انسانوں کے قصاب
آٹھ ہزار مرد اور لڑکے جانوروں کی طرح ہنکا کر لے جائے گئے اور انھیں ذبح کردیا گیا۔
آج ہم میں سے کم لوگوں کو یاد ہے کہ 1993 سے 1995 کے درمیان یورپ کے اس ملک میں کیا ہوا تھا جسے ہم پہلے یوگوسلاویہ کے نام سے جانتے تھے اور آج وہ بوسنیا اور ہرزیگوینیا ہے۔ ہم مارشل ٹیٹو کے نام سے واقف تھے۔ سوویت یونین کا زوال ہوا، اسٹالن اور دوسرے نامور کمیونسٹ رہنماؤں کے بلندو بالا مجسمے گلے میں رسیاں ڈال کر گرائے گئے۔ اس سے پہلے ان کی جتنی تعظیم و تکریم کی جاتی تھی، اب اتنی ہی توہین اور تذلیل کی گئی۔
1990 میں یوگوسلاویہ کے انتخابات میں قوم پرستوں نے کمیونسٹوں کو شکست دی اور 1991 میں پارلیمنٹ نے جمہوریہ کی خودمختاری کا اعلان کیا۔ 1992 میں یورپی یونین اور امریکا نے بوسنیا کو تسلیم کیا جس کے فوراً بعد سربوں نے 'سرب جمہوریہ' کا اعلان کیا اور اس کے ساتھ ہی خانہ جنگی کا آغاز ہوگیا۔
یہ ایک ایسی خانہ جنگی تھی جس میں ہونے والے تشدد، خون خرابے اور عورتوں کے ساتھ ہونے والے مظالم نے دوسری جنگ عظیم کے واقعات کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ہمیں وہاں ہونے والی خوں ریزی کا علم بھی نہ ہوتا اگر مغربی ملکوں کے صحافی اور غیر حکومتی تنظیموں کے رضا کاروں نے بوسنیا کا رخ نہ کیا ہوتا۔ یورپ کے بہت سے ادیب وہاں گئے۔ انھوں نے وہاں کے ادیبوں کے ساتھ یک جہتی کا مظاہرہ کیا، ان کے ساتھ مل کر امن تھیٹر کھیلے۔
دنیا کو یہ بتایا کہ وہاں کس نوعیت کی درندگی ہورہی ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ وہاں مارے جانے والے مسلمانوں پر ماتم کرنے والے دونوں فرقوں کے عیسائی تھے۔ وہاں مسلمان عورتیں اور لڑکیاں جس طرح بے حرمت کی گئیں اس کی خبر بھی ہمیں غیر مسلم صحافیوں اور رضا کاروں سے ملی۔
بوسنیا میں ہونے والے جنگی جرائم کے خلاف اقوام متحدہ کے جنگی جرائم ٹربیونل میں طویل ترین مقدمہ چلا جس کا فیصلہ 22 نومبر 2017 کو سامنے آیا ہے۔ بوسنیا کے دارالحکومت سرائیوو کے 43 مہینوں پر پھیلے ہوئے محاصرے کے دوران بے محابا گولہ باری اور بمباری سے 10 ہزار سے زیادہ شہری مارے گئے۔ 8 ہزار مرد اور لڑکے جانوروں کی طرح ہنکا کر لے جائے گئے اور انھیں ذبح کردیا گیا۔ تب ہی اس محاصرے کے کمانڈر راٹکو ملادچ کو 'بوسنیا کا قصاب' کے نام سے پکارا گیا۔
انٹرنیشنل ریڈ کراس اور دوسری امدادی تنظیموں کی مسلسل استدعا کے باوجود سرائیوو کے محصور شہر تک خوراک اور دواؤں کی رسد نہ پہنچ سکی جس کے سبب ہزاروں بچے ناکافی غذا اور قیامت کی سردی کے سبب ہلاک ہوئے۔ اس خانہ جنگی کے دوران 50 ہزار مسلمان عورتیں اور لڑکیاں بے حرمت کی گئیں۔ راٹکو ملادچ کا کہنا تھا کہ عثمانی سلاطین کی افواج نے ہماری عورتوں کے ساتھ جو کچھ کیا تھا، ہم اس کا حساب برابر کررہے ہیں۔16 ویں صدی کے واقعات کا بدلہ 20 ویں صدی کے ملادچ نے لیا، جس کی نفرت اس انتہا کو پہنچی کہ مغربی دنیا بلبلا اٹھی۔
جنرل ملادچ اور ان کے ساتھیوں کا عزم تھا کہ وہ کیتھولک آبادی پر مشتمل ایک 'عظم سربیا'' کی مملکت کا قیام ممکن بنائیں گے۔ ان عزائم کی خاطر ملادچ اور ان کے ساتھیوں نے 'نسلی صفائی' کا کام کیا۔ اس میں مسلمان سرفہرست تھے لیکن کروٹ عیسائی بھی نہ بخشے گئے۔ جنگ کے خاتمے کے بعد ملادچ تقریباً دس برس تک مفرور رہے لیکن آخرکار پکڑے گئے۔ ان پر اور دوسرے سرب نسل پرست رہنماؤں پر عالمی عدالت میں مقدمہ چلا۔ اسے دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد چلنے والے نیور مبرگ مقدمے سے کہیں زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ اس میں ملوث افراد کی تعداد 161 تھی۔ ان میں سے کچھ مفرور ہوئے لیکن آخرکار وہ بھی گرفتار ہوئے اور ان کے جرائم کی تصدیق ہوئی۔
جنگی جرائم کے اس مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے پریذائڈنگ جج الفانس اورے نے کہا ''ان لوگوں نے جن جرائم کا ارتکاب کیا وہ انسانی تاریخ میں نسلی صفائی اور ایک پوری آبادی کو ختم کردینے کے بدترین اقدامات تھے۔''
ملادچ نے اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات سے قطعی طور پر انکار کیا۔ فیصلہ آنے کے بعد اس کی قانونی ٹیم کا کہنا تھا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف عدالت میں جائیں گے۔ ملادچ کے ساتھ رادو وان کارادچ اور اس وقت کے سرب صدر سلوبودان ملاسودچ سب ہی ان جنگی جرائم میں شریک تھے۔ سرب صدر کا عزم تھا کہ سرائیوو سے تمام مسلمان اور کروٹ کیتھولک آبادی کا صفایا کردیا جائے۔
اس فیصلے کے بارے میں جینوا میں اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس چیف زیدر عدالحسین کے یہ جملے بہت اہم ہیں کہ ایک جرم کے 16 برس بعد مجسم بدی اس شخص پر پانچ برس تک مقدمے کا چلنا اور اسے سزا کا ملنا انصاف کی عظیم فتح ہے۔ ساری دنیا میں ملادچ کو تاحیات قید کی سزا پر بے شمار لوگ بہت خوش ہیں۔ ان میں وہ مائیں ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے ان کی بیٹیاں بے حرمت کی گئیں، ان کے بیٹے ذبح کیے گئے اور ان کا شاندار اور تاریخی شہر خاک میں ملا دیا گیا۔
خوش ہونے والوں میں سے ایک جنائین ڈی جیوانی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ میں نے ملادچ کو صرف ایک مرتبہ دیکھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب سرائیوو ملادچ کی فوجوں کے محاصرے میں تھا اور میں ایک صحافی کے طور پر اس سیہ بخت شہر میں رہتی تھی۔ میرا کام تھا کہ میں روزانہ مردہ خانے جاؤں، ہلاک شدگان کی گنتی کروں اور اسپتال میں ان بچوں کے سرہانے بیٹھ کر ان سے باتیں کروں جو چہرے پر شارپنل لگنے کی وجہ سے اندھے ہوگئے تھے۔ یہ 1993 کا ایک نہایت یخ دن تھا اور سرائیوو پر مسلسل بمباری ہورہی تھی۔ محاذ جنگ سے گزرتی ہوئی میں ایک کچی سڑک پر تھی جب میرا آمنا سامنا جنرل ملادچ سے ہوا۔ وہ اپنی جیپ میں اکڑا بیٹھا تھا۔
