کینگرو سیاست اور جمہوریت کی تھیلی
مغل سلطنت کی تباہی میں کوئے یار کی رونقوں کا بھی بڑا دخل رہا ہے۔
پچھلے دنوں حکومت کی طرف سے اعلیٰ افسران کو او ایس ڈی بنانے کے کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے آبزرویشن دی کہ ہمارے ملک میں بادشاہت تو ختم ہوگئی ہے لیکن بادشاہانہ نظام ابھی تک باقی ہے۔ ہندوستان میں ایک ہزار سالہ مسلم بادشاہتوں کا نظام آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ختم ہوگیا۔ انگریزوں نے غیر ضروری طور پر بہادر شاہ ظفر کو دہلی سے اٹھاکر رنگون میں قید کردیا، بہادرشاہ ظفر نے جو بادشاہ ہونے کے ساتھ ایک شاعر بھی تھا اپنی اس اسیری اور غریب الوطنی سے مایوس ہوکر کہا تھا:
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
بہادر شاہ کی کوئے یار کی اصطلاح بڑی معنی خیز ہے کیونکہ اس دور میں کوئے یار بادشاہوں اور امرائے سلطنت کی وجہ سے روشن اور آباد رہتا تھا۔ مغل سلطنت کی تباہی میں کوئے یار کی رونقوں کا بھی بڑا دخل رہا ہے۔ بہادر شاہ ظفر کی سلطنت کے خاتمے کے بعد ہندوستان میں مسلمان بادشاہتوں کا جو سلسلہ رک گیا تھا وہ 1947 میں ایک نئے مسلم ملک کے قیام کے ساتھ دوبارہ شروع ہوا۔ بادشاہی نظام کی عمارت امراء کے فاؤنڈیشن پر کھڑی رہتی تھی۔ ان امراء کا اصلی نام جاگیردار ہوتا تھا۔
انگریزوں نے بادشاہت تو ختم کردی لیکن جاگیرداروں کو ختم نہ کیا بلکہ اس نظام کو مزید جاگیریں دے کر اور فروغ دیا، انگریز بڑے ہوشیار تھے، وہ مسلم اشرافیہ کی نفسیات کو اچھی طرح سمجھ گئے تھے کہ یہ کلاس امتیاز اور دولت ہی سے قابو میں رہتی ہے سو انھوں نے بہادر شاہ ظفر کی باقیات کو مزید جاگیریں ہی نہیں دیں بلکہ ''سر، خان بہادر، سردار، نواب، نوابزادہ'' جیسے خطابات دے کر ایک ایسی کلاس پیدا کی جو 1947 تک ان کی مدد اور اطاعت کرتی رہی۔
انگریزوں کی ہندوستان پر دو سو سالہ حکومت بھی اسی کلاس کی غلامانہ خدمات اور وفاداریوں کی مرہون منت تھی۔ اس کلاس کی بہت ساری خوبیوں میں ایک خوبی اس کا سازشی ذہن ہے۔ شخصی حکمرانوں اور ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ حکومت بھی اس سازشی کلچر کے ساتھ لڑتی مرتی رہی جس کے ڈانڈے مسلمانوں کے اسی دور ملوکیت سے جاملتے ہیں ۔
مغلوں کا یہ کلچرجو ان کی تباہی کا باعث بنا، امراؤ جان ادا تخلیق کرتا ہوا آگے بڑھتا رہا،جو اب مہذب بستیوں میں بھی ڈیرے ڈالے ہوئے ہے جو کہیں بے بس مختاراں مائی، کہیں بے قابو شاہ رخ کی شکل میں اپنے جلوے دکھارہا ہے۔ اس کلچر کی گہرائی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ مغلوں کے دور میں امراء اپنے بچوں کو تہذیب سیکھنے کے لیے طوائفوں کے کوٹھوں پر بھیجا کرتے تھے، ہمارے انقلابی اور دھیمے سروں کے شاعر فیض احمد فیض بھی جب سوئے دار جاتے ہیں تو کوئے یار ہی سے نکلتے ہیں۔ کیا بہادر شاہ ظفر کے کوئے یار اور فیض کے کوئے یار میں کوئی رشتہ ہے؟
