’’کتارا ڈائیورسٹی فیسٹیول‘‘

دوحہ میں پاکستانی طائفہ کی پرفارمنس نے سما باندھ دیا


ق ۔ الف November 28, 2017
اس طرح کے فیسٹیولز کا انعقاد ہمارے ملک میں بھی ضرورہونا چاہئے، عدنان جہانگیر۔ فوٹو: فائل

پاکستانی فنکاروں کے چاہنے والے تودنیا بھرمیں بستے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیااورمڈایسٹ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے والے پاکستانی فنکاروں کے فن سے محظوظ ہونے کوترجیح دیتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک کے فنکاروں نے فنون لطیفہ کے تمام شعبوںمیں ایسا نمایاں کام کررکھا ہے کہ جس کی لوگ مثالیں دیتے ہیں۔

ایسے ہی ایک فنکارعدنان جہانگیر ہیں، جوکلاسیکل رقص میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ جب بھی رقص کے شعبے میں ملک کی نمائندگی کی بات ہوتوپھر اولین ترجیح عدنان جہانگیرہی ہوتے ہیں۔ گزشتہ دنوں دوحہ میں سجنے والے ''کتارا ڈائیورسٹی فیسٹیول'' میں عدنان جہانگیر نے اپنی ٹیم کے ہمراہ پرفارم کرتے ہوئے خوب داد پائی۔

20 سے زائد ممالک کے فنکار اس فیسٹیول میں شریک ہوئے، لیکن جب پاکستانی طائفہ اپنے مخصوص انداز میں پرفارم کرنے کیلئے سٹیج پرپہنچا توسماں بندھ گیا۔ ایک طرف کلاسیکل گیتوں پرمیوزک بج رہا تھا تو دوسری جانب رقاصاؤں کے تھرکتے ہوئے پاؤں ماحول کوگرما رہے تھے۔ بس یوں کہئے کہ اتنے بڑے فیسٹیول میں پاکستان کی شرکت ہی بڑی بات تھی لیکن ہمارے فنکاروں نے جس طرح سے اپنے فن سے پاکستان کا نام روشن کیا، یہ قابل ستائش ہے۔



وطن واپسی پرعدنان جہانگیرنے ''ایکسپریس'' کوبتایا کہ ایک ماہ تک جاری رہنے والے اس فیسٹیول میں پاکستان کی نمائندگی کا موقع ملا، جوبطورفنکارمیرے لئے اعزاز کی بات تھی۔ اس دوران میں نے اپنی ٹیم ممبران عمرزبیراور محمد زبیر کے ساتھ پرفارم کیا۔ ہماری پرفارمنس میں جہاں پاکستان کا خوبصورت کلچرنمایاں تھا، وہیں رقص کا اندازبھی نرالا تھا، جس کو دیکھ کر حاضرین داد دیئے بنا نہ رہ سکے۔

ہماری کوشش تھی کہ ایسے فیسٹیول میں ، جہاں ایران، جرمنی، ساؤتھ افریقہ، لبنان، فلسطین، میکسیکو، یوکرائن، ترکی اور دیگرممالک کے مہان فنکارپرفارم کرنے کیلئے موجود تھے، وہاں پاکستان کے فن اورثقافت کوکچھ منفرداندازمیں پیش کیا جائے۔ اس فیسٹیول میںشرکت کیلئے میں نے اورمیری ٹیم نے بہت محنت کررکھی تھی۔ ہم نے اپنی پرفارمنس کا آغاز ایک سیمی کلاسیکل گیت ''چھاپ تلک''سے کی۔ جس کوعلی آفتاب نے گایا اورمدیحہ گل، ماہ نور اورماہم نے پرفارم کیا۔

