یہ دھرنے اور ہماری انتظامیہ
اہم ترین عہدے کے حامل بھی اپنی ذمے داریوں سے کنی کترا رہے ہیں
ملک میںانتظامی بحران کے بارے میں کئی سال پہلے سے پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں کہ پاکستان میں جہاندیدہ اور تجربہ کار انتظامی ماہرین کی کمی ہوتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے انتظامی بحران سر اٹھا رہا ہے جس کا تازہ ترین تجربہ ہماری قوم تازہ ترین دھرنے بلکہ دھرنوں کی صورت میں بھگت چکی ہے جو کہ چند دنوں کے دوران ملک کی انتظامی مشینری اور ہمارے حکمرانوں کی سیاسی بصیرت کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی بلکہ ضرورت سے زیادہ ہے۔
اس بحران نے حکومت کی انتظامی صلاحیت کا بھانڈا پھوڑ دیا، ملکی سطح پر عوام جس پریشانی سے دوچار رہے اس کا اندازہ مجھے ذاتی طور پرہوا کہ انھی دنوں میں میرے ایک عزیز کے ہاں لاہور میں شادی کی تقریب تھی جس میں لاہور کے علاوہ دوسرے شہروں سے بھی مہمان مدعو تھے لیکن ہوا یہ کہ لاہور کے رہائشی بھی اس تقریب میں شرکت سے رہ گئے، دوسرے شہروں سے آنے والے مہمان راستے سے ہی میزبان کی دعوت کا شکریہ ادا کر کے واپس چلے گئے چونکہ لاہور میں آمدورفت کے تمام راستے مسدود کردئے گئے تھے کسی دل جلے نے خوب تبصرہ کیاہے کہ اسلام آباد کی ایک شاہراہ کھلوانے والی حکومت اس کے لیے پورے ملک کی شاہراہوں کو ہی بند کرا بیٹھی۔دوسری طرف کسی عقلمند نے یہ مشورہ بھی داغ دیا کہ ابلاغ کے تمام ذرایع کو بند کر دیا جائے تاکہ عوام جو کہ پہلے ہی غیر متوقع صورتحال کی وجہ سے افواہوں اور غیر یقینی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔
ان تک معلومات کے تمام راستے مسدود کر دئے جائیں۔ اس غیردانشمندانہ فیصلے نے عوام کی بے چینی میں اضافہ کیا، میڈیا کی بندش کے دوران افواہوں کا بازار گرم رہا وہ تو بھلا ہو کسی ہوش مندکا جس نے حکومت کو میڈیا بندش ختم کرنے کا مشورہ یا حکم دیا تا کہ عوام کو تازہ ترین حالات سے آگاہی ہو اور وہ بے یقینی کی کیفیت سے نکل سکیں یوں چوبیس گھنٹوں کے بعد عوا م کو ملکی حالات کے بارے میں اطلاعات تک رسائی ممکن ہوئی۔ معلوم نہیں حکومت کے وہ کون سے مشیر ہیں جو اس طرح کے مشورے دیتے ہیں اور پھر ان مشوروں پر عملدرآمد بھی کرادیتے ہیں جو کہ حکومت کے لیے کسی فائدہ کے بجائے مزید پریشانی کا باعث ہی بنتے ہیں۔
انتظامی مشینری کسی بھی حکومت کو کامیاب یا ناکام کرنے میں اہم اور حتمی کردار ادا کرتی ہے لیکن یہ انتظامی مشینری حکومت کے ہی تابع ہوتی ہے اور اس کی ہدایات پر ہی عمل درآمد کی پابند بھی کہ سرکار کی جانب سے جو حکم ملے اس کو بجا لائے۔تین ہفتوں سے وفاقی دارالحکومت اور راولپنڈی کے درمیان دھرنے کی وجہ سے دونوں شہروں کے رہائشیوںکو آمدورفت میں دشواری کا سامنا رہا تھا، حکومتی نمایندوں نے اس حساس ترین معاملے کو ممکن حد تک خوش اسلوبی سے حل کرنے کی کوشش جاری رکھی جس کو بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک معزز جج صاحب کی جانب سے حکم آنے پر اس کی تعمیل کرانے کی کوشش بھی کی گئی تا کہ دھرنے کے شرکاء کو پُرامن طور پر منتشر کیا جاسکے لیکن توقع کے برخلاف ایسا ممکن نہ ہو سکا، اس صورت میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس حساس معاملے پر اعتماد میں لے کر مزید کارروائی کی جاتی لیکن ریاست کے 'عقلمندوں' نے اپنی انتظامی مشینری کو بغیر سوچے سمجھے اورکسی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے بغیر عجلت میں ایک ایسے آپریشن میں جھونک دیا ۔
