کتاب کلام غنی خان کا تذکرہ
مشتاق علی شان جنھوں نے پشتو زبان کے عظیم شاعر غنی خان کا پشتو کلام اردو کے قالب میں ڈھالا ہے
KARACHI:
میرے سامنے رکھی میز پر جو کتاب رکھی ہے اس کتاب کا نام ہے ''کلام غنی خان''۔ اس طرح اس کتاب کی اہمیت کو مدنظر رکھا جائے تو ہم آج کی نشست میں تین حوالوں سے گفتگو کرنے کی کوشش کریںگے۔ اپنی گفتگو کے آغاز میں ہم ذکر کریںگے معروف کالم نویس و سماجی رہنما مشتاق علی شان کا، جوکہ ہمارے لیے مثل برادر خورد ہیں۔
مشتاق علی شان جنھوں نے پشتو زبان کے عظیم شاعر غنی خان کا پشتو کلام اردو کے قالب میں ڈھالا ہے، نے 14 جنوری 1979 کو کراچی میں ایک پشتون گھرانے میں جنم لیا، ان کے والد محترم پچاس کی دہائی میں بسلسلہ روزگار کراچی تشریف لائے اور پھر سوات سے آبائی تعلق ہونے کے باوجود یہ کراچی کے ہوکر رہ گئے۔
مشتاق علی شان کا تمام تر تعلیمی سلسلہ کراچی ہی میں مکمل ہوا۔ پھر یہ غم روزگار کے سلسلے میں سعودی عرب تشریف لے گئے جہاں ان کا آٹھ برس قیام رہا، گویا 2001 سے 2009 تک پھر کراچی واپس آگئے اور اپنے ادبی ذوق کی تکمیل کے لیے ادبی کام میں مصروف ہوگئے۔ یہاں ان کے ترقی پسند نظریات نے ان کی خوب رہنمائی کی اور یہ ادبی خدمات انجام دینے میں لگے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
مشتاق علی شان کی مطبوعہ وغیر مطبوعہ کتابوں کی تعداد ایک درجن ہے، جن میں شعلہ جاوید شعری مجموعہ، گوریلا جنگ (یہ کتاب چی گویرا کی شہرہ آفاق کتاب کا ترجمہ ہے) نوجوانوں کی سمت (کرد پاٹکن محمد ابراہیم جویو و ایولین ریڈ کی تصنیفات کے تراجم)۔ مشتاق علی شان کی دیگر تصنیفات یہ ہیں بالشویک، نقطہ نظریہ عاصم اخوندکی۔ سندھی تحریروں کے تراجم ہیں۔
عجب کہ عصر حاضر میں ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں متحرک ہونے کے ساتھ اردو زبان میں یونین نیوز و سندھی زبان میں ہاری حق دار باقاعدگی سے ماہوار شائع کررہے ہیں۔ کلام غنی خان ان کی تازہ تصنیف ہے۔ کلام غنی خان کا ان کا منظوم ترجمہ ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مشتاق علی شان اردو و پشتو دونوں زبانوں پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔
اب تھوڑا تعارف غنی خان کا۔ ان کا تعلق خیبر پختونخوا کے نامور سیاسی گھرانے سے تھا، انھوں نے 1914 میں سرخ پوش رہنما خان عبدالغفار خان کے گھر میں جنم لیا۔ عبدالغفار خان المعروف باچا خان کی آزادی کی جدوجہد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، جب کہ 1958 میں لاہور میں قتل ہونے والے ان کے چچا ڈاکٹر خان وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا رہے، جب کہ جنگ آزادی میں بھی ڈاکٹر خان کی مسلح جدوجہد بھی ناقابل فراموش ہے، غنی خان کے چھوٹے بھائی خان عبدالولی خان بھی نامور سیاست دان تھے، جن کا سیاسی سفر تاحیات نیشنل عوامی پارٹی (NAP) و عوامی نیشنل پارٹی (ANP)کے پلیٹ سے جاری رہا۔