اسے دیکھ کر مجھے پتنگے لگ گئے، میں جیپ کی طرف بڑھی اور اس کی کھڑکی سے جھانک کر میں نے اس سے پوچھا کہ سرائیوو میں انسانی ہمدردی کی بنا پر رسد کا سلسلہ کب شروع ہوگا کیونکہ شہر میں خوراک کا ذخیرہ ختم ہوگیا ہے۔ شہری اور بہ طور خاص بچے بھوک سے مررہے ہیں۔ اس نے جو بجا طور پر بوسنیا کا قصاب کہلاتا تھا، مجھے نفرت بھری نگاہوں سے دیکھا اور اپنے ایڈی کامپ سے کہا، اس صحافی لڑکی سے کہو کہ اگر یہ ذرا اور قریب آئی تو میں اسے (اپنی جیپ سے) کچل دوں گا۔ ایڈی کامپ نے جلدی سے انگریزی میں کہا ''وہ یہ کر گزرے گا''۔
اب 76 برس کی عمر میں دی ہیگ کی عالمی عدالت انصاف نے اسے تاحیات قید کی سزا سنادی ہے۔ اس نے دس برس مختلف علاقوں میں پوشیدہ رہ کر گزارے۔ اس دوران جیوانی، ملادچ کی کھوج میں رہی۔ اس نے یہ بھی دیکھا کہ اسی دوران ملادچ کو اس ذاتی صدمے سے دوچار ہونا پڑا کہ اس کی جوان بیٹی باپ کے جرائم کی تاب نہ لاسکی اور اس نے خودکشی کرلی۔ یہ بھی ایک متضاد صورتحال ہے کہ چند دنوں پہلے جب ملادچ کو سزا سنائی گئی تو بیٹا، باپ کے حق میں نعرے لگا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ میرے باپ کے ساتھ انصاف نہیں ہوا ہے۔
جیوانی نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز بوسنیا میں ہونے والی خوں آشامی کی چشم دید گواہ کے طور پر کیا تھا اور پھر وہ اسی عذاب میں الجھ کر رہ گئی۔ اس نے ذبح کیے جانے والے مسلمان لڑکوں کو گہری خندقوں میں دفن کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس نے ریپ کیمپس کے دورے کیے تھے جہاں لڑکیوں کی بے حرمتی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے دیکھے تھے۔ یہ بچے جو نفرت کی پیداوار تھے۔ جنھیں باپ کی شفقت میسر نہیں آئے گی، جن کی مائیں انھیں مادری محبت نہ دے سکیں گی۔ جیوانی ایک عذاب میں رہی اور پھر وہ حقوق انسانی کے میدان میں اس عزم کے ساتھ اتری کہ وہ مظلوم انسانوں کے لیے اپنی بساط پر کرتی رہے گی۔ اس نے کئی کتابیں لکھیں، کئی ایوارڈ حاصل کیے۔
22 نومبر 2017 کو ملادچ کے خلاف فیصلے نے جیوانی ایک بار پھر یہ بات یاد دلائی ہے کہ انصاف خواہ بہت دیر سے ملے، تب بھی ملنا چاہیے کہ وہ مظلوموں کے غموں کو کچھ کم کرتا ہے۔ وہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ بوسنیا کا قصاب کہیں بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ نفرتوں کا زہر انسانوں کو حیوان بنادیتا ہے اور وہ کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔ ہمارے یہاں بھی نفرت کا تنور دہکانے والے بے شمار لوگ ہیں جو ہمارے ارد گرد پھرتے ہیں۔ انھیں موقع مل جائے تو وہ پاکستانیوں کے قصاب بن جائیں گے۔ اس سے پہلے کہ وہ ہمیں اور ہماری نسلوں کے سینے نفرتوں سے بھردیں، ہمیں ان سے نجات پانے کی ہر ممکن تدبیر کرنی چاہیے۔