا۔ جس معاشرے میں جزا و سزا کے قوانین پر بلا تفریق عمل ہو وہاں کسی کی جرات نہیں ہوتی کہ وہ دوسرے پر ظلم یا زیادتی کا تصور بھی کر سکے۔

یہی وجہ تھی کہ انگریز کے دور میں کوئی ٹھاکر ہو، چوہدری ہو ، خان، سردار یا وڈیرہ سب گردنیں جھکائے انگریزی قانون کی پاسداری کرتے تھے۔ انگریز نے برصغیر پاک و ہند میں شیر اور بکری کو ایک ہی گھاٹ پر پانی پینے والے محاورے کو عملی شکل دے دی۔ یہ ہماری بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ کی ایک بڑی تعداد کا تعلق ان خاندانوں سے ہے جو انگریزوں کے قدموں میں پڑے رہتے تھے۔

انگریز دور کی یاد مجھے بادامی باغ لاہور کے المناک سانحے کی وجہ سے آئی ہے۔ اس علاقے کی مسیحی بستی جوزف کالونی میں ہزاروں مشتعل افراد نے دیکھتے ہی دیکھتے 170 مکان اور دکانیں جلا دیں۔ انھوں نے ایک چرچ کو بھی آگ لگا دی۔ ایکسپریس کے کرائم رپورٹر کے مطابق توہین رسالت کا مبینہ ملزم اور مدعی گہرے دوست تھے' شراب بھی اکٹھے پیتے تھے اور ان کا جھگڑا بھی نشے کی حالت میں ہی ہوا۔ میں یہ سوچ سوچ کر پاگل ہو رہا ہوں کہ دو افراد کی لڑائی کے بعد اتنا بڑا سانحہ کیسے ہو گیا۔

اس سوال کا جواب تلاش کرنا اس وقت میرے لیے اور مشکل ہو جاتا ہے جب مجھے یہ پتہ چلتا ہے کہ پولیس ملزم کو ایک رات پہلے ہی گرفتار کر چکی تھی۔ اس کے بعد بھی یہ سانحہ ہوا ہے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ کچھ شر پسند عناصر کی سوچی سمجھی سازش ہے۔ یہ سانحہ اس کمزور ہوتی ہوئی ریاست اور تباہ ہوتے ہوئے معاشرے کا عکاس ہے جہاں لاقانونیت کا راج ہے۔ اس ملک میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اقلیتوں کی زندگی مشکل ہو رہی ہے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب سندھ میں ہندوئوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ اس معاملے میں چند نام نہاد گدی نشین بھی ملوث پائے گئے۔


قائم علی شاہ تو بیچارے نام کے وزیراعلیٰ ہیں، ان کا اختیار کراچی میں ہے نہ اندرون سندھ وہ کسی کو کچھ کہہ سکتے ہیں۔ سندھ میں طریقہ واردات یہ ہے کہ پندرہ سولہ سال کی کسی ہندو لڑکی کو مسلمان قرار دے کر جلسے جلوس شروع کر دیے جاتے ہیں۔ انتظامیہ جو پہلے ہی وڈیروں، پیروں اور گدی نشینوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے، خاموشی سے تماشا دیکھتی رہتی ہے، یوں کمزور ظلم سہتا رہتا ہے۔ صورتحال سے تنگ آ کر کئی صاحب ثروت سندھی ہندو نقل مکانی کر کے بھارت اور دوسرے ملکوں میں جانے پر مجبور ہو گئے۔

خیبر پختونخوا میں سوات میں مولوی فضل اللہ اینڈ کمپنی کے خوف سے اقلیتیں وہاں سے نقل مکانی پر مجبور ہوئیں۔ خیبر ایجنسی میں منگل باغ نامی نام نہاد کمانڈر نے ہندوئوں اور سکھوں سے جگا ٹیکس لینا شروع کیا جسے اس نے جزیے کا نام دیا۔ منگل باغ مفتی یا مجتہد ہے نہ کسی اسلامی ریاست کا حکمران۔ ایک ٹرالر چلانے والا ڈرائیور ریاست کی کمزوری کے باعث صدیوں سے وہاں پر امن زندگی گزارنے والے غیر مسلموں کے لیے عذاب بن گیا۔ حالانکہ خیبر ایجنسی میں رہنے والے غیر مسلم ضرور تھے لیکن وہ پشتون قومیت کا ہی حصہ کہلاتے ہیں۔ وہاں کے سکھوں کی قوم پرستی کا ایک واقعہ یاد آیا ہے۔

دس سال پہلے کی بات جب صوبہ خیبر پختونخوا میں امن تھا، ایک بار خیبر ایجنسی کے دہانے پر پشاور کے معروف تجارتی مرکز حیات آباد میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں کے ایک سکھ دکاندار سے بارگیننگ کے دوران میں نے لاہور اور ننکانہ صاحب کا نام لے کر نفسیاتی وار کیا مگر اس نے فوراً خود کو پشتون کہہ کر یہ وار الٹ دیا۔ اس نے کہا تمہیں سودا لینا ہے تو لو ورنہ کوئی اور دکان دیکھو۔ سچی بات ہے اس کے اس ایکشن نے مجھے حیرانی میں مبتلا کر دیا تھا۔ اس سے پہلے میرا تجربہ تھا کہ کبھی کسی یورپی ملک حتیٰ کہ بھارت میں بھی کسی سکھ کو لاہور اور ننکانہ صاحب کا حوالہ دیا تو اس نے فوری طور پر رعایت کر دی۔

سانحہ بادامی باغ پنجاب کے دامن پر ایک اور سیاہ دھبا ہے ۔ دنیا ہمیں غیر مہذب کہہ رہی ہے۔ ہمارے معاشرے کی تصویر کشی یوں کی جا رہی ہے کہ یہاں اب اقلیتوں کے لیے زندگی گزارنا آسان نہیں رہا۔ سانحہ بادامی باغ کے بعد وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے عدالتی تحقیقات کا حکم دیا۔ متاثرین کے لیے امداد کا اعلان اور شرپسندوں کو قانون کی گرفت میں لانے کا اعلان بھی کیا۔ ریلیف کیمپ کا قیام اور سرکاری خرچ پر متاثرین کے مکان تعمیر کرنے کے فیصلے بھی قابل قدر ہیں لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ سانحے کے اگلے روز لاہور میں فیملی فن ریس کا انعقاد کیوں کیا گیا؟ کیا ان مسیحیوں کی حب الوطنی پر کوئی شبہ ہے۔ شہر کے ایک حصے میں اتنے گھر جل جائیں اور بیس چوبیس گھنٹے بعد کسی دوسرے حصے میں ہلا گلا ہو رہا ہو تو متاثرین کے دل پر کیا بیتے گی؟ میاں صاحب کو یہ سوچنا چاہیے تھا۔ گھر جلنے والے کا کوئی بھی مسلک ہو یا مذہب وہ سب سے پہلے انسان ہے اور پھر پاکستانی۔

ان متاثرین کے مکان بھی دوبارہ تعمیر ہو جائیں گے۔ کاروبار حیات بھی پھر سے چل پڑے گا لیکن ان کے دلوں پر جو گھائو آئے ہیں کیا وہ کبھی بھر سکیں گے۔ کیا ہمارا مذہب ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم کسی دوسرے بے گناہ انسان کو نقصان پہنچائیں۔ ہر گز نہیں۔ ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دینے والے مذہب کے پیروکار ایسی شرمناک حرکتیں کر رہے ہیں تو اس کی واحد وجہ ریاست کی کمزوری اور یہاں کے با اثر افراد کی مصلحت اندیشی ہے۔ حکمران اشرافیہ اپنے اقتدار کے لیے معاشرے کو تباہ کرنے والے شدت پسندوں کو سینے سے لگائے رکھے گی۔ کسی خوف کے باعث ان کے خلاف کارروائی نہیں کرے گی تو خدانخواستہ اس ریاست کو نہیں بچایا جا سکے گا۔ شدت پسندی کو جڑ سے نہ اکھاڑا گیا تو سانحہ گوجرہ سے اور بادامی باغ اور اس کے بعد اور کئی سانحات ہمارے منتظر ہوں گے۔ تو ہے کوئی جو اس ریاست کو بچانا چاہتا ہے؟ کوئی ہے تو آگے بڑھے۔
Load Next Story