محکمہ جنگلات کی جانب سے ماحول دشمن پودوں کی تیاری و فروخت کا سلسلہ جاری
کونو کارپس پودوں کو ماہرین صحت مند فضا کیلیے زہر قاتل قرار دے چکے، سرکاری نرسری میں 5 ہزار پودوں کی فروخت کی تیاری
KARACHI:
محکمہ جنگلات سندھ کی جانب سے ماحول دشمن پودوں کی تیاری وفروخت کا سلسلہ جاری ہے۔
سندھ سمیت ملک بھر میں غیر مقامی پودا لگانے سے قبل لیبارٹری میںتحقیق نہیں کی جاتی ہے جب ماحول کیلیے پرخطر پودا 80 فیصد شہر بھر کی گلی کوچوں اور شاہراہوں میں لگ جاتا ہے تب اس کے نقصانات کا ادراک کیا جاتا ہے ،2008میں کونوکارپس پودے لگائے گئے اور تحقیق تاخیر سے کی گئی۔
تحقیق کے ذریعے معلوم ہوا کہ کونوکارپس کے پولن گرین سے سانس کی بیماریاں جنم لیتی ہیں اورماہرین نے اس کی کٹائی پر زور دیا لیکن نئے درخت کاٹے نہیں گئے بلکہ نومبر اور اپریل کے مہینے میں کونوکارپس کی ٹریمنگ کی جاتی ہیں چونکہ ان مہینوں میں ان پر پھول لگتے ہیں، اور کونوکارپس پودے جھاڑی کی مانند نظر آتے ہیں،ان پودوں کی ٹریمنگ کو حکومت نے منظم طریقے سے کرنے کی تو کوشش کی ہے لیکن اس کام میں بڑی افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کی مزدوری پر ایک خطیر رقم صرف ہوتی ہے جس سے ماحول اور انسان کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا بلکہ صرف قومی خزانے کو ہی نقصان پہنچ رہا ہے۔
ان پودوں میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب اور آکسیجن کے اخراج کرنے کی بھی صلاحیت نہیں ہے پالیسی ساز لوگوں کو برق رفتاری سے بڑھنے والے درخت چاہیے اسی وجہ سے کراچی کے اہم کوریڈورز میں کونو کارپس لگا دئے گئے، کونو کارپس لگانے کے بعد دیکھ بھال کے بغیر بہت جلدی بڑھتا ہے اور اس کو پانی کی بھی ضرورت نہیں پڑتی لیکن جب میچیور ہوتا ہے تو اس کے پولن ہوا کے ساتھ فضا میں شامل ہو جاتے ہیں جس سے شہر بھر میں دمہ،سانس اور جلدی امراض میں اضافہ ہورہا ہے، اس وجہ سے شاہراہوں کے اطراف کونوکارپس پرپھول آنے سے قبل ہی اس کی شاخیں کاٹ دی جاتی ہیں۔
اسی طرح یونیورسٹی روڈ پر ماہرین سے مشاورت کیے بغیرکروڑوں روپے کی لاگت کے غیر سایہ دار کھجور کے درخت لگادیے گئے جوکہ ریڈ لائن بس سروس کی وجہ سے کاٹ دیے جائیں گے، اسی طرح عوام کے ٹیکس کا پیسہ ان کو خوشگوار ماحول فراہم کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے شہری آکسیجن سے بھرپور فضا میں سانس لینے سے قاصر ہیں۔
مزید برآں کراچی یونیورسٹی میں پرانی سبزی منڈی کے قریب کونوکارپس کا ایک گھنا جنگل بن چکا ہے جس سے شہریوں کی صحت کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے، بدقسمتی سے صوبائی سطح سے اختیارات مقامی حکومت کو منتقل نہ ہو سکے جس کی وجہ سے کراچی کا انفراسٹرکچر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے، شہری ٹیکس دیتے ہیں لیکن کراچی کے موٗثر انفراسٹرکچر سے محروم ہیں۔
بلدیہ عظمیٰ کے دائرہ کار میں صرف 35 فیصد کراچی کا رقبہ ہے باقی رقبہ دیگر اداروں کے زمرے میں آتے ہیں،ایوب خان کے دور میں جنگلات زیادہ تھے اور ہریالی کم تھی اورآبادی میں بھی اضافہ ہورہا تھا، انھوں نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے سندھ بھر میں جولی فلورا(Mesquite)کے بیج پھیلائے، اس کا بیج 8سال تک زندہ رہتا ہے جو معمولی بارش سے بھی نشوونما پاتا ہے،اسی طرح اس کی لکڑی آگ جلانے میں کام آتی ہے، یہ فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتا ہے اور wind erosionکو بھی کم کرتا ہے۔
