دلّی ایک دن میں نہیں بنا
پانڈوؤں کے زمانے سے لے کر مغلوں کے عہد تک دلّی نے سینکڑوں انقلابات دیکھے۔
MADRID:
انگریزی کی مشہور کہاوت ہے کہ روم ایک دن میں نہیں بنا۔ یہ قول کئی صدیوں تک مسلم ہندوستانی سلطنت کے دارالحکومت رہنے والے شہر، دلّی پر بھی صادق آتا ہے۔
پانڈوؤں کے زمانے سے لے کر مغلوں کے عہد تک دلّی نے سینکڑوں انقلابات دیکھے۔ وقت کے دھارے پر بہتا یہ شہر ہر آنے والی تہذیب کو گلے لگاتا نیا روپ دھارتا رہا۔ وقت کے ساتھ نہ صرف اس کا نام اور تہذیب بدلی بلکہ ذائقے بھی بدلتے رہے۔
اس کے بازار ہنگاموں اور رونق سے پر تھے۔ چھلکارہ کٹورہ بجاتا چلا آ رہا ہے: 'میاں آب حیات ہے شربت نہیں۔' ککڑیاں سجائے خوانچے والا آواز لگاتا ہے: 'لے لو بھائی لے لو، لیلی کی انگلیاں، مجنوں کی پسلیاں۔' گرما گرم پکوان خوانچوں میں دھرے ہیں۔ لونگ چڑے، قلمی بڑے، تئی کے کباب، کلیجی کی سیخیں۔ گاہک پر گاہک ٹوٹا پڑتا ہے۔ واہ کیا سماں ہے۔کھائے نہ کھائے خوشبو سے دل سیر ہو جائے۔ اگر نہاری بارہ مصالحے کی چاٹ تھی تو حلیم تین ہانڈی کا پکوان۔ بریانی زردے کی دیگیںکھلیں اور گاہک ٹوٹ پڑے۔ یہ تھا سماں دلّی چوک کا۔
مغل سلطنت پر زوال کیا آیا شاہی باورچی خانوں کے چولھے ٹھنڈے پڑ گئے۔ کباب اور بریانی کی خوشبو ہوا میں گم ہو گئی۔ چاندنی چوک کی دکانیں ویران اور خوانچے فروشوں کی آوازیں سرے سے غائب ہو گئیں۔ملک کی تقسیم نے دلّی کو تندور سے آشنا کیا، سانجھا چولہا سلگنے لگا اور گرما گرم روٹیاں سکنے لگیں۔
مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کے ہاں بھی عمدہ اور لذیذ کھانے پکنے لگے۔ کائستھوں کو آدھا مسلمان کہا جاتا ہے۔ یہ ترکاری کے ساتھ گوشت کا استعمال خوب کرتے۔ کہتے ہیں شب دیگ کی روایت انھی پر ختم ہو گئی۔جب وقت نے بہتے زخموں پر مرہم رکھا اور زندگی پرسکون ہوئی تو قلعہ معلی کے کھانوں سے دلّی کی ویران گلیاں آباد ہوئیں۔ بھٹیارے سرائے چھوڑ کر شہر کی گلیوں میں آ بسے اور اپنے چولھے روشن کیے۔ آج بھی ان کی روٹی انھی پرانے کھانوں کی روایات کا حصہ ہیں لیکن وہ نزاکت اور نفاست کہاں؟ نہ وہ روپے رہے اور نہ وہ لگن۔ زندگی کی تیز دھوپ میں سب کچھ جھلس کر رہ گیا۔
انگریزی کی مشہور کہاوت ہے کہ روم ایک دن میں نہیں بنا۔ یہ قول کئی صدیوں تک مسلم ہندوستانی سلطنت کے دارالحکومت رہنے والے شہر، دلّی پر بھی صادق آتا ہے۔
پانڈوؤں کے زمانے سے لے کر مغلوں کے عہد تک دلّی نے سینکڑوں انقلابات دیکھے۔ وقت کے دھارے پر بہتا یہ شہر ہر آنے والی تہذیب کو گلے لگاتا نیا روپ دھارتا رہا۔ وقت کے ساتھ نہ صرف اس کا نام اور تہذیب بدلی بلکہ ذائقے بھی بدلتے رہے۔
اس کے بازار ہنگاموں اور رونق سے پر تھے۔ چھلکارہ کٹورہ بجاتا چلا آ رہا ہے: 'میاں آب حیات ہے شربت نہیں۔' ککڑیاں سجائے خوانچے والا آواز لگاتا ہے: 'لے لو بھائی لے لو، لیلی کی انگلیاں، مجنوں کی پسلیاں۔' گرما گرم پکوان خوانچوں میں دھرے ہیں۔ لونگ چڑے، قلمی بڑے، تئی کے کباب، کلیجی کی سیخیں۔ گاہک پر گاہک ٹوٹا پڑتا ہے۔ واہ کیا سماں ہے۔کھائے نہ کھائے خوشبو سے دل سیر ہو جائے۔ اگر نہاری بارہ مصالحے کی چاٹ تھی تو حلیم تین ہانڈی کا پکوان۔ بریانی زردے کی دیگیںکھلیں اور گاہک ٹوٹ پڑے۔ یہ تھا سماں دلّی چوک کا۔
مغل سلطنت پر زوال کیا آیا شاہی باورچی خانوں کے چولھے ٹھنڈے پڑ گئے۔ کباب اور بریانی کی خوشبو ہوا میں گم ہو گئی۔ چاندنی چوک کی دکانیں ویران اور خوانچے فروشوں کی آوازیں سرے سے غائب ہو گئیں۔ملک کی تقسیم نے دلّی کو تندور سے آشنا کیا، سانجھا چولہا سلگنے لگا اور گرما گرم روٹیاں سکنے لگیں۔
مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کے ہاں بھی عمدہ اور لذیذ کھانے پکنے لگے۔ کائستھوں کو آدھا مسلمان کہا جاتا ہے۔ یہ ترکاری کے ساتھ گوشت کا استعمال خوب کرتے۔ کہتے ہیں شب دیگ کی روایت انھی پر ختم ہو گئی۔جب وقت نے بہتے زخموں پر مرہم رکھا اور زندگی پرسکون ہوئی تو قلعہ معلی کے کھانوں سے دلّی کی ویران گلیاں آباد ہوئیں۔ بھٹیارے سرائے چھوڑ کر شہر کی گلیوں میں آ بسے اور اپنے چولھے روشن کیے۔ آج بھی ان کی روٹی انھی پرانے کھانوں کی روایات کا حصہ ہیں لیکن وہ نزاکت اور نفاست کہاں؟ نہ وہ روپے رہے اور نہ وہ لگن۔ زندگی کی تیز دھوپ میں سب کچھ جھلس کر رہ گیا۔