پیپلز پارٹی ایک تنقیدی جائزہ
جولائی1977ء میں جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے بعد مخلص کارکنوں نے پارٹی کو زندہ رکھا
ISLAMABAD:
محترمہ بینظیر بھٹو کی دیرینہ ساتھی ناہید خان نے الیکشن کمیشن میں پیپلزپارٹی کی رجسٹریشن کی درخواست جمع کرادی ہے۔ان کا موقف ہے کہ وہ مرحوم ذوالفقارعلی بھٹو کی قائم کردہ جماعت کی اصل وارث ہیں،جسے آصف علی زرداری کے وکیل وسیم سجاد لاہور ہائی کورٹ میں ایک این جی او قرار دے چکے ہیں۔ان کا یہ بھی کہناتھا کہ 2002ء میں مخدوم امین فہیم کی صدارت میںجو جماعت رجسٹرہوئی وہ پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین تھی۔ مگر سوال یہ ہے کہ آیا یہ وہی پیپلز پارٹی ہے جونومبر1967ء میں ڈاکٹرمبشر حسن کے گھر قائم ہوئی تھی اور جس میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کی ایک بہت بڑی تعداد شامل تھی ۔
میںچونکہ NSF کے ایک فعال رکن اورسیاسیات کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے پیپلز پارٹی کے بننے کے عمل اور 1970ء کے انتخابات کا قریبی ناظر اورعینی شاہد رہا ہوں، اس لیے میرامطالعہ اورمشاہدہ دیگر دوستوں سے قدرے مختلف ہے۔ سکھر میں NSF کا قیام1968ء میں عمل میں آیا،جب مرحوم تسنیم الحسن فاروقی مرحوم، شہریار مرزا اور ممتاز مہکری سکھر تشریف لائے۔
مجھے نائب صدر کی ذمے داری سونپی گئی۔NSFکے سابق صدرمعراج محمد خان چونکہ پیپلز پارٹی کے بانی اراکین میں شامل تھے،اس لیے اس زمانے میں ڈاکٹر رشید حسن خان کی قیادت میں NSFپیپلز پارٹی کی حمایت کررہی تھی۔ 1970ء میںبی ایس سی کا امتحان دے کرNSF کے کنونشن میںشرکت کے لیے لاہور پہنچا۔ان دنوں لاہور میں پیپلز پارٹی کا سحر سرچڑھ کر بول رہا تھا۔ہر طرف ترنگے پرچموں کی بہار آئی ہوئی تھی۔NSFکا تین روزہ کنونشن نسبت روڈ پربختیار ہال والے پلاٹ پر ہوا۔ جس میں NSF کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے بھی شرکت کی اور بڑی دھواںدھار تقاریر ہوئیں۔
دراصل وسطی پنجاب میں ایک نئی اربن مڈل کلاس جنم لے رہی تھی، جسے اپنی ترجمانی کے لیے ایک ایسی نئی سیاسی جماعت کی ضرورت تھی،جوروایتی پاکستانیت کے تصور کے ساتھ لبرل سوچ اور متوسط طبقے کے مسائل کاادراک رکھتی ہو۔اس زمانے میںنیشنل عوامی پارٹی(NAP)محنت کش اور متوسط طبقے کی نمایندہ جماعت تصور کی جاتی تھی۔ مگراسے پنجاب کی مڈل کلاس میں پذیرائی حاصل نہیںتھی۔یوں پیپلز پارٹی کی شکل میںایک ایسی جماعت سامنے آئی،جو پنجاب کی ابھرتی مڈل کلاس کے جذبات اور احساسات کی ترجمان تھی۔
