مرجاؤں گا پر فن کو ہر قیمت پر زندہ رکھوں گا ’’لطیف سائیں کا فقیر ہوں‘‘
استاد وہی ہے، جو فن منتقل کرنے کی قابلیت رکھتا ہو’’مٹکا رقص‘‘ کی بقا کیلیے کوشاں لوک فن کار،سائیں داد فقیر کے شب و روز
خود کو لطیف سائیں کا فقیر کہتے ہیں، سفر کا باقاعدہ آغاز شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒکے مزار پر ہونے والے میلے ہی سے کیا!
مٹکا رقص میں یکتا، سائیں داد فقیر یقین رکھتے ہیں کہ فن کی کوئی قیمت نہیں ہوتی، فن کار پر لازم ہے کہ وہ اِسے زندہ رکھے۔ یہی جذبہ اُنھیں تحریک دیتا ہے، ورنہ حالات کی دُرشتی تو انتہا کو پہنچی ہوئی ہے، گھر میں مصائب نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، زوجہ امراض میں گِھری ہیں، بچوں کے پاس ملازمت نہیں۔
خود کو سندھ کی ثقافت کا اصل نمائندے قرار دینے والے سائیں داد نہ صرف پاکستان، بلکہ بیرون ملک بھی اپنے منفرد فن کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں۔ کئی ملکی و بین الاقوامی شخصیات کے سامنے فن کا جادو جگایا۔ ہر پلیٹ فورم پر خود کو منوایا، داد بٹوری، تاہم ''مٹکا رقص'' کو 46 برس دینے والا یہ فن کار تاحال کسی حکومتی تمغے سے محروم ہے، جس کا اِسے قلق ہے۔
سائیں داد کا گروپ چھے افراد پر مشتمل ہے۔ ذمے داریوں کی تقسیم کچھ یوں ہے کہ دو افراد مٹکا، دو ڈھول سنبھالتے ہیں۔ ایک شہنائی، ایک ڈفلی بجاتا ہے۔ بہ وقت ضرورت ذمے داریاں تبدیل بھی کی جاسکتی ہیں۔ اُن کے بہنوئی، محمد عمر، جن کا شمار سائیں داد اپنے اساتذہ میں کرتے ہیں، گروپ میں شامل ہیں۔ محمد اسلم، محمد عمر کے صاحب زادے ہیں۔ عبداﷲ، سائیں داد کے بڑے بیٹے ہیں، جو ڈھول بجاتے ہیں۔ محرم علی اور محراب داد بھی اُن ہی کے سپوت ہیں۔ چوتھا بیٹا، اقبال ڈفلی بجاتا ہے۔ سائیں داد کا فن پختہ ہے، لیکن اِس میں لچک بھی ہے۔ ضرورت کے پیش نظر اُن کا گروپ ماحول کے مطابق ڈھل جاتا ہے۔ جس نوعیت کی تقریب ہوتی ہے، اُس کا مزاج سامنے رکھتے ہوئے پرفارم کیا جاتا ہے۔
کیٹی بندر سائیں داد کا آبائی وطن ہے۔ جوگی ہیں، تعلق منگہار قوم سے ہے۔ عرس اور میلوں میں فن کا مظاہرہ کرنا پیشۂ آبا ہے۔ تقسیم سے قبل اُن کے ''بڑوں'' نے کراچی کا رخ کیا، یہیں 1951 میں لانڈھی میں اُنھوں نے آنکھ کھولی۔ ایک بہن، چار بھائیوں میں اُن کا نمبر دوسرا ہے۔ مٹکا تھام کر رقص کرنے کی صلاحیت تو بہ درجہ اتم موجود تھی کہ والد، محراب فقیر اِس فن میں یدطولیٰ رکھتے تھے، لیکن فنّی گرفت کا حصول مسلسل مشق سے نتھی رہا۔ باقاعدہ تربیت اپنے چچازاد، محمد خمیسو خان (مرحوم) سے حاصل کی۔ خمیسو خان نے اِس میدان میں اپنی انفرادی شناخت بنائی، سائیں داد نے ایک قابل شاگرد کی حیثیت سے اس فن کو آگے بڑھایا۔
کیا مٹکا رقص سے والد کو اتنی آمدنی ہوجاتی تھی کہ گھر چل سکے؟ اِس سوال کے جواب میں کہتے ہیں، وہ سستا زمانہ تھا، پھر غریب آدمی تھے، کم میں گزارہ کرنے کے عادی تھے۔ تربیت کی کہانی یوں ہے کہ کم سنی میں وہ ڈھول بجایا کرتے تھے۔ کبھی محمد خمیسو کے ساتھ پرفارم کرتے، کبھی محمد عمر اُنھیں ساتھ لے جاتے۔ یہ سیہون کے میلے کا قصّہ ہے، ڈھول بجتے بجتے وہ لے سے ہٹ گئے، اِس غلطی پر استاد، محمد خمیسو نے چانٹا رسید کر دیا۔ سائیں داد اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ میلہ چھوڑ کر لوٹ آئے۔ دُکھی ضرور تھے، لیکن صلاحیت مثبت شعبے میں خرچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ سوچا، استاد کے نقش پا کا تعاقب کرنا چاہیے، سو ڈھول چھوڑ کر مٹکا اٹھا لیا۔ اِس فیصلے پر استاد سے شاباشی ملی۔ کہتے ہیں،''استاد کے چانٹے نے میرے لیے راستہ کھول دیا۔ پھر میں نے خوب محنت کی۔ خود کو منوایا!''
کیا یہ حیرت کا احساس تھا، جس نے چودہ سالہ سائیں داد کو مٹکا اٹھانے پر اُکسایا؟ کہتے ہیں، ابتدا ہی سے یہ فن اُنھیں کھینچتا تھا۔ ''میں سوچتا تھا کہ ایک 'راڈ' ہے، جس پر مٹکا ٹکا ہوا ہے، اُسے اٹھا کر ڈھول کی تھاپ پر رقص کرنا بھی کیا فن ہے۔ اِسی جذبے کے تحت مٹکا رقص سیکھا۔ چودہ سال کی عمر میں یہ کام شروع کیا تھا، اب ہماری عمر ساٹھ برس ہوگئی ہے۔'' سیکھنے کے دوران غلطیوں پر سزا بھی ملا کرتی، جسے وہ تربیت کا حصہ تصور کرتے۔ والد سے بھی سیکھا۔ اِس فن پر والد کی گرفت کے تعلق سے ایک قصّہ سناتے ہیں،''یہ انگریزوں کے زمانے کی بات ہے۔ سولجر بازار میں ایک میلہ ہوا، وہاں ایک انگریز نے زمین پر ایک ایک روپے کے سو سکے رکھے۔ شرط یہ تھی کہ مٹکا سر پر رکھ کر رقص کرتے ہوئے اگر یہ سکے اٹھا سکتے ہو، تو اٹھا لو۔ میرے والد رقص بھی کرتے رہے، اور تمام سکے بھی اٹھا لیے!'' جب ایسا استاد میسر ہو، شاگرد کے فن کا نکھرنا تو یقینی تھا۔
پہلی باقاعدہ پرفارمینس عبداللطیف بھٹائی کے مزار پر دی۔ ردعمل نے حوصلہ دیا۔ دھیرے دھیرے اعتماد بحال ہوتا گیا، فن میں پختگی آتی گئی۔ سندھ میں ہونے والے میلوں میں فن کا مظاہرہ کیا، پھر دیگر صوبوں کا رخ کیا۔
81-82 میں پہلا غیرملکی دورہ کیا۔ ایک نجی کمپنی کے ساتھ اُن کے گروپ نے جنوبی کوریا کا سفر کیا، جہاں فن کے جھنڈے گاڑے۔ پھر جرمنی کا رخ کیا۔ ''ہم نے جرمنی کے دو دورے کیے ہیں۔ دونوں ہی بار اﷲ نے بہت عزت دی!'' بعد کے برسوں میں برطانیہ، چین، ہندوستان اور دبئی کے کام یاب دورے کیے۔ آخری دورہ بیلجیمکا تھا، وہ تجربہ بھی یادگار رہا۔ کہتے ہیں، یوں تو اُنھوں نے کئی ممالک دیکھے، لیکن برطانیہ بہت پسند آیا۔
جن قدآور شخصیات کے سامنے فن پیش کیا، اُن میں لیڈی ڈیانا بھی شامل ہیں۔ 95ء میں لوک ورثہ، اسلام آباد کے وفد کے ساتھ وہ برطانیہ گئے تھے۔ مختلف شہروں میں پرفارم کیا۔ اُن کے فن کی بہت تعریف ہوئی۔ لیڈی ڈیانا نے ستایشی سرٹیفکیٹ کے علاوہ تحفے میں ایک قلم اور ''سووینیر'' دیا۔ وہ سائیں داد کے لیے ایک یادگار لمحہ تھا۔ سابق صدرپاکستان، پرویز مشرف کے سامنے بھی، کراچی کے ایک کلب میں ہونے والی تقریب میں پرفارم کر چکے ہیں۔ بتاتے ہیں، پرویز مشرف نے پچاس ہزار روپے انعام دیا، اور سوال کیا۔ ''سائیں داد، تم مٹکا اٹھاتے ہو، مستقبل میں اِس فن کو زندہ رکھو گے؟'' اُنھوں نے جواب دیا۔ ''صاحب، خود تو مر جائوں گا، لیکن اِس فن کو ہر قیمت پر زندہ رکھوں گا!'' اِس پرفارمینس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کلب انتظامیہ نے اُن سے کہا تھا،''صدر صاحب آرہے ہیں، اُن کے پاس وقت کم ہے، آپ کچھ ایسا کریں کہ وہ کچھ دیر کے لیے رک جائیں!'' اُنھوں نے چیلینج قبول کیا، اور اِس مہارت سے فن کا مظاہرہ کیا کہ صدر پاکستان کو داد دینے کے لیے ٹھہرنا پڑا۔ اِس ضمن میں وہ کہتے ہیں،''دیکھیں، آدمی تو آتا ہے، چلا جاتا ہے، اصل چیز فن ہے، فن کو زندہ رہنا چاہیے!'' سائیں داد شہید بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے سامنے بھی پرفارم کرچکے ہیں۔
حکومتی سطح پر ہونے والی تقریبات میں سائیں داد نے پرفارم کیا، ثقافتی وفود کے ساتھ غیرملکی دورے کیے، البتہ بزرگان دین کے مزارات پر ہونے والے میلوں کا معاملہ کچھ اور ہے کہ وہاں پرفارم کرتے سمے عقیدت کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ یادیں بازیافت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایک بار وہ شاہ لطیف کے میلے میں، گورنر کے سامنے پرفارم کر رہے تھے۔ حسب روایت برہنہ پا تھے، جب گورنر نے دریافت کیا کہ وہ تپتی زمین پر ننگے پائوں کیوں پرفارم کر رہے ہیں، تو جواب دیا کہ وہ فقیر ہیں، آبلوں کی پروا نہیں، یہ عقیدت اور محبت کا معاملہ ہے۔ ''جب میں فنکشنز میں اسٹیج پر جاتا ہوں، تب بھی جوتے نہیں پہنتا۔ اِس بات پر میں لوگوں سے لڑتا بھی ہوں۔ یہ ہمارا رزق ہے۔''
اُنھیں شکایت ہے کہ ہمارے ہاں فقط وہ فن کار انعامات و اعزازات سے نوازے جاتے ہیں، جنھیں خواص کی سرپرستی حاصل ہو، اُن ہی کے ساتھ شامیں منائی جاتی ہیں، اور اُن ہی کی موت کے بعد تعزیتی جلسے ہوتے ہیں۔ ''ہمارے ایسے کئی لوک فن کار ہیں، جو اپنے کام میں یکتا ہیں، لیکن اُنھیں کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ وہ بے چارے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں۔''
چاروں بیٹے اُن کے شاگرد ہیں، جن پر سائیں داد نے خاصی محنت کی۔ فن سے محبت رکھنے والے دیگر افراد کی بھی تربیت کی۔ کہتے ہیں،''کوئی انسان فن ساتھ لے کر نہیں جاسکتا۔ اگر آپ کے پاس فن ہے، تو اُسے کسی کو دے دو۔ ایک روٹی اگر اضافی ہے، تو کسی ایسے کو دے دو، جسے اس کی ضرورت ہے!'' ان کے مطابق اصل استاد وہی ہے، جو اپنا فن منتقل کرنے کی قابلیت رکھتا ہو۔
بہ قول اُن کے، اِس وقت پاکستان میں، اُن سمیت فقط پانچ مٹکا رقاص ہیں، جنھیں اِس کام کو جاری رکھنے میں شدید مسائل درپیش ہیں۔ اِس صورت حال پر خاصے آزردہ ہیں۔ کہنا ہے، یہ فن دم توڑ رہا ہے، اِسے حکومت کی توجہ اور سرپرستی درکار ہے۔ ''اب اس فن کی قدر نہیں رہی۔ اِس سے گھر نہیں چل سکتا۔ اگر انسان بھوکا ہو، تو ایوارڈ کس کام کے؟ اب میرے بچوں کے پاس نوکری نہیں ہے۔ وہ مجبوری میں یہ کام کر رہے ہیں۔'' تین برس پہلے ایک پروگرام سے لوٹتے ہوئے وہ ٹریفک حادثے کا شکار ہوگئے تھے، جس میں ایک آنکھ شدید متاثر ہوئی، اِس سانحے نے خاصا پریشان رکھا۔ زوجہ بھی بیمار رہتی ہیں، محدود وسائل میں رہتے ہوئے علاج کروایا، پر افاقہ نہیں ہوا، خواہش مند ہیں کہ مخیر حضرات اور ادارے اُن سے تعاون کریں۔ کہتے ہیں، اُن کے فن کے قدرداں، اُنھیں سلام کرنے والے جب اُن کا گھر دیکھتے ہیں، تو تاسف سے پہلے اُنھیں حیرت پکڑ لیتی ہے کہ وہاں مصائب رینگتے ہیں۔
سائیں داد کے مطابق شہر قائد میں، ایک دن کی پرفارمینس کے اُن کے گروپ کو لگ بھگ پچیس ہزار روپے مل جاتے ہیں۔ بیرون شہر جائیں، تو ایک دن کے چالیس سے پچاس ہزار روپے ہاتھ آجاتے ہیں، لیکن اُنھیں خال خال ہی تقریبات میں مدعو کیا جاتا ہے کہ لوک فن کاروں کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی، پرفارمینس میں اکثر مہینوں کا وقفہ آجاتا ہے۔ ''کبھی مہینے میں ایک پروگرام مل جاتا ہے، کبھی دو مل جاتے ہیں، کبھی کبھار چار چار مہینے تک ایک پروگرام بھی نہیں ملتا۔''
اس انوکھے فن کار کے مطابق پاکستان سے زیادہ بیرون ملک اُن کے فن کی قدر ہے۔ اس ضمن میں ہندوستان کا ذکر کرتے ہیں، جہاں قدرداں موجود ہیں۔ بیرون ملک دوروں میں کئی یادگار اور خوش گوار لمحات آئے۔ دُکھ بھرے لمحات کی بھی زندگی میں کمی نہیں۔ فروغ ثقافت کے لیے کام کرنے والے اداروں سے خاصی شکایات ہیں۔
دیگر اداروں کے برعکس پی ٹی وی کے کردار سے مطمئن نظر آتے ہیں۔ پہلی بار بھٹو صاحب کے دور حکومت میں اُنھوں نے چھوٹے پردے پر پرفارم کیا۔ کہتے ہیں، دیگر چینلز کے مقابلے میں پی ٹی وی معاوضہ بھی اچھا دیتا ہے۔ ''پی ٹی وی سے ہمارا دل خوش ہے، عبدالکریم بلوچ اور منظور قریشی صاحب نے ہمارے ساتھ بہت تعاون کیا۔ اب بھی وقفے وقفے سے پروگرام مل جاتے ہیں۔''
75ء میں اُن کی شادی ہوئی۔ چار بیٹے، چار بیٹیاں ہیں۔ تین بیٹوں، تین بیٹیوں کی شادی ہوچکی ہے۔ خیر سے اب دادا نانا ہیں۔ ایک پوتے میں بھی یہ شوق منتقل ہوا، اُسے مٹکا سنبھالنے کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ سائیں داد ملکی مسائل سے پریشان نظر آتے ہیں، حالات میں بہتری کے آرزو مند ہیں۔ کھانے میں اُنھیں بھنڈی اور دال سے رغبت ہے۔ معتدل موسم بھاتا ہے۔ عام طور سے شلوار قیمص پہنتے ہیں، ویسے سوٹ پہننے کا بھی تجربہ کیا۔ پرفارمینس کے دوران ثقافتی رنگوں کی عکاسی کرتے لباس زیب تن کرتے ہیں۔ گائیکی میں مہدی حسن کے مداح ہیں۔ بچپن میں فلمیں بھی دیکھیں۔
''مٹکا رقص'' توازن کا نام ہے!
مٹکا رقص کے دوران، رقاص کے سر پر ساڑھے چار فٹ لمبی لوہے کی ایک ''راڈ'' ہوتی ہے، جس کے دوسرے سرے پر پانی سے بھرا ہوا مٹکا ٹکا ہوتا ہے، جس کا وزن لگ بھگ سولہ کلو ہوتا ہے۔ رقاص کے ہاتھ میں چپلیاں ہوتی ہیں۔ رقص کے دوران ''راڈ'' فقط سر پر نہیں رہتی، کبھی فن کار اِسے ہاتھ میں پکڑ لیتا ہے، کبھی دانتوں پر ٹکا لیتا ہے۔
سائیں داد کے مطابق مٹکا رقص ''توازن'' کا نام ہے۔ کہتے ہیں، وہ مٹکا سنبھالتے ہوئے ڈھول بھی بجا لیتے ہیں، پی ٹی وی کے ایک پروگرام میں اِس کا کام یاب مظاہرہ کیا۔ ''راڈ'' پر دو مٹکے ٹکا کر بھی رقص کرسکتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ رقص کے دوران مٹکا گر بھی سکتا ہے، چوٹ بھی لگ سکتی ہے۔ خود بھی ایک بار زخمی ہوئے۔ اُن کے مطابق شادی بیاہ کی تقریبات میں جہاں، گہماگہمی ہوتی ہے، اس طرح کے واقعات پیش آنے کا زیادہ امکان ہے، لیکن کبھی کسی فنکشن میں ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا، جس کے لیے وہ اپنے رب کے ممنون ہیں۔
مٹکا رقص میں یکتا، سائیں داد فقیر یقین رکھتے ہیں کہ فن کی کوئی قیمت نہیں ہوتی، فن کار پر لازم ہے کہ وہ اِسے زندہ رکھے۔ یہی جذبہ اُنھیں تحریک دیتا ہے، ورنہ حالات کی دُرشتی تو انتہا کو پہنچی ہوئی ہے، گھر میں مصائب نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، زوجہ امراض میں گِھری ہیں، بچوں کے پاس ملازمت نہیں۔
خود کو سندھ کی ثقافت کا اصل نمائندے قرار دینے والے سائیں داد نہ صرف پاکستان، بلکہ بیرون ملک بھی اپنے منفرد فن کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں۔ کئی ملکی و بین الاقوامی شخصیات کے سامنے فن کا جادو جگایا۔ ہر پلیٹ فورم پر خود کو منوایا، داد بٹوری، تاہم ''مٹکا رقص'' کو 46 برس دینے والا یہ فن کار تاحال کسی حکومتی تمغے سے محروم ہے، جس کا اِسے قلق ہے۔
سائیں داد کا گروپ چھے افراد پر مشتمل ہے۔ ذمے داریوں کی تقسیم کچھ یوں ہے کہ دو افراد مٹکا، دو ڈھول سنبھالتے ہیں۔ ایک شہنائی، ایک ڈفلی بجاتا ہے۔ بہ وقت ضرورت ذمے داریاں تبدیل بھی کی جاسکتی ہیں۔ اُن کے بہنوئی، محمد عمر، جن کا شمار سائیں داد اپنے اساتذہ میں کرتے ہیں، گروپ میں شامل ہیں۔ محمد اسلم، محمد عمر کے صاحب زادے ہیں۔ عبداﷲ، سائیں داد کے بڑے بیٹے ہیں، جو ڈھول بجاتے ہیں۔ محرم علی اور محراب داد بھی اُن ہی کے سپوت ہیں۔ چوتھا بیٹا، اقبال ڈفلی بجاتا ہے۔ سائیں داد کا فن پختہ ہے، لیکن اِس میں لچک بھی ہے۔ ضرورت کے پیش نظر اُن کا گروپ ماحول کے مطابق ڈھل جاتا ہے۔ جس نوعیت کی تقریب ہوتی ہے، اُس کا مزاج سامنے رکھتے ہوئے پرفارم کیا جاتا ہے۔
کیٹی بندر سائیں داد کا آبائی وطن ہے۔ جوگی ہیں، تعلق منگہار قوم سے ہے۔ عرس اور میلوں میں فن کا مظاہرہ کرنا پیشۂ آبا ہے۔ تقسیم سے قبل اُن کے ''بڑوں'' نے کراچی کا رخ کیا، یہیں 1951 میں لانڈھی میں اُنھوں نے آنکھ کھولی۔ ایک بہن، چار بھائیوں میں اُن کا نمبر دوسرا ہے۔ مٹکا تھام کر رقص کرنے کی صلاحیت تو بہ درجہ اتم موجود تھی کہ والد، محراب فقیر اِس فن میں یدطولیٰ رکھتے تھے، لیکن فنّی گرفت کا حصول مسلسل مشق سے نتھی رہا۔ باقاعدہ تربیت اپنے چچازاد، محمد خمیسو خان (مرحوم) سے حاصل کی۔ خمیسو خان نے اِس میدان میں اپنی انفرادی شناخت بنائی، سائیں داد نے ایک قابل شاگرد کی حیثیت سے اس فن کو آگے بڑھایا۔
کیا مٹکا رقص سے والد کو اتنی آمدنی ہوجاتی تھی کہ گھر چل سکے؟ اِس سوال کے جواب میں کہتے ہیں، وہ سستا زمانہ تھا، پھر غریب آدمی تھے، کم میں گزارہ کرنے کے عادی تھے۔ تربیت کی کہانی یوں ہے کہ کم سنی میں وہ ڈھول بجایا کرتے تھے۔ کبھی محمد خمیسو کے ساتھ پرفارم کرتے، کبھی محمد عمر اُنھیں ساتھ لے جاتے۔ یہ سیہون کے میلے کا قصّہ ہے، ڈھول بجتے بجتے وہ لے سے ہٹ گئے، اِس غلطی پر استاد، محمد خمیسو نے چانٹا رسید کر دیا۔ سائیں داد اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ میلہ چھوڑ کر لوٹ آئے۔ دُکھی ضرور تھے، لیکن صلاحیت مثبت شعبے میں خرچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ سوچا، استاد کے نقش پا کا تعاقب کرنا چاہیے، سو ڈھول چھوڑ کر مٹکا اٹھا لیا۔ اِس فیصلے پر استاد سے شاباشی ملی۔ کہتے ہیں،''استاد کے چانٹے نے میرے لیے راستہ کھول دیا۔ پھر میں نے خوب محنت کی۔ خود کو منوایا!''
