مسلمانوں کی شادی
اسلام میں تو ایسے نکاح کو خیر و برکت والا نکاح کہا گیا ہے جس نکاح میں اخراجات کم سے کم ہوں گے۔
شادیوں کا سیزن جاری ہے، سیزن اس لیے کہا جاتا ہے کہ ہم نے ازخود کچھ مخصوص مہینے اس اہم ترین کام اور زندگی کی آزمائش کے لیے طے کررکھے ہیں جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہمارے ملک کا موسم اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ سال کے بارہ مہینے یہ فرض سر انجام دیا جاتا رہے، اس لیے ٹھنڈے میٹھے موسم میں عموماً اس فرض سے عہدہ برآ ہوا جاتا ہے خاص طور پر سردیوں کا ٹھنڈا موسم شادیوں کے لیے بہترین تصور کیا جاتا ہے، اس لیے اس موسم میں سب سے زیادہ شادیاں انجام پاتی ہیں، نئے جوڑے اپنی نئی زندگی کا سفر نیک خواہشات کے ساتھ شروع کرتے ہیں اور اپنے من کی مرادیں بر آنے پر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں.
نئی زندگی کا آغاز رشتہ ازدواج کے بندھن میں بندھ جانے والے جوڑوں کے لیے تو زندگی کی نئی مسرتوں کا باعث ہوتا ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو ہمارا معاشرہ اجتماعی طور پر نسبتاً کم آمدن والے افراد پر مشتمل ہے جن کااس ہوشرباء مہنگائی کے دور میں گزر بسر ہی ناممکن ہوتا جا رہا ہے کجا یہ کہ وہ اپنے بچوں کی شادیوں پر اصراف کریں ۔ دل تو یہ کرتا ہے کہ بیٹیوں کے ہاتھ کاٹ لیں اور پھر ساری عمر بیٹھ کر ان ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے روتے رہیں، وجہ اس کی صرف ایک ہی ہے کہ ہم نے خود سے ہی اپنے لیے مشکلات اتنی بڑھا لی ہیں کہ یہ مشکلات اب ہماری جان کو آگئی ہیں۔
جہیز کی لعنت ہمارے غربت زدہ معاشرے میں سرایت کر چکی ہے، فرسودہ رسم و رواج کو اپنا کر ہم اپنی اسلامی اقدار کو ہی بھلا بیٹھے ہیں، اپنے آپ کو ان رسم و رواج کے شکنجے میں پھنسا لیا ہے، ان سے نکلنے کے راستے مسدود ہیں کیونکہ ہمارا خودغرض معاشرہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم ان غیر اسلامی رسموں کو چھوڑ کر سادگی سے اپنی بیٹیوں کو رخصت کریں۔
ہمارے اخبار کی خاتون رپورٹر محترمہ پروین خان نے اپنی تفصیلی خبر میں ایک سروے رپورٹ شایع کی ہے اوراس میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ اخراجات میں اضافے اور جہیز کی ضروری اشیاء پوری کرنے میں ہی والدین کی کمر ٹوٹ جاتی ہے اور رہی سہی کسر شادی کے مہنگے کھانے پوری کر دیتے ہیں، ان مہنگے کھانوں کے لیے کئی کئی مہینے پہلے سے شادی ہالوں کی بکنگ کرانی پڑتی ہے ورنہ سردیوں کے موسم میں گھر کے قریب کسی پارک میں ہی شادی کی تقریب منعقد کرنا پڑتی ہے کیونکہ شہر میں شادی ہالوں کی تعداد تقریبات سے مطابقت نہیں رکھتی اور اب تو شادی کی تاریخ شادی ہال کی جانب سے بکنگ کی تاریخ سے مشروط ہو چکی ہے کہ جب شادی ہال والوں کی طرف سے بکنگ کنفرم ہونے کی اطلاع آتی ہے تو اس کے مطابق ہی والدین شادی کی تقریبات کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
اب وہ دن گئے جب گلی محلے میں انتہائی سادگی سے ٹینٹ لگا کر برات کا استقبال کیا جاتا تھا، اس نیک کام میں پورا محلہ ہی کام کے لیے شریک ہوتا تھا اور ایسے لگتا تھا کہ کسی ایک گھر سے بچی کی رخصتی نہیں ہو رہی بلکہ پورے محلے کی ذمے داری ہے کہ آنے والی برات کے باراتیوں کی بھر پور خدمت کی جائے تا کہ وہ اپنے استقبال کو یاد رکھیں اور یہ خدمت باراتیوں کو اور دلہے کو گھر والوں کو یاد رہتی ہے جو دلہن کی نئی زندگی کے خوشگوار آغاز کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔
گزرے وقتوں کی یہ اچھی باتیں اب صرف یادوں میں ہی زندہ رہ گئی ہیں اور جب نئی نسل کو یہ باتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ اس سادگی پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں اور ان کو یہ باتیں ہضم نہیں ہوپاتیں کیونکہ انھوں نے جس ماحول اور زمانے میں آنکھ کھولی ہے یہ زمانہ مفادات کا زمانہ ہے جس میں یہ تک دیکھا جاتا ہے کہ جس گھر میں رشتہ طے کیا جارہا ہے وہ کتنے صاحب حیثیت ہیں اور اپنی بیٹی کو جہیز میں کیا کچھ دیں گے بلکہ بعض اوقات تو لڑکی والوںکی حیثیت دیکھتے ہوئے جہیز کی صورت میں مطالبات کی ایک لسٹ بھی پکڑا دی جاتی ہے جس کو بیٹی کے والدین چاروناچار پورا کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، چاہے اس کے لیے ان کو قرض لینا پڑے یا اپنی کوئی قیمتی چیز ہی فروخت کرنی پڑے۔
بغیر محنت کے دولت کے حصول کے متلاشی بچیوں کی دینداری ، کسبی شرافت اور قرابت کوکچھ بھی اہمیت نہیں دیتے اس لیے ایسے رشتوںمیں خیر و برکت کا فقدان ہوتا ہے بات یہیں پر نہیں رکتی بلکہ صاحب حیثیت لوگ تو شادیوں پر اصراف کے وہ نمونے بھی پیش کرتے ہیں جن کودیکھ کر متوسط طبقے کے لوگ احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
صاحب حیثیت لوگوں کی دیکھا دیکھی ان کی نقل کرنے کی کوشش میں اپنے آپ کو ایک نہ ختم ہونے والی اذیت میں ڈال دیتے ہیں کیونکہ ان کے وسائل کم ہوتے ہیں لیکن شادی کی فرسودہ رسموں اور جہیز میں غیر ضروری اشیاء کی وجہ سے اپنے اوپر اتنا بوجھ ڈال لیتے ہیں جو ان کی عمر بھر کے لیے اذیت کا سبب بن جاتا ہے ،وہ یہ قرض اتارتے اتارتے دنیا سے ہی رخصت ہو جاتے ہیں ۔ اسلام میں والدین پر جہیز کو واجب قرار نہیں دیا گیا لیکن اگر وہ اپنی حیثیت کے مطابق کچھ دے بھی دیں تو اس سے منع بھی نہیں کیا گیا۔
ہمارے نبی ؑ نے اپنی پیاری بیٹی اور خاتون جنت حضرت فاطمہ ؓ کے نکاح کے وقت جو چیزیں ان کو بطور جہیز دی تھیں، ان کا ذکر ہمارے لیے بابرکت بھی ہے اور ہمارے لیے مشعل راہ بھی ہے، ان اشیاء میں ایک پیوند لگی چادر، ایک تکیہ اور ایک لحاف جس میں نہ اون تھی اورنہ ہی ریشم بلکہ اس میں خرمے کی چھال بھری ہوئی تھی، ایک چکی آٹا پیسنے کی، ایک مشکیزہ،لکڑی کا ایک پیالہ، نقری کنگن کی ایک جوڑی اور گلے میں ہاتھی دانت کا ایک ہار اور ایک جوتے کا جوڑاشامل تھا۔ یہ وہ کل سامان تھا جو دنیا کے اعلیٰ ترین اور رحمت العالمین کی پیاری بیٹی کو اپنے والد کی جانب سے تحفے میں ملا تھا۔
آج کے مفادات اور ظلم کے اس دور میں متوسط طبقے کی کئی بیٹیاں ہاتھ پیلے کرنے کے انتظار میں بیٹھی رہ جاتی ہیں۔ ہماری کئی بیٹیاں ہاتھوں پر مہندی لگانے کے انتظار میں اس عمر کو پہنچ جاتی ہیں جب ان کے بالوں کو مہندی کی ضروت پڑ جاتی ہے کیونکہ ہم اپنے آپ کو غیر ضروری رسم و رواج سے نکالنے کو تیارنہیں اور ان رسموں کو پوری کرنے کی استعاعت بھی نہیں رکھتے حالانکہ اسلام میں ان فضول رسم و رواج کی کوئی مثال نہیں ملتی بلکہ اسلام میں تو ایسے نکاح کو خیر و برکت والا نکاح کہا گیا ہے جس نکاح میں اخراجات کم سے کم ہوں گے۔