محکمہ جنگلات سندھ کی جانب سے ماحول دشمن پودوں کی تیاری وفروخت کا سلسلہ جاری ہے۔
سندھ سمیت ملک بھر میں غیر مقامی پودا لگانے سے قبل لیبارٹری میںتحقیق نہیں کی جاتی ہے جب ماحول کیلیے پرخطر پودا 80 فیصد شہر بھر کی گلی کوچوں اور شاہراہوں میں لگ جاتا ہے تب اس کے نقصانات کا ادراک کیا جاتا ہے ،2008میں کونوکارپس پودے لگائے گئے اور تحقیق تاخیر سے کی گئی۔
تحقیق کے ذریعے معلوم ہوا کہ کونوکارپس کے پولن گرین سے سانس کی بیماریاں جنم لیتی ہیں اورماہرین نے اس کی کٹائی پر زور دیا لیکن نئے درخت کاٹے نہیں گئے بلکہ نومبر اور اپریل کے مہینے میں کونوکارپس کی ٹریمنگ کی جاتی ہیں چونکہ ان مہینوں میں ان پر پھول لگتے ہیں، اور کونوکارپس پودے جھاڑی کی مانند نظر آتے ہیں،ان پودوں کی ٹریمنگ کو حکومت نے منظم طریقے سے کرنے کی تو کوشش کی ہے لیکن اس کام میں بڑی افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کی مزدوری پر ایک خطیر رقم صرف ہوتی ہے جس سے ماحول اور انسان کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا بلکہ صرف قومی خزانے کو ہی نقصان پہنچ رہا ہے۔
ان پودوں میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب اور آکسیجن کے اخراج کرنے کی بھی صلاحیت نہیں ہے پالیسی ساز لوگوں کو برق رفتاری سے بڑھنے والے درخت چاہیے اسی وجہ سے کراچی کے اہم کوریڈورز میں کونو کارپس لگا دئے گئے، کونو کارپس لگانے کے بعد دیکھ بھال کے بغیر بہت جلدی بڑھتا ہے اور اس کو پانی کی بھی ضرورت نہیں پڑتی لیکن جب میچیور ہوتا ہے تو اس کے پولن ہوا کے ساتھ فضا میں شامل ہو جاتے ہیں جس سے شہر بھر میں دمہ،سانس اور جلدی امراض میں اضافہ ہورہا ہے، اس وجہ سے شاہراہوں کے اطراف کونوکارپس پرپھول آنے سے قبل ہی اس کی شاخیں کاٹ دی جاتی ہیں۔
اسی طرح یونیورسٹی روڈ پر ماہرین سے مشاورت کیے بغیرکروڑوں روپے کی لاگت کے غیر سایہ دار کھجور کے درخت لگادیے گئے جوکہ ریڈ لائن بس سروس کی وجہ سے کاٹ دیے جائیں گے، اسی طرح عوام کے ٹیکس کا پیسہ ان کو خوشگوار ماحول فراہم کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے شہری آکسیجن سے بھرپور فضا میں سانس لینے سے قاصر ہیں۔
مزید برآں کراچی یونیورسٹی میں پرانی سبزی منڈی کے قریب کونوکارپس کا ایک گھنا جنگل بن چکا ہے جس سے شہریوں کی صحت کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے، بدقسمتی سے صوبائی سطح سے اختیارات مقامی حکومت کو منتقل نہ ہو سکے جس کی وجہ سے کراچی کا انفراسٹرکچر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے، شہری ٹیکس دیتے ہیں لیکن کراچی کے موٗثر انفراسٹرکچر سے محروم ہیں۔
بلدیہ عظمیٰ کے دائرہ کار میں صرف 35 فیصد کراچی کا رقبہ ہے باقی رقبہ دیگر اداروں کے زمرے میں آتے ہیں،ایوب خان کے دور میں جنگلات زیادہ تھے اور ہریالی کم تھی اورآبادی میں بھی اضافہ ہورہا تھا، انھوں نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے سندھ بھر میں جولی فلورا(Mesquite)کے بیج پھیلائے، اس کا بیج 8سال تک زندہ رہتا ہے جو معمولی بارش سے بھی نشوونما پاتا ہے،اسی طرح اس کی لکڑی آگ جلانے میں کام آتی ہے، یہ فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتا ہے اور wind erosionکو بھی کم کرتا ہے۔