پاکستان بننے کے امکانات جب روشن ہوئے تو بہادرشاہ اور انگریزوں کی پروردہ کلاس کے کان کھڑے ہوگئے۔ اس کے سازشی ذہن میں یہ خیال آیا کہ اگر ہم ذرا ایکٹو ہوجائیں تو نئے ملک کی بادشاہت کو اپنے قبضے میں کرسکتے ہیں۔ سو اس کی پہلی منزل مسلم لیگ تھی جب اس منزل کو کامیابی سے سر کرلیا گیا تو آگے کا سفر شروع ہوا لیکن جب مسافروں نے دیکھا کہ ایک ٹی بی کا مریض اور ایک نواب ان کی راہ کے روڑے بن رہے ہیں تو انھوں نے بڑی ہوشیاری، بڑی سازشوں سے ان دونوں رکاوٹوں کو راستے سے ہٹادیا۔
پھر کیا تھا کبھی براہ راست کبھی درپردہ پاکستان کے تخت تاؤس پر براجمان رہے، اب امراؤ جان کے کوٹھے کو اس سازشی طبقے نے سیاست میں بدل دیا ہے اور اس پر جمہوریت کا خوبصورت غلاف ڈال دیا ہے، عوام بے چارے جو ایک ہزار سال تک رعایا رہے، عوام بننے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن بہادر شاہ ظفر کی پروردہ یہ ایلیٹ پہاڑ بن کر ان کی راہ میں حائل ہورہی ہے۔
میں جب قومی ترانے پر نظر ڈالتا ہوں تو جہاں احترام سے کھڑا ہوجاتا ہوں وہیں یہ مصرعہ میرے ذہن میں اٹک کر ''قوم ملک سلطنت'' یہ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ کیا حفیظ جالندھری کو پاکستان کے مستقبل کا اندازہ ہوگیا تھا؟ بہرحال آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں وہ بلاشبہ بہادر شاہ ظفر کا ہی تسلسل ہے، خواہ اس نظام کے نورتن اسے کتنا ہی ''جمہوری'' ثابت کرنے کی کوششیں کریں، یہ امراؤ جان ادا ہی رہے گا۔ اور میڈیائی دانشور اس کی قصیدہ خوانی کرتے رہیں گے۔
جنگلی جانوروں میں کینگرو ایک ایسا جانور ہے جس کے پیٹ پر ایک تھیلی لگی رہتی ہے، یہ تھیلی کینگرو بازار سے خرید کر نہیں لگالیتا بلکہ یہ تھیلی اسے پیدائشی ملتی ہے، وہ تھیلی کے ساتھ ہی دنیا میں آتا ہے، یہ تھیلی اس کا وراثتی سرمایہ ہے، جس میں وہ اپنے بچوں کو لیے پھرتا ہے، ہمارے بہادر شاہ ظفر کے سجادہ نشین سیاستدانوں پر ہی نہیں مذہبی رہنماؤں پر بھی نظر ڈالیں تو ہر ایک کے پیٹ پر تھیلی نظر آئے گی جس میں وہ اپنے ولی عہدوں کو بٹھائے پھر رہا ہے۔
بہادر شاہ ظفر کے جاگیردار اپنے بچوں کو سیاسی تھیوری اور پریکٹیکل کرانے کے لیے کوٹھوں پر بھیجا کرتے تھے، آج کے سیاسی وڈیرے اپنے ولی عہدوں کو تھیوری اور پریکٹیکل کرانے کے لیے پریس کانفرنسوں، جلسوں کو استعمال کر رہے ہیں، پولیو اور خواتین کی انجمنیں بنا کر دے رہے ہیں کہ یہاں کام کرتے ہوئے انھیں بولنا آجائے، ان کی جھجھک ختم ہوجائے، انھیں غیرملکی مہمانوں کے اعزاز میں دی گئی تقاریب میں اپنے پیٹ کی تھیلیوں میں بٹھاکر لے جاتے ہیں کہ ان کا ڈر خوف ان کی جھجھک نکل جائے۔
دنیا کی ترقی یافتہ جمہوریت کے کسی کینگرو کے پیٹ پر کوئی تھیلی نظر نہیں آتی کیونکہ انھوں نے اپنی جمہوریت کو مرحلہ وار آگے بڑھنے کا ایک مکمل نظام تشکیل دیا ہے جو چھوٹے چھوٹے علاقوں کے عوام کی خدمت سے شروع ہوتا ہے اور بتدریج آگے بڑھتا ہے ان ملکوں کے سیاست دانوں کے پیٹوں پر نہ کوئی تھیلی لگی ہوتی ہے نہ ان ملکوں میں کوئی امراؤ جان ادا اور ان کے کوٹھے ہوتے ہیں، یہاں کاؤنٹیاں ہوتی ہیں،یہاں ٹاؤن ہوتے ہیں، یہاں ریاستیں ہوتی ہیں، اقتدار کی منزل تک پہنچنے کے لیے ان تمام مرحلوں سے گزرتے ہوئے عوام کی خدمت کے سرٹیفکیٹ لے کر اقتدار کے جھروکوں تک آنا پڑتا ہے، ان ملکوں کی سیاست میں نہ کوئی کینگرو ہوتا ہے نہ امراؤ جان ادا۔
یہاں صرف اور صرف عوامی خدمت، عوامی حمایت کے ذریعے سیاسی اور جمہوری منزلیں طے کرنی پڑتی ہیں، یہاں کسی ٹارزن کے لیے بھی کوئی جگہ نہیں ہوتی کیونکہ صدیوں کے تجربے نے انھیں سکھایا ہے کہ جمہوریت کا مطلب ''عوام کی حکومت عوام کے لیے عوام کے ذریعے'' ہے یہی وجہ ہے کہ ان ملکوں کی سیاست اور جمہوریت میں اپنی مدت پوری کرنے والے حکمران کھیتی باڑی کرتے، کاروبار کرتے یا گھریلو زندگی گزارتے نظر آتے ہیں، یہاں اٹھارویں ترمیم کی کینگرو سیاست کی بھی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔
انتخابات سر پر ہیں، بہادر شاہ ظفر کے وارث ان ڈھکوسلے انتخابات کے ذریعے ایک بار پھر پانچ سال کے لیے عوام کے سروں پر مسلط ہونے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ کوئی متبادل عوامی رہنما ان کے سامنے موجود نہیں۔ پھر ہماری سیاسی مڈل کلاس ٹی وی چینلوں پر بیٹھی ان دورجدید کے بہادر شاہ ظفروں کی کرپشن، بدعنوانیوں، نااہلیوں، نالائقیوں کو اپنی طبقاتی بددیانتیوں اور ڈرامہ بازیوں کے ساتھ چھپانے کی کوششوں میں دن رات لگی ہوئی ہے اور وڈیرہ شاہی جمہوریت کے نورتن ''پوری دیانت کے ساتھ'' عوام کو صبح جمہوریت کے طلوع ہونے کی نوید دے رہے ہیں۔
ان سیاسی مڈل کلاسوں، اکبری سیاست کے نورتنوں کو چینلوں کے وہ پروگرام دیکھنے کی زحمت کرنا چاہیے جن میں غریب بستیوں کے عوام ہماری سیاست، ہماری جمہوریت پر لعنت بھیجتے نظر آتے ہیں، ہوسکتا ہے ایک بار پھر یہ بہادر شاہ ظفر کے وارث اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں، لیکن انھیں اب جلد یا بدیر برما رنگون جانا ہوگا، اس بار کوئی انگریز انھیں رنگون و لندن نہیں بھیجے گا بلکہ اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام ان سیاسی کینگروؤں اور ان کے پیٹ کی تھیلیوں میں بیٹھے ولی عہدوں کو لندن اور رنگون مستقل طور پر بھیجیں گے۔