عصر حاضر میں ان کے بھتیجے اسفندیار ولی سیاسی میدان میں اپنے جوہر دکھارہے ہیں، جب کہ ان کی بھابھی بیگم نسیم ولی خان کی سیاسی جدوجہد کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ بہرکیف غنی خان کی ذات کے ساتھ یہ تمام شخصی حوالے نہ بھی ہوں تو ان کے سیاسی، سماجی و ادبی قد میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی۔ 1919 میں جب غنی خان فقط پانچ برس کے تھے ان کی والدہ محترمہ کا سایہ ان کے سر سے اٹھ گیا، ان کے والد اس وقت آزادی کی جدوجہد میں حصہ لینے کی پاداش میں ڈیرہ غازی خان کی جیل میں اسیر تھے۔
غنی خان نے طویل عرصے بعد اپنی ماں کا مرثیہ قلم بند کیا اور اس مرثیے میں ایک پانچ سالہ بچے کا کرب جس سے وہ گزرا تھا، کمال خوبصورتی سے پیش کیا۔ غنی خان نے ابتدائی تعلیم اپنے والد، ان کے دوستوں کے قائم کردہ آزادی اسکول سے حاصل کی، مزید تعلیم جامعہ ملیہ دہلی سے حاصل کی پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے 1929 میں لندن چلے گئے۔ وہاں خوبصورت و حسن پرست غنی خان کے ایک انگریز اداکارہ سے عشق کے چرچے ہونے لگے تو والد کی جانب سے انھیں حکم صادر ہوا کہ امریکا جاکر کیمسٹری کی تعلیم حاصل کرو، چنانچہ سعادت مند غنی خان امریکا روانہ ہوگئے۔
امریکا سے واپسی ہوئی تو گاندھی جی کی مشاورت سے رابندر ناتھ ٹیگور کی قائم کردہ درس گاہ شانتی نکیتن میں داخلہ لے لیا، جہاں سے غنی خان نے فلسفہ، موسیقی، مجسمہ سازی، مصوری و فنون لطیفہ کی تعلیم حاصل کی۔ شانتی نکیتن سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد غنی خان بمبئی تشریف لے گئے، جہاں قیام کے دوران وہ نواب رستم جنگ کی صاحب زادی کی زلفوں کے اسیر ہوگئے ۔ یہ معاملہ سات برس چلا اور بالآخر 1939 میں نواب زادی روشن سے شادی پر اختتام پذیر ہوا۔ وطن سے اپنی محب کا اظہار غنی خان ان الفاظ میں کرتے ہیں:
اے مرے وطن میرے لعل و گہر کے نشاں تیرے
ہر ذرے میں ہیں میری تیغ کے نشاں
تو ہو سرنگوں تو یہ شان شوکتیں عبث
تو ہو خوار و زار تو یہ مال دولتیں عبث
اپنے بچپن کے اشعار میں غنی خان فرماتے ہیں۔
باغ ہی نہیں تو پھر کیا کروں بہار کو
چشم یار جب نہیں کیا کروں خمار کو
عندلیب کے گلو سے گز نہیں نکل سکی
ہو ہزار نغمگی کیا کروں پکار کو
اپنی ماں سے محبت کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
چشم مریم میں اس گھڑی جانے
اشک تھے کہ مسکراہٹ تھی
جب اسے اک صلیب بالا پر
زلف عیسیٰ کے بل نظر آئے
تجھ کو رحمان کہوں رحیم کہوں
کیسے پیوند خاک کرتا ہے
اک حسین گل کے آتشیں رخسار
عشقیہ شاعری میں غنی خان یوں قلم کو جنبش دیتے ہیں:
یہی ہے رخ تاباں ترا
اور نین ہیں روشن ترے
یہ حسن تیرا ہے مثل
دلگیری مجھ کو کر گیا
نڈر غنی خان موت سے یوں مخاطب ہوتے ہیں کہ:
موت صد شوق سے چلی آئے
اس کے جب بس میں ہو چلی آئے
گل بدست ہی اسے ملوںگا میں
یا فرش پر سوار ہوںگا میں
غنی خان 15 مارچ 1996 کو دار فانی سے کوچ کرگئے، البتہ اپنے چاہنے والوں کے لیے کتابی شکل میں علم کے خزانے چھوڑ گئے، جنھیں امید ہے کہ مشتاق علی شان اردو کے قالب میں ڈھال کر ہمارے دلوں کو گرماتے رہیں گے۔