اس لیے پیپلز پارٹی پنجاب کے تمام شہروں کی مقبول ترین جماعت بن کرابھری۔ لیکن سندھ میں پیپلز پارٹی کو کوئی خاص پذیرائی نہیںملی تھی۔کیونکہ سندھ کے روایتی سیاسی خاندان بھٹو کے مخالف تھے۔کراچی میں ابتدا ً اسے خاصی مقبولیت حاصل ہوئی،مگرجلد ہی شہر کے کاروباری حلقے اس سے دور ہوگئے،جس کے کئی اسباب تھے،جو ایک علیحدہ مضمون کے متقاضی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے عروج وزوال کو سمجھنے اوراس کے سیاسی رویوں میں رونماء ہونے والی تبدیلیوں کامطالعہ کرنے کے لیے اس کی 46برس کی تاریخ کو پانچ ادوار میں تقسیم کرنا ضروری ہے۔ 1967ء میں اپنے قیام سے 1970ء کے عام انتخابات تک پیپلز پارٹی اربن متوسط طبقے کی لبرل رجحانات کی حامل جماعت کے طورپر ابھری۔ لیکن دسمبر1970ء میں انتخابات سے جولائی 1977ء تک پیپلز پارٹی کا دوسرا دورتھا۔جنرل ضیاء کے مارشل لاء سے 1988ء میںدوبارہ اقتدار میںآنے تک والا دور تیسرا تھا۔ 1988ء سے2008ء تک چوتھا اور 2008ء سے آج تک پانچواں ہے۔
پیپلز پارٹی نے1970ء کا الیکشن اسلام ہمارا دین، سوشلزم ہماری معیشت اور جمہوریت ہماری سیاست کے علاوہ روٹی،کپڑااور مکان کے نعرے پر انتخاب جیتاتھا۔مگر انتخابات جیتتے ہی اس نے ان نعروں کوفراموش کردیا۔جمہوریت کے استحکام کے لیے عوامی لیگ سے بامقصد مذاکرات کرنے کے بجائے پیپلز پارٹی نے اسٹبلشمنٹ کے مفادات کی نگہبانی شروع کردی۔سقوط ڈھاکا کے بعد اقتدار میں آتے ہی اس کے بانی اراکین کے ساتھ اختلافات شروع ہوگئے۔
جولائی1977ء میں جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے بعد مخلص کارکنوں نے پارٹی کو زندہ رکھا اورہر طرح کی صعوبتیں برداشت کیں۔جب کہ درمیانے درجے کی قیادت یا تو جنرل ضیاء سے مفاہمت کرکے کنارہ کش ہوگئی یا پھردوسری جماعتوں میں چلی گئی۔ مگر کارکن گیارہ برس تک ظلم وستم سہتے رہے۔اس دوران بحالیِ جمہوریت کے لیے MRD تشکیل پائی، جس میں بھٹو مرحوم کے خلاف تحریک چلانے والی جماعتیںتحریک استقلال، جمعیت علمائے اسلام اورNAPکی نئی شکلNDPبھی شامل ہوئیں۔1983ء کی کامیاب تحریک کے بعد پیپلز پارٹی نے اصولی طورپر دو فیصلے تسلیم کیے۔
اول، آیندہ انتخابات میں قربانیاں دینے والے کارکنوں کو ترجیحی بنیادوں پر ٹکٹ دیے جائیں گے۔ دوئم، MRDمیں شریک جماعتوں کی قیادت کے خلاف امیدوار کھڑے نہیں کیے جائیں گے۔ مگر 1988ء میںجب انتخابات کا اعلان کیاگیا،تو پیپلز پارٹی نے دونوں فیصلوں کو نظرانداز کردیا۔ مخلص کارکنوں کے بجائے سندھ میں بااثر فیوڈلزکواور پنجاب میں بااثر خاندانوں کے افراد کو ٹکٹ دیے گئے۔ جب کہ MRDکی لیڈر شپ کے خلاف امیدوارکھڑے کرکے اس تحریک کو شدید نقصان پہنچایا۔خاص طورپر لیاری سے میر غوث بخش بزنجومرحوم اور لانڈھی کورنگی سے معراج محمد خان کے خلاف امیدوار کھڑے کرنے سے اس کااعتبار مجروح ہوا۔
1988ء اور1993ء میں جب پارٹی اقتدار میں آئی، تو دونوں مرتبہ یہ ایک روایتی جماعت تھی،جس کا لبرل اور ترقی پسند سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔اس دوران گو کہ مخلص کارکن بری طرح نظراندازکیے گئے ۔مگر ان کارکنوں نے پارٹی کے بنیادی فلسفے سے اپنی وابستگی کے مدنظر اس کی خامیوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کی جڑیں عوام میں کمزورنہیں ہونے دیں۔بلکہ پارٹی پر بدعنوانیوں اور نااہلی کے الزامات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔حالانکہ پارٹی اپنی غلط پالیسیوں اور غیر مناسب حکمت عملیوں کے باعث پنجاب اور سندھ کے اربن مراکز میں اپنا وجودتیزی کے ساتھ کھورہی تھی ۔
