تبدیلی آیندہ انتخابات سے مشروط ہونی چاہیے
5 فیصد نتائج کی جانچ پڑتال متعلقہ علاقوں میں کرفیو لگا کر کی جائے
ملک میں مردم شماری مکمل ہونے کے بعد یقین ہوگیا تھا کہ اب نئی حلقہ بندیوں سمیت دیگر انتخابی اصلاحات پر پارلیمنٹیرینز بھرپور توجہ دیں گے اور 2018 کے الیکشن کے لیے ملک کو ایک جمہوری، شفاف اور دھاندلی،جعل سازی اور بوگس ووٹنگ کے الزامات سے قطعی پاک انتخابی ادارہ مل جائے گا اور اسی کے ساتھ ایک طاقتور اور اپنی اتھارٹی کو منوانے والا الیکشن کمیشن بھی ملکی سیاست اور جمہوری نظام کی انفرادیت اور تشخص کا طرہ امتیاز بنے گا ، مگر اے بسا آروز کہ خاک شدہ۔
اس دن سے جب سے مردم شماری کے عبوری نتائج کا اعلان ہوا ہے حسب توقع اپوزیشن جماعتوں میں شماریاتی ارتعاش پیدا ہوا، اعتراضات اور تحفظات کا پینڈورا بکس کھلا جو آج بھی پی پی ، تحریک انصاف، ایم کیو ایم سمیت دیگر چھوٹی بڑی پارٹیوں میں شٹل کاک ڈپلومیسی کا تماشا بنا ہوا ہے، حکومت بل کی منظوری کے لیے منت سماجت میں لگی ہوئی ہے، جب کہ نئی حلقہ بندیوں کے بل کی منظوری کی راہ میں حائل سب سے بڑا مسئلہ سیاسی جماعتوں کی وہ غیر جمہوری روش ہے جس کی وجہ سے آیندہ الیکشن کے شفاف نظام اور میکنزم کی تشکیل پر متفق ہونے لیے تیار نہیں حالانکہ جمہوریت کے ناتے سارے اسٹیک ہولڈرز کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ آیندہ شفاف اور بے داغ انتخابات ہی پاکستان میں جمہوریت کی بقا کے ضامن ہوںگے۔
اگر اپوزیشن جماعتیں موجودہ سسٹم اور حکومت کو محض زمین بوس کرنے کی خواہشات پر پل رہی ہیں تو انھیں روش بدل کر آیندہ انتخابات ، اداروں میں ہم آہنگی، عدلیہ کے احترام اور قانون کی حکمرانی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینی چاہیے۔ لیکن ایسا نظر نہیں آتا۔گزشتہ روز سینیٹ کا اجلاس حلقہ بندیوں کے متعلق اہم آئینی ترمیم کی منظوری کے بغیر ہی غیرمعینہ مدت تک ملتوی ہوا تو اسے بھی بڑی سیاسی جماعتوں نے معمول کا لیپس سمجھتے ہوئے یہ وعدہ کیا کہ جلد حلقہ بندیوں کا مسئلہ بھی طے پاجائے گا۔
چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کی زیر صدارت اجلاس میں قائد ایوان راجا ظفرالحق،قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن اور دیگر جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز نے شرکت کی۔ واضح رہے چیئر مین سینیٹ رضا ربانی سسٹم میں فعالیت، ادارہ جاتی خیرسگالی، مفاہمانہ پیوستگی اور آئینی حدود میں رہتے ہوئے جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کی بات کئی بار دل سوزی کے ساتھ کر چکے ہیں چنانچہ پیر کو حلقہ بندیوں کے متعلق ایجنڈے میں شامل کرنے پر اتفاق رائے کے لیے ہاؤس بزنس ایڈوائزری کمیٹی کا اجلاس ہنگامی طور پر طلب کیا گیا تاہم یہ اجلاس بھی بے نتیجہ رہا اور حکومت پیپلزپارٹی کو آمادہ نہ کرسکی جب کہ تحریک انصاف نے اپنی رضامندی پیپلزپارٹی کے تحفظات دور کرنے سے مشروط کردی ہے۔
میڈیا کے مطابق اجلاس میں اعتزاز احسن نے پارٹی قیادت سے مشاورت کے لیے وقت مانگ لیا جب کہ پیپلزپارٹی نے مردم شماری کے 5 فیصد نتائج کی تھرڈ پارٹی سے موثر جانچ پڑتال کی ضمانت مانگ لی۔ اس بحث میں ایم کیو ایم پاکستان کا موقف ابھی سامنے نہیں آیا جو مردم شماری پر شدید تحفطات رکھتی ہے، اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ ہمارے ارکان کم ہیں اور مجھے نہیں لگ رہا کہ اتنی جلد یہ ترمیم منظور ہوجائے گی۔
