’’ہم دولت مند پاکستانی‘‘
عیش و عشرت کے لیے ایک ایسا طبقہ بھی ملک میں پروان چڑھا ہے جو کہ ہر سال کسی بھی غیر ملک جا کر اپنی ’چھٹیاں‘ گزارتے ہیں۔
LONDON:
ہم پاکستانیوں کی بھی عجب زندگی ہے جو تقسیم کر دی گئی ہے اس کا ایک حصہ بڑے لوگوں کی زندگی پر مشتمل ہے جس میں سوائے عیش و عشرت اور ضیاع وقت کے اور کچھ نہیں۔ ان عیاش لوگوں کو یہ فکر رہتی ہے کہ وہ اپنی بے انتہا دولت کو کہاں خرچ کریں کہ زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہو سکیں۔
یہ عیاش لوگ دولت خرچ کرنے کی جگہیں تلاش کرتے رہتے ہیں ان کو فکر رہتی ہے کہ انھیں ایسے مواقع میسر آئیں کہ وہ اپنی بے پناہ دولت کا رعب جما سکیں اور عیاشی کا ساماں کر سکیں۔ کیونکہ ملک کے اندر تو چھپ چھپا کر ہی کچھ کیا جا سکتا ہے اسی وجہ سے اب یہ امیر اور عیاش لوگ ملک سے باہر عیش و عشرت کی تلاش میں نکل جاتے ہیں جہاں پر عیش و عشرت کی ایک نئی محفوظ دنیا ان کی منتظر ہوتی ہے اور وہ عیاشی پر اپنی دولت پانی کی طرح بہا کر سکون محسوس کرتے ہیں۔
عیش و عشرت کے لیے ایک ایسا طبقہ بھی ملک میں پروان چڑھا ہے جو کہ ہر سال کسی بھی غیر ملک جا کر اپنی 'چھٹیاں' گزارتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسی طبقہ نے ہر سال عمرہ کی ادائیگی کے لیے بھی ضرور جانا ہوتا ہے۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو عمرہ ایک خالص نفلی عبادت ہے اور اس نفلی عبادت کے اور بھی کئی طریقے ہیں کسی غریب بچی کی شادی کرائی جا سکتی ہے ہمارے ملک میں ہمارے ارد گرد اتنے مستحق لوگ موجود ہیں جو کہ اپنی سفید پوشی کی وجہ سے کسی سے مانگ کر نہیں کھا سکتے لیکن ان کی مدد کر کے بھی ثواب کمایا جا سکتا ہے۔
اس طبقہ فکر کے لوگ حقوق العباد پر توجہ کم ہی دیتے ہیں اور اپنی نمود و نمائش پر زیادہ۔ ایک اور طبقہ بھی پاکستان کا حصہ ہے جو کہ ہم سب کے جانے اور پہچانے لوگ ہیں ان کی دولت کا شمار ممکن نہیں۔ اور اگر مبالغہ آرائی نہ ہو تو خود ان کو بھی شاید اپنی دولت کا اندازہ نہ ہو۔
یہ طبقہ ہمارے حکمرانوں پر مشتمل ہے جو کہ باری باری پاکستان پر حکمرانی کرتے چلے آ رہے ہیں ان کا عارضی پڑاؤ پاکستان ہوتا ہے لیکن یہ پاکستان کا استعمال صرف اپنے مطلب کے لیے کرتے ہیں اور ان کا رہنا سہنا، دوائی دارو غیر ممالک میں ہی ہوتا ہے۔ اس لیے ان کو یہ معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ جس ملک اور قوم پر وہ حکمرانی کر رہے ہیں اس کے حالات کیا ہیں اور ان کی رعایا کس حال میں ہے۔
پاکستان میں دوسری زندگی اس ملک کے عوام کی ہے جو کہ اصلی پاکستانی ہیں لیکن ان کی زندگی اتنے مسائل کا شکار ہو چکی ہے کہ ان کے حل کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ ان کی روز مرہ کی زندگی ایک مستقل اور مسلسل عذاب میں تبدیل ہو چکی ہے وہ اپنی صبح سے شام کر نے کے لیے دن بھر کئی مصیبتوں سے گزرتے ہیں لیکن مصیبتیں ہیں کہ کم ہونے میں ہی نہیں آ رہیں۔
ہماری گھریلو خواتین جب بازار سے آتی ہیں تو ان کی زبان پر شکوے ہی شکوے ہوتے ہیں اور یہ شکوے صرف مہنگائی کے ہیں ان کو گھر گرہستی کے لیے جتنے پیسے ملتے ہیں ان میں اب گزارا ممکن نہیں رہا اور پہلے جو راشن مہینے بھر کا آ جاتا تھا وہی سودا سلف اب اتنے ہی پیسوں میں دو ہفتوں کا آتا ہے۔
بدقسمتی سے میں لاہور کے جس علاقے میں رہتا ہوں اس کو مالداروں کا علاقہ سمجھا جاتا ہے چنانچہ یہاں قیمتیں بھی دگنی چگنی ہوتی ہیں اس لیے لازم ہے کہ ہر ہفتہ کسی سستے بازار کا رخ کیا جائے لیکن مالداروں کے علاقے میں سستا بازار بھی دستیاب نہیں اور جو سستے بازار دستیاب ہیں ان کے لیے کئی کلو میٹر کا سفر کر کے کسی اور علاقے میں جانا پڑتا ہے جہاں سے قدرے کم قیمت پر خور و نوش کی اشیاء مل جاتی ہیں۔
دوسری طرف اگر دیکھیں تو ہمارے حکمران عوام کی حالت سے مکمل بے خبر ہو کر اپنی الگ زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں ان کو بازار کے بھاؤ کے متعلق کچھ معلوم نہیں وہ نہیں جانتے کہ عوام کے ساتھ کس بھاؤبیت رہی ہے۔ اشیائے ضرورت کی قیمتیں ہمارے حکمرانوں اور بڑے لوگوں کے لیے تو بالکل بے معنی ہوتی ہیں۔ ان کا کام صرف اشیائے ضروریہ کی پسند کا ہوتا ہے قیمت دکان دار کی مرضی کی اور ادائیگی کے لیے ان کے ساتھ ملازمین ہوتے ہیں یعنی وہ خود سے پسند کردہ اشیاء کی ادائیگی بھی خود کرنا پسند نہیں کرتے اور اس کام کے لیے ملازمین کو انگلی کے اشارے کی زحمت کرتے ہیں کیونکہ بڑے لوگ پیسے اپنی جیب میں نہیں رکھا کرتے۔
عوام کے لیے مہنگائی کی ایک بڑی وجہ پٹرول ہے جو کہ قیمتوں میں اضافے کی ماں ہے جب اس کی قیمت بڑھتی ہے تو تمام ضروریات کی قیمتیں خود بخود ہی بڑھ جاتی ہیں یعنی پٹرول بازار کے بھاؤ کا پیمانہ ہے ہماری موجودہ حکومت کی یہ خوش قسمتی رہی ہے کہ اس کے دور اقتدار میں پٹرول کی قیمتوں میں کمی ہی رہی اور اس کا فائدہ عوام نے بھی اُٹھایا لیکن اب پچھلے کئی ماہ سے پٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے جو کہ ایک جاتی حکومت کے لیے بالکل بھی اچھا نہیں۔
آسان الفاظ میں عام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی پٹرول کی وجہ سے اضافہ جاری ہے ایک تو جائز اضافہ ہوتا ہے جو کہ ہونا بھی چاہیے کہ مارکیٹ کا تقاضہ یہی ہوتا ہے لیکن دوسرا اضافہ ہمارے تاجر طبقے کا ہے جو کہ کسی حساب کتاب کے بغیر اپنی خواہشات کے مطابق از خود اضافہ کر لیتے ہیں۔ بازار میں کوئی ایک نرخ نہیں ہر دکان کا اپنا ریٹ ہے چاہے وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہی کیوں نہ ہوں، دونوں کے نرخ الگ الگ ہوں گے۔ حکومت کی طرف سے قیمتوں پر کنٹرول کا کوئی موثر انتظام نہیں جس کے تحت مارکیٹ کے نرخوں کی نگرانی کی جا سکے۔
حکمرانوں سے درخواست ہی کی جا سکتی ہے کہ اپنی رعایا پر بھی توجہ دیں۔ میں نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے جب کاروبار پر ہندوؤں کا تسلط تھا تو مارکیٹ کے نرخ ہوا کرتے تھے اور دکاندار ان نرخوں پر سامان فروخت کرتے تھے۔ آج یہ سب باتیں فسانہ لگتی ہیں۔ مارکیٹ کا تو کوئی مستقل نرخ نہیں ہوتا۔ دکان دکان الگ نرخ ہوتا ہے اور ہر دکان میں بھاؤ چکانا پڑتا ہے۔
یاد پڑتا ہے کہ بچپن میں مائیں ضروریات کے نرخ خود ہی طے کر لیتی تھیں اور دکاندار ان قیمتوں کی پابندی کرتے تھے کیونکہ یہ نرخ عام بازار کے ہوتے تھے جو گھریلو خواتین کو بھی ازبر ہوتے تھے اس طرح بازار میں دھاندلی نہیں ہوا کرتی تھی لیکن آج کے بازار اور خریدار سب ہمارے سامنے ہیں۔بھری ہوئی جیبوں والے خریدار اور بڑے پیٹوں والے دکاندار۔ دولت مندی کا ایسا زمانہ آیا ہے کہ اس میں سب خوش اور مطمئن ہیں اور خوشی خوشی دن رات بسر کر رہے ہیں۔