پنجاب کے اربن مراکز میں مسلم لیگ(ن) جب کہ سندھ کے شہری علاقوں سے ایم کیوایم ابھر کر سامنے آئیں۔پختونخواہ میں بھی اس کی حیثیت بری طرح مجروح ہوئی۔ مگر ان خامیوں اور نقائص پر توجہ دینے اورسنجیدگی سے ان کا حل تلاش کرنے کے بجائے پارٹی نے اپنی سابقہ روش کو برقرار رکھا اور سندھ اور جنوبی پنجاب کے Electablesہی کو سیاسی طاقت پر بھروسہ کیا۔1996ء میں حکومت کے خاتمے سے 2008ء میں دوبارہ اقتدار میں آنے تک12سال کے طویل عرصے میں بھی پارٹی نے اپنی سابقہ روش اور غلطیوں کا جائزہ لینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک طرف ARDمیں شامل جماعتوں کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط ہورہے تھے، تو دوسری طرف جنرل پرویز مشرف کے ساتھNROطے پارہاتھا۔جب کہ اس سلسلے میںARDکے ساتھیوں کو اعتماد میں لینے کی زحمت بھی گوارانھیں کی گئی۔اس عرصے میں ایک بار پھر مخلص کارکنوں نے قیادت کی عدم موجود گی کے باوجودپارٹی کو فعال رکھنے میں کلیدی کرداراداکیا۔مگر محترمہ کی شہادت اورNROکے تحت اقتدار میں آنے والی پارٹی کی نئی قیادت نے ان رہے سہے مخلص کارکنوں کو بھی نظرانداز کردیا۔جس کی وجہ سے آج یہ موقع پرستوں کی جماعت بن کر رہ گئی ہے۔
اس وقت المناک صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں ایسی کوئی سیاسی جماعت موجود نہیں،جو حقیقی معنی میںلبرل تصورات کی حامل ہو۔ بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اپنی غلط پالیسیوںاورباہمی تقسیم کے سبب تقریباً ختم ہوچکی ہیں۔ NAPکے ختم ہونے کے بعدANP نے قومی کے بجائے پختون قوم پرست سیاست کی راہ اپنالی ہے۔ میر غوث بخش بزنجو مرحوم کی PNPکی جگہ ان کے وارثوں نے نیشنل پارٹی بنالی ہے،جو بلوچستان کے کچھ حصوں تک محدود ہے۔ مسلم لیگ(ن) اپنی سرشت میں Right to Centreپارٹی کہلاتی ہے،لیکن جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے ساتھ انتخابی معاہدوں کے بعدوہ مکمل دائیں بازو کی جماعت بن چکی ہے۔
عمران خان کی تحریک انصاف بھی دائیں بازو کی طرف جھکائو رکھتی ہے۔ایم کیو ایم کے سیاسی نظریات بھی غیر واضح اور مبہم ہیں ۔لے دے کر پیپلز پارٹی باقی بچی تھی، مگر جسے لبرل شہریوں کے علاوہ مذہبی اقلیتیں سایہ عافیت سمجھتی تھیں،جس نے سلمان تاثیراور شہبازبھٹی کے قتل پر خاموشی اختیار کرنے کے بعد لبرل جماعت سمجھنا حماقت ہے۔لہٰذا پاکستان میں اب ایسی کوئی سیاسی جماعت نہیں جواس ملک کے لبرل اور روشن خیال طبقے کی حقیقی معنی میں نمایندگی کرسکے۔پاکستانی سیاست کااس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے۔
محترمہ بینظیر بھٹو کی دیرینہ ساتھی ناہید خان نے الیکشن کمیشن میں پیپلزپارٹی کی رجسٹریشن کی درخواست جمع کرادی ہے۔ان کا موقف ہے کہ وہ مرحوم ذوالفقارعلی بھٹو کی قائم کردہ جماعت کی اصل وارث ہیں،جسے آصف علی زرداری کے وکیل وسیم سجاد لاہور ہائی کورٹ میں ایک این جی او قرار دے چکے ہیں۔ان کا یہ بھی کہناتھا کہ 2002ء میں مخدوم امین فہیم کی صدارت میںجو جماعت رجسٹرہوئی وہ پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین تھی۔ مگر سوال یہ ہے کہ آیا یہ وہی پیپلز پارٹی ہے جونومبر1967ء میں ڈاکٹرمبشر حسن کے گھر قائم ہوئی تھی اور جس میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کی ایک بہت بڑی تعداد شامل تھی ۔
میںچونکہ NSF کے ایک فعال رکن اورسیاسیات کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے پیپلز پارٹی کے بننے کے عمل اور 1970ء کے انتخابات کا قریبی ناظر اورعینی شاہد رہا ہوں، اس لیے میرامطالعہ اورمشاہدہ دیگر دوستوں سے قدرے مختلف ہے۔ سکھر میں NSF کا قیام1968ء میں عمل میں آیا،جب مرحوم تسنیم الحسن فاروقی مرحوم، شہریار مرزا اور ممتاز مہکری سکھر تشریف لائے۔
مجھے نائب صدر کی ذمے داری سونپی گئی۔NSFکے سابق صدرمعراج محمد خان چونکہ پیپلز پارٹی کے بانی اراکین میں شامل تھے،اس لیے اس زمانے میں ڈاکٹر رشید حسن خان کی قیادت میں NSFپیپلز پارٹی کی حمایت کررہی تھی۔ 1970ء میںبی ایس سی کا امتحان دے کرNSF کے کنونشن میںشرکت کے لیے لاہور پہنچا۔ان دنوں لاہور میں پیپلز پارٹی کا سحر سرچڑھ کر بول رہا تھا۔ہر طرف ترنگے پرچموں کی بہار آئی ہوئی تھی۔NSFکا تین روزہ کنونشن نسبت روڈ پربختیار ہال والے پلاٹ پر ہوا۔ جس میں NSF کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے بھی شرکت کی اور بڑی دھواںدھار تقاریر ہوئیں۔
دراصل وسطی پنجاب میں ایک نئی اربن مڈل کلاس جنم لے رہی تھی، جسے اپنی ترجمانی کے لیے ایک ایسی نئی سیاسی جماعت کی ضرورت تھی،جوروایتی پاکستانیت کے تصور کے ساتھ لبرل سوچ اور متوسط طبقے کے مسائل کاادراک رکھتی ہو۔اس زمانے میںنیشنل عوامی پارٹی(NAP)محنت کش اور متوسط طبقے کی نمایندہ جماعت تصور کی جاتی تھی۔ مگراسے پنجاب کی مڈل کلاس میں پذیرائی حاصل نہیںتھی۔یوں پیپلز پارٹی کی شکل میںایک ایسی جماعت سامنے آئی،جو پنجاب کی ابھرتی مڈل کلاس کے جذبات اور احساسات کی ترجمان تھی۔
اس لیے پیپلز پارٹی پنجاب کے تمام شہروں کی مقبول ترین جماعت بن کرابھری۔ لیکن سندھ میں پیپلز پارٹی کو کوئی خاص پذیرائی نہیںملی تھی۔کیونکہ سندھ کے روایتی سیاسی خاندان بھٹو کے مخالف تھے۔کراچی میں ابتدا ً اسے خاصی مقبولیت حاصل ہوئی،مگرجلد ہی شہر کے کاروباری حلقے اس سے دور ہوگئے،جس کے کئی اسباب تھے،جو ایک علیحدہ مضمون کے متقاضی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے عروج وزوال کو سمجھنے اوراس کے سیاسی رویوں میں رونماء ہونے والی تبدیلیوں کامطالعہ کرنے کے لیے اس کی 46برس کی تاریخ کو پانچ ادوار میں تقسیم کرنا ضروری ہے۔ 1967ء میں اپنے قیام سے 1970ء کے عام انتخابات تک پیپلز پارٹی اربن متوسط طبقے کی لبرل رجحانات کی حامل جماعت کے طورپر ابھری۔ لیکن دسمبر1970ء میں انتخابات سے جولائی 1977ء تک پیپلز پارٹی کا دوسرا دورتھا۔جنرل ضیاء کے مارشل لاء سے 1988ء میںدوبارہ اقتدار میںآنے تک والا دور تیسرا تھا۔ 1988ء سے2008ء تک چوتھا اور 2008ء سے آج تک پانچواں ہے۔
پیپلز پارٹی نے1970ء کا الیکشن اسلام ہمارا دین، سوشلزم ہماری معیشت اور جمہوریت ہماری سیاست کے علاوہ روٹی،کپڑااور مکان کے نعرے پر انتخاب جیتاتھا۔مگر انتخابات جیتتے ہی اس نے ان نعروں کوفراموش کردیا۔جمہوریت کے استحکام کے لیے عوامی لیگ سے بامقصد مذاکرات کرنے کے بجائے پیپلز پارٹی نے اسٹبلشمنٹ کے مفادات کی نگہبانی شروع کردی۔سقوط ڈھاکا کے بعد اقتدار میں آتے ہی اس کے بانی اراکین کے ساتھ اختلافات شروع ہوگئے۔
جولائی1977ء میں جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے بعد مخلص کارکنوں نے پارٹی کو زندہ رکھا اورہر طرح کی صعوبتیں برداشت کیں۔جب کہ درمیانے درجے کی قیادت یا تو جنرل ضیاء سے مفاہمت کرکے کنارہ کش ہوگئی یا پھردوسری جماعتوں میں چلی گئی۔ مگر کارکن گیارہ برس تک ظلم وستم سہتے رہے۔اس دوران بحالیِ جمہوریت کے لیے MRD تشکیل پائی، جس میں بھٹو مرحوم کے خلاف تحریک چلانے والی جماعتیںتحریک استقلال، جمعیت علمائے اسلام اورNAPکی نئی شکلNDPبھی شامل ہوئیں۔1983ء کی کامیاب تحریک کے بعد پیپلز پارٹی نے اصولی طورپر دو فیصلے تسلیم کیے۔
اول، آیندہ انتخابات میں قربانیاں دینے والے کارکنوں کو ترجیحی بنیادوں پر ٹکٹ دیے جائیں گے۔ دوئم، MRDمیں شریک جماعتوں کی قیادت کے خلاف امیدوار کھڑے نہیں کیے جائیں گے۔ مگر 1988ء میںجب انتخابات کا اعلان کیاگیا،تو پیپلز پارٹی نے دونوں فیصلوں کو نظرانداز کردیا۔ مخلص کارکنوں کے بجائے سندھ میں بااثر فیوڈلزکواور پنجاب میں بااثر خاندانوں کے افراد کو ٹکٹ دیے گئے۔ جب کہ MRDکی لیڈر شپ کے خلاف امیدوارکھڑے کرکے اس تحریک کو شدید نقصان پہنچایا۔خاص طورپر لیاری سے میر غوث بخش بزنجومرحوم اور لانڈھی کورنگی سے معراج محمد خان کے خلاف امیدوار کھڑے کرنے سے اس کااعتبار مجروح ہوا۔
1988ء اور1993ء میں جب پارٹی اقتدار میں آئی، تو دونوں مرتبہ یہ ایک روایتی جماعت تھی،جس کا لبرل اور ترقی پسند سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔اس دوران گو کہ مخلص کارکن بری طرح نظراندازکیے گئے ۔مگر ان کارکنوں نے پارٹی کے بنیادی فلسفے سے اپنی وابستگی کے مدنظر اس کی خامیوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کی جڑیں عوام میں کمزورنہیں ہونے دیں۔بلکہ پارٹی پر بدعنوانیوں اور نااہلی کے الزامات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔حالانکہ پارٹی اپنی غلط پالیسیوں اور غیر مناسب حکمت عملیوں کے باعث پنجاب اور سندھ کے اربن مراکز میں اپنا وجودتیزی کے ساتھ کھورہی تھی ۔
