امریکا اور طالبان کے مذاکرات کی بحالی کا انکشاف

طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد امریکا نے ہی حامد کرزئی کو اقتدار دلایا تھا۔

حامد کرزئی کی امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات پر سخت نکتہ چینی سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ امریکا کو اب حامد کرزئی کے کردار کی ضرورت نہیں رہی۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
افغان صدر حامد کرزئی نے کابل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان ایک برس قبل تعطل کا شکار ہونے والے مذاکرات دوبارہ شروع ہو گئے ہیں اور قطر میں روزانہ کی بنیاد پر بات چیت جاری ہے۔ سینئر طالبان رہنما امریکی حکام کے ساتھ اس بات چیت میں شامل ہیں۔

انھوں نے یہ انکشاف ایسے موقع پر کیا جب امریکا کے وزیر داخلہ چک ہیگل کابل کے دورے پر آئے ہوئے ہیں،میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر کرزئی کے یہ ریمارکس خاصے حیران کن ہیں کیونکہ امریکا کی حکومت اور طالبان دونوں برملا کہہ رہے کہ ان کے درمیان تعطل شدہ مذاکرات بحال نہیں ہوئے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ امریکی انتظامیہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں کرزئی حکومت کو پوری طرح اعتماد میں نہیں لے رہی۔

طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد امریکا نے ہی حامد کرزئی کو اقتدار دلایا تھا، افغانستان کی سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا جائے توعیاں ہوتا ہے کہ وہ اب تک علامتی صدر کے طور پر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جب کہ اصل اختیارات و حکومتی طاقت امریکا کے پاس ہے۔ حامد کرزئی کی بے بس حکومت امریکی کارروائیوں میں بے گناہ افغان شہریوں کی ہلاکتوں کے خلاف کبھی لب کشا نہیں ہوئی، اس کے صلے میں امریکی عنایات کی بدولت حامد کرزئی انتخابات میں دوبارہ صدر منتخب ہوئے۔

اب حامد کرزئی کی امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات پر سخت نکتہ چینی سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ امریکا کو اب حامد کرزئی کے کردار کی ضرورت نہیں رہی اور حامد کرزئی کو مستقبل کے افغان سیٹ اپ میں اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔ حامد کرزئی امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات پر اس قدر چراغ پا ہیں کہ انھوں نے افغانستان کے دورے پر آئے ہوئے امریکی وزیر دفاع چک ہیگل کے ساتھ ایوان صدر میں اپنی طے شدہ پریس کانفرنس کو منسوخ کر دیا ہے۔ بی بی سی بھی یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ صدر کرزئی اور امریکا کے تعلقات خراب ہیں۔

امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات خاصے عرصے سے جاری ہیں، ان میں اتار چڑھائو آتا رہا ہے مگر امریکا جو 2014ء میں افغانستان سے اپنی افواج بڑی تعداد میں نکالنے کا اعلان کر چکا ہے اب نئے حکومتی سیٹ اپ کے بارے میں متفکر ہے۔ وہ ایسا سیٹ اپ لانا چاہتا ہے جو خطے میں اس کے مفادات کا بلا چون و چرا بھرپور انداز میں تحفظ کرتا رہے۔ نائن الیون کے بعد امریکا نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ تو بجا دی اور طالبان کو بھاگنے پر مجبور کر دیا مگر پہاڑوں میں چھپے ہوئے شکست خوردہ طالبان جنگجو امریکا کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہوئے۔


طالبان جنگجوئوں نے امریکا کے خلاف گوریلا جنگ شروع کر دی۔ تمام ترجدید ترین ٹیکنالوجی اور مہلک ہتھیاروں سے لیس امریکا طالبان کی مزاحمت ختم نہ کرسکا اور بالآخر ان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور ہو گیا۔ امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں کیا طے پا رہا ہے اس کی تفصیلات تو سامنے نہیں آ سکیں مگر قرائن بتا رہے ہیں کہ طالبان امریکا کی بیشتر شرائط تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں، دونوں فریق ایک دوسرے کو دباؤ میں رکھنے کے لیے اپنی کارروائیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ افغان حکام کے مطابق گزشتہ روز مشرقی صوبہ ننگر ہار میں طالبان نے اتحادی فوجی قافلے پر اچانک حملہ کر دیا۔ سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں چار طالبان ہلاک ہو گئے مگر طالبان نے پیغام دیا ہے کہ وہ اب بھی امریکی فورسز کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔

امریکا کو بخوبی اندازہ ہے کہ 2014ء میں اس کی افواج کے جزوی انخلا کے بعد طالبان اس پر بھرپور حملہ کرنے کی کوشش کریں گے اور کیا اس وقت کرزئی حکومت طالبان کا مقابلہ کرسکے گی۔ ممکن ہے کہ مذاکرات میں طالبان کرزئی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہوں شاید یہی وجہ ہے کہ کرزئی امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی سب سے زیادہ مخالفت کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ دونوں 2014ء کے بعد خوف کے بیج بو رہے ہیں اور حالیہ خود کش حملے بھی اسی نظریے سے کیے گئے تاکہ افغانستان میں غیر ملکی افواج کے قیام کو طول دیا جا سکے۔ افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ امریکا پر معاشی بوجھ بن چکی ہے۔ وہ طالبان کو ختم کرنے اور اپنا تسلط مضبوط بنانے کے لیے اربوں ڈالر جھونک چکا ہے۔اوبامہ انتظامیہ اس صورتحال سے نکلناچاہتی ہے۔

امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی تفصیلات تو منظر عام پر نہیں آئیں مگر امریکا کو پاکستان کے مفادات کا ہر حال میں خیال رکھنا ہو گا اور اسے کوئی ایسا معاہدہ نہیں کرنا چاہیے جس سے پاکستانی مفادات کو زک پہنچے۔ افغانستان میں رونما ہونے والے واقعات کا اثر پاکستان پر بھی پڑتا ہے۔ دہشت گردی کی اس جنگ میں امریکا کا اتحادی ہونے کے ناتے پاکستان نے جانی و مالی بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔ امریکا کو یہ امر نہیں بھولنا چاہیے کہ افغانستان سے امریکی سازوسامان کی منتقلی پاکستان کے راستے ہو گی اور پاکستان کے تعاون کے بغیر باحفاظت منتقلی ممکن نہیں۔ اگر امریکا پاکستان کے مفادات کا خیال نہیں رکھتا اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ اس خطے میں خود امریکی مفادات کے لیے نقصان دہ ہو گا۔

افغانستان کی موجودہ انتظامیہ کے پاکستان کے خلاف چند اقدامات بھی سامنے آ چکے ہیں۔ افغان فورسز بلااشتعال پاکستانی علاقوں پر فائرنگ کردیتیں اور تجارتی مال لے کر آنے والے ٹرکوں کو بلا جواز روک لیتی ہیں۔ اس لیے موجودہ افغان انتظامیہ پاکستان کے لیے زیادہ سود مند نہیں۔ لہٰذا افغانستان کے نئے سیٹ اپ میں امریکا کو پاکستان کے مفادات کا خیال رکھنا ہو گا۔ پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ امریکا سے مطالبہ کرے کہ وہ مذاکرات میں پاکستان کے مفادات کے برخلاف کوئی معاہدہ نہ کرے اور نیا سیٹ اپ امریکا کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے بھی قابل قبول ہونا چاہیے۔

امریکا اب افغانستان میں زیادہ عرصہ جنگ جاری نہیں رہ سکتا۔ اسی لیے اس نے طالبان سے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے قطر میں طالبان کا دفتر بنوایا ہے۔ جب تک دونوں فریق قابل قبول حل پر نہیں پہنچتے مذاکرات کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا۔ اس تناظر میں پاکستان ہی وہ واحد قوت ہے جو امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کے لیے اب بھی اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس لیے پاکستان کے لیے بھی ناگزیر ہے کہ وہ اس موقع پر زیادہ سے زیادہ متحرک کردار ادا کرے تاکہ وطن عزیز کی مغربی سرحدیں پر امن ہو سکیں۔
Load Next Story