راجا ظفرالحق نے کہا کہ ہمارے ارکان تو پورے ہیں تاہم پیپلزپارٹی کے ارکان کی حمایت کے لیے اعتزاز احسن پارٹی قیادت سے رابطہ کریں گے۔ تاج حیدر نے کہاکہ ہمارے تحفظات اب بھی موجود ہیں، ہمیں شماریاتی ڈویژن پر اعتماد نہیں ہے، ڈیموگرافک کمیشن قائم کیا جائے اور اس مقصد کے لیے پاکستان میں عالمی طور پر تسلیم شدہ ماہرین موجود ہیں، 5 فیصد نتائج کی جانچ پڑتال متعلقہ علاقوں میں کرفیو لگا کر کی جائے۔ اندرون سندھ قوم پرست جماعتیں بھی مردم شماری نتائج سے غیر مطمئن ہیں۔
سینیٹ کا اگلا سیشن اب11دسمبر کو ہوگا جس میں حلقہ بندیوں کے بل کو منظور کرنے کی ''کوشش'' کی جائے گی۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی سے منظور کردہ یہ بل سینیٹ کے حالیہ اجلاس میں 3 بار ایجنڈے کا حصہ بنایا گیا تاہم69 ارکان کی مطلوبہ تعداد پوری نہ ہونے پر موخر کرنا پڑا ، حکومت نے اس بل پر پیپلزپارٹی سے مدد بھی مانگی اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سے ملاقات کی تاہم اس کے باوجود کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔
پیر کو حکومت نے اس معاملے پر ایک بار پھر پیپلزپارٹی سے رابطہ کیا اور اپنے اتحادی محمود اچکزئی کے ذریعے خورشید شاہ سے رابطہ کر کے سینیٹ میں بل پر حمایت کرنے کی درخواست کی۔ پیپلزپارٹی کے ذرایع کے مطابق خورشید شاہ نے ان پر واضح کیا ہے کہ پیپلز پارٹی کسی غیرآئینی اور غیر جمہوری اقدام کی حمایت پر یقین نہیں رکھتی، ملک میں دھرنوں سے پیدا شدہ حالات بہتر ہوجائیں تو یہ معاملہ بھی حل کرلیا جائے گا۔
حقیقت میں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں سمیت تمام شراکت داروں کا فرض ہے کہ وہ ملک کو درپیش چیلنجز کا ادراک کریں، دھرنے نے جمہوریت کے کتنے پول کھولے،کتنی سبکی ہوئی ہے، ریاستی اداروں میں اعصاب شکن بحث جاری ہے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی جماعتیں محاذ آرائی اور بیان بازی کے گرداب سے نکل کر تبدیلی کے نعرہ کو ٹھوس سیاسی آدرش بنائیں، حلقہ بندی بل کی جلد منظوری پر متفق ہوں تاکہ آیندہ انتخابات کے لیے ملک میں صحت مند انتخابی مہم یقینی بنائی جاسکے۔
اس دن سے جب سے مردم شماری کے عبوری نتائج کا اعلان ہوا ہے حسب توقع اپوزیشن جماعتوں میں شماریاتی ارتعاش پیدا ہوا، اعتراضات اور تحفظات کا پینڈورا بکس کھلا جو آج بھی پی پی ، تحریک انصاف، ایم کیو ایم سمیت دیگر چھوٹی بڑی پارٹیوں میں شٹل کاک ڈپلومیسی کا تماشا بنا ہوا ہے، حکومت بل کی منظوری کے لیے منت سماجت میں لگی ہوئی ہے، جب کہ نئی حلقہ بندیوں کے بل کی منظوری کی راہ میں حائل سب سے بڑا مسئلہ سیاسی جماعتوں کی وہ غیر جمہوری روش ہے جس کی وجہ سے آیندہ الیکشن کے شفاف نظام اور میکنزم کی تشکیل پر متفق ہونے لیے تیار نہیں حالانکہ جمہوریت کے ناتے سارے اسٹیک ہولڈرز کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ آیندہ شفاف اور بے داغ انتخابات ہی پاکستان میں جمہوریت کی بقا کے ضامن ہوںگے۔
اگر اپوزیشن جماعتیں موجودہ سسٹم اور حکومت کو محض زمین بوس کرنے کی خواہشات پر پل رہی ہیں تو انھیں روش بدل کر آیندہ انتخابات ، اداروں میں ہم آہنگی، عدلیہ کے احترام اور قانون کی حکمرانی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینی چاہیے۔ لیکن ایسا نظر نہیں آتا۔گزشتہ روز سینیٹ کا اجلاس حلقہ بندیوں کے متعلق اہم آئینی ترمیم کی منظوری کے بغیر ہی غیرمعینہ مدت تک ملتوی ہوا تو اسے بھی بڑی سیاسی جماعتوں نے معمول کا لیپس سمجھتے ہوئے یہ وعدہ کیا کہ جلد حلقہ بندیوں کا مسئلہ بھی طے پاجائے گا۔
چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کی زیر صدارت اجلاس میں قائد ایوان راجا ظفرالحق،قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن اور دیگر جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز نے شرکت کی۔ واضح رہے چیئر مین سینیٹ رضا ربانی سسٹم میں فعالیت، ادارہ جاتی خیرسگالی، مفاہمانہ پیوستگی اور آئینی حدود میں رہتے ہوئے جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کی بات کئی بار دل سوزی کے ساتھ کر چکے ہیں چنانچہ پیر کو حلقہ بندیوں کے متعلق ایجنڈے میں شامل کرنے پر اتفاق رائے کے لیے ہاؤس بزنس ایڈوائزری کمیٹی کا اجلاس ہنگامی طور پر طلب کیا گیا تاہم یہ اجلاس بھی بے نتیجہ رہا اور حکومت پیپلزپارٹی کو آمادہ نہ کرسکی جب کہ تحریک انصاف نے اپنی رضامندی پیپلزپارٹی کے تحفظات دور کرنے سے مشروط کردی ہے۔
میڈیا کے مطابق اجلاس میں اعتزاز احسن نے پارٹی قیادت سے مشاورت کے لیے وقت مانگ لیا جب کہ پیپلزپارٹی نے مردم شماری کے 5 فیصد نتائج کی تھرڈ پارٹی سے موثر جانچ پڑتال کی ضمانت مانگ لی۔ اس بحث میں ایم کیو ایم پاکستان کا موقف ابھی سامنے نہیں آیا جو مردم شماری پر شدید تحفطات رکھتی ہے، اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ ہمارے ارکان کم ہیں اور مجھے نہیں لگ رہا کہ اتنی جلد یہ ترمیم منظور ہوجائے گی۔
راجا ظفرالحق نے کہا کہ ہمارے ارکان تو پورے ہیں تاہم پیپلزپارٹی کے ارکان کی حمایت کے لیے اعتزاز احسن پارٹی قیادت سے رابطہ کریں گے۔ تاج حیدر نے کہاکہ ہمارے تحفظات اب بھی موجود ہیں، ہمیں شماریاتی ڈویژن پر اعتماد نہیں ہے، ڈیموگرافک کمیشن قائم کیا جائے اور اس مقصد کے لیے پاکستان میں عالمی طور پر تسلیم شدہ ماہرین موجود ہیں، 5 فیصد نتائج کی جانچ پڑتال متعلقہ علاقوں میں کرفیو لگا کر کی جائے۔ اندرون سندھ قوم پرست جماعتیں بھی مردم شماری نتائج سے غیر مطمئن ہیں۔
سینیٹ کا اگلا سیشن اب11دسمبر کو ہوگا جس میں حلقہ بندیوں کے بل کو منظور کرنے کی ''کوشش'' کی جائے گی۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی سے منظور کردہ یہ بل سینیٹ کے حالیہ اجلاس میں 3 بار ایجنڈے کا حصہ بنایا گیا تاہم69 ارکان کی مطلوبہ تعداد پوری نہ ہونے پر موخر کرنا پڑا ، حکومت نے اس بل پر پیپلزپارٹی سے مدد بھی مانگی اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سے ملاقات کی تاہم اس کے باوجود کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔
پیر کو حکومت نے اس معاملے پر ایک بار پھر پیپلزپارٹی سے رابطہ کیا اور اپنے اتحادی محمود اچکزئی کے ذریعے خورشید شاہ سے رابطہ کر کے سینیٹ میں بل پر حمایت کرنے کی درخواست کی۔ پیپلزپارٹی کے ذرایع کے مطابق خورشید شاہ نے ان پر واضح کیا ہے کہ پیپلز پارٹی کسی غیرآئینی اور غیر جمہوری اقدام کی حمایت پر یقین نہیں رکھتی، ملک میں دھرنوں سے پیدا شدہ حالات بہتر ہوجائیں تو یہ معاملہ بھی حل کرلیا جائے گا۔
حقیقت میں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں سمیت تمام شراکت داروں کا فرض ہے کہ وہ ملک کو درپیش چیلنجز کا ادراک کریں، دھرنے نے جمہوریت کے کتنے پول کھولے،کتنی سبکی ہوئی ہے، ریاستی اداروں میں اعصاب شکن بحث جاری ہے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی جماعتیں محاذ آرائی اور بیان بازی کے گرداب سے نکل کر تبدیلی کے نعرہ کو ٹھوس سیاسی آدرش بنائیں، حلقہ بندی بل کی جلد منظوری پر متفق ہوں تاکہ آیندہ انتخابات کے لیے ملک میں صحت مند انتخابی مہم یقینی بنائی جاسکے۔