اب راج کرے گا محنت کش
پہلی بار نسل انسانی کی تاریخ میں انسانوں کی بھلائی کے لیے ایسا انقلاب برپا کیا۔
گزشتہ دنوں کمیونسٹ اور ورکرز پارٹیوں کی انٹرنیشنل میٹنگ، لینن گراڈ، روس میں منعقد ہوئی، جس میں دنیا بھر کے نمایندوں نے شرکت کی۔ پاکستان سے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل کامریڈ امداد قاضی نے نمایندگی کی۔ انھوں نے عالمی رہنماؤں سے خطاب کرتے ہوئے میزبان روسی کمیونسٹ پارٹی کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ روسی عوام اور بالشویک پارٹی نے 1917 میں روس میں عظیم اکتوبر سوشلسٹ انقلاب برپا کیا۔
پہلی بار نسل انسانی کی تاریخ میں انسانوں کی بھلائی کے لیے ایسا انقلاب برپا کیا۔ اس انقلاب کے بعد دنیا نے دیکھا کہ روس میں کس طرح وہاں کے لوگوں نے سماجی غلامی، ناانصافی، سیاسی اور معاشی نابرابری کو ختم کیا۔ بالشویک انقلاب نے دنیا بھر کی نوآبادیاتی غلامی سے نجات حاصل کرنے کا حوصلہ دیا اور وہ سیاسی طور پر آزاد ہوئے۔ دنیا بھر سے بادشاہتوں کا بھی خاتمہ ہوا۔ وہاں کے لوگوں نے پہلی بار آزادی حاصل کی۔ پہلی بار مزدور طبقہ اقتدار میں آیا، خواتین کو برابری کا درجہ ملا۔
انقلاب نے لوگوں کو روزگار دیا، افلاس سے نجات اور بے گھروں کو گھر دیا۔ سوشلسٹ نظام نے سرمایہ دارانہ نظام کو تباہ کرکے نیا سماجی ڈھانچہ تشکیل دیا۔ نجی ملکیت کو عوامی ملکیت میں تبدیل کیا اور سامراجی سرمایہ اور اثاثوں کو بحق سرکار ضبط کرلیا۔ سوشلسٹ انقلاب نے دوسرے ملکوں کی انقلابی تحریکوں کی مدد کی۔ اکتوبر انقلاب نے دنیا بھر کی نوآبادیوں کی حوصلہ افزائی کی اور انھیں آزادی کی تحریک چلانے میں نظریاتی بنیاد اور اساس فراہم کی اور ہر طرح کی مدد کی۔ ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے تقریباً 111 ممالک نے نوآبادیاتی غلامی سے نجات حاصل کی۔
یورپی ممالک نے سوشلسٹ انقلاب کے خطرے سے بچنے کے لیے وہاں عوام کو ویلفیئر دینی شروع کردی۔ سوویت یونین نے ان ملکوں کو تکنیکی اور توانائی کے شعبوں میں مدد کی جو سوشلسٹ نہیں تھے، جیسا کہ اسٹیل ملیں اور آئل ریفائنریز کا قیام۔ تیسری دنیا کے پسماندہ ملکوں کو سامراجی دھمکیوں کے خلاف سوویت یونین نے اہم کردار ادا کیا، بلکہ سوئس کینال اور بے آف پیگز پر حملے کی دھمکی کو جب چیلنج کیا تو امریکا اور برطانوی سامراج کو حملہ کرنے سے رکنا پڑا۔
سوویت یونین کا انہدام ایک بڑا سانحہ ہے مگر یہ انہدام نظام کا نہیں بلکہ پارٹی کی اپنی غلطیاں ہیں، جو انھوں نے رد انقلاب کے خطرات کو نہیں بھانپا اور پارٹی کے اندر نظریاتی بحث ومباحثہ ترک کردیا تھا۔ سوشلزم کے بعد جب ہم کمیونسٹ نظام میں داخل ہوں گے، اس وقت بھی نظریاتی بحث و مباحثے اور نت نئے طریقہ کار کا متلاشی رہنا پڑے گا۔
پارٹی میں پہلے سے سوشل ڈیمو کریٹک خیالات اور رد انقلابی موجود تھے، جو موقع محل کے منتظر تھے کہ سوویت یونین میں رد انقلاب لائیں۔ اب دنیا بھر کی کمیونسٹ اور ورکرز پارٹیاں اپنے اپنے معروضی حالات اور تقاضوں کے لحاظ سے حکمت عملی تشکیل دے رہی ہیں، جس میں آیندہ غلطیوں سے بچا جاسکے۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی عروج پر ہے یہاں جھوٹے الزامات کے تحت لوگوں کو تشدد کرکے قتل کردیا جاتا ہے۔ اقلیت کے وزیر کو دن دیہاڑے مار دیا جاتا ہے۔ خیبرپختونخوا، مردان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کو جھوٹے الزام کے تحت ایک ہجوم نے بہیمانہ قتل کردیا۔ یہاں اکثر لڑکیاں اغوا ہوتی ہیں۔ اقلیتی لڑکیوں کا مذہب تبدیل کروا کر ان سے شادی رچا لی جاتی ہے، یہاں جاگیردار، کسانوں سے بلامعاوضہ کام لیتے ہیں۔
یہاں مزدوروں کی کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے کرنے کا حکومت نے اعلان کیا ہے لیکن بیشتر مزدوروں کو آٹھ سے بارہ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ سے زیادہ نہیں ملتیں۔ یہاں بیشتر مزدور ٹھیکے داری نظام کے تحت کام کرتے ہیں۔ انھیں اولڈ ایج بینیفٹ نہیں ملتی، ان کی رجسٹریشن نہیں ہوتی، سوشل سیکیورٹی نہیں ہے اور اپائنٹمنٹ لیٹر تک نہیں دیا جاتا۔ حقیقی ٹریڈ یونین، پاکٹ یونین کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہے۔ ان اجلاسوں میں کامریڈ امداد قاضی یکم نومبر سے 9 نومبر تک روس میں مقیم رہے۔
اس پروگرام سے ایک ہفتہ قبل روس کے ہی ایک اور شہر سوچی میں 14 اکتوبر سے 22 اکتوبر 2017 میں ورلڈ فیسٹیول آف یوتھ اینڈ اسٹوڈنٹس کا عالمی اجتماع تھا، جس میں رنگ و نسل، مذہب، لسان اور فرقہ سے بالاتر طلبا اور نوجوانوں کا وفد پاکستان سے سوچی، روس گیا تھا۔ سیشن کے ایک موضوع پر ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی رہنما نغمہ اقتدار نے پاکستان کی نمایندگی کرتے ہوئے خطاب کیا۔ ایک اہم واقعہ یہ ہوا کہ میلے میں فلسطین کا پرچم نہیں تھا، جس پر فلسطینی کمیونسٹ یوتھ نے احتجاج کیا اور پھر پاکستانی وفد کے نوجوان اور طلبا بھی اس احتجاج میں شریک ہوگئے۔
مظاہرے کے دوران پولیس بھی آگئی تھی۔ اسی دوران انتظامیہ کے لوگ آگئے اور مذاکرات کے بعد وعدہ کیا کہ فلسطین کا پرچم لگایا جائے گا اور بعدازاں لہرایا گیا۔ نغمہ نے بتایا کہ ایک سو پچاس ملکوں کے ہزاروں نوجوانوں اور طلبا سے ملنے کا مو قع ملا۔ اس نے بتایا کہ ہم بجائے مغرب، یورپ اور امریکا جانے کے، کہ ہم سفری اخراجات اتنا برداشت بھی نہیں کرسکتے، زیادہ بہتر ہے کہ ہم روس انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال سے قربت کا رشتہ بنائیں۔
مشرف اگر دہلی جاسکتا ہے، نوازشریف مودی سے مل سکتا ہے تو ہم طلبا اور نوجوان آپس میں کیوں نہیں مل سکتے ہیں؟ پہلے ہم سمجھتے تھے کہ روس کے لوگ ہم سے نفرت کرتے ہیں مگر جب ان سے ملی تو پتہ چلا کہ وہ ہم سے بہت پیار کرتے ہیں، وہاں کی عورتیں بہت جفاکش اور محنتی ہیں، روس میں انقلاب کی ناکامی کے بعد بھی سوشلزم کے حاصلات نظر آئے، تعلیم اب بھی عام ہے۔ سوویت یونین کے دور میں بنائی گئی انڈر گراؤنڈ ریلوے آج بھی چل رہی ہے، جس میں روزانہ دس لاکھ افراد سفر کرتے ہیں۔
روسی طلبا کے اسٹال پر فیض احمد فیض کی تصویر لگی ہوئی دیکھی۔ اگر سب کمیونسٹ نہیں تو ترقی پسند ضرور ہیں۔ جگہ جگہ کاسترو ہال، لینن ہال کے نام سے آڈیٹوریم بنے ہوئے ہیں۔ سوویت یونین کے دور سے چلی آنے والی ثقافتی سرگرمیاں ڈرامہ، رقص، گانے اب بھی جاری ہیں۔ ہمارے وفد میں جانے والی لڑکیاں زیادہ خوش تھیں، اس لیے بھی کہ دنیا بھر میں گئے بغیر ایک سو پچاس ملکوں کے نوجوانوں بشمول کوہ قاف، چیچنیا اور وسطی ایشیائی ملکوں کے نوجوانوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کی ثقافت، اور روایات سے آگاہی ہوئی۔ نوجوانوں کی شرٹس پر لینن، کاسترو اور پوتن کی تصاویر نظر آئیں۔
اس میلے میں پانچ ہزار رضاکار، سب کے سب روس کے تھے، ان کے اخلاق اور خلوص سے ہم بہت متاثر ہوئے۔ اکتوبر انقلاب کے سو سال تو گزر گئے، انقلاب ناکام ہوا لیکن باقیات پر اب بھی وہاں کے لوگ رشک کرتے ہیں اور اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرکے بہتر سوشلسٹ انقلاب کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، جس میں اپنی منزل کمیونسٹ سماج تک پہنچ جائیں، جہاں کوئی بھوکا مرے اور نہ کوئی ارب پتی ہو، دنیا ایک ہوجائے، کوئی طبقہ رہے اور نہ کوئی ریاست۔