میرے سامنے رکھی میز پر جو کتاب رکھی ہے اس کتاب کا نام ہے ''کلام غنی خان''۔ اس طرح اس کتاب کی اہمیت کو مدنظر رکھا جائے تو ہم آج کی نشست میں تین حوالوں سے گفتگو کرنے کی کوشش کریںگے۔ اپنی گفتگو کے آغاز میں ہم ذکر کریںگے معروف کالم نویس و سماجی رہنما مشتاق علی شان کا، جوکہ ہمارے لیے مثل برادر خورد ہیں۔
مشتاق علی شان جنھوں نے پشتو زبان کے عظیم شاعر غنی خان کا پشتو کلام اردو کے قالب میں ڈھالا ہے، نے 14 جنوری 1979 کو کراچی میں ایک پشتون گھرانے میں جنم لیا، ان کے والد محترم پچاس کی دہائی میں بسلسلہ روزگار کراچی تشریف لائے اور پھر سوات سے آبائی تعلق ہونے کے باوجود یہ کراچی کے ہوکر رہ گئے۔
مشتاق علی شان کا تمام تر تعلیمی سلسلہ کراچی ہی میں مکمل ہوا۔ پھر یہ غم روزگار کے سلسلے میں سعودی عرب تشریف لے گئے جہاں ان کا آٹھ برس قیام رہا، گویا 2001 سے 2009 تک پھر کراچی واپس آگئے اور اپنے ادبی ذوق کی تکمیل کے لیے ادبی کام میں مصروف ہوگئے۔ یہاں ان کے ترقی پسند نظریات نے ان کی خوب رہنمائی کی اور یہ ادبی خدمات انجام دینے میں لگے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
مشتاق علی شان کی مطبوعہ وغیر مطبوعہ کتابوں کی تعداد ایک درجن ہے، جن میں شعلہ جاوید شعری مجموعہ، گوریلا جنگ (یہ کتاب چی گویرا کی شہرہ آفاق کتاب کا ترجمہ ہے) نوجوانوں کی سمت (کرد پاٹکن محمد ابراہیم جویو و ایولین ریڈ کی تصنیفات کے تراجم)۔ مشتاق علی شان کی دیگر تصنیفات یہ ہیں بالشویک، نقطہ نظریہ عاصم اخوندکی۔ سندھی تحریروں کے تراجم ہیں۔
عجب کہ عصر حاضر میں ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں متحرک ہونے کے ساتھ اردو زبان میں یونین نیوز و سندھی زبان میں ہاری حق دار باقاعدگی سے ماہوار شائع کررہے ہیں۔ کلام غنی خان ان کی تازہ تصنیف ہے۔ کلام غنی خان کا ان کا منظوم ترجمہ ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مشتاق علی شان اردو و پشتو دونوں زبانوں پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔
اب تھوڑا تعارف غنی خان کا۔ ان کا تعلق خیبر پختونخوا کے نامور سیاسی گھرانے سے تھا، انھوں نے 1914 میں سرخ پوش رہنما خان عبدالغفار خان کے گھر میں جنم لیا۔ عبدالغفار خان المعروف باچا خان کی آزادی کی جدوجہد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، جب کہ 1958 میں لاہور میں قتل ہونے والے ان کے چچا ڈاکٹر خان وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا رہے، جب کہ جنگ آزادی میں بھی ڈاکٹر خان کی مسلح جدوجہد بھی ناقابل فراموش ہے، غنی خان کے چھوٹے بھائی خان عبدالولی خان بھی نامور سیاست دان تھے، جن کا سیاسی سفر تاحیات نیشنل عوامی پارٹی (NAP) و عوامی نیشنل پارٹی (ANP)کے پلیٹ سے جاری رہا۔
عصر حاضر میں ان کے بھتیجے اسفندیار ولی سیاسی میدان میں اپنے جوہر دکھارہے ہیں، جب کہ ان کی بھابھی بیگم نسیم ولی خان کی سیاسی جدوجہد کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ بہرکیف غنی خان کی ذات کے ساتھ یہ تمام شخصی حوالے نہ بھی ہوں تو ان کے سیاسی، سماجی و ادبی قد میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی۔ 1919 میں جب غنی خان فقط پانچ برس کے تھے ان کی والدہ محترمہ کا سایہ ان کے سر سے اٹھ گیا، ان کے والد اس وقت آزادی کی جدوجہد میں حصہ لینے کی پاداش میں ڈیرہ غازی خان کی جیل میں اسیر تھے۔
غنی خان نے طویل عرصے بعد اپنی ماں کا مرثیہ قلم بند کیا اور اس مرثیے میں ایک پانچ سالہ بچے کا کرب جس سے وہ گزرا تھا، کمال خوبصورتی سے پیش کیا۔ غنی خان نے ابتدائی تعلیم اپنے والد، ان کے دوستوں کے قائم کردہ آزادی اسکول سے حاصل کی، مزید تعلیم جامعہ ملیہ دہلی سے حاصل کی پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے 1929 میں لندن چلے گئے۔ وہاں خوبصورت و حسن پرست غنی خان کے ایک انگریز اداکارہ سے عشق کے چرچے ہونے لگے تو والد کی جانب سے انھیں حکم صادر ہوا کہ امریکا جاکر کیمسٹری کی تعلیم حاصل کرو، چنانچہ سعادت مند غنی خان امریکا روانہ ہوگئے۔
امریکا سے واپسی ہوئی تو گاندھی جی کی مشاورت سے رابندر ناتھ ٹیگور کی قائم کردہ درس گاہ شانتی نکیتن میں داخلہ لے لیا، جہاں سے غنی خان نے فلسفہ، موسیقی، مجسمہ سازی، مصوری و فنون لطیفہ کی تعلیم حاصل کی۔ شانتی نکیتن سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد غنی خان بمبئی تشریف لے گئے، جہاں قیام کے دوران وہ نواب رستم جنگ کی صاحب زادی کی زلفوں کے اسیر ہوگئے ۔ یہ معاملہ سات برس چلا اور بالآخر 1939 میں نواب زادی روشن سے شادی پر اختتام پذیر ہوا۔ وطن سے اپنی محب کا اظہار غنی خان ان الفاظ میں کرتے ہیں:
اے مرے وطن میرے لعل و گہر کے نشاں تیرے
ہر ذرے میں ہیں میری تیغ کے نشاں
تو ہو سرنگوں تو یہ شان شوکتیں عبث
تو ہو خوار و زار تو یہ مال دولتیں عبث
اپنے بچپن کے اشعار میں غنی خان فرماتے ہیں۔
باغ ہی نہیں تو پھر کیا کروں بہار کو
چشم یار جب نہیں کیا کروں خمار کو
عندلیب کے گلو سے گز نہیں نکل سکی
ہو ہزار نغمگی کیا کروں پکار کو
اپنی ماں سے محبت کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
چشم مریم میں اس گھڑی جانے
اشک تھے کہ مسکراہٹ تھی
جب اسے اک صلیب بالا پر
زلف عیسیٰ کے بل نظر آئے
تجھ کو رحمان کہوں رحیم کہوں
کیسے پیوند خاک کرتا ہے
اک حسین گل کے آتشیں رخسار
عشقیہ شاعری میں غنی خان یوں قلم کو جنبش دیتے ہیں:
یہی ہے رخ تاباں ترا
اور نین ہیں روشن ترے
یہ حسن تیرا ہے مثل
دلگیری مجھ کو کر گیا
نڈر غنی خان موت سے یوں مخاطب ہوتے ہیں کہ:
موت صد شوق سے چلی آئے
اس کے جب بس میں ہو چلی آئے
گل بدست ہی اسے ملوںگا میں
یا فرش پر سوار ہوںگا میں
غنی خان 15 مارچ 1996 کو دار فانی سے کوچ کرگئے، البتہ اپنے چاہنے والوں کے لیے کتابی شکل میں علم کے خزانے چھوڑ گئے، جنھیں امید ہے کہ مشتاق علی شان اردو کے قالب میں ڈھال کر ہمارے دلوں کو گرماتے رہیں گے۔