کیا یہ حیرت کا احساس تھا، جس نے چودہ سالہ سائیں داد کو مٹکا اٹھانے پر اُکسایا؟ کہتے ہیں، ابتدا ہی سے یہ فن اُنھیں کھینچتا تھا۔ ''میں سوچتا تھا کہ ایک 'راڈ' ہے، جس پر مٹکا ٹکا ہوا ہے، اُسے اٹھا کر ڈھول کی تھاپ پر رقص کرنا بھی کیا فن ہے۔ اِسی جذبے کے تحت مٹکا رقص سیکھا۔ چودہ سال کی عمر میں یہ کام شروع کیا تھا، اب ہماری عمر ساٹھ برس ہوگئی ہے۔'' سیکھنے کے دوران غلطیوں پر سزا بھی ملا کرتی، جسے وہ تربیت کا حصہ تصور کرتے۔ والد سے بھی سیکھا۔ اِس فن پر والد کی گرفت کے تعلق سے ایک قصّہ سناتے ہیں،''یہ انگریزوں کے زمانے کی بات ہے۔ سولجر بازار میں ایک میلہ ہوا، وہاں ایک انگریز نے زمین پر ایک ایک روپے کے سو سکے رکھے۔ شرط یہ تھی کہ مٹکا سر پر رکھ کر رقص کرتے ہوئے اگر یہ سکے اٹھا سکتے ہو، تو اٹھا لو۔ میرے والد رقص بھی کرتے رہے، اور تمام سکے بھی اٹھا لیے!'' جب ایسا استاد میسر ہو، شاگرد کے فن کا نکھرنا تو یقینی تھا۔
پہلی باقاعدہ پرفارمینس عبداللطیف بھٹائی کے مزار پر دی۔ ردعمل نے حوصلہ دیا۔ دھیرے دھیرے اعتماد بحال ہوتا گیا، فن میں پختگی آتی گئی۔ سندھ میں ہونے والے میلوں میں فن کا مظاہرہ کیا، پھر دیگر صوبوں کا رخ کیا۔
81-82 میں پہلا غیرملکی دورہ کیا۔ ایک نجی کمپنی کے ساتھ اُن کے گروپ نے جنوبی کوریا کا سفر کیا، جہاں فن کے جھنڈے گاڑے۔ پھر جرمنی کا رخ کیا۔ ''ہم نے جرمنی کے دو دورے کیے ہیں۔ دونوں ہی بار اﷲ نے بہت عزت دی!'' بعد کے برسوں میں برطانیہ، چین، ہندوستان اور دبئی کے کام یاب دورے کیے۔ آخری دورہ بیلجیمکا تھا، وہ تجربہ بھی یادگار رہا۔ کہتے ہیں، یوں تو اُنھوں نے کئی ممالک دیکھے، لیکن برطانیہ بہت پسند آیا۔
جن قدآور شخصیات کے سامنے فن پیش کیا، اُن میں لیڈی ڈیانا بھی شامل ہیں۔ 95ء میں لوک ورثہ، اسلام آباد کے وفد کے ساتھ وہ برطانیہ گئے تھے۔ مختلف شہروں میں پرفارم کیا۔ اُن کے فن کی بہت تعریف ہوئی۔ لیڈی ڈیانا نے ستایشی سرٹیفکیٹ کے علاوہ تحفے میں ایک قلم اور ''سووینیر'' دیا۔ وہ سائیں داد کے لیے ایک یادگار لمحہ تھا۔ سابق صدرپاکستان، پرویز مشرف کے سامنے بھی، کراچی کے ایک کلب میں ہونے والی تقریب میں پرفارم کر چکے ہیں۔ بتاتے ہیں، پرویز مشرف نے پچاس ہزار روپے انعام دیا، اور سوال کیا۔ ''سائیں داد، تم مٹکا اٹھاتے ہو، مستقبل میں اِس فن کو زندہ رکھو گے؟'' اُنھوں نے جواب دیا۔ ''صاحب، خود تو مر جائوں گا، لیکن اِس فن کو ہر قیمت پر زندہ رکھوں گا!'' اِس پرفارمینس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کلب انتظامیہ نے اُن سے کہا تھا،''صدر صاحب آرہے ہیں، اُن کے پاس وقت کم ہے، آپ کچھ ایسا کریں کہ وہ کچھ دیر کے لیے رک جائیں!'' اُنھوں نے چیلینج قبول کیا، اور اِس مہارت سے فن کا مظاہرہ کیا کہ صدر پاکستان کو داد دینے کے لیے ٹھہرنا پڑا۔ اِس ضمن میں وہ کہتے ہیں،''دیکھیں، آدمی تو آتا ہے، چلا جاتا ہے، اصل چیز فن ہے، فن کو زندہ رہنا چاہیے!'' سائیں داد شہید بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے سامنے بھی پرفارم کرچکے ہیں۔
حکومتی سطح پر ہونے والی تقریبات میں سائیں داد نے پرفارم کیا، ثقافتی وفود کے ساتھ غیرملکی دورے کیے، البتہ بزرگان دین کے مزارات پر ہونے والے میلوں کا معاملہ کچھ اور ہے کہ وہاں پرفارم کرتے سمے عقیدت کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ یادیں بازیافت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایک بار وہ شاہ لطیف کے میلے میں، گورنر کے سامنے پرفارم کر رہے تھے۔ حسب روایت برہنہ پا تھے، جب گورنر نے دریافت کیا کہ وہ تپتی زمین پر ننگے پائوں کیوں پرفارم کر رہے ہیں، تو جواب دیا کہ وہ فقیر ہیں، آبلوں کی پروا نہیں، یہ عقیدت اور محبت کا معاملہ ہے۔ ''جب میں فنکشنز میں اسٹیج پر جاتا ہوں، تب بھی جوتے نہیں پہنتا۔ اِس بات پر میں لوگوں سے لڑتا بھی ہوں۔ یہ ہمارا رزق ہے۔''
اُنھیں شکایت ہے کہ ہمارے ہاں فقط وہ فن کار انعامات و اعزازات سے نوازے جاتے ہیں، جنھیں خواص کی سرپرستی حاصل ہو، اُن ہی کے ساتھ شامیں منائی جاتی ہیں، اور اُن ہی کی موت کے بعد تعزیتی جلسے ہوتے ہیں۔ ''ہمارے ایسے کئی لوک فن کار ہیں، جو اپنے کام میں یکتا ہیں، لیکن اُنھیں کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ وہ بے چارے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں۔''
چاروں بیٹے اُن کے شاگرد ہیں، جن پر سائیں داد نے خاصی محنت کی۔ فن سے محبت رکھنے والے دیگر افراد کی بھی تربیت کی۔ کہتے ہیں،''کوئی انسان فن ساتھ لے کر نہیں جاسکتا۔ اگر آپ کے پاس فن ہے، تو اُسے کسی کو دے دو۔ ایک روٹی اگر اضافی ہے، تو کسی ایسے کو دے دو، جسے اس کی ضرورت ہے!'' ان کے مطابق اصل استاد وہی ہے، جو اپنا فن منتقل کرنے کی قابلیت رکھتا ہو۔
بہ قول اُن کے، اِس وقت پاکستان میں، اُن سمیت فقط پانچ مٹکا رقاص ہیں، جنھیں اِس کام کو جاری رکھنے میں شدید مسائل درپیش ہیں۔ اِس صورت حال پر خاصے آزردہ ہیں۔ کہنا ہے، یہ فن دم توڑ رہا ہے، اِسے حکومت کی توجہ اور سرپرستی درکار ہے۔ ''اب اس فن کی قدر نہیں رہی۔ اِس سے گھر نہیں چل سکتا۔ اگر انسان بھوکا ہو، تو ایوارڈ کس کام کے؟ اب میرے بچوں کے پاس نوکری نہیں ہے۔ وہ مجبوری میں یہ کام کر رہے ہیں۔'' تین برس پہلے ایک پروگرام سے لوٹتے ہوئے وہ ٹریفک حادثے کا شکار ہوگئے تھے، جس میں ایک آنکھ شدید متاثر ہوئی، اِس سانحے نے خاصا پریشان رکھا۔ زوجہ بھی بیمار رہتی ہیں، محدود وسائل میں رہتے ہوئے علاج کروایا، پر افاقہ نہیں ہوا، خواہش مند ہیں کہ مخیر حضرات اور ادارے اُن سے تعاون کریں۔ کہتے ہیں، اُن کے فن کے قدرداں، اُنھیں سلام کرنے والے جب اُن کا گھر دیکھتے ہیں، تو تاسف سے پہلے اُنھیں حیرت پکڑ لیتی ہے کہ وہاں مصائب رینگتے ہیں۔
سائیں داد کے مطابق شہر قائد میں، ایک دن کی پرفارمینس کے اُن کے گروپ کو لگ بھگ پچیس ہزار روپے مل جاتے ہیں۔ بیرون شہر جائیں، تو ایک دن کے چالیس سے پچاس ہزار روپے ہاتھ آجاتے ہیں، لیکن اُنھیں خال خال ہی تقریبات میں مدعو کیا جاتا ہے کہ لوک فن کاروں کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی، پرفارمینس میں اکثر مہینوں کا وقفہ آجاتا ہے۔ ''کبھی مہینے میں ایک پروگرام مل جاتا ہے، کبھی دو مل جاتے ہیں، کبھی کبھار چار چار مہینے تک ایک پروگرام بھی نہیں ملتا۔''
اس انوکھے فن کار کے مطابق پاکستان سے زیادہ بیرون ملک اُن کے فن کی قدر ہے۔ اس ضمن میں ہندوستان کا ذکر کرتے ہیں، جہاں قدرداں موجود ہیں۔ بیرون ملک دوروں میں کئی یادگار اور خوش گوار لمحات آئے۔ دُکھ بھرے لمحات کی بھی زندگی میں کمی نہیں۔ فروغ ثقافت کے لیے کام کرنے والے اداروں سے خاصی شکایات ہیں۔
دیگر اداروں کے برعکس پی ٹی وی کے کردار سے مطمئن نظر آتے ہیں۔ پہلی بار بھٹو صاحب کے دور حکومت میں اُنھوں نے چھوٹے پردے پر پرفارم کیا۔ کہتے ہیں، دیگر چینلز کے مقابلے میں پی ٹی وی معاوضہ بھی اچھا دیتا ہے۔ ''پی ٹی وی سے ہمارا دل خوش ہے، عبدالکریم بلوچ اور منظور قریشی صاحب نے ہمارے ساتھ بہت تعاون کیا۔ اب بھی وقفے وقفے سے پروگرام مل جاتے ہیں۔''
75ء میں اُن کی شادی ہوئی۔ چار بیٹے، چار بیٹیاں ہیں۔ تین بیٹوں، تین بیٹیوں کی شادی ہوچکی ہے۔ خیر سے اب دادا نانا ہیں۔ ایک پوتے میں بھی یہ شوق منتقل ہوا، اُسے مٹکا سنبھالنے کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ سائیں داد ملکی مسائل سے پریشان نظر آتے ہیں، حالات میں بہتری کے آرزو مند ہیں۔ کھانے میں اُنھیں بھنڈی اور دال سے رغبت ہے۔ معتدل موسم بھاتا ہے۔ عام طور سے شلوار قیمص پہنتے ہیں، ویسے سوٹ پہننے کا بھی تجربہ کیا۔ پرفارمینس کے دوران ثقافتی رنگوں کی عکاسی کرتے لباس زیب تن کرتے ہیں۔ گائیکی میں مہدی حسن کے مداح ہیں۔ بچپن میں فلمیں بھی دیکھیں۔
''مٹکا رقص'' توازن کا نام ہے!
مٹکا رقص کے دوران، رقاص کے سر پر ساڑھے چار فٹ لمبی لوہے کی ایک ''راڈ'' ہوتی ہے، جس کے دوسرے سرے پر پانی سے بھرا ہوا مٹکا ٹکا ہوتا ہے، جس کا وزن لگ بھگ سولہ کلو ہوتا ہے۔ رقاص کے ہاتھ میں چپلیاں ہوتی ہیں۔ رقص کے دوران ''راڈ'' فقط سر پر نہیں رہتی، کبھی فن کار اِسے ہاتھ میں پکڑ لیتا ہے، کبھی دانتوں پر ٹکا لیتا ہے۔
سائیں داد کے مطابق مٹکا رقص ''توازن'' کا نام ہے۔ کہتے ہیں، وہ مٹکا سنبھالتے ہوئے ڈھول بھی بجا لیتے ہیں، پی ٹی وی کے ایک پروگرام میں اِس کا کام یاب مظاہرہ کیا۔ ''راڈ'' پر دو مٹکے ٹکا کر بھی رقص کرسکتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ رقص کے دوران مٹکا گر بھی سکتا ہے، چوٹ بھی لگ سکتی ہے۔ خود بھی ایک بار زخمی ہوئے۔ اُن کے مطابق شادی بیاہ کی تقریبات میں جہاں، گہماگہمی ہوتی ہے، اس طرح کے واقعات پیش آنے کا زیادہ امکان ہے، لیکن کبھی کسی فنکشن میں ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا، جس کے لیے وہ اپنے رب کے ممنون ہیں۔