جس کے نتائج کے بارے میں حکومت کو پہلے سے ہی خدشات تھے اور اس سلسلے میں مذاکراتی عمل جاری تھا لیکن پھرمعلوم نہیں کہ کیا ہوا کہ سب کچھ جانتے بوجھتے بھی ریاستی مشینری کا استعمال کیا گیا جو کہ ناکامی پر منتج ہوا۔ یہ ناکامی اپنے پیچھے کئی سوالات اور خدشات چھوڑ گئی۔ اس انتظامی آپریشن کے بارے میں پہلے تو حکومت کے دو سینئر وزیروں کی جانب سے یہ کہا گیا کہ حکومت یہ آپریشن عدلیہ کی ہدایات اور احکامات پر کر رہی ہے اور عدلیہ کے احکامات پر عمل کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔
ان وزراء کی اس منطق پر یہ سوال بھی اُٹھایا گیا کہ نواز شریف نااہلی پر عدالت عالیہ کے فیصلے کے متعلق تو مسلسل یہ کہا جا رہا ہے کہ اس ملک کی تقدیر کا فیصلہ چند افراد نہیں کر سکتے عوام کی عدالت ہی اس کا فیصلہ کرے گی اور اب ایک معزز جج کی جانب سے ایک فیصلے پر اتنی فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، جلتی پر تیل اس وقت ڈال دیا گیا جب ہمارے وزیر داخلہ نے یہ فرمایا کہ اس آپریشن سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی یہ آپریشن ان کی ہدایات پر شروع کیا گیا ہے۔ ملک کے وزیر داخلہ کی جانب سے انتہائی غیر ذمے دارانہ بیان حالات کی سنگینی کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اہم ترین عہدے کے حامل بھی اپنی ذمے داریوں سے کنی کترا رہے ہیں اور کسی بھی قسم کی ذمے داری کا بوجھ اپنے سر لینے پر تیار نہیں، ان کا یہ عمل اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے جس کا عملی مظاہرہ پاکستانی عوام بھی دیکھ چکے ہیں۔
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
پاکستانی فوج جو کہ ہر پاکستانی کے دل کی ترجمانی کرتی ہے اور ملک کا واحد ادارہ ہے جس پر یہ قوم متفق بھی ہے اور ہر مشکل صورتحال میں اس کی طرف دیکھتی بھی ہے، فوج نے ہمیشہ ہر مشکل میں کامیابی سے اس قوم کو نکالا ہے اس مرتبہ بھی جب ہماری سیاسی حکومت انتظامی ناکامی سے دوچار ہو گئی تو اپنا روئے سخن فوج کی جانب کر لیا اور فوج کو ایک بار پھر مدد کے لیے پکار لیا، اسی فوج کو جس کے بارے میں ہمارے سیاستدان ہر وقت اس بات کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں کہ غیر جمہوری قوتوں کو ملک کی باگ ڈور سے دور اور اپنے آئینی دائرہ اختیار سے تجاوز نہیں کرناچاہیے لیکن جب بھی مشکل آن پڑتی ہے تو پھر اسی فوج کے دربار میں حاضر ہو جاتے ہیں۔ پچھلے چند برسوں میں ملک میں جتنے بھی بحران آئے ان کے بارے میں بلواسطہ طور پر فوج پر تنقید کی جاتی رہی مگر ان تمام بحرانوں سے سیاستدانوں کو عہدہ برآء بھی فوج نے ہی کیا ۔
ہمارے سیاستدان ہر متنارعہ معاملے میں فوج کو گھسیٹ کر اسے بھی متنارعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں مگر شاید وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک فوج ہی تو ہے جس پر اس ملک کے عوام کا اعتماد بحال ہے۔ عوامی نقطہ نگاہ سے دھرنے سے نپٹنے میں حکومتی ناکامی مکمل طورپر کھل کر سامنے آگئی اور اس دھرنے نے حکومت کی رہی سہی عزت بھی لوٹ لی ۔
اس بحران نے حکومت کی انتظامی صلاحیت کا بھانڈا پھوڑ دیا، ملکی سطح پر عوام جس پریشانی سے دوچار رہے اس کا اندازہ مجھے ذاتی طور پرہوا کہ انھی دنوں میں میرے ایک عزیز کے ہاں لاہور میں شادی کی تقریب تھی جس میں لاہور کے علاوہ دوسرے شہروں سے بھی مہمان مدعو تھے لیکن ہوا یہ کہ لاہور کے رہائشی بھی اس تقریب میں شرکت سے رہ گئے، دوسرے شہروں سے آنے والے مہمان راستے سے ہی میزبان کی دعوت کا شکریہ ادا کر کے واپس چلے گئے چونکہ لاہور میں آمدورفت کے تمام راستے مسدود کردئے گئے تھے کسی دل جلے نے خوب تبصرہ کیاہے کہ اسلام آباد کی ایک شاہراہ کھلوانے والی حکومت اس کے لیے پورے ملک کی شاہراہوں کو ہی بند کرا بیٹھی۔دوسری طرف کسی عقلمند نے یہ مشورہ بھی داغ دیا کہ ابلاغ کے تمام ذرایع کو بند کر دیا جائے تاکہ عوام جو کہ پہلے ہی غیر متوقع صورتحال کی وجہ سے افواہوں اور غیر یقینی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔
ان تک معلومات کے تمام راستے مسدود کر دئے جائیں۔ اس غیردانشمندانہ فیصلے نے عوام کی بے چینی میں اضافہ کیا، میڈیا کی بندش کے دوران افواہوں کا بازار گرم رہا وہ تو بھلا ہو کسی ہوش مندکا جس نے حکومت کو میڈیا بندش ختم کرنے کا مشورہ یا حکم دیا تا کہ عوام کو تازہ ترین حالات سے آگاہی ہو اور وہ بے یقینی کی کیفیت سے نکل سکیں یوں چوبیس گھنٹوں کے بعد عوا م کو ملکی حالات کے بارے میں اطلاعات تک رسائی ممکن ہوئی۔ معلوم نہیں حکومت کے وہ کون سے مشیر ہیں جو اس طرح کے مشورے دیتے ہیں اور پھر ان مشوروں پر عملدرآمد بھی کرادیتے ہیں جو کہ حکومت کے لیے کسی فائدہ کے بجائے مزید پریشانی کا باعث ہی بنتے ہیں۔
انتظامی مشینری کسی بھی حکومت کو کامیاب یا ناکام کرنے میں اہم اور حتمی کردار ادا کرتی ہے لیکن یہ انتظامی مشینری حکومت کے ہی تابع ہوتی ہے اور اس کی ہدایات پر ہی عمل درآمد کی پابند بھی کہ سرکار کی جانب سے جو حکم ملے اس کو بجا لائے۔تین ہفتوں سے وفاقی دارالحکومت اور راولپنڈی کے درمیان دھرنے کی وجہ سے دونوں شہروں کے رہائشیوںکو آمدورفت میں دشواری کا سامنا رہا تھا، حکومتی نمایندوں نے اس حساس ترین معاملے کو ممکن حد تک خوش اسلوبی سے حل کرنے کی کوشش جاری رکھی جس کو بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک معزز جج صاحب کی جانب سے حکم آنے پر اس کی تعمیل کرانے کی کوشش بھی کی گئی تا کہ دھرنے کے شرکاء کو پُرامن طور پر منتشر کیا جاسکے لیکن توقع کے برخلاف ایسا ممکن نہ ہو سکا، اس صورت میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس حساس معاملے پر اعتماد میں لے کر مزید کارروائی کی جاتی لیکن ریاست کے 'عقلمندوں' نے اپنی انتظامی مشینری کو بغیر سوچے سمجھے اورکسی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے بغیر عجلت میں ایک ایسے آپریشن میں جھونک دیا ۔
جس کے نتائج کے بارے میں حکومت کو پہلے سے ہی خدشات تھے اور اس سلسلے میں مذاکراتی عمل جاری تھا لیکن پھرمعلوم نہیں کہ کیا ہوا کہ سب کچھ جانتے بوجھتے بھی ریاستی مشینری کا استعمال کیا گیا جو کہ ناکامی پر منتج ہوا۔ یہ ناکامی اپنے پیچھے کئی سوالات اور خدشات چھوڑ گئی۔ اس انتظامی آپریشن کے بارے میں پہلے تو حکومت کے دو سینئر وزیروں کی جانب سے یہ کہا گیا کہ حکومت یہ آپریشن عدلیہ کی ہدایات اور احکامات پر کر رہی ہے اور عدلیہ کے احکامات پر عمل کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔
ان وزراء کی اس منطق پر یہ سوال بھی اُٹھایا گیا کہ نواز شریف نااہلی پر عدالت عالیہ کے فیصلے کے متعلق تو مسلسل یہ کہا جا رہا ہے کہ اس ملک کی تقدیر کا فیصلہ چند افراد نہیں کر سکتے عوام کی عدالت ہی اس کا فیصلہ کرے گی اور اب ایک معزز جج کی جانب سے ایک فیصلے پر اتنی فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، جلتی پر تیل اس وقت ڈال دیا گیا جب ہمارے وزیر داخلہ نے یہ فرمایا کہ اس آپریشن سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی یہ آپریشن ان کی ہدایات پر شروع کیا گیا ہے۔ ملک کے وزیر داخلہ کی جانب سے انتہائی غیر ذمے دارانہ بیان حالات کی سنگینی کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اہم ترین عہدے کے حامل بھی اپنی ذمے داریوں سے کنی کترا رہے ہیں اور کسی بھی قسم کی ذمے داری کا بوجھ اپنے سر لینے پر تیار نہیں، ان کا یہ عمل اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے جس کا عملی مظاہرہ پاکستانی عوام بھی دیکھ چکے ہیں۔
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
پاکستانی فوج جو کہ ہر پاکستانی کے دل کی ترجمانی کرتی ہے اور ملک کا واحد ادارہ ہے جس پر یہ قوم متفق بھی ہے اور ہر مشکل صورتحال میں اس کی طرف دیکھتی بھی ہے، فوج نے ہمیشہ ہر مشکل میں کامیابی سے اس قوم کو نکالا ہے اس مرتبہ بھی جب ہماری سیاسی حکومت انتظامی ناکامی سے دوچار ہو گئی تو اپنا روئے سخن فوج کی جانب کر لیا اور فوج کو ایک بار پھر مدد کے لیے پکار لیا، اسی فوج کو جس کے بارے میں ہمارے سیاستدان ہر وقت اس بات کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں کہ غیر جمہوری قوتوں کو ملک کی باگ ڈور سے دور اور اپنے آئینی دائرہ اختیار سے تجاوز نہیں کرناچاہیے لیکن جب بھی مشکل آن پڑتی ہے تو پھر اسی فوج کے دربار میں حاضر ہو جاتے ہیں۔ پچھلے چند برسوں میں ملک میں جتنے بھی بحران آئے ان کے بارے میں بلواسطہ طور پر فوج پر تنقید کی جاتی رہی مگر ان تمام بحرانوں سے سیاستدانوں کو عہدہ برآء بھی فوج نے ہی کیا ۔
ہمارے سیاستدان ہر متنارعہ معاملے میں فوج کو گھسیٹ کر اسے بھی متنارعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں مگر شاید وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک فوج ہی تو ہے جس پر اس ملک کے عوام کا اعتماد بحال ہے۔ عوامی نقطہ نگاہ سے دھرنے سے نپٹنے میں حکومتی ناکامی مکمل طورپر کھل کر سامنے آگئی اور اس دھرنے نے حکومت کی رہی سہی عزت بھی لوٹ لی ۔