پنجاب کے اربن مراکز میں مسلم لیگ(ن) جب کہ سندھ کے شہری علاقوں سے ایم کیوایم ابھر کر سامنے آئیں۔پختونخواہ میں بھی اس کی حیثیت بری طرح مجروح ہوئی۔ مگر ان خامیوں اور نقائص پر توجہ دینے اورسنجیدگی سے ان کا حل تلاش کرنے کے بجائے پارٹی نے اپنی سابقہ روش کو برقرار رکھا اور سندھ اور جنوبی پنجاب کے Electablesہی کو سیاسی طاقت پر بھروسہ کیا۔1996ء میں حکومت کے خاتمے سے 2008ء میں دوبارہ اقتدار میں آنے تک12سال کے طویل عرصے میں بھی پارٹی نے اپنی سابقہ روش اور غلطیوں کا جائزہ لینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک طرف ARDمیں شامل جماعتوں کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط ہورہے تھے، تو دوسری طرف جنرل پرویز مشرف کے ساتھNROطے پارہاتھا۔جب کہ اس سلسلے میںARDکے ساتھیوں کو اعتماد میں لینے کی زحمت بھی گوارانھیں کی گئی۔اس عرصے میں ایک بار پھر مخلص کارکنوں نے قیادت کی عدم موجود گی کے باوجودپارٹی کو فعال رکھنے میں کلیدی کرداراداکیا۔مگر محترمہ کی شہادت اورNROکے تحت اقتدار میں آنے والی پارٹی کی نئی قیادت نے ان رہے سہے مخلص کارکنوں کو بھی نظرانداز کردیا۔جس کی وجہ سے آج یہ موقع پرستوں کی جماعت بن کر رہ گئی ہے۔
اس وقت المناک صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں ایسی کوئی سیاسی جماعت موجود نہیں،جو حقیقی معنی میںلبرل تصورات کی حامل ہو۔ بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اپنی غلط پالیسیوںاورباہمی تقسیم کے سبب تقریباً ختم ہوچکی ہیں۔ NAPکے ختم ہونے کے بعدANP نے قومی کے بجائے پختون قوم پرست سیاست کی راہ اپنالی ہے۔ میر غوث بخش بزنجو مرحوم کی PNPکی جگہ ان کے وارثوں نے نیشنل پارٹی بنالی ہے،جو بلوچستان کے کچھ حصوں تک محدود ہے۔ مسلم لیگ(ن) اپنی سرشت میں Right to Centreپارٹی کہلاتی ہے،لیکن جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے ساتھ انتخابی معاہدوں کے بعدوہ مکمل دائیں بازو کی جماعت بن چکی ہے۔
عمران خان کی تحریک انصاف بھی دائیں بازو کی طرف جھکائو رکھتی ہے۔ایم کیو ایم کے سیاسی نظریات بھی غیر واضح اور مبہم ہیں ۔لے دے کر پیپلز پارٹی باقی بچی تھی، مگر جسے لبرل شہریوں کے علاوہ مذہبی اقلیتیں سایہ عافیت سمجھتی تھیں،جس نے سلمان تاثیراور شہبازبھٹی کے قتل پر خاموشی اختیار کرنے کے بعد لبرل جماعت سمجھنا حماقت ہے۔لہٰذا پاکستان میں اب ایسی کوئی سیاسی جماعت نہیں جواس ملک کے لبرل اور روشن خیال طبقے کی حقیقی معنی میں نمایندگی کرسکے۔پاکستانی سیاست کااس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے۔