ہمارے ہاں ایک رواج یہ چل نکلا ہے کہ بڑے لوگ اپنے بچوں کا نکاح مسجد میں کرتے ہیں لیکن شادی کی دوسری تقریبات پر اتنا زیادہ خرچ کر دیاجاتا ہے کہ اس سے کئی غریب بچیوں کے ہاتھوں کو پیلا کیا جا سکتا ہے، یہ تضادات ہماری زندگی میں جا بجا بکھرے پڑے ہیں اور ہمارے ارد گرد کے بے شمار لوگ ان تضادات کا شکار ہیں، ان تضادات سے جان چھڑا کر اپنی نئی نسل کو اچھا اور خوبصورت مستقبل دینا ہماری دنیاوی ذمے داری بھی ہے اور دینی فریضہ بھی۔
نئی زندگی کا آغاز رشتہ ازدواج کے بندھن میں بندھ جانے والے جوڑوں کے لیے تو زندگی کی نئی مسرتوں کا باعث ہوتا ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو ہمارا معاشرہ اجتماعی طور پر نسبتاً کم آمدن والے افراد پر مشتمل ہے جن کااس ہوشرباء مہنگائی کے دور میں گزر بسر ہی ناممکن ہوتا جا رہا ہے کجا یہ کہ وہ اپنے بچوں کی شادیوں پر اصراف کریں ۔ دل تو یہ کرتا ہے کہ بیٹیوں کے ہاتھ کاٹ لیں اور پھر ساری عمر بیٹھ کر ان ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے روتے رہیں، وجہ اس کی صرف ایک ہی ہے کہ ہم نے خود سے ہی اپنے لیے مشکلات اتنی بڑھا لی ہیں کہ یہ مشکلات اب ہماری جان کو آگئی ہیں۔
جہیز کی لعنت ہمارے غربت زدہ معاشرے میں سرایت کر چکی ہے، فرسودہ رسم و رواج کو اپنا کر ہم اپنی اسلامی اقدار کو ہی بھلا بیٹھے ہیں، اپنے آپ کو ان رسم و رواج کے شکنجے میں پھنسا لیا ہے، ان سے نکلنے کے راستے مسدود ہیں کیونکہ ہمارا خودغرض معاشرہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم ان غیر اسلامی رسموں کو چھوڑ کر سادگی سے اپنی بیٹیوں کو رخصت کریں۔
ہمارے اخبار کی خاتون رپورٹر محترمہ پروین خان نے اپنی تفصیلی خبر میں ایک سروے رپورٹ شایع کی ہے اوراس میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ اخراجات میں اضافے اور جہیز کی ضروری اشیاء پوری کرنے میں ہی والدین کی کمر ٹوٹ جاتی ہے اور رہی سہی کسر شادی کے مہنگے کھانے پوری کر دیتے ہیں، ان مہنگے کھانوں کے لیے کئی کئی مہینے پہلے سے شادی ہالوں کی بکنگ کرانی پڑتی ہے ورنہ سردیوں کے موسم میں گھر کے قریب کسی پارک میں ہی شادی کی تقریب منعقد کرنا پڑتی ہے کیونکہ شہر میں شادی ہالوں کی تعداد تقریبات سے مطابقت نہیں رکھتی اور اب تو شادی کی تاریخ شادی ہال کی جانب سے بکنگ کی تاریخ سے مشروط ہو چکی ہے کہ جب شادی ہال والوں کی طرف سے بکنگ کنفرم ہونے کی اطلاع آتی ہے تو اس کے مطابق ہی والدین شادی کی تقریبات کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
اب وہ دن گئے جب گلی محلے میں انتہائی سادگی سے ٹینٹ لگا کر برات کا استقبال کیا جاتا تھا، اس نیک کام میں پورا محلہ ہی کام کے لیے شریک ہوتا تھا اور ایسے لگتا تھا کہ کسی ایک گھر سے بچی کی رخصتی نہیں ہو رہی بلکہ پورے محلے کی ذمے داری ہے کہ آنے والی برات کے باراتیوں کی بھر پور خدمت کی جائے تا کہ وہ اپنے استقبال کو یاد رکھیں اور یہ خدمت باراتیوں کو اور دلہے کو گھر والوں کو یاد رہتی ہے جو دلہن کی نئی زندگی کے خوشگوار آغاز کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔
گزرے وقتوں کی یہ اچھی باتیں اب صرف یادوں میں ہی زندہ رہ گئی ہیں اور جب نئی نسل کو یہ باتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ اس سادگی پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں اور ان کو یہ باتیں ہضم نہیں ہوپاتیں کیونکہ انھوں نے جس ماحول اور زمانے میں آنکھ کھولی ہے یہ زمانہ مفادات کا زمانہ ہے جس میں یہ تک دیکھا جاتا ہے کہ جس گھر میں رشتہ طے کیا جارہا ہے وہ کتنے صاحب حیثیت ہیں اور اپنی بیٹی کو جہیز میں کیا کچھ دیں گے بلکہ بعض اوقات تو لڑکی والوںکی حیثیت دیکھتے ہوئے جہیز کی صورت میں مطالبات کی ایک لسٹ بھی پکڑا دی جاتی ہے جس کو بیٹی کے والدین چاروناچار پورا کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، چاہے اس کے لیے ان کو قرض لینا پڑے یا اپنی کوئی قیمتی چیز ہی فروخت کرنی پڑے۔
بغیر محنت کے دولت کے حصول کے متلاشی بچیوں کی دینداری ، کسبی شرافت اور قرابت کوکچھ بھی اہمیت نہیں دیتے اس لیے ایسے رشتوںمیں خیر و برکت کا فقدان ہوتا ہے بات یہیں پر نہیں رکتی بلکہ صاحب حیثیت لوگ تو شادیوں پر اصراف کے وہ نمونے بھی پیش کرتے ہیں جن کودیکھ کر متوسط طبقے کے لوگ احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
صاحب حیثیت لوگوں کی دیکھا دیکھی ان کی نقل کرنے کی کوشش میں اپنے آپ کو ایک نہ ختم ہونے والی اذیت میں ڈال دیتے ہیں کیونکہ ان کے وسائل کم ہوتے ہیں لیکن شادی کی فرسودہ رسموں اور جہیز میں غیر ضروری اشیاء کی وجہ سے اپنے اوپر اتنا بوجھ ڈال لیتے ہیں جو ان کی عمر بھر کے لیے اذیت کا سبب بن جاتا ہے ،وہ یہ قرض اتارتے اتارتے دنیا سے ہی رخصت ہو جاتے ہیں ۔ اسلام میں والدین پر جہیز کو واجب قرار نہیں دیا گیا لیکن اگر وہ اپنی حیثیت کے مطابق کچھ دے بھی دیں تو اس سے منع بھی نہیں کیا گیا۔
ہمارے نبی ؑ نے اپنی پیاری بیٹی اور خاتون جنت حضرت فاطمہ ؓ کے نکاح کے وقت جو چیزیں ان کو بطور جہیز دی تھیں، ان کا ذکر ہمارے لیے بابرکت بھی ہے اور ہمارے لیے مشعل راہ بھی ہے، ان اشیاء میں ایک پیوند لگی چادر، ایک تکیہ اور ایک لحاف جس میں نہ اون تھی اورنہ ہی ریشم بلکہ اس میں خرمے کی چھال بھری ہوئی تھی، ایک چکی آٹا پیسنے کی، ایک مشکیزہ،لکڑی کا ایک پیالہ، نقری کنگن کی ایک جوڑی اور گلے میں ہاتھی دانت کا ایک ہار اور ایک جوتے کا جوڑاشامل تھا۔ یہ وہ کل سامان تھا جو دنیا کے اعلیٰ ترین اور رحمت العالمین کی پیاری بیٹی کو اپنے والد کی جانب سے تحفے میں ملا تھا۔
آج کے مفادات اور ظلم کے اس دور میں متوسط طبقے کی کئی بیٹیاں ہاتھ پیلے کرنے کے انتظار میں بیٹھی رہ جاتی ہیں۔ ہماری کئی بیٹیاں ہاتھوں پر مہندی لگانے کے انتظار میں اس عمر کو پہنچ جاتی ہیں جب ان کے بالوں کو مہندی کی ضروت پڑ جاتی ہے کیونکہ ہم اپنے آپ کو غیر ضروری رسم و رواج سے نکالنے کو تیارنہیں اور ان رسموں کو پوری کرنے کی استعاعت بھی نہیں رکھتے حالانکہ اسلام میں ان فضول رسم و رواج کی کوئی مثال نہیں ملتی بلکہ اسلام میں تو ایسے نکاح کو خیر و برکت والا نکاح کہا گیا ہے جس نکاح میں اخراجات کم سے کم ہوں گے۔
ہمارے ہاں ایک رواج یہ چل نکلا ہے کہ بڑے لوگ اپنے بچوں کا نکاح مسجد میں کرتے ہیں لیکن شادی کی دوسری تقریبات پر اتنا زیادہ خرچ کر دیاجاتا ہے کہ اس سے کئی غریب بچیوں کے ہاتھوں کو پیلا کیا جا سکتا ہے، یہ تضادات ہماری زندگی میں جا بجا بکھرے پڑے ہیں اور ہمارے ارد گرد کے بے شمار لوگ ان تضادات کا شکار ہیں، ان تضادات سے جان چھڑا کر اپنی نئی نسل کو اچھا اور خوبصورت مستقبل دینا ہماری دنیاوی ذمے داری بھی ہے اور دینی فریضہ بھی۔