آج کا ایک اہم سوال

کیا دولت کی یہ غیر منصفانہ تقسیم غریب طبقات کے لیے قابل قبول ہوسکتی ہے؟


Zaheer Akhter Bedari November 28, 2017
[email protected]

پچھلے ہفتے جاری ہونے والی گلوبل ویلتھ رپورٹ کے مطابق دنیا کی 0.7 فیصد آبادی کے پاس دنیا کی پوری دولت کا 46 فیصد حصہ ہے، جو 280 کھرب ڈالر بنتا ہے جب کہ دنیا کی 70 فیصد آبادی کے پاس دنیا کی مجموعی دولت کا صرف 2.7 فیصد حصہ ہے۔ غریب ملکوں کے عوام کے پاس 10 ہزار ڈالر سے بھی کم رقم ہوتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ دس برسوں میں دنیا کی دولت میں 27فیصد اضافہ ہوا ہے، دنیا میں دولت پر قبضے کے حوالے سے ہر سال کے مختلف سروے رپورٹس شایع ہوتی رہتی ہیں، تازہ رپورٹ کے مطابق 0.7 فیصد آبادی کے پاس دنیا کی مجموعی دولت کا 46 فیصد حصہ ہے، جب کہ دنیا کی 70 فیصد آبادی کے پاس دنیا کی مجموعی دولت کا صرف 2.7 فی صد حصہ ہے۔

ان اعداد و شمار سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ غربت اور امارت کے درمیان کس قدر بھاری فرق موجود ہے، اس فرق کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں آباد 7 ارب انسانوں کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی نانِ جویں سے محروم ہے اور صدیوں سے فاقہ مست زندگی گزار رہی ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کی عمارت ہی دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم پر کھڑی ہوئی ہے، کیا دولت کی یہ غیر منصفانہ تقسیم غریب طبقات کے لیے قابل قبول ہوسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب منطقی طور پر نفی ہی میں آتا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ غریب طبقات کے ساتھ اس نا انصافی کا سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ عوام اس ناانصافی کے خلاف مزاحمت کیوں نہیں کرتے؟

یہ ایک اصولی سوال ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، جن میں ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت اس فرق اور ناانصافی کو قسمت کا لکھا سمجھتی ہے، اس لیے وہ اس بدترین نا انصافی کے خلاف احتجاج کا راستہ اختیار نہیں کرتی اور خاموشی سے اس ناانصافی کو برداشت کرتی ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں کو اس خطرے کا بخوبی احساس تھا کہ جلد یا بدیر دنیا کے عوام اس معاشی ناانصافی کے خلاف سڑکوں پر آجائیںگے، اس ممکنہ خطرے سے بچنے کے لیے ان طبقات نے بے شمار احتیاطی تدابیر اختیار کیں، ان میں سے ایک سب سے اہم تدبیر جمہوریت ہے۔ جمہوریت کے فوائد بتانے والوں کی نظروں میں یہ تلخ حقیقت نہیں آتی کہ جمہوریت کو بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔

جب جمہوریت کو عوام کی حکومت کے طور پر باور کرایا جاتا ہے تو عوام کے جذبات دولت کی ناانصافی کے خلاف سرد پڑجاتے ہیں، کیونکہ عوام کے یہ نام نہاد نمایندے یعنی سیاست دان عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ عوام کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو ختم کردیںگے، جن میں غربت سب سے بڑی نا انصافی ہے۔

اس صورتحال یا جمہوریت کی کارکردگی کا جائزہ پاکستان کی 70 سالہ جمہوری زندگی سے کیا جاسکتا ہے، اگرچہ 70 سال میں نصف کے قریب حصہ فوجی آمریتوں میں گزر گیا لیکن قومی زندگی کے نصف سے زیادہ حصے میں جمہوریت نافذ رہی اور سیاست دان برسر اقتدار رہے اور اس حوالے سے دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ آمریت کے خلاف پروپیگنڈا کا طوفان اٹھانے والے پاکستان کی ہر فوجی حکومت میں شامل رہے، یعنی 70 سال سے اہل سیاست براہ راست یا بالواسطہ حکومتوں کا حصہ رہے، پھر وہ ملک سے اس معاشی ناانصافی کو کیوں ختم نہ کرسکے، جس کی وجہ سے ملک کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی بھوک، غربت، افلاس، بیماری اور بے روزگاری جیسی اذیت ناک بیماریوں میں مبتلا ہے۔

میڈیا میں آنے والے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال بھوک اور علاج سے محرومی کے سبب لاکھوں انسان موت کا شکار ہوجاتے ہیں، لاکھوں بچے ناقص غذا اور غذا کی قلت کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، لاکھوں خواتین زچگی کی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے موت سے ہمکنار ہوجاتی ہیں۔

دنیا میں جرائم کی جو بھرمار ہے اس کی بنیادی وجہ بھی معاشی نا انصافی ہی ہے۔ دنیا بھر میں معاشی ناانصافی یا غربت کی وجہ یہ ہے کہ عوام کی محنت کی کمائی کا لگ بھگ 80 فیصد حصہ دو فیصد اشرافیہ کے ہاتھوں میں مرتکز ہوجاتا ہے اور یہ سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالوں نے انسان کے بنیادی حقوق کے نام پر نجی ملکیت کے لامحدودیت کو قانونی اور آئینی تحفظ فراہم کرکے براہ راست معاشی نا انصافی کو جائز بنادیا ہے۔

دور کیوں جائیں، آج خود پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر نظر ڈالیں تو نہ صرف سرمایہ دارانہ جمہوریت کا بھیانک چہرہ ہمارے سامنے آجاتا ہے، بلکہ اس کے وہ سارے ہتھکنڈے آشکار ہوجاتے ہیں جنھیں جمہوریت کے پردے میں چھپایا جاتا ہے۔ کرپشن، سرمایہ دارانہ نظام کے جسم میں خون کی طرح دوڑتی ہے اور اشرافیائی جمہوریت لوٹ مار کا ایسا مورچہ بنی ہوئی ہے جس میں بیٹھ کر اشرافیہ 80 فیصد سے زیادہ آبادی کا شکار کرتی ہے۔

ہمارا میڈیا حکمران طبقے کی اربوں کی کرپشن کی داستانوں سے بھرا ہوا ہے، پاناما لیکس کے بعد اب پیراڈائز لیکس کا گھناؤنا منظرنامہ ہمارے سامنے ہے، ان دو لیکس کے ذریعے دنیا بھر کے ان کرپٹ اور بددیانت لوگوں کی اربوں کی کرپشن کا پردہ چاک کردیاگیا ہے جو سیاست اور اقتدار کے مورچوں میں بیٹھ کر قوم کی دولت کا شکار کرتے آرہے ہیں۔

پاناما لیکس میں حکمران اشرافیہ کے ساتھ ساتھ چار سو سے زیادہ ان لوگوں کے نام شامل ہیں جو اربوں کی کرپشن کا ارتکاب کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح پیراڈائز لیکس میں بھی دنیا کے معتبر ترین لوگوں کے ساتھ، جن میں ملکہ برطانیہ جیسی معروف ہستی شامل ہے، پاکستان کے کئی شرفا کے نام شامل ہیں، جو بیدردی سے عوام کی دولت لوٹتے رہے ہیں۔

غربت، افلاس، بھوک، بیماری، بے روزگاری، سرمایہ دارانہ نظام کے لوازمات ہیں جنھیں جمہوریت کے پردے میں بڑی عیاری سے چھپایا جاتا ہے۔ پاکستان کے 20 کروڑ سے زیادہ عوام 70 سال سے غربت کے عذاب میں پس رہے ہیں، یہ غربت سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی محافظ جمہوریت کی دی ہوئی برائیاں ہیں اور اس سے چھٹکارا پانا عوام کا حق ہے، جب تک 80 فیصد دولت کو دو فیصد کرپٹ لوگوں کے قبضے سے آزاد نہیں کیا جاتا غربت، بھوک، بیماری، بے روزگاری سے نجات نہیں مل سکتی۔ کیا اس 80 فیصد دولت کو پرامن طریقے سے ایلیٹ کے قبضے سے چھڑایا جاسکتا ہے؟ یہ آج کا اہم سوال ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں