جاتی امراء کی دال روٹی

زرداری صاحب ایک بار پھر جمہوریت بچانے کی فکر میں میاں صاحب کی دال روٹی کھانے جاتی امراء ضرور پہنچ جائیں گے

mnoorani08@gmail.com

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف کے حوالے سے آج کل یہ خبریں مسلسل آرہی ہیں کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری سے ملنے، مصافحہ کرنے اور بات چیت کرنے کی غرض سے بہت بے چین ہوئے جارہے ہیں جب کہ دوسری طرف زرداری بڑی بے اعتنائی سے ان کی اِس دعوت کو رد کیے جارہے ہیں۔ جس کی غالباً پیپلز پارٹی کے لوگوں کے مطابق ایک بڑی وجہ آج سے ڈیڑھ برس قبل ہونے والا وہ واقعہ ہے جب یہی زرداری اپنے ایک غیر مناسب، تلخ اور ترش سیاسی بیان کے سبب نادیدہ قوتوں کی جانب سے متوقع سخت ردعمل کے خوف سے نواز شریف سے مدد حاصل کرنا چاہتے تھے، جسے انھوں نے بالکل اسی طرح اور اسی انداز میں بے رخی کے ساتھ مسترد کردیا تھا۔

پیپلز پارٹی والوں کو گلہ ہے کہ میاں صاحب جب کسی مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو وہ دوسروں کی منت سماجت کرنے لگتے ہیں، لیکن جیسے ہی یہ مصیبت اُن کے سر سے ٹلتی ہے وہ فوراً طوطا چشمی کرتے ہوئے اپنی آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ میاں صاحب نے اس وقت جو کیا اور جو کچھ آج آصف علی زرداری کررہے ہیں، وہ ان دونوں کی قطعاً کوئی چوائس اور مرضی نہ تھی بلکہ مجبوری تھی اور یہی مجبوری آج بھی درپیش ہے۔

میاں صاحب نہ چاہتے ہوئے بھی زرداری سے ایک طے شدہ ملاقات سے انکار کرتے رہے اور آج زرداری بھی کسی ایسی ہی مجبوری کے تحت ان سے ملنے سے انکاری ہیں۔ نہ میاں صاحب اس وقت زرداری کی کوئی مدد کرسکتے تھے اور نہ آج زرداری میاں صاحب کو نادیدہ قوتوں کے عتاب سے باہر نکال سکتے ہیں۔ آصف زرداری کے پاس انھیں دینے کے لیے کچھ نہیں نہ تو حکومت ہے اور نہ کوئی اختیار۔ احتساب کا شکنجہ آج اگر ان کے لیے کچھ نرم اور ڈھیلا ہے تو انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ سب کچھ عارضی ہے۔ وہ کب اور کس وقت دوبارہ کسی معاملے میں گھیر لیے جائیں اس کا خدشہ انھیں ہمیشہ ہی لگا رہے گا۔

2014ء کے عمرانی دھرنے کے موقعے پر اگر انھوں نے میاں صاحب کی کچھ مدد کی تھی تو بقول خود ان کے اپنے وہ انھوں نے جمہوریت بچانے کے لیے کی تھی، نہ کہ میاں صاحب کی مدد کے طور پر کی تھی اور انھیں یاد ہونا چاہیے کہ اس وقت اکیلے حکومت کے ساتھ کھڑے نہیں تھے بلکہ پارلیمنٹ کی ساری جماعتیں بشمول اے این پی، جمہوری وطن پارٹی، جمعیت علمائے اسلام سبھی نے دھرنے کے خلاف یک زباں اور یک آواز ہوکر مزاحمت کی تھی۔

پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں نے تو اس وقت بھی حکومت کے اکابرین کے خلاف اچھی خاصی طعنہ زنی کی تھی، جب کہ مولانا فضل الرحمٰن اور محمود خان اچکزئی نے تو اپنی بساط سے بڑھ کر حکومت کے موقف کا دفاع کیا تھا۔ زرداری کوئی اتنے بھولے اور معصوم بھی نہیں ہیں کہ وہ کسی کام کو کرتے ہوئے اپنا اور اپنی پارٹی کا مفاد پیش نظر نہ رکھیں۔

جمہوریت کے نام پر میاں نواز شریف کی حکومت کو بچانا ان کی مجبوری تھی۔ وہ اگر ایسا نہ کرتے تو جس ایمپائر کی انگلی کی باتیں عمران خان ان دنوں کررہے تھے اس ایمپائر نے اپنا کام کرجانا تھا۔ پھر میاں صاحب کا جو کچھ بگڑنا تھا وہ تو بگڑ جاتا لیکن اس کی لپیٹ میں زرداری بھی ضرور آجاتے۔ وہ اگر آج میاں صاحب کی نظر التفات کو بے رخی کے ساتھ مسترد کرتے دکھائی دے رہے ہیں تو اس میں بھی ان کے مقرر کردہ معیارات پر مبنی ترجیحات کا ضرور عمل دخل ہے۔ وہ کوئی معمولی سیاستداں نہیں ہیں۔ وہ سیاسی بصیرت، ذہانت اور دانشمندی میں ہمارے تمام سیاستدانوں میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔


میاں صاحب ابھی تک ان کی سوچ کے ہم پلہ نہیں ہو پائے۔ وہ اگر زرداری کی طرح ذہین اور بلیغ ہوتے تو تیسرے دور حکومت میں وزیراعظم کا عہدہ منتخب نہ کرتے، بلکہ زرداری کی پیروی کرتے ہوئے استثنیٰ کے لوازمات سے مزین صدر مملکت کا عہدہ ہی پسند کرتے۔ اس طرح وہ نہ صرف اپنے خلاف آج ہونے والے تمام مقدمات میں پیشی سے بچ جاتے بلکہ نااہلی کا طوق اپنے سر پر سجا کر بلاوجہ اقتدار سے بے دخل بھی نہیں کیے جاتے۔ وہ اپنے پانچ سال پورے کرتے اور ساتھ ہی ساتھ تاحیات اس صدارتی عہدے کی مراعات سے لطف اندوز بھی ہوتے۔

آصف زرداری کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ایسے وقت میں جب میاں صاحب کی نیّا ڈوب رہی ہے ان کی مدد کرنا خود کو مصیبت میں پھنسانے کے مترادف ہے۔ ان کی تو بلکہ کوشش یہی ہے کہ گرتی ہوئی اس دیوار کو ایک دھکا اور دیا جائے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگلے الیکشن میں صوبہ پنجاب میں اگر کوئی ان کی پارٹی کا اصل مدمقابل ہے تو وہ صرف مسلم لیگ (ن) ہی ہے۔ اس لیے سب سے پہلے اس خطرے کو ختم کرنا ضروری ہے۔

تحریک انصاف یا عمران خان سے تو وہ باآسانی نمٹ سکتے ہیں۔ اور وہ جانتے ہیں کہ ان کے اس مقصد اور ٹارگٹ کو پورا کرنے میں آج کل ہماری اسٹیبلشمنٹ بہت معاون اور مددگار ثابت ہورہی ہے تو وہ کیوں اس موقع پر میاں صاحب کی مدد کرکے خود اپنے لیے مشکلیں پیدا کرنا چاہیں گے۔ جس مسلم لیگ کے لیے کل تک یہ سمجھا جارہا تھا کہ 2018ء کے انتخابات میں بھی وہ پہلے کی طرح مکمل سوئپ کرے گی، آج یہ حال ہے کہ اسے اپنے ارکان کی وفاداری کو سینیٹ کے الیکشن تک بچا لینے کی فکر لاحق ہے۔

اب سے کچھ ماہ قبل کوئی یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ کراچی سمیت ملک بھر میں دہشتگردی کا خاتمہ کرنے والی، بے شمار ترقیاتی کام کرنے والی، لوڈشیڈنگ کے عذاب سے قوم کو نجات دلانے والی حکومت کی کشتی صرف چند ماہ میں یوں ڈانواڈول ہونے لگے گی۔ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی ہم یہ کیوں نہیں مان لیتے کہ اس ملک میں طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں کوئی اور ہے۔ بھٹو کی طرف سے دیا جانے والا یہ نعرہ آج بھی اپنی اہمیت اور افایت کو ترس رہا ہے۔

اس نعرے کو معرض وجود میں آئے تقریباً پچاس سال بیت چکے ہیں، لیکن ان پچاس سال میں ایک بار بھی ہمیں یہ احساس نہیں ہوپایا کہ ہاں واقعی طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ ان پچاس برسوں میں سے پچیس سال تو بلاشرکت غیرے آمریت نے ڈنکے کی چوٹ پرگزار لیے اور باقی جو پچیس سال بچے تھے تو اس میں بھی عوامی نمایندوں پر احسان کرتے ہوئے حکومت تو دی گئی لیکن ان کے سروں پر انجانے خوف کے سائے ضرور منڈلاتے رہے۔ وہ کھل کر کبھی بھی حکومت نہ کرسکے۔

اگر کسی نے دو تہائی اکثریت کی بنیاد پر جرأت رندانہ دکھانے کی کوئی کوشش بھی کی تو اسے نشان عبرت بنا کر رکھ دیا گیا۔ آج میاں صاحب ایسی ہی غلطیوں اور کوتاہیوں کے باعث نشانِ عبرت بنے ہوئے ہیں۔ وہ ''مجھے کیوں نکالا'' کا نوحہ اپنے ہاتھوں میں لیے شہر شہر، گاؤں گاؤں صدائیں لگاتے پھر رہے ہیں لیکن کوئی سننے والا نہیں۔ جس عوام سے ساتھ نبھانے کا وعدہ لے کر وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اگلے الیکشن میں وہ ایک بار پھر کامیاب و سرخرو ہوپائیں گے وہ عوام اگلے دو چار ماہ میں انھیں شاید دور دور تک بھی نظر نہیں آئیں۔

اس ملک کی اصل مقتدر قوتیں ایسی گیم کھیلنے جارہی ہیں کہ میاں صاحب کے پاس سوائے فرار کے کوئی اور راستہ ہی نہیں بچے گا۔ ایسے حالات میں زرداری میاں جی کا ساتھ کیونکر دیں۔ ہاں البتہ جب وہ یہ دیکھیں گے کہ ستاروں اور اداروں کی چالیں کچھ بدلنے لگی ہیں اور بلاامتیاز اور بلاتفریق احتساب کی ہشت پائی گرفت میاں صاحب کے ساتھ ساتھ ان کی جانب بھی بڑھنے لگی ہے تو وہ ایک بار پھر جمہوریت بچانے کی فکر میں میاں صاحب کی دال روٹی کھانے جاتی امراء ضرور پہنچ جائیں گے اور تیزی سے بدلتے ہوئے حالات وواقعات اس بات کا عندیہ بھی دے رہے ہیں کہ وہ دن عنقریب بہت جلد آنے والا ہے۔
Load Next Story