پہلی پرفارمنس نے ایسا رنگ جمایاکہ پھرہم جوبھی پیش کرتے ، اس پردل کھول کرداد ملتی۔ ویسے بھی ایک فنکارکوپرفارمنس کے دوران اگردادمل جائے تووہ اس کیلئے کسی بھی بڑے ایوارڈ اوراعزاز سے بڑھ کرہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا بچپن دوحہ (قطر)میں گزرا۔ صرف پانچ برس کی عمرمیں میری فیملی پاکستان آگئی، جس کے بعد اب تیس برس کے بعد مجھے یہاں پرفارم کرنے کا موقع ملا۔



ایسے مقام پرجہاں آپ کی زندگی کے ابتدائی سال گزرے ہوں، ایک عجب سی کشش ہوتی ہے۔ یہی میری کیفیت تھی اوراسی لئے میں نے اس فیسٹیول میں پاکستان کانام کوروشن کرنے کیلئے بڑی محنت سے کام کیا۔ دوسری جانب ایک قصبے کی شکل رکھنے والی جگہ کی شاندارترقی دیکھ کرمجھے بہت خوشی ہورہی تھی۔

ایک سوال کے جواب میں عدنان جہانگیر نے بتایاکہ اس طرح کے فیسٹیولز کا انعقاد کسی بھی فنکارکیلئے سیکھنے کے بہت سے مواقع لے کرآتا ہے۔ جس طرح ہم پاکستان کی نمائندگی کررہے تھے، اسی طرح دوسرے ممالک کے عمدہ فنکاربھی اپنے اپنے ملک اورکلچرکوپیش کرنے کیلئے وہاں موجود تھے۔ ہر کوئی بازی اپنے نام کرنے کیلئے بڑی مہارت کے ساتھ پرفارم کررہا تھا۔ اس لئے میں یہ تونہیں کہہ سکتا کہ کون بہترتھا اورکون نہیں۔ البتہ یہ بات سب سے اہم تھی کہ ہم نے اس فیسٹیول میں شرکت کے بعد کیا سیکھا۔



میں تودنیا میں جہاں کہیں بھی پرفارمنس کیلئے جاتا ہوں تومیری کوشش ہوتی ہے کہ وہاں سے کچھ نہ کچھ سیکھ کرواپس لوٹوں۔ کیونکہ دنیا بھرمیں رقص کے اتنے منفرد رنگ ہیں کہ ان کوسمجھنا اوران کوپرفارم کرنے کیلئے سالوں کی ریاضت درکارہوتی ہے۔ اس لئے ضروری تویہی ہوتا ہے کہ ایک فنکار اس اندازکوپرفارم چاہے نہ کریں ، مگراس کے بارے میں معلومات ضرور رکھے اوروقت ملے تواس کی پریکٹس بھی ضرور کرے۔ یہ توفن ہے اوراس کی کوئی سرحد نہیں ۔ اس کوجتنا سیکھتے جائیں گے، اس میں ہرروز کوئی نیا انداز سامنے آجائے گا۔

اسی طرح ہم فسیٹیول میں دوسرے ممالک کے فنکاروں سے ملے توپتہ چلا کہ جس طرح ہم ان کے انداز کوپسند کررہے ہیں،ا سی طرح وہ بھی ہمارے اندازکواپنا رہے ہیں۔ مجھے یہ جان کرخوشی ہوئی کہ مختلف ممالک کے فنکارکتھک ڈانس کوبے حد سراہتے ہیںاوراس کی باقاعدہ تربیت بھی حاصل کرتے ہیں۔ دوسری جانب ہم اپنے ملک کی بات کریں تویہاں پررقص کو وہ مقام نہیں دیا جاتا، جودنیابھرمیں اسے حاصل ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس طرح کے فیسٹیولز کا انعقاد ہمارے ملک میں بھی ضرورہونا چاہئے۔ اس سے جہاں پاکستان سے امن کا پیغام دنیا بھرمیں پہنچے گا ، وہیں پاکستانیوں کو دنیا بھرکے کلچرکوجاننے کا موقع بھی ملے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں